بچے نئی کلاس میں اُردو پڑھنے سے بیزار تھے۔ اکثر یت کا خیال تھا کہ ایک اردو کے استاد چند نظمیں اور غزلیں پڑھانے کےسوااور کر ہی کیا سکتے ہیں؟بچوں کو اس نئے زمانے میں (جو سوشل میڈیا اور سائنس کا دور ہے) اردو سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو تا اور یہ ایک غیر اہم مضمون ہے لیکن وہ یہ بات نہیں جا نتے تھے کہ انھیں جو اردو کے استاد ملنے والے ہیں وہ ان کا نظریہ بالکل بدل دیں گے ۔
مرزا صاحب اردو کے منفرد استاد تھے۔ ان کا مقصد صرف نصاب مکمل کروانا نہیں ہوتا تھا ۔ وہ بچوں کو زندگی کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار کرنا چاہتے تھے ۔ بہترین نمبر تو ان کے بچے لے ہی لیتے تھے ۔یہی وجہ تھی کہ مرزا صاحب سے کچھ عرصہ پڑھنے کے بعد بچوں کی رائے بدل جا تی تھی۔
مرزا صاحب کو پتا تھا کہ اردو صرف زبان نہیں، زندگی کی سمجھ بوجھ کا ذریعہ ہے۔ اس لیے وہ ہمیشہ نصاب کے ساتھ ساتھ زندگی اور اس کے مسائل سمجھانے کی کو شش کرتے ۔ مرزا صاحب نے سال کی پہلی کلاس میں مسکراتے ہوئے کہا، ’’ دراصل اردو ادب زندگی سے گہرا ربط رکھتا ہےکیونکہ زندگی ایک حسین سفر ہے، جس میں کبھی خوشی کے پھول کھلتے ہیں تو کبھی غم کے کانٹے چبھتے ہیں۔ یہ ایک ایسی کائنات ہے جس میں انسان اپنے خوابوں کے پیچھے بھاگتا ہے، ناکامیوں سے سیکھتا ہے۔ان تمام حالات و واقعات کو سمجھنے، سنوارنے اور بیان کرنے کا ایک ذریعہ اردو ادب ہے۔ اردو ادب ہمارے دل کی زبان ہے، وہ آئینہ ہےجس میں ہم اپنی زندگی کے تمام رنگ دیکھ سکتے ہیں۔ اردو کی کتاب صرف کہانیوں اور اشعار کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ زندگی کے ہر احساس کو الفاظ کا جامہ پہناتی ہے۔‘‘ بچے استاد صاحب کی باتیں بڑے غور سے سن رہے تھے۔ انہوں نے اچانک ایک سوال کردیا۔
’’ آپ سب کو کبھی نہ کبھی کسی مسئلے کا سامنا ہوا ہو گا۔ ‘‘
بچے یہ سوال سن کر ایک دم خاموش ہو گئے۔ مرزا صاحب انہیں لاجواب دیکھ کرخود ہی بات بڑھاتے ہوئے بولے،’’مثال کے طور پر، آپ کو کبھی ایسا لگا کہ آپ کے خواب پورے نہیں ہو رہے؟ ‘‘
یہ سن کر کلاس کا سب سے شرارتی لڑکا خرم چونکا۔تب مرزا صاحب نے غالب کا ایک شعر سنایا :
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
یعنی انسان کی جتنی خواہشات بھی پوری ہو جا ئیں ،اسے لگتا ہےکہ ابھی بہت سی ایسی ہیں جو پوری نہیں ہو ئیں ۔لیکن اصل میں مثبت اندازِ زندگی یہ ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ ضروریات توسب کی پوری ہو ہی جا تی ہیں لیکن تمام خواہشات تو ایک باد شاہ کی بھی پوری نہیں ہو تیں ۔ اس لیے ہمیں اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کے پیچھے بھاگنے کے بجائے عظیم مقاصد سامنے رکھتے ہوئے بھر پور جدو جہد کرنی چاہیے ۔خود پر بھر پور اعتماد ، ان تھک محنت اور اللہ پر توکل ہی عظیم ترین کا میابی دلاتے ہیں ۔
طلبہ تو گویا ان کی باتوں میں کھوگئے تھے۔ اگلے دن سے انھیں اردو کے پیریڈ کا سب سے زیادہ انتظار تھا ۔
مرزا صاحب نے سلا م کے بعد کہا،’’ آپ میں سے کئی ہوں گے جن کا مقصد اچھے پیسے کمانا ہو گا ؟‘‘
’’ کئی بچوں نے سوچا ہوگا کہ یہی تو زندگی ہے ، زندگی سے اور کیا چاہیے؟‘‘ تمام بچے سر کی باتوں میں گہری دلچسپی لے رہے تھے۔ ان کا انداز ہی کچھ ایسا تھا کہ آنکھ جھپکنے کو بھی جی نہیں چاہتا تھا۔
’’ نہیں... انسان زندگی میں دوسرے انسانوں سے ہمدردی ، پیار اور اس کی مدد کرنے کے لیے بنا ہے ۔ یہی انسانیت ہے اور یہی زندگی کا مقصد ہے۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ مشہور ادیب اشفاق احمد کہتے ہیں، ’’ محبت کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ یہ انسان کو خودغرض نہیں ہونے دیتی۔‘‘
ایک دن مرزا صاحب نے کہا،’’ کچھ بچے ایسے ہوں گے جو چھوٹی چھوٹی باتوں سے پریشان ہو جا تے ہوں گے ۔‘‘
عدیل نے سوچا وہ ایسا ہی ہے، تب مرزاصاحب نے کہا، ’’دنیا بھر کے مشہور ناولوں میں سے ایک ’’الکیمسٹ ‘‘ ہے جس کا مصنف پاؤلو کویلہوہے۔ اس کا مرکزی خیال ہے، ’’جب آپ کوئی کام کرنے کا ارادہ کر لیتےہیں تو کائنات کی ہر چیز اسے مکمل کرنے میں آپ کی مدد کرنے لگتی ہے۔ ‘‘
’’ بچو!زندگی میں مشکلات آتی ہیں لیکن ان سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ انھیں عبور کرتے ہوئے ہمیں ہمیشہ آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔ اگر ہم ایک مسئلے کا حل نکال لیتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب کچھ حاصل ہو گیا۔ نہیں، زندگی ہمیں اور بھی چیلنجز دیتی ہے اور ہمیں ہر چیلنج کا سامنا کرنا چاہیے۔‘‘
بچوں کے دل میں یہ باتیں اتر گئیں ۔ فیصل ، جو اکثر امتحانات سے ڈرتا تھا، اس نے عہد کیا کہ وہ اب ہر امتحان کا سامنا بہادری سے کرے گا چاہے وہ تعلیمی ہو یا زندگی کا کوئی امتحان۔
سعد بہت پُرجوش لڑکا تھا۔ اس نے سوچا آئندہ وہ زندگی میں کچھ نیا کرے گا۔جہانزیب نے سوچا کہ اس نے کبھی خود پر بھروسا نہیں کیا تھا۔ آج مرزا صاحب کی بات نے اسے یہ سمجھایا کہ خوداعتمادی ہی اصل طاقت ہے۔
اسی طرح دن گزرتے گئے ۔ بچے روز کچھ ایسا سیکھتے جو انھیں زندگی سے ہم آہنگ کر دیتا ۔
مرزا صاحب کے لیکچرز صرف نصابی کتاب تک محدود نہیں تھے بلکہ وہ بچوں کو بتاتے کہ زندگی میں کس طرح ثابت قدم رہنا ہے؟مشکلات کو کیسے حل کرنا ہے؟ اور اپنے خوابوں کا پیچھا کیسے کرنا ہے؟
بچوں نے اب اردو کو ایک نئے انداز سے دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ انہیں یہ سمجھ آنے لگا تھا کہ ادب کے ذریعے وہ اپنی زندگی کے مسائل کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔
پھر ٹیچرز ڈے آیا۔ بچوں نے فیصلہ کیا کہ وہ مرزا صاحب کا شکریہ ادا کرنے کے لیے ایک خاص پروگرام منعقد کریں گے۔ انہوں نے مل کر ایک چھوٹا سا ڈرامہ تیار کیا، جن میں مرزا صاحب کے دیے گئے اسباق کو پیش کیا گیا۔ جس میں نئے اور عظیم مقاصد کے لیے پر عزم رہ کر سخت محنت کرنا ، آپس میں محبت اور ہمدردی سے پیش آنا ، اللہ کا شکر اور لوگوں کا شکریہ ادا کرنا ، صبر، حوصلے اور برداشت سے کام لینا ، انسان کی عزت کرنا جیسے پیغامات شامل تھے ۔
جب مرزا صاحب نے یہ سب دیکھا، تو ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے۔ انہوں نے سوچا کہ ان کی محنت رنگ لے آئی ہے۔
بچوں نے آخرکار یہ سمجھ لیا تھا کہ ادب نہ صرف زبان کا حسن ہے بلکہ زندگی کو سنوارنے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔
بچوں نے مرزا صاحب کو ایک کارڈ پیش کیا جس پر لکھا تھا،’’آپ ہمارے استاد نہیں، ہمارے رہنما ہیں۔‘‘
تبصرے