1947میں قیامِ پاکستان کے موقع پر شہید کیے جانے والے پروفیسر خان عبدالحمید نیازی اور ان کے فرزندِارجمند کرامت رحمان نیازی (سابق نیول چیف) کے تذکرے پر مبنی ایک منفرد تحریر
'پاکستان اتنی آسانی سے نہیں بنا تھا ،' یہ جملہ میں نے 2014 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ، قائد اعظم اور افواج پاکستان ، میں" قیام پاکستان کے ابتدائی ایام اور پاک فوج کا ایثار" کے عنوان سے مضمون میں لکھا تھا۔ پاکستان نیوی کے آٹھویں امیر البحر ایڈمرل کرامت رحمان نیازی نے قیام پاکستان کے بعد اپنے والدین کی پاکستان کے لیے ہجرت اور شہادت کی بابت جب مجھ سے بات کی تھی تو میری روح کانپ گئی تھی ، کے آر نیازی (کرامت رحمان نیازی )سے ان کے اسلام آباد والے گھر میں میری تین ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ وہ پاکستان کی پہلی آبدوز غازی کے 1964 ء میں کمانڈر بنے تھے ، نیازی صاحب نے 1965 ء اور 1971 ء کی پاکستان بھارت جنگوں میں بھی بھر پور حصہ لیا تھا۔ وہ نشان امتیاز ملٹری ، ھلال امتیاز ملٹری اور ستارئہ جرأت حاصل کرچکے تھے۔
ایڈمرل کرامت رحمان نیازی نے ، جن کا وصال 4 مئی2021 ء کو ہوا تھا ، انہوں نے پاکستان نیوی سے ریٹائر منٹ کے بعد 25 فروری 1985 کو ہونے والے غیر جماعتی انتخابات میں ، اسلام آباد سے حصہ لیا تھا، چونکہ وہ پارٹی بغیر انتخابات تھے ، اس لیے الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو پابند کیا تھا کہ وہ اپنے اپنے متعلقہ حلقے کے پچاس پچاس رجسٹرڈ ووٹروں کے تائیدی دستخط بھی کاغذات نامزدگی کے ساتھ جمع کرائیں ، چونکہ ایڈ مرل کرامت رحمان نیازی نے ساری عمر ملکی دفاع میں حلقے سے باہر گزاری ، وہ گہرے پانیوں میں رہے یا کراچی میں رہے، ایسے میں انہیں مشورہ دیا گیا کہ ، چونکہ ان کے حلقے میں سادات کی اکثریت ہے ، تو اس سلسلے میں ، فوج کے ہر دل عزیز شاعر سید ضمیر جعفری بہت معاون ثابت ہو سکتے ہیں ، کرامت رحمان نیازی ، سید ضمیر جعفری کے نام سے شناسا تھے۔ لہٰذا ترت سید ضمیر جعفری صاحب کو بلایا گیا اور جب سید ضمیر جعفری کو معلوم ہوا کہ ایڈمرل کرامت رحمان نیازی ، اٹک گورنمنٹ کالج میں ان کے تاریخ کے استاد عبدالحمید نیازی کے فرزند ہیں تو پھر سید ضمیر جعفری کے لیے کرامت رحمان نیازی کا ساتھ دینا فرض عین ہو گیا تھا۔ سو وہ دامے، درمے،قومے سخنے ،کرامت رحمان نیازی کے ساتھ ہو لیے۔
ایڈمرل کرامت رحمان نیازی کے والد گرامی خان عبدالحمید خان نیازی کے اجدادلودھی حکمرانوں کے ساتھ موسیٰ خیل میانوالی سے ہجرت کرکے بھارت کے شہر ہوشیار پور میں آباد ہوئے،جہاں خان عبدالحمید خان نیازی کی ولادت 1899ء میں بستی علی خان ضلع ہوشیار پور میں ہوئی۔والد وزیر علی خان محکمہ مال میں ملازم تھے۔عبدالحمید خان نیازی نے 1917ء سے 1923ء تک ہوشیار پور کے کرسچن کالج برائے طلبا سے تاریخ میں ایم اے کیا تھا اور 1923ء میں جب سر فضل حسین میاں نے یونیسیف پارٹی قائم کی تو خان عبدالحمید خان ان کے پرائیویٹ سیکرٹری مقرر ہوئے۔جس طرح سر فضل حسین کی ہمدردیاں مسلم لیگ کے ساتھ تھیں اسی طرح خان عبدالحمید خان نیازی بھی بلا کے مسلم لیگی تھے۔1928ء سے 1938ء تک نیازی صاحب ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں چلے گئے۔
یہ وہی عرصہ تھا جس کے دوران وہ گورنمنٹ کالج اٹک(کیمبلپور)میں تاریخ کے پروفیسر رہے اور سید ضمیر جعفری ان کے ہونہار شاگردوں میں سے ایک تھے۔اسی دوران اٹک میں انہوں نے مسلم ایجوکیشن سوسائٹی کیمبلپور بنائی جس کے وہ خود سیکرٹری تھے جبکہ صدارت سر محمد فتح خان آف کوٹ فتح خان کے حصے میں آئی تھی۔
پروفیسر عبدالحمید خان نیازی اکثر کیمبل پور کالج میں سکھ اور ہندو اساتذہ سے قائد اعظم کی حمایت اور مسلم لیگ سے ہمدردیوں کی بنا پر تلخ ترش جملے کہہ جاتے ،نوجوان مسلمان طلبا میں تحریک پاکستان کے حوالے سے بیداری کی لہر پیدا کرنے اور آزادی کے حصول کے لیے دھوپ چھائوں سے گزرنے کے لیے انہیں تیار کرتے رہے ،کالج کے اسٹاف روم سے اگر بلند آوازیں آرہی ہوتیں تو لوگ سمجھ جایا کرتے کہ پروفیسر عبدالحمید خان نیازی قائد اعظم کی حمایت میں کسی ہندو یا سکھ پروفیسر سے الجھے ہوئے ہیں۔وہ اکثر اسٹاف روم میں پاکستان کے قیام کی ضرورت پر تقریر شروع کردیتے۔
پروفیسر نیازی اپنی تنخواہ کا زیادہ حصہ مستحق طلبا میں بانٹ دیا کرتے،وہ بعض طلبا کو اپنے گھر شام کو مفت تعلیم بھی دیا کرتے تھے۔وہ پنجاب کے بعض دیگر کالجوں میں بھی پڑھاتے رہے،جن میں مظفر گڑھ،شاہ پور ،منٹگمری اور پاک پتن شامل ہیں۔تاریخ کا استاد ہونے کے ناتے وہ پاکستان کی ضرورت، نظریہ اور مسلم لیگ کی جدوجہد کو اکثر موضوع سخن رکھتے۔
14 اگست 1947 کو جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو پروفیسر خان عبدالحمید خان نیازی نے گورنمنٹ کالج ہوشیار پور میں اس روز ایک ایسی تقریر کی جو ہندو اور سکھ اساتذہ کے سینوں کو چھلنی کرگئی۔وہ پاکستان ہجرت کے لیے اپنے خاندان کے لوگوں کے ساتھ محفوظ راستے کے منتظر تھے کہ قیام پاکستان کے تین دن بعد ہندو اور سکھ بلوائیوں نے ہوشیار پورکی بستی علی خان میں 17 اگست 1947ء کو پروفیسر نیازی کو گھر میں شہید کردیا۔ان کے والدین اور بیگم بھی شہادت پانے والوں میں شامل تھیں۔وہیں اجتماعی قبر بنائی گئی۔
پروفیسر نیازی کا بڑا بیٹا فضل الرحمن نیازی جو ان دنوں لاہور میں محکمہ انکم ٹیکس میں ملازمت کرتا تھا،محفوظ رہا۔ان کے دوسرے بیٹے قمرالرحمن نیازی جو بعد میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر بنے، ایک بیٹی اور کرامت نیازی وہ تینوں کسی طرح لاہور اپنے بھائی کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
کرامت نیازی نے 1948ء میں پاکستان نیوی میں شمولیت کی اور برطانیہ میں رائل نیوی میں بنیادی تربیت حاصل کرکے 30 اپریل 1950 کو نیوی میں کمیشن حاصل کیا۔ستارۂ جرأت اور نشان امیتاز (ملٹری)حاصل کرنے والے کرامت رحمن نیازی نے ایڈمرل کے عہدے تک ترقی پائی ۔21 مارچ 1979 کو وہ چیف آف نیول اسٹاف مقرر ہوئے اور 11 اپریل 1981 کو ریٹائر ہوئے۔
مضمون نگار: ایک معروف صحافی اور مصنف ہیں۔ ایک قومی اخبار کے لیے کالم بھی لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے