• کشمیری عوام ہرسال 27اکتوبرکویوم سیاہ کے طورپرمناتے ہیں، جب بھارت نے اپنی فوجیں سرینگرمیں داخل کرکے جموں وکشمیرپرقبضہ کرلیا۔
• جابرانہ فوجی قبضے کے بعد ڈوگرہ افواج، آر ایس ایس، بجرنگ دل اور ویشوا ہندو پریشد کے غنڈوں نے نہتے مسلمانوں کا قتل عام کیا
• جنوبی ایشیامیں پائیداراورمستقل امن کے لیے مسئلہ کشمیر کاحل ضروری ہے
• پور ی دنیااس بات سے آگاہ ہے کہ بھارت مقبوضہ جموں وکشمیرمیں مسلمانوں کی اکثریت کواقلیت میں بدلنے کی کوشش کررہاہے۔
• مقبوضہ کشمیر میں آبادی کاتناسب بدلنے کے لیے مودی سرکار پورے بھارت سے انتہاپسندہندوؤں کولاکرآبادکررہی ہے،انھیں مراعات اورسہولتیں بھی فراہم کی جارہی ہیں۔
کشمیریوں کی جانب سے جموں وکشمیر پربھارتی قبضے کے خلاف ہرسال 27اکتوبر کودنیا بھرمیں یوم سیاہ اوریوم احتجاج منایاجاتاہے۔یوم سیاہ منانے کامقصد دنیا کویاد دلاناہے کہ اس دن بھارت نے بندوق اورطاقت کے بل بوتے پراپنی افواج کی مدد سے مقبوضہ کشمیر پرقبضہ کرلیاتھا۔مقبوضہ کشمیر کے عوام آج بھی بھارت کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں۔ وہ بھارت سے مکمل آزادی اورحق خودارادیت چاہتے ہیں۔ وہ ڈھونگ انتخابات اورجعلی اسمبلی کوبھی نہیں مانتے ۔بھارت مقبوضہ کشمیر پراپناتسلط مضبوط بنانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتاآیاہے۔ پاکستان کوقائم ہوئے ابھی چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ بھارت نے کشمیری مہاراجہ ہری سنگھ سے سازبازکرکے 27اکتوبر 1947ء کوجموں وکشمیر میں فوجیں داخل کرکے قبضہ کرلیا۔کشمیر کے عوام نے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کافیصلہ دیاتھا،بھارت کویہ بات ہضم نہیں ہورہی تھی۔بانیِ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح نے کشمیر کوپاکستان کی شہہ رگ قراردیاتھا۔بانیِ پاکستان نے فرمایاتھاکہ کشمیر سیاسی اور قومی اعتبار سے پاکستان کی شہ رگ ہے۔کوئی بھی خود دار ملک اور قوم یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ اپنی شہ رگ کو دشمن کی تلوار کے حوالے کر دے۔ ہمارے عظیم لیڈرجانتے تھے کہ کشمیر کی سیاسی،جغرافیائی،اقتصادی اوردفاعی اہمیت ہے،جس سے کسی قیمت پردستبردار نہیں ہواجاسکتا۔ دوقومی نظریے کے تحت ہندوستان کی تقسیم کافارمولاطے پایاتھا۔جس کے تحت کشمیرکے مسلمانوں نے پاکستان میں شامل ہونے کااعلان کیالیکن بھارتی عزائم کچھ اورتھے۔ بھارت نے فوج کے ساتھ ساتھ انتہاپسند مسلح ہندوگروپوں کوکشمیر میں داخل کردیا۔ان مسلح گروپوں نے مسلمانوں کاقتل عام شروع کردیا۔کشمیری مسلمان بھارتی فوج کے مظالم کے باعث اپنے گھربارچھوڑ کرپاکستان کی جانب ہجرت کرنے پرمجبورہوگئے۔بھارت چاہتاتھاکہ کسی طرح مسلمان اکثریت کواقلیت میں بدل دیاجائے۔اس کی یہ سازش اورکوشش آج تک جاری ہے۔ابتداء ہی سے بھارتی پالیسی ''بغل میں چھری منہ میں رام رام'' والی تھی۔کشمیری اب تک لاکھوں جانیں قربان کرچکے ہیں لیکن الحاق پاکستان کے مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔جموں وکشمیر کے ساتھ ساتھ بھارت نے جوناگڑھ اورحیدرآباد پربھی قبضہ کرلیا جبکہ یہ ریاستیں پاکستان میں شامل ہوناچاہتی تھیں۔ان ریاستوں کے مسلمان حکمرانوں نے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کااعلان کیاتھا۔
قارئین کویہ بتاتاچلوں کہ تین جون 1947ء کے منصوبہ آزادی ہند کے مطابق یہ بات بالکل واضح تھی کہ جنت نظیر وادی کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گی، لیکن بدقسمتی سے کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت کا مو قع نہ دیا گیا۔ کشمیریوں نے قیام پا کستان سے قبل 19جولائی 1947ء کو سرینگرمیں سردار ابراہیم خان کے گھر باقاعدہ الحاقِ پاکستان کی قرار داد منظورکی، بعد میں 24اکتوبر 1947ء کو سردار محمد ابراہیم کی قیادت میں کشمیری عوام نے ڈوگرہ فوج سے آزاد کردہ علاقے میں آزاد کشمیر حکومت قائم کرلی۔ مسلمانوں کے ساتھ ایک بڑی زیادتی یہ ہوئی کہ برطانوی بیرسٹر سیرل ریڈکلف کی سربراہی میں باؤنڈری کمیشن نے بھی وادیِ کشمیر پر قبضہ کرنے میں بھارت کی مدد کی۔ کمیشن نے ایک مسلم اکثریتی علاقے گورداس پور کو تقسیم کرکے اسے بھارت کے حوالے کر دیا، اس طرح ایک حد بندی کی گئی جس سے جموں و کشمیر کا زمینی راستہ بن گیا۔ مقبوضہ کشمیرکے عوام نے اس غیر قانونی بھارتی قبضے کو قبول نہیں کیا۔ کشمیریوں نے آزادی کی تحریک شروع کردی۔بھارت یکم جنوری 1948 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں چلاگیا اورمسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی مدد طلب کی۔سلامتی کونسل نے جنگ بندی اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک آزاد اور غیر جانبدار رائے شماری کی منظوری دینے والی دو قراردادیں منظور کیں۔ یہ قراردادیں 13 اگست 1948 اور 5 جنوری 1949 کو منظور کی گئیں جنہیں پاکستان اور بھارت دونوں نے قبول کیا۔ لیکن بھارت بعد میں ان قراردادوں سے بھاگ گیا اوریہ کہناشروع کردیاکہ کشمیر اس کااندرونی معاملہ ہے۔ بھارت کی اس پالیسی کے باعث خطے کاامن وامان داؤ پرلگاہواہے۔آج مقبوضہ کشمیر دنیا کی سب سے بڑی جیل بن چکاہے،مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے مسلمان ایک قیدی کی زندگی گزارنے پرمجبورہیں۔پاکستان اورپاکستانی عوام ہمیشہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کرتے آئے ہیں۔پاکستان نے ہرموقع پرکشمیریوں کی سیاسی، اخلاقی اورسفارتی مدد کی۔مقبوضہ کشمیر پربھارتی قبضے کے باعث جنوبی ایشیاکی سلامتی اورامن داؤ پرلگاہواہے۔دنیا کواس بات کاادراک کرناچاہیے کہ جنوبی ایشیا میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہوسکتاجب تک بھارت مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اپنی پالیسی نہیں بدلتا۔خطے میں مستقل اورپائیدار امن کے لیے ضروری ہے کہ بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کوحق خودارادیت دے۔
پانچ اگست 2019 کو بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کی انتہا پسند حکومت نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے، کو منسوخ کردیا تھا جس سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہوگئی۔ یہ اقدام اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی تھا۔آرٹیکل 370 اور 35 اے جنوری 1950 میں بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے بنائے ہوئے قانون تھے،اس قانون کے تحت ہی مقبوضہ کشمیر کو اندرونی خود مختاری دی گئی اور مرکزدلی کاکام صرف دفاع، مواصلات اور بیرونی معاملات سے نمٹنا تھا۔لیکن عملًا مقبوضہ کشمیر کاتمام کنٹرول قابض بھارتی فوج کے پاس ہی تھا۔آرٹیکل 370 درحقیقت بھارتی حکومت کی طرف سے نافذ کردہ ایک فراڈ تھا جس نے مقبوضہ کشمیر پر غیر قانونی کنٹرول حاصل کرنے میں اس کی مدد کی۔ اس قانون نے کسی حد تک مستقل رہائشیوں کو شناخت فراہم کرنے کی اجازت دی، جس کا بظاہر مقصد کشمیریوں کی آبادی کا تحفظ کرنا تھا اور اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ کشمیر صرف کشمیریوں کے لیے رہے۔اس قانون کے باوجود بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کاتناسب بدلنے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔مودی سرکار کی جانب سے آرٹیکل 370 ختم کیے جانے کے بعد گویاکشمیریوں پرایک اورقیامت ٹوٹ پڑی،وہ اپنے ہی علاقے اورشہرمیں اجنبی بن کررہ گئے۔تمام معاملات مرکزی حکومت نے اپنے کنٹرول میں لے لیے اورمقبوضہ کشمیرمیں کشمیریوں کواقلیت میں بدلنے کے لیے پورے بھارت سے انتہاپسند ہندوؤں کومقبوضہ کشمیر لاکرآباد کرناشروع کردیا۔ان ہتھکنڈوں کاایک ہی مقصد تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں آبادی کاتناسب تبدیل کیا جاسکے،کشمیری مسلمان کشمیر میں اقلیت بن کررہ جائیں۔ بھارتی افواج کے ظالمانہ ہتھکنڈوں اور ظلم و جبر کے باوجود کشمیری اپنے حق خود ارادیت کے مطالبہ سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے۔ بھارت کو نوشتہ دیوار پڑھ لیناچاہیے،نریندر مودی کے تمام ترحربوں کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارت کے ساتھ رہنے کوتیارنہیں وہ بھارت سے آزادی چاہتے ہیں، بھارتی آئین وقانون کوتسلیم نہیں کرتے۔بھارت کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرے۔
اقوام متحدہ ،انسانی حقوق کی تنظیمیں، بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل اپنی کئی رپورٹس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم پراپنی تشویش ظاہرکرچکے ہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی برطانوی نمائندہ آسٹریج لائج اپنی نیوزکانفرنس میںواضح لفظوں میں مطالبہ کرچکی ہیں کہ'' بھارت مقبوضہ کشمیرمیں کشمیریوں کوان کے گھروں سے بے دخل کرنے اوران کے گھروں کوگرانے کاسلسلہ بندکرے۔ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں بھارت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کاجوسلسلہ کئی دہائیوں سے شروع کررکھاہے یہ اس کی بدترین شکل ہے جس کاشکارآج کشمیر کے عوام ہیں ۔بھارت مقبوضہ کشمیرمیں کشمیریوں کے بنیادی حقوق تسلیم کرنے سے کیسے انکارکرسکتاہے؟دنیاجانتی ہے کہ مقبوضہ کشمیرمسلم اکثریت رکھنے والی ریاست ہے جہاں اب مسلمانوں کواقلیت میں بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے''۔
بھارت نے کشمیر یوں کے بنیادی انسانی حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے اور آج تک ناقابل برداشت مصائب کا شکار ہیں۔جابرانہ فوجی قبضے کے بعد ڈوگرہ افواج، آر ایس ایس، بجرنگ دل اور ویشو ہندو پریشد جیسے دہشت گرد گروپوں سے وابستہ انتہا پسند ہندو حملہ آوروں نے نہتے مسلمانوں کا بے دریغ قتلِ عام کیا اور ان کی جائیداد و املاک پرقبضہ کرلیا۔ ان مظالم کے باوجود کشمیری عوام نے کبھی اس جبری غلامی اور فوجی تسلط کو قبول نہیں کیا بلکہ برسوں سے ایک منظم تحریک آزادی شروع کی ہوئی ہے،اس تحریک آزادی کوکچلنے کے لیے بھارتی حکمرانوں نے فوجی قوت کا بے تحاشا استعمال کیا۔ بھارت کے غاصبانہ قبضے کے نتیجے میں اب تک سوا 5 لاکھ سے زائد کشمیری شہید ہوچکے ہیں۔ لاکھوں لوگ زخمی، ہزاروں خواتین بیوہ، لاکھوں بچے یتیم ہوگئے۔بھارتی فورسزنے ہزاروں خواتین کی آبروریزی کی، یہ خونین اور افسوس ناک ریاستی دہشت گردی کا کھیل جاری ہے۔بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی نگرانی میں 5اگست2019سے ان مظالم میں مزید شدت آگئی ہے۔ کشمیری مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے منظم اقدامات کیے جارہے ہیں۔مسلمانوں کوزبردستی مقبوضہ کشمیر سے بھارت کے دوسرے علاقوں میں بھیجاجارہاہے جبکہ غیرمسلم خاص کر انتہاپسند ہندوئوں کومقبوضہ کشمیر میں لاکر آباد کیاجارہاہے۔ اس مقصد کے لیے انھیں مالی امداد اوردیگر سہولیات بھی فراہم کی جارہی ہیں۔مودی حکومت کابنیادی مقصد یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دیاجائے۔دوسری طرف کشمیری عوام کو معاشی بدحالی سے دوچار کردیا گیا ہے۔انہیں ان کی زمینوں،جائیداد و املاک سے محروم اور ملازمتوں سے برطرف کرکے ان کی جگہ دوسری ریاستوں سے ہندوؤں کو لاکر تعینات کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔مودی کے ان ظالمانہ اورفسطائی اقدامات کے باوجود کشمیریوں کے حوصلے بلند ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام پاکستان سے الحاق و آزادی کے لیے جدوجہد میں مصروف ہیں۔
کشمیری مسلمانوں کی قربانیوں کی داستان بہت طویل اورخون رنگ ہے۔ بچوں، نوجوانوں اوربزرگوں نے اپنے خون سے اس تحریک کو زندہ رکھاہواہے۔کشمیر میڈیا سروس نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر دل دہلا دینے والی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق الحاق پاکستان کے لیے اب تک لاکھوں کشمیری اپنے خون کانذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ بھارتی فورسز نے جنوری 1989 سے اب تک 96 ہزار 329 کشمیری شہید کیے۔ 7 ہزار 344 کشمیریوں کو جعلی مقابلوں اور زیر حراست شہید کیا گیا۔ بھارتی فورسز نے 8 ہزار کشمیریوں کو دوران حراست لاپتہ کیا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوری 1989 سے اب تک 11 ہزار 264 خواتین کی بے حرمتی کی گئی، 1 لاکھ 10 ہزار 518 گھر، دکانیں اور دیگر عمارتیں تباہ کیں، بھارتی فورسز کے تمام ہتھکنڈوں کے باوجود کشمیریوں کے حوصلے آج بھی پہاڑوں کی طرح بلنداورمضبوط ہیں۔
کشمیریوں کوان کاحق خود ارادیت دلانے کے لیے عالمی برادری کوچاہیے کہ وہ بھارت کومجبور کرے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پرعمل کرے۔ کشمیری عوام کو ایک آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دے۔بھارت میں جتنی بھی حکومتیں آئیں ایک بات پرسب متفق رہیں کہ کشمیریوں پرجتنے مظالم ڈھائے جاسکتے ہیں ڈھائے جائیں اوران کی تحریک کوٹینکوں کے ذریعے کچل دیاجائے۔ کشمیریوں کے لیے بی جے پی اورکانگریس ایک ہی سکے کے دورُخ ہیں۔ مودی سرکاری نے تومظالم میں تاتاریوں کوبھی پیچھے چھوڑدیاہے۔ بھارتی ظلم و ستم کا سلسلہ اور بھی دراز ہو گیا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے صرف تین سالوں میں مقبوضہ کشمیر میں 690 سے زائد بے گناہ افرادشہید ہو چکے ہیں۔ گھر گھر محاصروں اور تلاشی کی کارروائیاں روز کا معمول بن گئی ہیں۔ پیلٹ گن کا استعمال،املاک کی تباہی، جبری گمشدگی،حراستی تشدد اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات عام ہو چکے ہیں۔پوری حریت لیڈرشپ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے،کسی کوسزائے موت توکسی کوعمرقید کی سزاسنائی گئی ہے۔لیکن آزادی کے متوالے اپنے مؤقف پرڈٹے ہوئے ہیں۔اس سال 2024 میں بھی بھارتی فوج کی قید میں غیر انسانی سلوک اور تشدد کے باعث درجنوں کشمیری نوجوان شہید ہو چکے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم دنیا سے چھپے نہیں ہیں، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں ان مظالم کو کئی دفعہ بے نقاب کر چکی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرکئی رپورٹیں جاری کرچکی ہے۔اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق اور یو این ہیومن رائٹس کی رپورٹوں میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا تفصیلی احوال موجود ہے۔دنیا جانتی ہے کہ کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر سب سے قدیم حل طلب تنازع ہے جس کے حل کے لیے دنیا کو آگے بڑھ کر عملی کردار ادا کرنا چاہیے۔کشمیری اپنے مؤقف پرڈٹے ہوئے ہیں تو پوری پاکستانی قوم بھی اپنے کشمیری بہن بھائیوں کے حق خود ارادیت کی جدوجہد میں اُن کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔عالمی برادری کوبھی چاہیے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اورغاصبانہ قبضے کے خلاف بھارت کوکٹہرے میں لائے،جب تک بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں پرعمل نہیں کرتا اس پراقتصادی وتجارتی پابندیاں لگائی جائیں۔بھارتی فوج کے مظالم کے باوجود کشمیریوں کے حوصلے بلند ہیں۔ ان کی پاکستان سے محبت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ بھارت بد ترین جارحیت سے کشمیریوں کے حقوق کو سبوتاز نہیں کر سکتا۔ وہ دن دور نہیں جب مقبوضہ کشمیر بھی بھارتی تسلط سے آزاد ہوکرپاکستان کا حصہ بنے گا۔
مضمون نگاراخبارات اورٹی وی چینلزکے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔آج کل ایک قومی اخبارمیں کالم لکھ رہے ہیں۔قومی اورعالمی سیاست پر اُن کی متعدد کُتب شائع ہو چکی ہیں۔
[email protected]
تبصرے