نعمان سکول سے گھر واپس آیا تو صحن میں موجود اپنے گملوں کی حالت دیکھ کر بھونچکا سا رہ گیا۔اس کے پودوں کو کسی نے بری طرح نوچ ڈالا تھا۔پتے، چھوٹی شاخیں اور مسلے ہوئے پھول گملوں میں اور نیچے زمین پر پھیلے ہوئے تھے۔
نعمان کے چہرے پرپریشانی کے زرد رنگ بکھر گئے۔ وہ تیزی سے ٹی وی لاؤنج میں داخل ہوا اور بیگ کو صوفے پر اچھال کر سیدھا باورچی خانے کی طرف بھاگا۔ اس کی امی دوپہر کا کھانا بنانے میں مصروف تھیں۔ گھر کی خاموشی بتا رہی تھی کہ ابھی تک بسمہ اور ریحان اپنے سکول سے نہیں لوٹے۔آہٹ سن کر امی جان پلٹیں اور اسے دیکھ کر مسکرا دیں۔’’آگیا میرا بیٹا!یونیفارم تبدیل کرکے آجائو، کھانا تیار ہے۔ ابھی میز پر لگاتی ہوں، ریحان اور بسمہ بھی بس آتے ہی ہوں گے۔‘‘
’’امی جان! آج گھر میں کون آیا تھا؟‘‘
اس کی سنجیدہ شکل دیکھ کر امی جان پریشان ہوگئیں۔’’خیر تو ہے بیٹا!اتنے پریشان کیوں ہو۔ گھر میں تو صبح سے کوئی نہیں آیا۔آخر ہوا کیا ہے؟‘‘جواب کے ساتھ امی جان نے سوال بھی کر دیا۔
’’آپ ذرا باہر آئیں!‘‘نعمان نے کہا اور پلٹ گیا۔
امی جان نے چولہا بند کیا اور باورچی خانے سے نکل کر نعمان کی تقلید میں باہر آگئیں۔
صحن میں موجود پودوں کا حشر نشر دیکھ کر وہ بھی حیران رہ گئیں۔
’’اسی لیے پوچھا تھا کہ گھر میں کوئی آیا تو نہیں تھا؟‘‘نعمان نے گملوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اس کی آنکھوں میں نمی چمک رہی تھی۔
امی جان جانتی تھیں کہ نعمان کو اپنے پودے کس قدر عزیز ہیں۔ وہ پودوں کی خوب دیکھ بھال کرتا تھا۔ بلاوجہ کسی کو بھی پھول،پتے توڑنے یا پودوں کو چھیڑنے سے منع کرتا تھا۔آج اس کے پودے بے کسی و بے چارگی کی تصویر بنے اجڑ چکے تھے اور امی جان اس سے ابھی تک انجان رہی تھیں۔
’’پتا نہیں کس نے اتنی بے دردی دکھائی؟میں گھنٹا پہلے ہی باورچی خانے میں گئی تھی، اس وقت پودے بالکل ٹھیک حالت میں تھے۔ جو کوئی بھی تھا وہ شاید پودوں پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ میرے اندر جاتے ہی اس نے اپنا کام کر دیا۔‘‘امی جان نے ساری صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا۔ انھیں بھی دکھ ہوا تھا۔
نعمان کے چہرے پر اداسی دیکھ کر امی جان نے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا اور پیار سے کہا۔ ’’رو مت بیٹا!صبر کرو۔ ہم نئے پودے لے آئیں گے اور اسے بھی پکڑ لیں گے جس نے میرے بیٹے کے پودے اجاڑے۔‘‘
امی کا دلاسہ سن کر نعمان نے آنکھیں صاف کیں اور گملوں کی صفائی کرنے لگا۔ٹوٹی شاخوں،پتوں اور پھولوں کو اس نے اٹھا کر ڈسٹ بن میں ڈال دیا۔ پتے اور پھول ہٹ جانے کے بعد گملوں میں چند لکڑیاں بچی رہ گئی تھیں۔
بسمہ اور ریحان گھر آئے تو وہ بھی سامنے کا منظر دیکھ کر حیران ہوئے تھے۔تینوں بہن بھائیوں نے تہیہ کر لیا کہ اس مجرم کو ضرور پکڑنا ہے جس نے اپنی غلط حرکت سے ان کے دل اداس کیے تھے۔
نعمان کا ذہن بار بار ایک ہی شخص کی جانب جا رہا تھا جو یہ کام کرسکتا تھا لیکن بدگمانی کے بجائے وہ پہلے تصدیق کرنا چاہتا تھا۔ وہ جانتا تھا غلط گمان رکھنا گناہ ہے۔
......
شام کے سائے ڈھل گئے تو نعمان اپنے پڑوسی عبید کے گھر گیا۔ عبید اپنے باغیچے میں پودوں اور درختوں کو پانی دے رہا تھا۔ باغیچے میں گھاس بالکل سبز قالین کی طرح بچھی ہوئی تھی ۔ پانی کے قطرے گھاس پر موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔
نعمان کو اپنے گھر دیکھ کر عبید کے چہرے پر ہلکی سی پریشانی ابھری جو فورا ًہی غائب ہوگئی۔سلام دعا کے بعد نعمان نے اپنے پودوں کا ذکر چھیڑ دیا۔
’’مجھے بہت افسوس ہوا دوست!پتا نہیں کس ظالم نے یہ حرکت کی ہے۔ اب مجھے بھی اپنے باغیچے کی حفاظت کرنی پڑے گی۔ ہو سکتا ہے وہ انجان شخص اگلی بار میرے پودوں کو اپنا شکار بنائے ۔‘‘عبید نے پانی کی موٹر بند کرتے ہوئے کہا۔ وہ لان میں پانی لگا چکا تھا۔
’’ہوں! ایسا ہی کرنا۔ اچھا میں اب چلتا ہوں!‘‘نعمان سر ہلا کر واپس چل پڑا۔
عبید پائپ اکٹھا کرتے ہوئے نعمان کو گھورتا رہا، یہاں تک کہ وہ گیٹ سے نکل کر اس کی نگاہوں سے غائب ہوگیا۔ اسی پل عبید کے ہونٹوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ نے جگہ لے لی ۔ اس کی آنکھوں کی چمک کوئی اور کہانی سنا رہی تھی۔
.....
نعمان عبید کے گھر سے نکلا تو سامنے کا منظر دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔
نزدیکی کچی آبادی کا ایک لڑکا اپنی دو بکریوں کے ساتھ کھڑا انھیں مسز زیدی کے درختوں کی شاخیں نوچ نوچ کر کھلا رہا تھا۔مسز زیدی کے گھر کی بیرونی دیواریں چھوٹی چھوٹی تھیں۔ان کے لان میں لگے درختوں کی شاخیں دیوار کے پار بآسانی آ رہی تھیں۔
کئی روز قبل مسز زیدی ان کے گھر آئیں تو انھوں نے شکایت کی تھی کہ کوئی ان کے درختوں کی نوخیز شاخیں توڑ کر لے گیا ہے اور اندر لان میں بھی پودے اپنی ٹہنیوں سے محروم ہوگئے ہیں۔
’’اوہ! اب سمجھا!‘‘نعمان بڑبڑایا اور تیزی سے اس لڑکے کی جانب لپکا۔
’’یہ کیا کر رہے ہو۔ تمھیں شرم نہیں آتی ؟‘‘نعمان نے اس بارہ سالہ لڑکے کو کڑے تیوروں سے گھورا۔
دبلا پتلا لڑکا سنسان گلی میں اسے دیکھ کر بوکھلا کر رہ گیا۔ اس نے جلدی سے اپنے ہاتھ شاخوں سے ہٹائے اور بکریاں لے کر آگے جانے لگا۔
’’ٹھہرو!میری بات سن کر جائو!‘‘نعمان پیچھے سے بولا۔ لڑکے نے ڈرتے ڈرتے مڑ کر اسے دیکھا۔
’’تم لوگوں کا نقصان کیوں کرتے ہو؟بکریوں کو چرانے کے لیے دور کھیتوں اور گھاس کے میدانوں میں لے جانا چاہیے۔یہ سڑکوں اور گھروں میں لگے پودوں کو اجاڑ دیتی ہیں۔ ‘‘نعمان نے اسے سمجھایا۔ اسے اپنے پودوں کا حشر یاد آگیا۔
’’معاف کر دیں! میں اب ان کا خیال رکھوں گا اور دور گھاس کے میدان میں انہیں چرانے لے جائوں گا۔‘‘لڑکا بھی شرمندہ لگ رہا تھا۔
’’دیکھو دوست !ہمیں اس وقت درختوں کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ ہمارے ملک میں ماحولیاتی آلودگی بہت بڑھ چکی ہے جس پر قابو پانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔درخت ہر قسم کی آلودگی کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہاں پہلے ہی لوگ درختوں کی اہمیت و افادیت سے شاید اتنے واقف نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ درختوں کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ چوری چھپے جنگلات کاٹ رہے ہیں۔ میں نے اپنے گھر میں بہت سے پودے لگائے تھے لیکن شایدتمھاری بکریوں نے انھیں ختم کر دیا۔‘‘نعمان بولتا ہی چلا گیا۔ اس کے اندر کا سارا غبار نکل گیا تھا۔
لڑکا نعمان کا آخری جملہ سن کر چونکا اور اپنی بکریاں چھوڑ کر اس کے قریب آ کھڑا ہو ۔ لڑکے کے چہرے پر عجیب سے تاثرات رقم تھے۔ وہ نعمان کو کچھ بتانے کے لیے بے تاب سا لگ رہا تھا۔
.....
کالونی کے چھوٹے سے پارک میں شام کے وقت خوب گہما گہمی تھی۔ مالی بابا کیاریوں میں پانی لگا رہے تھے۔ پودے اور ان پر لگے قسم قسم کے رنگا رنگ پھول پانی کا غسل کرکے ہوا کے سنگ رقص کناں تھے۔ سر سبز پتوں پر پانی کے قطرے ٹھہر گئے تھے جو شبنم کی طرح خوبصورت تھے۔ جھولوں پر چھوٹے بچوں کا ہجوم تھا۔ واک ٹریک پر جوان اور بوڑھے چہل قدمی کر رہے تھے۔ کچھ لوگ بینچوں پر بیٹھے دلفریب موسم سے لطف اٹھا رہے تھے۔ گھاس کے تختوں پر کچھ لڑکے شام کی ورزش کر رہے تھے۔ عبید ایک بینچ پر بیٹھا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔اس کی نظریں بار بار پارک کے گیٹ تک جاتیں پھر مایوس لوٹ آتیں۔ وہ کسی کا انتظار کر رہا تھا۔ چند منٹ بعد اس نے اپنی گھڑی پر نظر ڈالی پھر متجسس نگاہوں سے داخلی گیٹ کودیکھا۔اب اس کے چہرے پر انتظار والی کیفیت ختم ہوگئی۔سامنے ہی نعمان اور ریحان چلتے ہوئے اس کے قریب آ رہے تھے۔ عبید ان دونوں کی ہی کی راہ تک رہا تھا۔ کل شام نعمان نے اسے میسج کیا تھا کہ کل اسے ایک ضروری بات کرنی ہے لہٰذا کل شام پانچ بجے پارک میں ملے!
اور اب دونوں بھائی اس سے ملنے آ پہنچے تھے۔ علیک سلیک کے بعد وہ بھی اسی بینچ پر بیٹھ گئے۔ عبید منتظر نظروں سے نعمان کو دیکھنے لگا۔
’’میںتمھیں کسی سے ملوانا چاہتا ہوں۔اسی لیے تمھیں پارک میں بلایا تھا۔‘‘نعمان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اوہ!کون ہے وہ؟ ‘‘عبید چونکا۔ اسے عجیب سا احساس ہوا۔ ریڑھ کی ہڈی میں سرد سی لہر دوڑ گئی۔
’’وہ رہا،ادھر!‘‘نعمان نے دور سے آتے حامد کی جانب اشارہ کیا۔ حامد وہی بکریاں چرانے والا لڑکا تھا۔ اس پر نظر ڈالتے ہی عبید کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔ اس نے تھوک نگلا پھر پریشان نگاہوں سے نعمان اور ریحان کو دیکھا۔
’’مجھے معاف کر دو پلیز! اس دن میں نے ہی حامد کو بکریاں چرانے کے لیے کہہ دیا تھالیکن بعد میں مجھے بہت پچھتاوا ہوا۔‘‘عبید رونی آواز میں بولا۔
’’کوئی بات نہیں دوست! تمہیں غلطی کا احساس ہوگیا اور حامد کو بھی... بس یہی کافی ہے۔ ‘‘
’’میں تمہاری کیاریوں اور پودوں کی دیکھ بھال میں تمہاری مدد کروں گا۔ ‘‘ عبید نے آنکھیں جھکاتے ہوئے کہا تو نعمان نے اسے گلے سے لگا لیا۔
’’بہت شکریہ دوست! ہم سب مل کر اپنے ملک میں خوب پودے لگائیں گے اور اسے سرسبزوشاداب بنا دیں گے۔‘‘
تبصرے