ایک دفعہ ہم اپنی امی جان کے ساتھ بہاولپور کےچڑیا گھر گئے۔ ہرے بھرے درختوں میںگھرا یہ نہایت ہی خوبصورت چڑیا گھر ہے۔ تقریبا ًدو گھنٹے تک اِدھر اُدھر گھومنے کے بعد ہمیں شدید پیاس ستانے لگی۔
ایک کینٹین کے پاس رک کر ہم نے پانی لیا اور قریب رکھے بنچ پر بیٹھ کر باری باری پینے لگے۔وہ شدید گرمی کے دن تھے۔
میں بنچ پر بیٹھا پانی پی رہا تھا کہ اچانک مجھے پائوں میں گدگدی سی محسوس ہوئی۔ میں نے ہڑبڑا کر نیچے دیکھا تو حیران رہ گیا۔ اتنی دیر میں امی جان ،خدیجہ باجی اور میری کزن نائلہ کی چیخ بھی گونجی۔ اُن سب کا اشارہ میرے پائوں کی طرف تھا۔
میں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے پائوں کے نزدیک ایک گلہری اپنے اگلے دونوں بازو اوپر کیے مجھ سے التجا کررہی ہے۔ مجھے کچھ سمجھ نہ آیا۔ بھلا ایک گلہری میرے اتنا قریب کیسے آسکتی ہے ؟میں نے جیسے ہی ہاتھ میں پکڑی بوتل بنچ پر رکھی ، گلہری امید بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگی ۔
ہم سب سمجھ گئے کہ اسے پیاس لگی ہے۔ میں نے جلدی سے بوتل ہاتھ میں لی اور جھک کر زمین پر تھوڑا تھوڑا پانی گرانے لگا۔ یہ دیکھ کر گلہری پانی کی طرف لپکی اور جلدی جلدی پینے لگی۔بے چاری نہ جانے کتنی دیر سےپیاسی تھی جو اس طرح ہمارے بالکل قریب آکر پانی مانگنے لگی تھی۔
امی جان کے علاوہ ہم سب حیران تھے۔ امی جان نے بتایا کہ بیٹا گلہری انسان دوست جانور ہےاور اگر ویسے بھی کسی جانور کو محبت دی جائے تواسے اپنا بنایا جاسکتاہے۔
پھر امی جان نے پانی کے متعلق بات کرتے ہوئے بتایا کہ بچو ! پانی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔انسان بغیر کچھ کھائے کئی دن گزار سکتاہے مگر پانی کے بغیر چند گھنٹے گزار نا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی چیز دیگر جانداروں میں بھی ہے۔
نائلہ باجی کہنے لگیں ،’’اسی لیے گرمیاں آتےہی میں اپنے گھر کی چھت پر ایک برتن میں پانی لازمی رکھتی ہوں تاکہ چڑیاں اور پرندے یا گلہریاں وغیرہ اس سے اپنی پیاس بجھا لیں ۔‘‘
ّّامی جان نے نائلہ کو شاباش دی اور کہنے لگیں کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ پانی کی اہمیت کا اندازہ تم لو گ اس بات سے لگائو کہ مستقبل میں کئی ملکوں میں پانی کی وجہ سے جھگڑے ہوں گے۔
میں نے دریافت کیا کہ امی جان ! کیا دنیا میں پانی کم پڑجائے گا؟ اس پر امی جان نے کہا ،ہاں بیٹا! زیر زمین موجود پانی دن بہ دن کم ہوتا جا رہاہے۔ موسمیاتی ردو بدل بھی اس پر اثر انداز ہورہاہے۔اس لیے ہم سب پر لازم ہےکہ پانی استعما ل کرتے وقت احتیاط سے کام لیں ۔
خدیجہ نے سوال کیا، ’’امی جان! جب پہاڑوں پر اتنی برف باری ہوتی ہے،سمندر اور دریا پانی سے بھرے ہوئے ہیں، زمین کے نیچے پانی ہی پانی ہے،توپھر ہماری ذرا سی احتیاط بھلا کتنا پانی بچا لے گی ؟‘‘
امی جان مسکرا دیں اور بولیں کہ بیٹی !قطرہ قطرہ مل کر ہی دریا بنتا ہے۔ سمندر کا پانی کھارا ہوتا ہے جو استعما ل کے قابل نہیںہوتا۔ اس کے علاوہ رفتہ رفتہ گرمی کے دورانیے میںاضافہ ہورہا ہے اور سردیاں سکڑتی جارہی ہیں۔اس لیے پہاڑوں پر برف باری پہلے سے کم ہوتی ہے۔ اسی برف کے پگھلنے سے تو ہمیں پانی ملتاہے ۔ گلیشئرز جب پگھلتے ہیں تو کئی ندیاں اور آبشاریں مل کر اپنا رستہ بناتی ہیں ،پھر ایک شکل اختیا ر کرکے دریا بن جاتاہے ، جو مختلف علاقوں سے گزرتا ہے۔اسی دریا سے ہم ندی نالے اور نہریں نکالتے ہیں ،ہماری زمینیں اسی کےپانی سے سیراب ہوتی ہیں ۔پانی کی کمی کی وجہ سے لوگو ںنے ٹیوب ویل لگالیے ہیں ۔جن کی وجہ سے زمین کا پانی بہت نیچے چلا گیا ہے۔
نائلہ نے کہا ،’’آنٹی میں نے سنا ہے کہ کراچی میں بھی ٹیوب ویل لگا کر پانی حاصل کیا جاتا ہے ؟ ‘‘
اس پر میں اور خدیجہ حیران ہوئے تو امی جان نے بتایا ،’’ہاں بچو!کراچی میں انہی ٹیوب ویلز سے پانی حاصل کرکے ٹینکروں میں بھرا جاتا ہے اور پھر مہنگے داموں بیچا جاتا ہے۔ تم لوگوں کو شاید اسی لیے پانی کی قدر معلوم نہیں ہے۔‘‘
خدیجہ نے فوراً کہا ،’’اوہ !یہ تو بہت پریشانی والی بات ہے‘‘ ...سچ پوچھیں تو مجھے بھی یہ سن کر افسوس ہوا تھا۔ اس لیے میں نے امی سے پوچھا کہ پانی کی حفاظت اور ماحول کی بہتری کےلیے ہم کیا کرسکتےہیں ۔امی جان نے بتایا کہ تم لوگ اگر گلہری بن کر سوچو تو ایک گلہری کا یہی خواب ہوگا کہ اس کو زندہ رہنے کے لیے درختوں کا مسکن اور پانی کی ضرورت ہے۔گلہری کا یہی خواب اگر تم لوگ پورا کرنا شروع کردو ،تو نہ صرف گلہری کابلکہ ہمارا اپنا اور دیگر جانداروں کا بھی بھلا ہوگا۔
چنانچہ اس دن کے بعد ہم نے تہیہ کرلیا کہ ہم ضرور پانی کی بچت کریں گے اورہر سال موسم برسات کے دوران کچھ پودے لگایا کریں گے۔ ہم آج تک پودےلگانے کا یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اللہ کا شکر ہے کہ ہم گلہری کا خواب کسی حد تک پورا کرنے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔آپ بھی کوشش کیجیے۔
تبصرے