یہ سال 1999 کی بات ہے جب پاکستان میں آزادیِ صحافت کا ایک انقلاب برپا ہوا۔ صدر مشرف کا دور شروع ہوتے ہی کم و بیش 40نیوز چینلز یکے بعد دیگرے منظرِ عام پر آئے۔ آزادی ِ رائے کے لیے تو بلا شبہ یہ ایک خوش آئند پیش رفت تھی مگر اس کے ساتھ ساتھ معاشرتی سطح پر اس کے کچھ منفی اثرات مرتب ہونے کا سلسلہ بھی شروع ہونے لگا۔ دنیا بھر میں انٹرٹینمنٹ اور حالاتِ حاضرہ اپنا توازن قائم رکھتے ہوئے ساتھ ساتھ چلتے اور بڑھتے ہیں تاکہ عوام کے شعوری اور تفریحی میلانِ طبع کو متواتر طور پر ملحوظِ خاطر رکھا جا سکے ۔ تفریحی مواد بھی درحقیقت معاشرتی اعتبار سے شعوری ساخت کو ہی تقویت دیتا ہے۔
اس وقت ملک بھر میں کم و بیش 88 رجسٹرڈ ٹی وی چینلز کام کر رہے ہیں۔ جن میں سے 26 بطور نیوز چینل رجسٹر ہیں جبکہ 37 کے قریب کا انٹر ٹینمنٹ کا لائسینس ہے۔ اس کے علاوہ 18 ٹی وی چینلز کے پاس مذہبی تعلیمات کی ترسیل کا لائسینس موجود ہے اور7 چینلز ایسے ہیں جو سپیشلائزڈ موضوعات سے متعلق مواد نشر کرتے ہیں۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ نیوز چینلز یا ذرائع ابلاغ کے چینلز پائے جانے والے 234 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا چوبیسواں نمبر ہے جبکہ اس کے برعکس، خواندگی کے لحاظ سے پاکستان دنیا بھر کاایک سو ساٹھواں (160) ملک ہے۔
دوسری جانب کچھ ہی عرصے بعد ہمارا انٹر ٹینمنٹ ٹی وی بھی میدان میں اُترا یہ یقینا ایک خوش آئند امر تھا لیکن بعض ٹی وی چینلز نے عوام کو تفریحی مواد کے نام پر غیرمعیاری کہانیوں کے ذریعے بے راہ روی کے نئے راستے دکھائے ۔ گھریلو سیاست اور چالبازیوں پر مبنی وہ وہ کہانیاں دکھائی گئیں جن کی وجہ سے سماجی اقدار پر کئی سوال اٹھنے لگے۔ کئی محترم رشتوں کی نا مناسب عکاسی کی گئی۔بے حدپیچیدہ پائے جانے والے معاشرتی مسائل کو بڑھا چڑھا کر اور انتہائی بے ہنگم طریقے سے دکھایا گیا۔
ذرائع ابلاغ نے انسانی تاریخ کے اس ارتقائی سفر میں بلاشبہ ایک اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔میڈیا ہمیشہ سے انسان کے لیے اطلاعات و ابلاغ کے آلات کے طور پر استعمال ہوتا آیا ہے مگر دور گزرنے کے ساتھ ساتھ اب میڈیا انسان کو بطور آلات استعمال کرنے لگا ہے ۔ مشہورامریکی دانشور پروفیسر نوم چومسکی کے مطابق عوام کو اس بات کی آگاہی دینا بے حد ضروری ہے کہ میڈیا نظام کے اندر موجود ڈھانچے کے تعصبات کو سمجھا جائے۔ کوئی بھی خبر بلاوا سطہ یا بالواسطہ کسی نہ کسی تعصب کا شکار ہو سکتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ پروفیسر چومسکی میڈیا لٹریسی یعنی خواندگیِ ذرائع ابلاغ کی اہمیت کی تائید کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی بہت سی تصانیف اور ریسرچز میں اس کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق عام عوام جسے میڈیا کی سوجھ بوچھ یا شعورِ عامہ نہیں وہ میڈیا کے سامنے ایسے ہیں جیسے کسی دو چار برس کے بچے کو ہائی وے پر چھوڑ دیا جائے جہاں بھاری ٹریفک آجا رہی ہو۔
خبر کی صداقت بھی ایک بہت بڑا پہلو ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مخدوش ہو رہا ہے۔ ٹی وی چینلوں کے ساتھ ساتھ اب سوشل میڈیا نے تو جیسے جلتی پر آگ کا کام کر دیا ہو۔ نت نئے سوشل میڈیا اکائونٹ غیر مصدقہ اطلاعات کی بے دھڑک تشہیر کر رہے ہیں جن کی کوئی ساکھ ہے نہ ہی صحافت سے متعلقہ کسی قسم کی کوئی روائتی تعلیم۔یہ وہ نقطہِ ظن ہے جہاں بدقسمتی سے ریاست کا ایک اہم ستون غیر پیشہ ورانہ اور'' خود ساختہ صحافیوں'' کے ہاتھ میں جانے سے معاشرتی بگاڑ اورایک معاشرتی استحصال کی شکل اختیار کرنے لگا ہے۔ مصدقہ خبر کی سامعین تک ترسیل ہی صحافت کی اصل روح اور ترجیحی ذمہ داری ہے۔ سوشل میڈیا کا ایک غور طلب پہلو جو اسے منفرد بناتا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں عام آدمی اپنی ذاتی اظہارِ رائے دے سکتا ہے جسے فیڈ بیک کہا جاتا ہے۔سوشل میڈیا دور نے چیلنچز کے نئے پہاڑ کھڑے کر دیے ہیں ۔ اپنے روزمرہ کی دفتری، سماجی یا گھریلو نوعیت کی دبی ہوئی تمام بھڑاس سوشل میڈیا پر نکالی جاتی ہے جس سے سوشل میڈیا سپیس نفرت ، غصے اور تعصبات سے آلودہ تر ہوتی جا رہی ہے۔
پچھلے کچھ ہی سالوں میں معاشرے کے مختلف رویوں میں ایک غیر معمولی شدت پسندی دیکھی گئی ہے۔ چاہے مذہبی برداشت کا معاملہ ہو ، سیاسی نظریات کو لے کر انفرادی یا اجتماعی برتائو ہو یا پھر رشتے ناتوں کے آپسی میل جول یا رہن سہن کے معیار ہوں ، ایسی بڑھتی عدم برداشت کبھی بھی ہماری اقدار اور روایات کا حصہ نہیں رہیں۔ سوشل میڈیا پر میسر خود مختاری کے ذریعے دراصل ہم وہی پوسٹ دیکھتے ہیں جو ہمیں پسند ہو یا ہماری سوچ کی تائید کرتی ہو۔ یہ پوسٹ ، وڈیو یا خبر کہیں سے بھی کسی بھی غیر ذمہ دار توسط سے نشر کر دی جاتی ہے۔ لہٰذا اس کے مصدقہ اور معیاری ہونے کی ضمانت نہیں ہوتی جس سے مجموعی طور پر آگاہی کا معیار متاثر ہوتا ہے۔ یہ بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکے جانے جیسا ہی ہے جو بغیر سوچے سمجھے بغیر کسی تصدیق کے محض دائیں بائیں دیکھتے ہوئے ریوڑ کی چال سے اندازہ لگا کر کسی بھی راستے پر چلنے لگتی ہیں۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنے پرانے دور کے نفیس اور قدآور دانشور ، ادیب یا صوفیا کو بھلا دیا ہے اور بد قسمتی سے ان کا متبادل انتہائی عام فہم شعبدہ بازوں کو بنا دیا ہے۔ ہم اپنی معاشرتی ابلاغ جیسی اہم ذمہ داری ان ہرزہ سرا افراد کے حوالے کر چکے ہیں ۔ تو جب عوام الناس کی تبلیغ و آگاہی کا بیڑہ ذی شعور مبلغوں کے بجائے ٹھٹھول بازوں کے حوالے کر دیا جائے گا تو معاشرتی سطح پر شعور کا معیارقابلِ فکر حد تک محدود اور ساتھ ہی ساتھ مضر ہو کر رہ جائے گا۔ خطرے کی بات یہ ہے کہ اس کا نشانہ خاص طور پر نئی نسل ہے جس سے ہمارا معاشرتی مستقبل جڑا ہے۔ کیا بابا بلھے شاہ، غلام فرید، محمد بخش، رحمان بابا ، شاہ عبدلطیف یا مست توکلی جیسے مقدس اتالیقوں کی دی گئی ابدی اور حقیقی معاشرتی تبلیغ سے ہماری نسل کبھی فیض یاب ہو پائے گی۔ یہ وہ صوفی بزرگ اعلیٰ شخصیات ہیں جنہوں نے برسوں غیر خواندہ ہی سہی مگر ہماری عوام کی اخلاقی ، شعوری اور معاشرتی تعلیم کو تقویت بخشی ، کبھی اس نئے میڈیا سے ہمیں اشفاق احمد ، واصف علی واصف یا فیض جیسے مبلغ اور ان سے میسر ہوتی نفیس اور اعلی معاشرتی تربیت مل سکے گی؟ اس کا سدِباب وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
بے شک میڈیا زندگی کا ایک اہم جزو ہے جس کا استعمال انسانی سوچ کی ترقی اور ارتقا کے لیے اہم ہے۔ پاکستان میں میڈیا کا انقلاب بلاشبہ ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے ۔ جہاں میڈیا معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتا دکھائی دیتا ہے ، وہیں بلاشبہ پاکستان میں میڈیا کے انقلاب سے عوام الناس کے برتائو اور سوچ میں مثبت آگاہی کے سلسلے بھی استوار ہوئے ہیں۔ حالاتِ حاظرہ ہو یا انٹرٹینمنٹ دونوں میدانوں میں موجود کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے ہمیں ترجیحی طور پر اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ میڈیا کو ناخواندہ عوام کی شعوری تربیت کے لیے فعال بنایا جا سکے۔ میڈیا میں اصلاحات اور ساتھ ہی ساتھ عوام میں ہر قسم کے میڈیا کو استعمال کرنے کا شعور بیدار کرنا ہی ہمارے معاشرے کے اس بڑھتے بگاڑ کا حل ہے ۔ ریاست کے ستونوں میں میڈیا بھی شامل ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنی نئی نسل کو نصابی سطح پر اس کی آگاہی دینا ہوگی ۔ محض ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کا استعمال ، اس کے تعصبات اور صداقت کے طرزِعمل کو جانتے ہوئے خود کو تیار کیا جائے تاکہ میڈیا اور ہم مثبت انداز سے ساتھ ساتھ چل کر ایک روشن مستقبل کی جانب گامزن ہو سکیں ۔
مضمون نگار عسکری و دیگر موضوعات پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے