پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اورزراعت اس کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔پاکستان کی مجموعی قومی آمدن (جی ڈی پی)کا تقریباً 18.5فیصد زراعت پر مشتمل ہے ،64فیصد دیہی باشندوں کی روزی روٹی زراعت سے وابستہ ہے اور کل قومی لیبر فورس کا تقریباً 43فیصد زراعت پر مشتمل ہے۔پاکستان دنیا کے ان 11بڑے ممالک میں سے ایک ہے جن کے پاس وسیع اور زرخیز زرعی زمین موجود ہے۔دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام پاکستان میں ہے ۔ملک بھر میں چار موسموں کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں گرم ،سرد اور معتدل آب وہوا دی ہے جس میں بہت سی فصلیں کامیابی سے اُگائی جاسکتی ہیں ۔مگر ہم اپنے زرعی شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے حوالے سے خطے کے دیگر ممالک سمیت دنیا بھر سے بہت پیچھے ہیں۔اس وقت ضرورت ہے کہ اس شعبے پر خصوصی طور پر توجہ دی جائے، بنجر زمینوں کو زیر کاشت لایا جائے کیونکہ اس سے ملکی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں ،بنجر زمینوں کو کاشت کے قابل بنانے اور لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے 2023ء میں پاک فوج کے تعاون سے وطن عزیز میں زرعی انقلاب لانے کے لیے ایک بڑے منصوبے ''گرین پاکستان انیشیٹو''(جی پی آئی) کا اعلان کیا گیا ،بیرونی سرمایہ کاری سے شروع ہونے والا یہ منصوبہ ملکی معاشی استحکام کا ضامن اور زرعی انقلاب کی نوید ہے۔ اس کی تعبیر کا سہرا آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے سر ہے اور یہ بنیادی طور پر انہی کاInitiativeہے۔
اسے المیہ ہی کہیں گے کہ اناج کی کمی کے شکار پاکستان کی 9.4ملین ہیکٹرز قابل کاشت زمین بنجر پڑی ہے۔سب سے زیادہ زمین 4.87ملین ہیکٹرز بلوچستان میں ہے۔ جبکہ 1.74ملین،سندھ 1.45ملین ہیکٹرز اور خیبر پختونخواہ میں 1.08ملین ہیکٹرز اراضی پر کوئی فصل کاشت نہیں ہوتی ۔آرمی چیف نے بنجر زمینوں کو لہلہاتے کھیتوں میں بدلنے کا جو مشن شروع کیا ہے وہ ملک کی ضرورت اور قوم کی خوشحالی کا راستہ ہے، اس پر تیزی سے کام جاری ہے ۔اب تک گرین پاکستان انیشیٹومنصوبے کے تحت 0.9ملین ایکٹراراضی الاٹ کی جاچکی ہے جس میں پنجاب میں811,619ایکٹر،سندھ 52,713ایکٹر،بلوچستان میں 47,606اور خیبر پختونخواہ میں74,140ایکٹر اراضی شامل ہے۔ چولستان میں کارپوریٹ فارمنگ شروع ہوچکی ہے اور اب تک دولاکھ ایکٹراراضی کا معاہدہ ہوچکا ہے ۔گرین پاکستان انیشیٹوکابنیادی مقصد جدید کارپوریٹ فارمنگ کے ساتھ ساتھ چھوٹے کسانوں کی مدد کرنا ہے،جو پاکستان کی زرعی شعبے کا 95فیصد ہیں ۔کچھ لوگ اس منصوبے کے بارے میں بے جا خدشات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں ۔ان کے مطابق اس سے چھوٹے کسان بے روزگار ہوجائیں گے۔ان سے زمینیں چھین لی جائیں گی ۔اتنے بڑے منصوبے کے لیے پانی کہاں سے آئے گا؟آمدن کا 50فیصد غیرملکی سرمایہ کار لے جائیں گے وغیرہ وغیرہ ۔پہلی بات یہ ہے کہ لاکھوں ایکٹر سرکاری اراضی بنجر پڑی ہے اسی پر کارپوریٹ فارمنگ ہوگی ۔اس سے کسانوں کے بے روزگار ہونے کادور دور تک کوئی تعلق نہیں ۔جہاں تک پانی کی فراہمی کا معاملہ ہے توپاکستان میں زیر زمین پانی بکثرت موجود ہے حکومت متعلقہ علاقوں میں چھوٹے چھوٹے ڈیم بناکر اس مسئلے پر قابوپالے گی۔
صحرائے چولستان گرین پاکستان انیشیٹو کی ابتدائی توجہ کا مرکز ہے۔پاک فوج نے فرنٹیئرورکس آرگنائزیشن کی مدد سے صحرائے چولستان میں 5لاکھ ایکٹر سے زائد زمین کو کاشت کے لیے ہموار کرلیا ہے۔جدید زرعی آلات اور انتہائی مؤثر آبپاشی کے نظام کے استعمال کے ساتھ (بشمول ڈرپ ایری گیشن سسٹم ،رین گن ،سنٹرل پیوٹ سسٹم اور سپر نکلر سسٹم )جدید ٹیکنالوجیز ،جسے سمارٹ فارمنگ بھی کہاجاتا ہے ،کو جی پی آئی کے تحت کاشت کاری میں استعمال کیا جارہا ہے ۔Green Pakistan Initiative کے تحت پاک فوج غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔اس سے ملک کا زراعت سے منسلک درآمدات پر انحصار کم ہوجائے گا۔جدید ٹیکنالوجی اور آبپاشی کے ایک انتہائی مؤثر نظام کے استعمال سے چولستان کا صحرا سرسبز وشاداب ہوجائے گا۔جی پی آئی کے تحت جنوبی بلوچستان کے علاقے دشت میں ایک لاکھ ایکٹرزرعی زمین پر اس پائلٹ پراجیکٹ( آزمائشی منصوبے) کا آغاز کیاگیاہے۔ ابتدائی طور پر یہ منصوبہ دومراحل میں شروع کیا گیا تھا،پہلے مرحلے میں نومبر ،دسمبر 2023میں 800ایکٹر زمین کے لیے پانی کی فراہمی کے لیے40سولر ٹیوب ویلز لگائے گئے جس میں اس زرعی زمین سے 80فیصد گندم جبکہ 20فیصد تربوزکی فصل کاشت کی گئی ۔دوسرے مرحلے میں 1660ایکٹر زمین کے لیے 83سولر ٹیوب ویلز لگائے گئے ۔ابتدائی طور پر یہ منصوبہ 2200ایکٹر زمین کے لیے تھا مگر مقامی لوگوں کے اصرار پر مزید سولر ٹیوب ویلز لگائے گئے جس کی وجہ سے 10فیصد پیاز جبکہ 65فیصد کپاس کی فصل کاشت کی جارہی ہے۔95فیصد بنجر زمین کو ہموار کر کے 2460ایکٹر زمین کو کاشت کاری کے قابل بنایا گیا ہے۔اس وقت تک 123سولر ٹیوب ویلز لگائے جاچکے ہیں ۔جن سے پہلے اور دوسرے مرحلے میں بلوچستان کے 110سے زائد خاندانوں نے ان سہولیات سے استفادہ حاصل کیاہے ۔
ایف ایف سی سکھر کے تعاون سے مقامی کسانوں کو ضرورت کے مطابق کھادکی فراہمی اگست 2024ء میں شروع کی جاچکی ہے۔جی پی آئی کے تحت ضلع خانیوال میں2250ایکٹررقبے پر محیط ایک ماڈل فام ہائوس تیار کیا گیا ہے جس کا دائرہ اختیار مرحلہ وار دس ملین ایکٹرتک پھیلایا جائے گاجس میں ابتدائی طور پر جدید طریقہ کاشت کے تحت بنجر اور غیر آباد زمینوں کو قابل کاشت بناکر سویا بین ،مکئی ،کپاس اور دیگر فصلیں کاشت کی جارہی ہیں۔ایس آئی ایف سی اور جی پی آئی اپنی سماجی ،اقتصادی اور ماحولیاتی ذمہ داریوں سے بھی بخوبی واقف ہیں۔زراعت کے شعبے میں کام کرنے کرنے اور پیشہ وارانہ صلاحیت کو بڑھانے کے لیے بہت کوششیں کی جارہی ہیں جس کے لیے یونیورسٹیوں سے نئے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء کو جدید تکنیک اور طریقہ کار کے ذریعے کاشت کاری کے لیے زمینیں الاٹ کی جارہی ہیں تاکہ ملک میں زرعی انقلاب برپا کیا جاسکے۔گرین پاکستان انیشیٹوکے تحت ایگری کلچر مالز بھی قیام میں لائے جاچکے ہیں جوکسانوں کی ضروریات کے مطابق اور ان کی آسانی کے لیے جدید مشینری، معیاری بیج، فیکٹری ریٹ پر کھاد ،کیڑے مار ادویات اور دیگر متعلقہ اشیاء ایک ہی چھت کے نیچے مہیا کریں گے۔بغیر ٹیکس کے جدید زرعی مشینری کی درآمد کو بھی یقینی بنایا گیا ہے۔
بلاشبہ زراعت ہی ایسا شعبہ ہے جو پاکستان کو خوشحالی اور ترقی کی منزل تک پہنچا سکتا ہے ۔کیونکہ اس میں آپ محض چھ مہینے میں پیداوار حاصل کرسکتے ہیں ۔اگر بیج بویا جائے تو آنے والے چھ ماہ بعد منافع کمایا جاسکتا ہے۔زراعت کے بل بوتے پر خوراک کی قلت پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے ۔جنگلات اور پالتو مویشی جانور بھی زراعت سے ہی وابستہ ہیں۔یوں دیکھا جائے تو زراعت ترقی کرے گی ،جنگلات زیادہ ہوں گے تو اسی رفتار سے گائے ،بھینسیں ،بھیڑیں ،بکریاں ،اونٹ اور دیگر پالتو جانوروں اور لکڑی کی بہتات ہوگی۔ملک میں خوراک وافر ہوگی ،اسی طرح دودھ ،گھی، گوشت اور انڈوں کی بھی فراوانی ہوجائے گی ۔پاکستان میں زرعی انقلاب لانا پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کا ویژن ہے ،جس سے آئندہ پانچ سال میں پچاس ارب ڈالر ز تک سرمایہ کاری اور چالیس لاکھ ملازمتوں کے مواقع پیدا ہونگے۔گرین پاکستان انیشیٹو منصوبے کی کامیابی کی ضمانت پاک فوج کا اشتراک ہے ،اس لیے یقین مصمم سے یہ کہاجاسکتا ہے کہ یہ منصوبہ وطن عزیز کو بحرانوں سے نکال کر ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرے گا۔پاکستان میں زراعت کے شعبے سے جڑے افراد اس پروگرام کو اہم سمجھتے ہیں۔ماہرین کی رائے میں اگر اس منصوبے میں جدید طریقوں کو اختیار کیا جاتا ہے تو یہ نہ صرف بنجر زمینوں کے لیے فائدہ مند ہوگا بلکہ پاکستان کے لیے بھی سود مند رہے گا ۔
مضمون نگارمختلف قومی اخبارات ورسائل کے لیے لکھتے ہیں اور متعدد کتب کے مصنف ہیں۔
[email protected]
تبصرے