ہم دوہری اذیت کے گرفتار مسافر
پائوں بھی ہیں شل شوق سفر بھی نہیں جاتا
کالام کی خوب صورت صبح:
فجر کی اذان کے ساتھ ہی آنکھ کھل گئی، کمراٹ ویلی کے لیے رات کو ہی گاڑی والے سے بات ہوچکی تھی، 6 بجے اسے ہوٹل پہنچنا تھا اس سے پہلے ہمیں تیاری کے ساتھ ساتھ ناشتہ بھی کرنا تھا۔ کالام میں ٹھنڈ تھی جب کہ کمراٹ کی طرف بہت زیادہ ٹھنڈ اور ساتھ بارش بھی تھی۔ اسی لیے ٹھنڈ سے بچا ئوکے لیے ہر فرد کے لیے تمام لوازمات ساتھ رکھے گئے، جوکہ آگے جاکر شدید ٹھنڈ میں کم محسوس ہوئے۔
کالام کو جھیلوں کی وادی کہا جاتا ہے، کمراٹ ویلی کو بھی کالام کی ہی خوبصورتی کا ایک بہترین حصہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ کمراٹ کی طرف سفر شروع ہوا، چڑھائیاں، کھائیاں، نشیب و فراز، بل کھاتی پتھریلی سڑکیں، ایک لمحے کے لیے تو سفر مشکل تر نظر آنے لگا لیکن ارد گرد خوبصورتی کی انتہا پر فائز مناظر قدرت کی ثنائی بیان کرنے کی بار بار دعوت دے رہے تھے۔
پہاڑی دنبے اور بکرے چرواہوں کے ساتھ جھنڈ کے جھنڈ جگہ جگہ چڑھتے نظر آرہے تھے۔ خوبصورت پشتون بچے ہم شہریوں کو دیکھ کر کہیں حیرت زدہ ہو رہے تھے تو کہیں ہاتھ ہلا ہلا کر ہمارا استقبال کر رہے تھے۔
ہم تمہاری راہ دیکھیں گے صنم
تم چلے آئو پہاڑوں کی قسم
ہم وادی اتروڑ میں داخل ہوچکے تھے، اتروڑ جھیل پر تھوڑی دیر رکے، وہاں کی خوبصورتی کو کیمرے کی آنکھ میں قید کرکے مزید اونچائی کی جانب رختِ سفر باندھا۔ اب اگلی منزل بڈگوئی ٹاپ تھی۔ایک پُر پیج راستے سے ہوتے ہوئے جب ہم بڈ گوئی ٹاپ پر پہنچے تو وہاں پر بلا کی سردی نے ہمارا استقبال کیا اور ساتھ ہی موسلادھار بارش بھی شروع ہو چکی تھی۔ ہاتھوں میں دستانے، کانوں پر ٹوپے اور ہاتھ میں چھتریاں، کپکپی کی سی کیفیت طاری تھی، نہ جانے ہم کراچی والوں کو کیوں سردی کچھ زیادہ ہی محسوس ہوتی ہے۔
عجب سرشار سی کیفیت تھی۔ منہ سے دھواں نکل رہا تھا، دانت بج رہے تھے اور ہم اس حالت میں اس ٹاپ ویلی پر پکوڑوں اور الائچی والی گرم گرم چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ وہاں پر مقامی لوگوں نے ایک ٹینٹ میں گرماہٹ کا بھی انتظام کیا ہوا تھا، لوہے کی بھٹی میں لکڑیاں ڈال کر گرمی کا انتظام تھا لیکن وہ وقتی گرمی زیادہ کارآمد نہیں ہو رہی تھی۔ ٹھنڈ اس قدر بڑھ رہی تھی کہ اگر تھوڑی دیر اور وہاں ٹھہرتے تو ہماری قلفی جمنے کا امکان لازم تھا۔ اسی لیے تھوڑی دیر کے بعد ہی ہم وہاں سے آگے کی طرف بڑھ گئے۔
سطح سمندرسے11558 فٹ بلند بڈگوئی ٹاپ جسے اتروڑ پاس اور دشت لیلیٰ بھی کہا جاتا ہے، اِس پاس کو دونوں طرف کے کوہستانی قبائل صدیوں سے استعمال کرتے آرہے ہیں، اِس پاس کے ذریعے تھل سے کالام پہنچنے میں تقریباً تین سے چار گھنٹے لگتے ہیں۔ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں سیاح سوات سے ہوتے ہوئے اس راستے پہ کمراٹ آتے ہیں ، اس راستے پر سفر کرکے سیاح نہ صرف وادی کمراٹ کی سیر کرلیتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مدین، بحرین،کالام، مہوڈنڈ اور اتروڑ کے نظارے بھی مفت میں دیکھ سکتے ہیں ۔
بڈگوئی پاس سوات کو دیر سے ملاتا ہے۔ اس درے کے دونوں طرف خوبصورت وادیاں ہیں۔ بڈگوئی پاس سیاحوں کا پسندیدہ ترین راستہ بھی بن چکا ہے۔ بڈگوئی پاس کا پورا راستہ پتھریلا ہے۔ راستے میں چھوٹی چھوٹی آبشاریں بھی ملتی ہیں۔ اس راستے کو اتروڑ پاس اور بڈگوئی ٹاپ بھی کہتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر اللہ کی قدرت کا احساس ہوتا ہے۔
راستہ مزید پر پیچ ہورہاتھا۔ کمراٹ ویلی قریب آرہی تھی۔
کمراٹ پاکستان کے ضلع دیر بالا میں واقع ایک خوبصورت وادی اور قدرتی خطہ ہے۔ یہ صوبہ خیبر پختونخوا کی چند خوبصورت ترین وادیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وادیٔ کمراٹ کی سیر کرنے کے لیے ملک کے مختلف علاقوں سے لوگ آتے ہیں۔ کمراٹ ایک سر سبز و شاداب وادی ہے جس کو مختلف خوبصورت پہاڑوں نے گھیرا ہوا ہے اور بیچ میں مختلف چھوٹی بڑی ندیاں بہتی ہیں۔ یہ وادی معروف سیاحتی مقام کالام سے مغرب کی جانب واقع ہے۔ جبلی ویوز ڈاٹ کام (jabbliviews.com) کے ایک حالیہ سروے کے مطابق صوبہ خیبر پختون خوا کا حسین ترین مقام کمراٹ ہے جبکہ پاکستان کے حسین مقامات میں دوسرے نمبر پر موجود ہے۔
قدرت کے حسین نظارے آنکھوں کو خیرہ کررہے تھے۔ بالآخر ایک چڑھائی کے پاس ہماری فور بائی فور(4x4) گاڑی جا ٹھہری۔ یہاں پر ہوٹل والوں نے فیملی کے لیے ٹین کے چھوٹے چھوٹے کمرے زمین میں گاڑے ہوئے تھے۔ جس میں قالین ،بستر، رضائیوں کی سہولت سے مہمانوں کو راحت پہنچانے کا بہترین انتظام تھا۔ کھانے کا آرڈر دے کر نماز ظہر اپنے اس ٹین کے کمرے میں ادا کی اور پھر اس لطیف ٹھنڈے موسم میں نرم گرم بستر اور رضائی میں سستانے کو لیٹے تو مزے کی نیند نے آگھیرا۔ تھوڑی دیر میں گرم گرم چکن کڑاہی حاضر تھی لیکن بریانی جو ہم کراچی والوں کی کمزوری ہے اس کا نام سن کر بچوں نے آرڈر کردی تھی- اس کی قیمت کے ساتھ ساتھ ذائقے نے بھی بڑا مایوس کیا۔ خیر!کڑاہی سے پورا پورا انصاف کیاگیا۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
اب پیدل سفر تھا، ایک اونچی اور آڑھی ترچھی چڑھائی کا جہاں سے ہمیں کمراٹ ویلی کی جان کمراٹ آبشار تک پہنچنا تھا۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے اس چڑھائی کو چڑھتے گئے۔ کئی جگہ سانس پھولا، کہیں پائوں پھسلا مگر اپنے پیاروں نے سہارا دیا، ہاتھ تھاما اور ہنستے کھیلتے آبشار پر پہنچ ہی گئے۔
کمراٹ آبشار کی خوبصورتی اور وہاں کا ماحول ناقابل بیان حد تک لطیف اور خوشگوار تھا۔زندگی کی ایک خوبصورت یاد ذہن کے دریچوں میں رقم ہوگئی تھی۔ وہاں کے موسم اور آبشار کی خوبصورتی کو کافی دیر تک محسوس کرتے رہے۔ اب واپسی کا سفر بھی لازمی تھا جو کہ کافی طویل اور پُر خطر تھا۔ عشاء تک کالام پہنچنے کا ٹارگٹ تھا لیکن درمیان میں ہماری فور بائی فور گاڑی نے دغا دے دیا، جو ایک سنسان اور پرخطر موڑ پر تھا لیکن خدا کا کرنا ایک اور گاڑی پیچھے ہی آرہی تھی اور بھلا ہو اس گاڑی کے سواروں کا جنہوں نے ہمیں لفٹ دے کر اس مشکل سے نکالا۔ اسی وجہ سے تقریباً ہم دو گھنٹے لیٹ ہوئے اور رات 10 بجے کے قریب ہوٹل پہنچے۔ تھکن سے چور جسم، ہلکے پھلکے کھانے اور عشا کے بعد آرام کے لیے کمبل اوڑھ کر بستروں میں جا دبکے۔
مضمون نگار،صدارتی ایوارڈ یافتہ مصنفہ ہیں۔
[email protected]
تبصرے