کرہ ارض پر اصل میں ایک ہی سمندر ہے جسے عالمی سمندر کہا جاتا ہے جس نے دنیا کی تقریباً 70 فیصد بیرونی سطح کو گھیر رکھا ہے۔ سمندر کے ایک کونے سے دوسرے تک کسی رکاوٹ کے بغیر بہنے والا یہ پانی دنیا کے کل پانی کا 97 فیصد ہے۔ بہت بڑے سمندر کو بحر یعنی Ocean کہا جاتا ہے۔ جبکہ نسبتاً چھوٹے سمندر کو بحیرہ کہتے ہیں۔ سمندر یا بحیرہ نمکین پانی کے ایک بڑے پھیلائو کو کہتے ہیں، جو بحر یعنی اوشن کے ساتھ منسلک ہوتا ہے۔ جغرافیہ دانوں نے بہت برسوں تک اس عالمی سمندر کو چار حصوں میں تقسیم کیے رکھا۔
بحراوقیانوس، بحرالکاہل، بحرہند، بحرمنجمد شمالی۔
ان سمندروں کے علاوہ انہوں نے نمکین پانی کے چھوٹے حصوں کی بھی وضاحت کر رکھی ہے، جن میں بحیرے، خلیجیں اور دریائوں کے آخری سرے شامل ہیں۔ 2000ء میں پانچویں سمندر کو باقاعدہ تسلیم کیا گیا۔ یہ بحرِجنوب ہے جس میں انٹارکٹیکا کے اردگرد کا پانی شامل ہے۔ جبکہ عرف عام میں انہیں پانچ کی بجائے سات سمندر بھی کہا جاتاہے جس کے بارے شعرائے کرام کہتے ہیں کہ محبوب سات سمندر پار چلا گیا ہے۔
بحرالکاہل:
یہ دنیا کا سب سے بڑا سمندر ہے۔ یہ دنیا کے 32فیصد رقبے پر محیط ہے اور خشکی کے رقبے کے تقریباً مساوی ہے۔ اس کا نام لاطینی لفظ Mare Pacificum سے نکلا ہے جس کا مطلب پرسکون سمندر ہے۔ بحر الکاہل میں تقریباً 25 ہزارجزائر ہیں جو دنیا بھر کے سمندر میں موجود کل جزیروں کی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔ بحرالکاہل مغربی نصف کرہ میں بحرِجنوب، ایشیا اور آسٹریلیا کے درمیان واقع ہے۔ اس کی اوسط گہرائی تقریباً13000فٹ ہے، لیکن اس کا گہرا ترین مقام جاپان کے نزدیک ماریانا ٹرنچ میں چیلنجر ڈیپ ہے۔ یہ دنیا کا بھی گہرا ترین مقام ہے جس کی گہرائی 35,853 فٹ ہے۔بحرالکاہل جغرافیائی لحاظ سے اہم ہے، جس کا سبب حجم ہی نہیں، بلکہ یہ کھوج اور ہجرت کا اہم تاریخی راستہ بھی رہا ہے۔
بحرِاوقیانوس:
بحرِاوقیانوس دنیا کا دوسرا سب سے بڑا سمندر ہے جو 85133000مربع کلومیٹر وسیع ہے۔ مغربی نصف کرہ میں یہ افریقہ، یورپ اور بحرِجنوب کے درمیان واقع ہے۔ اس میں بحیرہ بالٹک، بحیرہ اسود، بحیرہ کریبین، خلیج میکسیکو، بحیرہ روم اور بحیرہ شمالی شامل ہیں۔ بحرِاوقیانوس کی اوسط گہرائی تقریباً 12,000فٹ ہے اور اس کا گہرا ترین مقام پورٹوریکو ٹرنچ ہے جس کی گہرائی 28,231 فٹ ہے۔ بحرِاوقیانوس کا کردار دنیا کے موسم میں بہت اہم ہے کیونکہ شدید اوقیانوسی سمندری طوفان عام طور پر کیپ وردی، افریقہ میں پیدا ہوتے ہیں اور اگست سے نومبر تک بحیرہ کریبین کی طرف حرکت کرتے ہیں۔
بحرِجنوب:
بحرِجنوب دنیا کا تازہ ترین اور چوتھا بڑا سمندر ہے۔ 2000 ء کے موسم بہار میں انٹرنیشنل ہائیڈروگرافک آرگنائزیشن نے پانچویں سمندر کی حدود متعین کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایسا کرتے ہوئے بحرالکاہل، بحرِاوقیانوس اور بحرِہند کی حدود کو شامل کیا گیا۔ بحرِجنوب انٹارکٹیکا کے ساحل سے 60درجے جنوبی عرض بلد پر ہے۔ اس کا کل رقبہ 20,327,000 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کی اوسط گہرائی 13,100 سے 16,400 فٹ کے مابین بتائی جاتی ہے۔ بحرِجنوب کی سب سے گہری جگہ کا نام نہیں رکھا گیا لیکن یہ ساوتھ سینڈوچ ٹرنچ کے انتہائی جنوب میں ہے ۔
بحرِمنجمد شمالی:
یہ سب سے چھوٹا سمندر ہے اور14,060,000 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ یورپ، ایشیا اور شمالی افریقہ کے درمیان واقع ہے۔ اس کا زیادہ تر پانی دائرہ قطب شمالی (آرکٹک سرکل)کے شمال میں ہے۔ سمندر کی اوسط گہرائی 3406 فٹ ہے اور اس کا سب سے گہرا مقام فرام بیسن ہے جو 18,210فٹ گہرا ہے۔ سال کے زیادہ تر عرصے میں بحرِمنجمد بہتے قطبی برفانی تودوں سے ڈھکا رہتا ہے۔ لیکن کرہ ارض کے موسم میں تبدیلی کی وجہ سے قطبی علاقے گرم ہو رہے ہیں اور موسمِ گرما میں زیادہ تر برفانی تودے پگھل جاتے ہیں۔ شمال مغربی بحری راستہ اور شمالی سمندری راستہ تاریخی طور پر تجارت اور کھوج کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں۔
بحرِہند:
بحرِہند دنیا کا تیسرا سب سے بڑا سمندر ہے اور اس کا رقبہ 70,560,000مربع کلومیٹر ہے۔ یہ افریقہ، بحرِجنوب، ایشیا اور آسٹریلیا کے درمیان واقع ہے۔ بحرِہند کی اوسط گہرائی 12,274فٹ ہے اور اس کا سب سے گہرا مقام سوندا ٹرنچ ہے جو 23,920فٹ گہرا ہے۔ بحرِہند میں انڈامان، عرب، فلورس، جاوا اور احمر جیسے بحر کے ساتھ ساتھ خلیج بنگال، عظیم آسٹریلوی کھائی، خلیج عدن، خلیج اومان، موزمبیق چینل اور خلیج فارس شامل ہیں۔ یہ سمندر مون سون کے موسمیاتی نظام کا سبب بنتا ہے جو جنوب مشرقی ایشیا میں اہم ہے۔ اس میں تنگ بحری راستے بھی موجود ہیں۔
بحر ہند کے کنارے واقع ممالک اور علاقے
افریقہ : جنوبی افریقا، موزمبیق، مڈغاسکر، موریشس، مایوٹ، اتحاد القمری (کامروس)، تنزانیہ، سیچیلیس، کینیا، صومالیہ، جبوتی، اریتریا، سوڈان، مصر
ایشیا : عراق، ایران، پاکستان، بھارت، مالدیپ، برطانوی بحرہند خطہ، سری لنکا، بنگلہ دیش، میانمار (برما)، تھائی لینڈ، ملائیشیا، انڈونیشیا، جزائر کوکوس، جزیرہ کرسمس انڈونیشیا،آسٹریلیشیا : مشرقی تیمور، آسٹریلیا۔
جنوبی بحر ہند : آسٹریلیا کا پرچم جزیرہ ہرڈ و جزائر مکڈونلڈ، سرزمین جنوبی فرانسیسیہ و انٹارکٹیکا۔
انسانی تاریخ میں انسان نے انسانوں کے خلاف زمین کے بعد سب سے زیادہ جنگیں سمندروں میں لڑیں ۔ ایک وقت تھا جب تیز ترین سفر کا ذریعہ سمندر تھا اور تجارتی ذریعے کے طور پر تو آج بھی سمندر کی اہمیت روز ِ اول جیسی ہی ہے ۔ مختلف ممالک اور اقوام کے درمیان سمندری ملکیت ، حدود اور راستوں کی بنیاد پر اختلافات اور جنگیں ہوتی آئی ہیں اور یہ تنازعات آج بھی موجود ہیں ۔
سمندروں کی تصفیہ اور بین الاقوامی قوانین کی ضرورت مندرجہ ذیل طریقے سے سامنے آئی۔
٭ 17 ویں صدی میں، "سمندروں کی آزادی" کا تصور قائم کیا گیا، جہاں قومی حقوق پانی کی ایک مخصوص پٹی تک محدود تھے جو کسی ملک کی ساحلی پٹی، عام طور پر 3 سمندری میل تک پھیلے ہوئے تھے۔
٭ 20 ویں صدی کے اوائل میں، کچھ قومیں معدنی وسائل کو شامل کرنے، مچھلیوں کے ذخیرے کی حفاظت اور آلودگی کے کنٹرول کو نافذ کرنے کے قومی دعوئوں کو بڑھانا چاہتی تھیں۔
٭1945 میں، صدر ہیری ایس ٹرومین نے ریاست ہائے متحدہ کو اس کے براعظمی شیلف کے تمام قدرتی وسائل تک محدود کر دیا۔
٭ 1946 اور 1950 کے درمیان چلی، پیرو اور ایکواڈور نے اپنے حقوق کو 200 سمندری میل کے فاصلے تک بڑھا دیا۔
٭ لیگ آف نیشنز نے 1930 میں دی ہیگ میں ایک کانفرنس بلائی، لیکن کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔
٭1958 میں، اقوام متحدہ نے جنیوا، سوئٹزرلینڈ میں سمندر کے قانون پر اپنی پہلی کانفرنس (UNCLOS I) منعقد کی، جس کے نتیجے میں چار معاہدے ہوئے۔
٭سمندر کے قانون پر دوسری کانفرنس (UNCLOS II) 1960 میں منعقد ہوئی لیکن اس کے نتیجے میں کوئی نیا معاہدہ نہیں ہوا۔
٭ علاقائی پانیوں کے مختلف دعوئوں کا مسئلہ مالٹا کے اروڈ پارڈو نے 1967 ء میں اقوام متحدہ میں اٹھایا تھا۔
٭1973 میں، سمندر کے قانون پر اقوام متحدہ کی تیسری کانفرنس نیویارک میں منعقد ہوئی، جو 1982 تک جاری رہی اور اس کے نتیجے میں سمندر کے قانون پر اقوام متحدہ کا کنونشن (UNCLOS) ہوا جو کہ 1994میں نافذ ہوا، گیانا ایک سال بعد اس معاہدے کی توثیق کرنے والا 60 واں ملک بن گیا ۔
٭پاکستان کے سمندری علاقے کو 19 مارچ 2015 کو اقوام متحدہ کے کمیشن آن دی لِمٹس آف دی کانٹینینٹل شیلف (UNCLCS) نے بڑھایا ۔اس توسیع نے پاکستان کی سمندری حدود کو 200 ناٹیکل میل سے بڑھا کر 350 ناٹیکل میل کر دیا ہے۔
ملک کا سمندری پٹی کا علاقہ تقریبا 50,000 مربع کلومیٹر بڑھ گیا۔ اس توسیع نے پاکستان کو علاقے کے قدرتی وسائل پر کنٹرول دے دیا۔ جو کہ UNCLCS کی طرف اس قبولیت کے نتیجے میں ممکن ہو سکا جب سات رکنی ذیلی کمیشن نے ایک سال تک پاکستان کے کیس کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ پاکستان کے حق میں دیا۔
٭ یہ دعویٰ عمان کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد ممکن ہوا، کیونکہ دعویٰ کیا گیا تھا کچھ علاقہ عمانی سرزمین سے متجاوز ہواہے ۔
٭اگرچہ پاکستان ایک عرصے تک بحرہند کے اہم تجارتی راستے کا ساحل رکھنے کے باوجود اپنے تجارتی حجم اور سیاسی حالات کے باعث بحر ِ ہند میں ملکی حفاظت اور روزمرہ کی تجارت تک محدود رہا مگر گزشتہ سالوں سے بحرہند کی بڑھتی ہوئی سٹریٹیجک اہمیت کے پیش نظر اپنے سمندری کردار کو مزید توسیع دینے کی طرف متوجہ ہوا ہے ۔
بحر ہند مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر جغرافیائی وسیاسی لحاظ سے اہم ہے۔۔۔۔۔۔۔
بڑے سمندری راستے: بحر ہند کئی اہم سمندری راستوں کا گھر ہے، جن میں آبنائے ہرمز، آبنائے ملاکا اور آبنائے باب المندب شامل ہیں، جو عالمی تجارت میں سہولت فراہم کرتے ہیں۔
جیو پولیٹیکل کھلاڑی:
کئی علاقائی اور عالمی طاقتوں کے بحر ہند میں تزویراتی مفادات ہیں، بشمول بھارت، چین اور امریکہ۔
میری ٹائم سکیورٹی:
بحر ہند کو بحری قزاقی، دہشت گردی اور غیر قانونی ماہی گیری جیسیسکیورٹی چیلنجوں کا سامنا ہے۔
ماحولیاتی خدشات:
بحر ہند میں ماحولیاتی مسائل میں موسمیاتی تبدیلی، آلودگی اور ضرورت سے زیادہ ماہی گیری شامل ہیں۔
علاقائی دشمنیاں:
علاقائی طاقتوں، خاص طور پر بھارت اور چین کے درمیان دشمنی نے کشیدگی کو بڑھا دیا ہے اور ممکنہ طور پر ہتھیاروں کی دوڑ اور تنازعات کے بڑھتے ہوئے خطرے کا باعث بنے ہیں۔
تعاون کے مواقع:
چیلنجز کے باوجود، بحر ہند ممالک کے درمیان بحری سلامتی تعاون، ماحولیاتی تحفظ اور اقتصادی شراکت جیسے شعبوں میں تعاون کے مواقع بھی پیش کرتا ہے۔
اس تناظر میں پاکستان نے درج ذیل اقدامات اٹھائے ہیں .
پاکستان نے بحر ہند میں اپنی پوزیشن کو محفوظ بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں:
1۔گوادر پورٹ ڈویلپمنٹ:
پاکستان نے چین کے ساتھ مل کر گوادر پورٹ تیار کی ہے، جو بحر ہند تک رسائی فراہم کرتی ہے اور ایک اسٹریٹجک تجارتی مرکز کے طور پر کام کرتی ہے۔
2۔ میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی:
پاکستان نے اپنے بحری مفادات کے تحفظ اور میری ٹائم قانون کو نافذ کرنے کے لیے میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی (MSA) قائم کی ہے۔
3 ۔بحری ٹیکنالوجی میں جدت اور ترقی :
پاکستان نے بحر ہند میں اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے اپنی بحریہ کو نئے بحری جہازوں، آبدوزوں اور جدید آلات سے مزئین کیا ہے ۔
4۔ سٹریٹیجک اتحاد:
پاکستان نے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے چین، ترکی اور سعودی عرب جیسے ممالک کے ساتھ اسٹریٹجک اتحاد قائم کیا ہے۔
5۔ انڈین اوشین رم ایسوسی ایشن (IORA) کی رکنیت:
پاکستان IORA کا رکن ہے، جو بحر ہند کی ریاستوں کے درمیان علاقائی تعاون اور اقتصادی انضمام کو فروغ دیتا ہے۔
6۔ پاکستان میری ٹائم زون:
پاکستان نے اپنے سمندری وسائل کی حفاظت کے لیے اپنا میری ٹائم زون قائم کیا ہے، جس میں خصوصی اقتصادی زون اور کانٹی نینٹل شیلف شامل ہیں۔
7 ۔کوسٹل ڈویلپمنٹ:
پاکستان نے ساحلی ترقی کے منصوبے شروع کیے ہیں جن میں ساحلی سڑکوں، بندرگاہوں اور صنعتی زونز کی تعمیر شامل ہے۔
8 ۔ فشریز مینجمنٹ:
پاکستان نے سمندری وسائل کے تحفظ اور پائیدار ماہی گیری کے طریقوں کو فروغ دینے کے لیے ماہی گیری کے انتظام کی پالیسیاں نافذ کی ہیں۔
9 ۔سمندری آلودگی کنٹرول:
پاکستان نے سمندری آلودگی پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے ہیں، جن میں سمندری تحفظ والے علاقوں کا قیام اور فضلے کو ٹھکانے لگانے کے ضوابط شامل ہیں۔
10۔علاقائی مشغولیت:
پاکستان علاقائی تعاون اور اقتصادی انضمام کو فروغ دینے کے لیے جنوبی ایشیائی تنظیم برائے علاقائی تعاون (SAARC) اور خلیج بنگال انیشیٹو فار ملٹی سیکٹرل ٹیکنیکل اینڈ اکنامک کوآپریشن جیسی علاقائی تنظیموں کے ساتھ مشغول ہے۔
یہ اقدامات بحر ہند میں اپنی پوزیشن کو محفوظ بنانے اور اپنے سمندری مفادات کو فروغ دینے کے لیے پاکستان کی کوششوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ خطے میں امن و سلامتی اور معاشی و تجارتی بہتری کے لیے ریاست پاکستان کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی ادارے اگلے چند سالوں تک پاکستان کی گریٹ20 ممالک میں شمولیت کی پیش گوئی کر رہے ہیں، ایک روشن اور سنہرا مستقبل اب بہت قریب ہے ۔
مضمون نگار معروف شاعر، مصنف اور تجزیہ کار ہیں۔
[email protected]
تبصرے