بڑے بھائی جب گھر میں داخل ہوئے تو سب بچوں کے چہرے خوشی سے کھل اُٹھے۔ وہ پورے ایک سال بعد گھر واپس آئے تھے۔ امی اور دادا دادی بھی انہیں اچانک اپنے سامنے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔بچے خوشی سے نہال تھے۔ ان کی نظریں بڑے بھائی کے بیگ پر تھیںوہ بے صبری سے دیکھ رہے تھے کہ اس بار وہ ان کے لیے کیا تحفے لائے ہیں۔
بڑے بھائی دبئی میں ایک بڑی کمپنی میں کام کرتے تھے اور ہر سال چھٹیوں پر گھر آتے تھے۔ ان کے بیگ میں بچوں کے لیے کھلونے اور تحفے ہوتے تھے۔
’’ارے واہ اسد، تم نے تو سرپرائز دے دیا! بتایا بھی نہیں کہ آ رہے ہو۔یہاں بیٹھو، میں چائے بناتی ہوں۔‘‘ امی نے خوشی سے کہا اور کچن کی طرف چلی گئیں۔
بڑے بھائی نے بچوں کو پیار کیا اور سرگوشی میں کہا،’’یہ تو کچھ بھی نہیں، اصل سرپرائز تو رات کے کھانے کے بعد ہے۔‘‘ یہ سن کر بچے بےحد خوش ہو ئے اور بے چینی سے رات کا انتظار کرنے لگے۔
شام کو ابو بھی دفتر سے واپس آ گئے، اور دادا جان اور دادی جان بھی ساتھ بیٹھ گئے۔ کھانے کے بعد بڑے بھائی نے اپنا بیگ کھولا اوردو پیکٹ نکال کر بولے،’’یہ ہانیہ کے لیے اور دوسراعاشر کے لیے۔‘‘
ہانیہ کے ڈبے میں ٹیب تھا اورجب عاشر نے اپنا پیکٹ کھولا تو اس میں ایک گول مٹول آنکھوں والا چھوٹا سا روبوٹ بیٹھاتھا ۔وہ روبوٹ باتیں بھی کرتا تھا۔
بچے اتنے زبردست تحفے ملنے پر بہت خوش تھے۔ عاشر روبوٹ کے مختلف حصوں کو الگ الگ کررہا تھا کہ اس کی نظر اچانک ایک چھوٹی سی کتاب پر پڑی۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ اس نے کتاب کو ہاتھ میں لیتے ہوئے بھائی جان سے سوال کیا۔
’’بھئی!اسے کھول کر خود ہی پڑھ لو ...میرے خیال میں روبوٹ استعمال کرنے کا کتابچہ ہے۔ ‘‘ بھائی جان بولے۔
’’کتابچہ؟‘‘ عاشر حیرانی سے بولا۔
’’ہاں بھئی کتابچہ،یہ چیزوں کو استعمال کرنے کی ہدایات ہوتی ہیں۔ تم انہیں پڑھ کر اس روبوٹ کو استعمال کرسکتے ہو۔‘‘
عاشر نے کتابچے کو کھولا تو اس پر لکھا تھا... ڈیجیٹل لٹریسی۔‘‘
’’ان چیزوں کا استعمال کرتے ہوئے ڈیجیٹل لٹریسی بہت ضروری ہے۔ تمہیں یہ کتابچہ ضرور پڑھنا چاہیے تاکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے تمہیں اچھے اور برے میں فر ق معلوم ہوجائے۔‘‘
ابو جان نے بھی بھائی کی تائید کی اور عاشر اور ہانیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،’’ٹیبلٹ، کمپیوٹر، روبوٹ، یہ سب وقت کی ضرورت ہیں، لیکن انہیں احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے، خاص طور پر سوشل میڈیا کے بارے میں۔ سوشل میڈیا پر بہت سی غلط معلومات بھی ہوتی ہیں اور ہمیں یہ سیکھنا چاہیے کہ سچ اور جھوٹ میں کیسے فرق کریں۔‘‘
عاشر نے پوچھا،’’میڈیا لٹریسی کیا ہے؟‘‘
ابو جان نے کتابچہ اپنے ہاتھ میں لیا اور اس کی ورق گردانی کرتے ہوئے بولے، ’’ بیٹا!میڈیا لٹریسی کا مطلب ہے کہ ہمیں یہ سمجھ آ جائے کہ میڈیا کیا دکھا رہا ہے اور اس کے پیچھے کیا حقیقت ہے۔ اس سے ہم سچ اور جھوٹ میں فرق کر سکتے ہیں۔ میڈیا اور انفارمیشن لٹریسی ہمیں سکھاتی ہے کہ ٹیکنالوجی اور میڈیا کا صحیح استعمال کیسے کریں تاکہ ہم زندگی میں مثبت سرگرمیوں کے ساتھ آگے بڑھ سکیں۔‘‘
بڑے بھائی نے ابو جان کی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا،’’میڈیا لٹریسی آج کے دور کا سب سے اہم ہنر ہے۔ آج کل سوشل میڈیا پر غلط معلومات بہت زیادہ پھیل رہی ہیں اور ہمیں احتیاط سے کام لینا ہوگا کہ ہم کسی ایسی چیز کو پھیلانے کا باعث تو نہیں بن رہے جو اسلامی تعلیمات اور قومی اقدار کے منافی ہوں۔‘‘
دیکھو بچو! جب ہم انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں تو ہمارا سامنا بہت ساری خبروں، ویڈیوز اور تصویروں سے ہوتا ہے۔ان میں سے بہت سی سچی نہیں ہوتیں۔ان میں غلط اور جھوٹی باتیں اس طرح پیش کی جاتی ہیں کہ وہ سچ لگتی ہیں۔بہت سارے نوجوان بغیر سوچے سمجھے ان باتوں پر یقین کرنے لگتے ہیں۔ ان کے دل میں غلط فہمیاں جنم لینے لگتی ہیں اور ہوسکتا ہے کہ وہ منفی سوچ کی بدولت دوسرے لوگوں سے نفرت کی آگ پالنا شروع کردیں۔ ‘‘ بچے بڑے غور سے بڑے بھائی کی باتیں سن رہے تھے۔
’’ بالکل بیٹا !ہمیں اس بارے میں خود بھی عمل کرنا چاہیے اور دوسروں کو بھی آگاہ کرنا چاہیے۔‘‘ ابو جان نے کہا۔
بھائی جان! اپنے موبائل پر ایک ویب سائٹ کھولے مزید معلومات بتا رہے تھے، ’’ ہر سال4 اکتوبر کو دنیا بھر میں میڈیا اینڈ انفارمیشن لٹریسی ڈے منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو میڈیا کے صحیح اور غلط استعمال کے بارے میں بتایا جا سکے۔ ہمیں سوچ سمجھ کر میڈیا کا استعمال کرنا ہے اور بغیر تصدیق کے کچھ بھی شیئر نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارا دین بھی ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ سنی سنائی بات کو آگے پھیلانا بڑا گناہ ہے۔‘‘
’’سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں میڈیا کے بارے میں اپنی سوچ بدلنا ہوگی۔ سب میڈیا غلط معلومات نہیں دیتا۔ بہت ساری ویب سائٹس اور ذرائع ایسے ہیں جہاں سے ہم اچھی اور مفید معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمیں ان کا استعمال کرنا چاہیے اور اپنی عادتوں کو بہتر بنانا چاہیے۔اور ہاں کتابوںکے ساتھ ساتھ اپنے اساتذہ، والدین اور بزرگوں سے ہم نے جو کچھ سیکھا، انٹرنیٹ سے حاصل کردہ معلومات کا ان سےموازنہ کرکے ہم اپنی اقدار کو سربلند رکھ سکتے ہیں۔ ‘‘
عاشر اور ہانیہ کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے استعمال کے بارے میںکافی معلومات ملی تھیں۔انہوں نے عزم کیا کہ وہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے ان باتوں کا ضرور خیال رکھیں گے اور ایسی کوئی بھی پوسٹ شیئر نہیں کریں گے جو جھوٹی ، غیراخلاقی ، نفرت انگیز یا پھر ہماری دینی و قومی اقدارکے خلاف ہو۔
پیارے بچو! یاد رکھیں، یہ دنیا ایک ایسی جگہ ہے جہاں سچائی اور عقل پر مبنی معلومات کی ضرورت ہے۔ ہمیں خود کو میڈیا لٹریسی کے علم سے لیس کرتے ہوئے احتیاط سے ٹیکنالوجی اور میڈیا کا استعمال کرناہوگا تاکہ اس ڈیجیٹل دورمیں اپنی اقدار کو سربلند رکھتے ہوئے اپنے وطن کی ترقی میںحصہ معاشرے میں بھائی چارے اور امن و سکون کی فضا کو فروغ دے سکیں۔
تبصرے