جدید ریاستوں میں انسانی حقوق کا تحفظ بنیادی پہلو ہے۔ جمہوری ریاستیں شخصی آزادی کی بنیاد پر وجود میں آتی ہیں۔ اس وقت بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کی بڑی جمہوریت کہلاتا ہے۔ لیکن افسوس ناک طور پر پون صدی سے یہ ایک ایسی ریاست پر قابض ہے جہاں انسانی حقوق یا شخصی آزادی کا تصور محال ہے۔ کشمیریوں کوماضی کی بادشاہتوں کی طرح جدید جمہوری دور میں بھی اپنے سیاسی مستقبل کے لیے فیصلے کی آزادی نہیں ملی۔ وادیِ کشمیر میں اب بھی اقلیت اکثریت پر حکومت کرتی ہے۔ 1846 میں امرتسر معاہدے کے تحت جب انگریزوں نے کشمیر ڈوگرہ حکمران گلاب سنگھ کے حوالے کیا تو کشمیریوں سے ان کی رائے معلوم نہیں کی گئی۔ اسی طرح 1947 میں تقسیم ہند کے موقع پر مہاراجہ ہری سنگھ نے جب بھارت کے ساتھ متنازع الحاق کیا تو کشمیریوں کی خواہشات کو نظرانداز کیا گیا۔ اگست 2019 میں ایک مرتبہ پھر بھارت نے جب یک طرفہ فیصلہ کیا اور مقبوضہ جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت ختم کی تو کشمیریوں کی رائے معلوم نہیں کی گئی۔
مقبوضہ وادی میں حریت قیادت ایک طرف، بھارت نواز سیاست دان جو ماضی میں بھارت کے ساتھ اندرونی خودمختاری کے دھوکے پر مراسم رکھتے تھے، موجودہ صورت حال میں شدید مایوس ہوئے ہیں۔ نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت آرٹیکل 370 کی بنیاد پر سیاست کرتی تھی۔ کشمیری نوجوانوں کو باور کروایا جاتا تھا کہ ہم بھارت کے ساتھ وفاقی تعلقات کی صورت میں خصوصی اختیارات کے حامل رہیں گے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت نے ان کی تمام خواہشات پر پانی پھیر دیا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ حریت قیادت بھارت کی جیلوں میں قید ہے۔ بھارت نواز قیادت عوام میں پذیرائی نہیں رکھتی۔ چند ماہ قبل لوک سبھا کے انتخابات میں مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلی عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی اپنی نشستیں ہار گئے تھے۔ مقبوضہ کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات 2018 میں اسمبلی تحلیل کیے جانے کے چھ سال بعد ستمبر و اکتوبر میں تین مرحلوں میں ہونے جا رہے ہیں۔ اگرچہ ان انتخابات سے بھارت دنیا پر یہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ جموں وکشمیر میں حالات معمول پر آچکے ہیں، لوگ جمہوری عمل میں حصہ لے رہے ہیں، امن قائم ہوچکا ہے، لیکن جہاں تحریر و تقریر کی آزادی نہ ہو سوچ پر پہرے ہوں، میڈیا بدترین سنسر شپ کی زد میں ہو۔قیادت جیلوں میں بند ہو، حق خود ارادیت کی بات کرنے والے ہزاروں نوجوان عقوبت خانوں میں مقید ہوں، ایسے میں ان عوامل کو امن نہیں انسانی حقوق کی پامالی کہا جاتا ہے۔
اگرچہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ روز اول سے جاری ہے۔ 1989 میں مزاحمتی تحریک کے آغاز سے اب تک 96 ہزار کشمیری شہادت نوش کرچکے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں رونما واقعات ایک طرف، اگر صرف سال 2024 کے ابتدائی چھ ماہ کا جائزہ لیا جائے تو بخوبی اندازہ ہوگا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اس وقت بھی حالات پرامن نہیں ہیں اور مقامی آبادی انسانی حقوق کی پامالیوں کی زد میں ہے۔ لیگل فورم فار کشمیر(LFK) نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر جولائی 2024 میں ایک جائزہ رپورٹ شائع کی ہے جس میں جنوری سے جون 2024 تک کے اعداو شمار جمع کیے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان چھ ماہ میں کل 72 افراد قتل ہوئے، 133 افراد زخمی ہوئے، 657 گرفتار کیے گئے، 202 سرچ آپریشن ہوئے، 22 مرتبہ انٹرنیٹ شٹ ڈان کیا گیا، 25 عمارتوں کو نقصان پہنچا، 32 مقابلے ہوئے۔
ان اعداد و شمار سے مقبوضہ کشمیر میں امن کے دعوے کی نفی ہوتی ہے۔ سکیورٹی اداروں کی جانب سے کشمیریوں کو کالے قوانین کے ذریعے حراست میں رکھنے اور ان کے خلاف کارروائیوں کا تسلسل ماضی کی طرح اب بھی برقرار ہے۔ پی ایس اے (Public Safety Act) اور یواے پی اے(Unlawful Activities Prevention Act) جیسے قوانین سیاسی کارکنوں کے خلاف بے دریغ استعمال کیے جار ہے ہیں۔اس وقت 4000 کے قریب سیاسی کارکن،رہنما، صحافی اور وکیل زیر حراست ہیں۔ عقوبت خانوں میں سیاسی کارکنوں یا حریت پسندوں پر بدترین تشدد کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ دہائی میں جن حریت رہنمائوں کو دہلی کی تہاڑ جیل میں قید کیا گیا، وہ تاحال بند ہیں۔ ان میں 62 سالہ خاتون رہنما آسیہ اندرابی بھی شامل ہیں، جوعلالت کے باوجود جیل کی سلاخوں کے پیچھے سختیاں جھیل رہی ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں 2019 کے بعد گزشتہ پانچ برسوں میں 10 ایسی تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی جو حق خود ارادیت کا مؤقف رکھتی تھیں۔ رواں سال فروری میں مسلم کانفرنس پر پابندی عائد کی گئی۔ اسی طرح مارچ 2024 میں جموں و کشمیر پیپلز لیگ اور جموں و کشمیر پیپلز فریڈم لیگ کو بھی کالعدم قرار دیا گیا۔ مزید برآں جموں و کشمیر پیپلز پولیٹیکل لیگ کو بھی غیر قانونی تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ ان تنظیموں کے مختلف دھڑے مختلف کشمیری رہنمائوں کی قیادت میں قائم تھے، ان سب پر پابندی عائد کی گئی۔ اسی طرح چند ماہ قبل جون میں عدالت نے زیر حراست حریت رہنما مسرت عالم بٹ کی تنظیم جموں و کشمیر مسلم لیگ اورمرحوم رہنما سید علی گیلانی کی تنظیم تحریک حریت پر پابندی برقرار رکھی۔
کشمیر کی موجودہ صورت حال سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت نے کشمیریوں کی آواز دبانے اوران کو حق خود ارادیت کے مطالبے سے باز رکھنے کے لیے ظلم کا ہر حربہ اختیار کیا ہے۔ جبر کے اس ماحول کو امن سے تشبیہ دینا لفظ امن کی توہین ہے۔ جموں وکشمیر کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ایک انتخابی ریلی سے خطاب میں مضحکہ خیز رویہ اختیار کیا۔ انہوں نے آزاد کشمیر کے باشندوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھارت کے ساتھ شامل ہوجائیں، بھارت انہیں اپنا سمجھتا ہے اور پاکستان میں ان کے ساتھ غیر ملکی باشندوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔انہوں نے دعوی کیا کہ انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کی صورت میں کشمیر میں بڑے پیمانے پر ترقی ہوگی،جس کو دیکھ کر آزاد کشمیر کے لوگ بھی بھارت میں شامل ہونے کو ترجیح دیں گے۔
بی جے پی گزشتہ دس برسوں سے اقتدار میں ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں مفتی محمد سعید اور اور بعدازاں محبوبہ مفتی کی حکومت میں بھی بی جے پی شامل رہی اور گزشتہ پانچ برسوں سے براہ راست مقبوضہ جموں و کشمیر مرکز کے ماتحت ہے۔ اگر اس کے باوجود مقبوضہ جموں و کشمیر میں خوف کے سائے ختم نہیں ہوئے اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ جاری ہے تو بھارتی وزیر دفاع کو سوچنا چاہیے کہ آزاد کشمیر دور کی بات مقبوضہ کشمیر کے عوام بھی ان پر اعتبار نہیں کرتے۔ اگر بھارت سمجھتا ہے کہ کشمیر میں ظلم وجبر کے باعث احتجاجی تحریکوں کی خاموشی ان کی جیت ہے اور عوام ان کے ساتھ ہیں تو پھر اپنے وعدے کے مطابق ریاست میں رائے شماری کی راہ ہموار کرنے میں کیا دشواری ہے؟ گزشتہ پون صدی میں بھارت نے رائے شماری کی تمام کوششیں ناکام بنائی ہیں۔ دراصل بھارت کے نزدیک رائے شماری کا مطلب جموں وکشمیر سے دست بردار ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حق خود ارادیت کا مطالبہ کرنے والوں کو ہمیشہ پابند سلاسل رکھنے کی تدبیریں اختیار کی گئیں اور ان کی آوازوں کو بزور قوت دبایا گیا۔
اگست 2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے پیچھے بھی یہی سوچ کارفرما تھی کہ اس طرح اس بنیادی مسئلے کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیا جائے گا۔ اسی تناظر میں بھارت متعدد مرتبہ اس مؤقف کا اعادہ کرچکا ہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے مسئلہ کشمیر ہمیشہ کے لیے حل ہوگیا ہے۔ بعض رہنما یہ بھی کہتے ہیں کہ کشمیر کی سیاست سے پاکستان کا فیکٹر ختم ہوچکا ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ بھارت کی سکیورٹی فورسز تاحال حریت پسندوں سے مقابلہ کر رہی ہیں اور حریت قیادت کو جیلوں میں رکھنے کے علاوہ ان کی تنظیموں کو بھی کالعدم قرار دیا جا رہا ہے۔
بھارت کو یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوا اور اس کا پرامن حل انہی قرارداوں میں موجود ہے جو 1948 اور 49 میں سلامتی کونسل میں منظور کی گئی تھیں۔ جنہیں بھارت نے بھی تسلیم کیا تھا، لیکن اب نہ صرف اپنے وعدے سے مکر گیا ہے بلکہ مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی کر رہا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ کسی مسئلے کے حل کے لیے جبر کا راستہ دائمی راستہ نہیں ہے۔ یہ محض ایک وقتی فائدہ ہے۔ ظلم کی وجہ سے لوگوں کو خاموش کردیا جاتا ہے اور ذہنوں پر خوف کے سائے طاری رہتے ہیں۔ لیکن جب ظلم حد سے بڑھ جائے اور خوف معمول بن جائے تو صورت حال میں تبدیلی یقینی ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ کشمیریوں کو بزور قوت نہ دبایا جائے بلکہ ان کے دل جیتے جائیں۔ دل جیتنے کے لیے ان کا بنیادی مطالبہ حق خود ارادیت کوتسلیم کرنا پڑے گا۔ بصورت دیگر اس خطے میں امن اور پاکستان و بھارت کے درمیان بہتر تعلقات خواب ہی رہیں گے۔
مضمون نگار تصنیف، تحقیق اور صحافت کے شعبوں سے وابستہ ہیں، جامعہ کراچی سے سیاسیات میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
[email protected]
تبصرے