اﷲ تعالیٰ نے اس دنیا میں کوئی چیز بے کار پیدا نہیں کی۔بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہر چیز کے صحیح استعمال کو سمجھ سکیں اور اسے انسانی فائدے کے لیے استعمال کرنے کے طریقے معلوم کریں۔ ان طریقوں کے استعمال سے ہم انسانی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ذریعہ معاش کوبھی بہتر کرسکتے ہیں۔ پاکستان میں گھریلو کچرے کو فضول اور ناکارہ چیز سمجھ کر ہرروز گھرکے باہر پھینک دیا جاتا ہے اور ویسٹ مینجمنٹ کا محکمہ اس کچرے کو ڈمپنگ پوائنٹس پر ڈمپ کر دیتا ہے جو فضا میں تعفن اور آلودگی پھیلانے کی وجہ بنتا ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہی کچرا آپ کو دنوں میں امیر بنا سکتا ہے۔ جی ہاں یہ بالکل درست ہے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ترقی پذیرملک ہمیشہ سے ترقی یافتہ ملکوں کی تقلید کرتے نظر آتے ہیں۔ آج کے مضمون کا مقدمہ گھروں کے کوڑا کرکٹ سے توانائی اور پیسہ کمانے کے حوالے سے ہے ۔اس کے دو پہلو ہیں ایک تو کمرشل اور دوسرا ڈومیسٹک۔
دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں گھریلوکچرے کی ری سائیکلنگ ایک بہت بڑی انڈسٹری بن چکی ہے ۔ یہ ملک گھریلو کچرے سے اربوں ڈالر کی آمدنی حاصل کررہے ہیں۔
امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں گھروں کے کوڑے کو ری سائیکل کرنے اور ٹھکانے لگانے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس عمل میں پرائیویٹ کمپنیاں گھروں سے کوڑا کرکٹ اکٹھا کرتی ہیں اور اس کوڑے کو مقامی حکومتوں کے بنے ہوئے ڈمپنگ سٹیشنز پر جا کر ڈمپ کرتی ہیں لیکن یہ ڈمپنگ فری نہیں ہوتی بلکہ یہ پرائیویٹ کمپنیاں فی ٹرک کے حساب سے حکومت کوفیس ادا کرتی ہیں ۔ اب مقامی حکومت اس کچرے کو مخصوص ٹرکوں میں بھر کر پرائیویٹ کمپنیوں کے حوالے کرتی ہے جو اس کوڑے کرکٹ کواپنے سائینٹفک بوائلرز میں ماحول دوست طریقے سے جلا کر بجلی پیدا کرتی ہیں اور اس طرح ہر سال کروڑوں ٹن کوڑا جلا کر ہزاروں میگا واٹ بجلی بنائی جارہی ہے ۔اب اس جلے ہوئے کچرے کی راکھ سے دھاتوں کو الگ کیا جاتا ہے اور پھر انہیں ری سائیکل کیا جاتا ہے جس سے مزید منافع حاصل ہوتا ہے۔
ہر ملک میں ہر طرح کا کچرا پیدا ہوتا ہے لیکن اس میں کچھ کچرے کی اقسام ایسی ہیں، جو ری سائیکل ہو سکتی ہیں۔جبکہ کچھ اقسام ایسی بھی ہیں، جو ماحول دوست نہیں ہوتیں اور ان کو ری سائیکل نہیں کیا جا سکتا۔ایسے کچرے کو تلف کرنے کے لیے مخصوص طریقہ کار اپنانا پڑتا ہے۔ اسی لیے ترقی یافتہ ممالک ویسٹ مینجمنٹ پر بہت زور دیتے ہیں۔ ویسٹ مینجمنٹ کا مقصد اس کچرے یا فضلے کو محفوظ اور ماحول دوست طریقے سے ٹھکانے لگانا ہے کیونکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کچرے کے ڈھیر کا انتظام ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں کوڑے سے پیدا ہونے والی تباہ کاریوں کا زیادہ خطرہ ہے کیونکہ ان کا 90 فیصد فضلہ اکثر غیر پائیدار طریقے سے ضائع کر دیا جاتا ہے۔
یہ طرز عمل صحت عامہ، ماحولیاتی آلودگی اور آب و ہوا کے بہت سے مسائل کو بڑھاتا ہے۔ پاکستان بھی ان چیلنجز سے محفوظ نہیں ہے۔ پاکستان سالانہ 30 ملین میٹرک ٹن سالڈ ویسٹ پیدا کرتا ہے، جو کہ ملک میں ویسٹ مینجمنٹ کرنے والی کمپنیوں کی صلاحیت(کپیسٹی) سے بہت زیادہ ہے۔ اس لیے میونسپل حکام بڑے شہروں میں صرف 50-80 فیصد شہری فضلہ ہی جمع کرتے ہیں۔
اب آپ کو ایک اور حقیقت بتاتے ہیں کہ پاکستان ترقی یافتہ ممالک کے لیے اپنا فضلہ پھینکنے کے لیے مقبول ترین مقامات میں سے ایک بن گیا ہے۔ ایران، سعودی عرب، برطانیہ، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) ریاست ہائے متحدہ امریکا (یو ایس اے)، بیلجیم، جرمنی، اسپین، کینیڈا اور اٹلی، پاکستان میں کچرا پھینکنے والے ممالک میں شامل ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان یہ فضلہ یا کچرہ درآمد کیوں کرتا ہے؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسے ری سائیکلنگ کی صنعت کے ذریعے استعمال کیا جا سکے، جو ملک بھر میں کراچی، لاہور، سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور خیبرپختونخوا میں پھیلی ہوئی ہے۔
ری سائیکلنگ کی صنعت نے درآمد شدہ کچرے سے سونا، تانبا اور ایلومینیم جیسی دھاتیں نکالی ہیں۔ یہ فضلہ بحری جہاز میں نکلتا تو ری سائیکلنگ کے لیے ہے مگر ترقی پذیر ممالک میں پہنچ کر یہ ری سائیکل کم ہی ہوتا ہے اور اس بات کا خیال بالکل نہیں کیا جاتا کہ اس میں خطرناک فضلہ بھی شامل ہے۔اس فضلے کو یا تو جلایا جاتا ہے یا پھر ترقی پذیر ملک میں سہولیات نہ ہونے کے باعث اس کو غیر قانونی طور پر پھینک یا دبا دیا جاتا ہے۔ مگر درآمد کنندہ ملک اس فضلے کو ری سائیکل میں ہی شمار کرتا ہے۔ پاکستان کے ساحلوں پربھی ایسا فضلہ بکھرا پڑا ہے، جو سمندری حیات کے لیے نقصان دہ ہے۔
ناقص فضلہ کے انتظام کا ایک نقصان میتھین گیس کا اخراج ہے۔ سڑنا، چاہے قدرتی ہو یا جان بوجھ کر جلانا، لینڈ فل ڈمپنگ، یہ میتھین کے اخراج کا تیسرا بڑا انسانی ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں اس انڈسٹری کو حکومتی سرپرستی حاصل ہے اور بائیوگیس کی جنریشن ایک بڑا کاروبار بن چکا ہے۔ بھارت میں وفاقی اور ریاستی حکومتوں کی مدد سے اب بڑے بڑے بائیو ری ایکٹر تیار کیے جا رہے ہیں۔ ان کمرشل چھوٹے چھوٹے کارخانوں میں تیار ہونے والی گیس کو کسی اور جگہ لے جایا جا سکتا ہے اور گاڑیوں میں ایندھن کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایشیا میں کمپریسڈ بائیو گیس کا سب سے بڑا پلانٹ بھارتی پنجاب میں لہراگاگا میں ہے جس نے 2022 میں کام کرنا شروع کیا تھا۔ اس پلانٹ میں روزانہ 30 ٹن بائیو گیس بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے بائیوگیس پلانٹ بھارت میں کام کررہے ہیں۔
ایک امریکی ریسرچ کے مطابق آئندہ چندسالوں میں حیوانی فضلے اور کوڑا کرکٹ سے بجلی بنانے کی صنعت چار گنا پھیل چکی ہوگی۔ امریکی سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ یہ تو ایک خزانہ ہے، جس سے سالانہ اربوں ڈالر کمائے جاسکتے ہیں۔ یو ایس جیولوجیکل سروے کے لیے کام کرنے والی کیتھلین سمتھ اور ان کی ٹیم نے اس سے پلاٹینم، چاندی اور سونا دریافت کیا ۔ سونے اور چاندی جیسی دھاتوں کے علاوہ موبائل فونز اور کمپیوٹرز کی صنعت میں استعمال ہونے والا تانبا اور ونیڈیم بھی فضلے سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
کیتھلین سمتھ اور ان کی ٹیم کی یہ تحقیق امریکن کیمیکل سوسائٹی کی 249ویں سالانہ میٹنگ میں پیش کی گئی تھی اور اس نے دنیا بھر کے سائنسدانوں کی توجہ حاصل کی تھی۔ برطانیہ کی پہلی فضلے اور غذائی کچرے سے چلنے والی بائیو بس بھی سڑکوں پر چلی۔ ماہرین کے مطابق بایو گیس پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے ایک پائیدار ایندھن ثابت ہو سکتی ہے۔
اب آپ کو بتاتے ہیں کہ آپ گھریلو کچرے سے کس طرح پیسہ بچا اور کما سکتے ہیں۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا کہ پاکستان بہت سے ترقی یافتہ ملکوں کے کچرے کے لیے ایک ڈمپنگ سٹیشن بن چکا ہے تو پاکستان کے بڑے سرمایہ داروں کے لیے ایک بہت ہی پرکشش پہلو یہ ہے کہ وہ ملک میں کچرے سے بجلی پیدا کرنے والے بوائلرپلانٹ لگا سکتے ہیں جس کے لیے انہیں مہنگا پٹرول اور ایندھن نہیں خریدنا پڑے گا بلکہ تقریباً مفت میں ملنے والے کچرے سے سستی بجلی پیدا کرکے وافر آمدنی کماسکتے ہیں اور چھوٹے سرمایہ کار دیگرشہروں میں چھوٹے بوائلر بجلی گھر قائم کر کے ان ہی شہروں کے کچرے کو استعمال کرسکتے ہیں۔ اس طرح ملک میں کچرے سے پھیلنے والی فضائی آلودگی بھی ختم ہوگی اور عوام کو سستی بجلی بھی میسر آجائے گی۔
اب بات کرتے ہیں کہ گھریلو سطح پر کیسے بائیو گیس پیدا کی جاسکتی ہے اور اس سے کس طرح منافع کمایا جاسکتا ہے ۔
سندھ کے دیہات میں گھروں پربھی بائیو گیس کا استعمال رفتہ رفتہ بڑھ رہا ہے۔ گھروالے ہرروزصبح ہی صبح ایک بالٹی گوبر اور کچھ پانی بائیو گیس پلانٹ میں ڈالتے ہیں جس سے گیس بنتی ہے۔ گھروالے صبح کے ناشتے سے رات کے کھانے تک ہر چیز اسی گیس پر پکاتے ہیں۔اس بائیوگیس پلا نٹ سے گھرمیں کھانا پکانے کی ضرویات کے لیے گیس تو ملتی ہی ہے ساتھ ہی ساتھ اس گیس سے جنریٹر چلا کر آپ مفت بجلی بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس طرح یہ پلانٹ ایک چھوٹے گھر کی توانائی کی ضروریات کو بخوبی پورا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
ایسا فضلہ یا کچرا جو گلنے سڑنے کی قابلیت رکھتا ہے اسے نامیاتی مرکب کہا جاتا ہے ۔نامیاتی مرکبات سے دنیا میں انرجی پیدا کرکے اربوں ڈالر کمائے جارہے ہیں ۔ یہ ایک ایسی انڈسٹری ہے جسے گھریلو سطح پربھی آسانی سے شروع کیا جاسکتا ہے۔نامیاتی مرکبات میں بچا ہوا خراب کھانا ،گلی سڑی سبزیاں ، گلے سڑے پھل، فصلوں کی باقیات، گائے بھینس کا گوبر، انسانی فضلہ اور دیگر ایسی اشیا جو گلنے سڑنے کی خوبی رکھتی ہوں، بھی شامل ہیں۔ گھر کے ضائع ہونے والے سالن، دودھ، سبزی اور پھلوں کے چھلکوں وغیرہ کو استعمال کر کے بھی گیس تیار کی جاسکتی ہے۔ان تمام چیزوں سے متھین گیس حاصل ہوتی ہے یہ ایک ایسی گیس ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے 25 گنا زیادہ گرم ہوتی ہے۔ اس گیس کی کوئی بو نہیں ہوتی اور نہ ہی جلنے سے یہ گیس دھواں پیدا کرتی ہے اس لیے اسے گرین انرجی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ گیس کچرے کے ڈھیروں پر تو صرف تعفن پیدا کرتی ہے لیکن اگر اسے سائنسی طریقے سے حاصل کیا جائے تو اس سے بہت سے فائدے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ پہلا فائدہ یہ ہے کہ اس گیس کو سوئی گیس کی جگہ کھانا پکانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اس طرح سردی ہو یا گرمی ہرموسم میں بلا تعطل گیس بھی ملتی رہے گی اور اس کا کوئی بل بھی ادا نہیں کرنا پڑے گا۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس گیس سے جنریٹر کے ذریعے گھر کی بجلی مفت پیدا کی جاسکتی ہے اس طرح ایک عام آدمی اپنے گھر کے ہزاروں روپے کے بجلی بلوں سے چھٹکارا حاصل کرسکتا ہے۔ یہ تو ہو گیا گھرکے کچرے سے پیسہ بچانے کا انتظام۔ اب پیسہ کمانے کی بات کی جائے تو اس کا تیسرا فائدہ یہ ہے کہ جس کچرے سے آپ گیس حاصل کرچکے ہیں وہ ایک نامیاتی کھاد میں بدل چکا ہوتا ہے۔ یہ نامیاتی کھاد کھیتوں میں فصلوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت ہوتی ہے۔ اس طرح اس کھاد کو بیچ کر مستقل آمدنی کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے اس گیس کو سائنسی طریقے سے کس طرح حاصل کیا جائے اور اس سے گیس ،بجلی اور کھاد کیسے حاصل کی جائے تو اس مقصد کے لیے ایک گھریلو بائیو گیس پلانٹ کی ضرورت ہوگی۔ اس پلانٹ کا سائز اور شکل پاکستان میں پانی گرم کرنے والے گیزر کی طرح ہوتی ہے۔ یہ پلانٹ تین حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ دو تہوں والے ڈرم کے درمیانی حصے میں ایک ہی دفعہ تھوڑا سا گوبر ڈال کر بیکٹیریا کی نشوونما شروع کر دی جاتی ہے جس کے بعد اس ڈرم میں گھر کا کچرا اور کسی بھی قسم کا نامیاتی فضلہ ڈالنا ہوتا ہے تاکہ گیس کی ترسیل جاری رہے۔ ڈرم کے بیرونی حصے میں گیس ذخیرہ ہوتی رہتی ہے جسے گھرمیں گیس کی ترسیل کے نظام یعنی گیس کے پائپوں سے جوڑ دینا ہوتا ہے۔ منی گیس پلانٹ کا تیسرا حصہ ایک چھوٹی سولر پلیٹ پر مشتمل ہوتا ہے جو شمسی توانائی کے ذریعے پلانٹ کو مطلوبہ درجہ حرارت فراہم کرتی ہے۔ اس پلانٹ کو اپنے گھر کی چھت پر نصب کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں اس طرح کے پلانٹ بہت سے شہروں میں رواج پارہے ہیں فیصل آباد میں سرکاری سطح پر اس طرح کے بائیو گیس پلانٹ بنانے اورانہیں آپریٹ کرنے کی عملی تربیت بھی دی جارہی ہے ۔
مضمون نگارایک اخبار کے ساتھ بطورایسوسی ایٹ ایڈیٹرمنسلک ہیں۔
[email protected]
تبصرے