اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2024 15:45
اداریہ۔ جنوری 2024ء نئے سال کا پیغام! اُمیدِ صُبح    ہر فرد ہے  ملت کے مقدر کا ستارا ہے اپنا یہ عزم ! روشن ستارے علم کی جیت بچّےکی دعا ’بریل ‘کی روشنی اہل عِلم کی فضیلت پانی... زندگی ہے اچھی صحت کے ضامن صاف ستھرے دانت قہقہے اداریہ ۔ فروری 2024ء ہم آزادی کے متوالے میراکشمیر پُرعزم ہیں ہم ! سوچ کے گلاب کشمیری بچے کی پکار امتحانات کی فکر پیپر کیسے حل کریں ہم ہیں بھائی بھائی سیر بھی ، سبق بھی بوند بوند  زندگی کِکی ڈوبتے کو ’’گھڑی ‘‘ کا سہارا کراچی ایکسپو سنٹر  قہقہے اداریہ : مارچ 2024 یہ وطن امانت ہے  اور تم امیں لوگو!  وطن کے رنگ    جادوئی تاریخ مینارِپاکستان آپ کا تحفظ ہماری ذمہ داری پانی ایک نعمت  ماہِ رمضان انعامِ رمضان سفید شیراورہاتھی دانت ایک درویش اور لومڑی پُراسرار  لائبریری  مطالعہ کی عادت  کیسے پروان چڑھائیں کھیلنا بھی ہے ضروری! جوانوں کو مری آہِ سحر دے مئی 2024 یہ مائیں جو ہوتی ہیں بہت خاص ہوتی ہیں! میری پیاری ماں فیک نیوزکا سانپ  شمسی توانائی  پیڑ پودے ...ہمارے دوست نئی زندگی فائر فائٹرز مجھےبچالو! جرات و بہادری کا استعارہ ٹیپو سلطان اداریہ جون 2024 صاف ستھرا ماحول خوشگوار زندگی ہمارا ماحول اور زیروویسٹ لائف اسٹائل  سبز جنت پانی زندگی ہے! نیلی جل پری  آموں کے چھلکے میرے بکرے... عیدِ قرباں اچھا دوست چوری کا پھل  قہقہے حقیقی خوشی اداریہ۔جولائی 2024ء یادگار چھٹیاں آئوبچّو! سیر کو چلیں موسم گرما اور اِ ن ڈور گیمز  خیالی پلائو آئی کیوب قمر  امید کا سفر زندگی کا تحفہ سُرمئی چڑیا انوکھی بلی عبدالرحیم اور بوڑھا شیشم قہقہے اگست 2024 اداریہ بڑی قربانیوں سے ملا  پاکستان نیا سویرا   ہمدردی علم کی قدر ذرا سی نیکی قطرہ قطرہ سمندر ماحول دوستی کا سبق قہقہے  اداریہ ستمبر 2024 نشانِ حیدر 6 ستمبر ... قابل ِفخر دن  اے وطن کے سجیلے جوانو! عظیم قائدؒ قائد اعظم ؒ وطن کی خدمت  پاکستان کی جیت سوچ کو بدلو سیما کا خط پیاسا صحرا  صدقے کا ثواب قہقہے  اداریہ اکتوبر 2024 اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر ﷺ حضرت محمد مصطفیٰﷺ حضرت محمد ﷺ ... اسمائے گرامی ’’شکریہ ٹیچر!‘‘ میرا دیس ہے  پاکستان استاد اور زندگی آنکھیں...بڑی نعمت ہیں سرپرائز خلائی سیرکاقصہ شجر دوستی بوڑھا بھالو قہقہے گلہری کا خواب
Advertisements
Advertisements

ہلال کڈز اردو

آنکھیں...بڑی نعمت ہیں

اکتوبر 2024

صُبح صُبح گھر میں شور مچا ہوا تھا۔ سب فجر کی نماز ادا کرچکے تھے اور دادا ابّو کی عینک مل نہیں رہی تھی۔ نماز ادا کرنے کے بعد وہ کلام ِپاک کی تلاوت کرتے تھے جو چشمے کے بغیر نہیں ہو سکتی تھی۔
’’کیوں بھئی، آج اتنا شور کیا مچارکھا ہے؟‘‘ دادی امّاں اپنی تلاوت مکمل کرکے بولیں۔ 



’’نیلی کھیل رہی تھی ۔رات کو آپ کے چشمے سے اسی سے جا کر پوچھیں ۔‘‘
’’ہاں بھئی! آپ تو غصّے سے بولیں گی ہی۔ اِس عمر میں بھی، آپ کی نظر جو کمزور نہیں، آپ کو چشمے کی ضرورت ہی نہیں۔‘‘ دادا ابّو بچوں کے کمرے کی طرف جاتے ہوئے بولے۔
 ’’ہیں! یہ اِس عمر کا کیا مطلب ہے؟میں آپ سے تو اب بھی عمر میں چھوٹی ہوں۔ اپنی نظر کمزور ہے، اور اب میری اچھی نظر کو نظر نہ لگائیں ۔‘‘ دادی امّاں بولیں۔
’’یہ لیں ابّا جی! آپ کی عینک۔ نیلی کی امّی نے عینک دادا ابّو کو پکڑائی۔ دادا ابّو نے عینک پہنی اور کلامِ پاک کی تلاوت کرنے بیٹھ گئے۔
امی باورچی خانے میں ناشتہ بنانے کے ساتھ ساتھ مسلسل آوازیں بھی دے رہی تھیں، ’’نیلی ،ہانیہ، رضا، حسن جلدی آجاؤ سکول وین آنے والی ہے۔ ناشتہ کرو اور اپنے اپنے لنچ باکسز بھی رکھو۔‘‘
ناشتے کی میز پر پہلے رضا، پھر حسن پہنچے اور آخر میں ہانیہ پہنچی، اپنے اپنے لنچ باکس بیگ میں رکھے اور ناشتہ کرنے لگے۔
 ’’یہ نیلی کہاں ہے؟‘‘ امّی نے گرم گرم پر اٹھا دادی امّاں کی پلیٹ میں رکھتے ہوئے پوچھا ۔
 ’’اُس نے کہاں ہونا ہے ؟ کمرے میں ٹیبلٹ پر کچھ دیکھ رہی ہوگی۔‘‘ ہانیہ نے جواب دیا۔
 ’’کیا کروں میں اِس لڑکی کا؟ ٹیب استعمال کرنے سے منع کرو تو موبائل لے کر بیٹھ جاتی ہے اور کوئی کام نہیں تو کمپیوٹر پر کچھ نہ کچھ دیکھتی رہتی ہے۔‘‘ امّی نے غصّے سے نیلی کو آواز دی۔ اور نیلی سکول بیگ اُٹھائے ناشتے کی میز پرموجود تھی۔
’’کتنی بار منع کیا ہے کہ اتنا سکرین ٹائم اچھا نہیںہوتا ، ہر وقت سیل فون اورٹیب میںمگن رہتی ہو۔‘‘
’’بیٹا! ابھی اِسے ناشتہ کرنے دو۔ا سکول سے واپسی پر پوچھ لینا۔‘‘ دادی امّاں نے ہمیشہ کی طرح اُسے بچا لیا۔
 ’’ایک تو آپ اپنی لاڈلی کو کچھ نہیں کہنے دیتیں۔‘‘ امّی بڑبڑاتی ہوئی دوبارہ باورچی خانے کی طرف چل دیں۔
اسکول سے واپس آتے ہی نیلی ٹیب لے کربیٹھ گئی اور کارٹونز دیکھنے لگی۔ صبح امّی نے ڈانٹاتھا اور پھر بیٹھ گئی ہے ٹیب لے کر... ‘‘ دوسال بڑی بہن ہانیہ نے ٹوکا۔
 ’’نیلی وہ دیکھو... امی جان۔‘‘ حسن دروازے کی جانب دیکھ کراچانک چلایا۔یہ سن کر نیلی نے جلدی سے ٹیب تکیے کے نیچے رکھا اور دروازے کی جانب دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا۔ ہانیہ، حسن اور رضا تینوںنیلی کو بے وقوف بنانے پرقہقہے لگا رہے تھے ۔
’’12 اکتوبر... بینائی کا عالمی دن‘‘ تھا اور نیلی کی ٹیچر اِس حوالے سےکلاس میں بات کررہی تھیں۔
’’کوئی نظر، آنکھ اور بینائی کی اہمیت کے بارے میں بتائے گا؟‘‘
 ’’ہم بینائی کی وجہ سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔ دنیا کے خوبصورت نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ رنگ دیکھ سکتے ہیں۔ شیما بولی۔
’’بہت خوب۔‘‘ ٹیچر نے شاباش دی۔
’’دیکھو بچو! بینائی اللہ تعالیٰ کی بہت سی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ بینائی کی وجہ سے ہی ہم چل پھر سکتے ہیں،محفوظ طریقے سے گاڑی چلا سکتے ہیں۔ لکھ، پڑھ سکتے ہیں۔ کبھی سوچا ہے کہ بینائی نہ ہو توپھر کیا ہو؟ ‘‘
سب نے نفی میں سر ہلایا۔’’ چلیں! یہ ہی آپ کا ہوم ورک ہے۔ سوچ کرلکھیے کہ اگر بینائی نہ ہوتی تو...؟‘‘
نیلی ا سکول سے واپس آئی تو کچھ خاموش تھی، کھانا بھی نہیں کھایا اور سو گئی۔ شور کی آواز سے اُس کی آنکھ کھلی۔
یہ شوردادی امّاں کے کمرے سے آرہا تھا۔ وہ بھاگ کر اُن کے کمرے میں گئی۔ دادا ابّو زمین پر گرے ہوئے تھے اور سب مل کر اُنہیں اُٹھا رہے تھے۔ اُن کے گھٹنے پر چوٹ آئی تھی۔ اُن کی عینک ہمیشہ کی طرح مل نہیں رہی تھی اور نظر اُن کی اتنی کمزور تھی کہ رات کو چشمے کے بغیر اُن کو بالکل دکھائی نہیں دیتا تھا۔
’’ ابّا جی کی عینک تم لے گئی تھی۔‘‘ امّی نے نیلی کا کان زور سے مروڑا۔  نیلی اس صورتحال سے سہم گئی۔
’’ارے چھوڑو بہو!‘‘ دادی امّاں نے اُسے بچایا۔
 ’’سوری دادا ابّو! میں آئندہ نہیں چھیڑوں گی آپ کے چشمےکو...‘‘ نیلی نے اپنے کان پکڑکے کہا۔‘‘
’’کوئی بات نہیں میرے بچے!‘‘ دادا ابّو نے اُسے پیار کیا۔
 ـــ’’امّی نے دادا ابّو کے گھٹنے پر دوا لگا دی تھی۔ اور وہ سونے کے لیے لیٹ  گئے تھے۔
امّی اب بھی غصّے سے نیلی کو گھور رہی تھیں۔ ’’آنے دو آج تمہارے ابو کو پھر دیکھنا ذرا....‘‘ اسی دوران دادی اماں وہاں آگئیں۔
 ’’چلو آؤ! ہم ٹہلنے چلتے ہیں۔‘‘ دادی امّاں نے نیلی کا ہاتھ پکڑا۔‘‘
 ’’دادی امّاں! ہم بھی چلیں گے۔‘‘ حسن، ہانیہ اور رضا بولے۔
پھر سب بچے دادی امّاں کے ساتھ سیر پر چل دیے۔
’’بھئی بچو! آنکھیں اللہ کی بہت بڑی نعمت ہیں۔ ہم اِن سے دیکھتے ہیں۔ آنکھوں کے ساتھ ساتھ ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے، ہمیں چاہیے کہ اس کی قدر کریں۔‘‘
’’دادی اماں! نظر کی قدر کیسے ہوسکتی ہے بھلا؟‘‘ ہانیہ نے حیرت       سے پوچھا۔ 
’’اُس کی حفاظت کرکے، اُس کا غلط استعمال نہ کرکے۔ جیسے نیلی کا سکرین ٹائم بہت زیادہ ہے۔ یادرکھو! ہر وقت سیل فون، ٹیب اور کمپیوٹر کا استعمال آنکھوں کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔ اِسی لیے نیلی کے سر میں اکثر درد بھی رہتا ہے۔ کچھ عرصہ اور اِسی طرح یہ چیزیں استعمال کرتی رہی تو نظر کمزور ہونے کا خطرہ ہے۔ میری نظر تو اِس عمر میں بھی کمزور نہیں کیونکہ میں ان کا خیال رکھتی ہوں۔ان کا باقاعدگی سے چیک اَپ کرواتی ہوں۔ موبائل تو بالکل استعمال نہیں کرتی اور ٹی وی بھی دوربیٹھ کر دیکھتی ہوں۔ اسی طرح اندھیرے کمرے میں فون استعمال کرتی ہوں نہ کم روشنی میں کتابیں پڑھتی ہوں۔اور ہاں بادام اور سونف دودھ کے ساتھ لینا بھی اچھا ہے۔ ‘‘دادی امّاں نے سیر کرتے ہوئے بچوں کو بینائی کی حفاظت کے بارے میں بہت کچھ بتا دیا تھا۔
 ’’میں بھی آج سے دودھ اور بادام لوں گا۔‘‘ رضا بولا۔
’’میں بھی وعدہ کرتی ہوں کہ ٹیب اور موبائل فون کا زیادہ استعمال نہیں کروں گی۔‘‘ نیلی بھی بلند آواز سے بولی۔
’’اور کمپیوٹر کا...‘‘ حسن شرارت سے بولا۔ ’’اُس کا بھی‘‘ نیلی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
دادی امّاں بھی مسکرا دیں کیونکہ بچے اُن کی باتیں اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ چشمِ روشن کے لیے اُس کی قدر اور حفاظت کرنا بہت ضروری ہے۔
 

Advertisements