کشمیر جسے بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی جانب سے مملکت خداد پاکستان کی شہ رگ قرار دیا گیا۔ کشمیر جسے شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے وادی جنت نظیر کہا۔ مگر آج یہی جنت نظیر وادی اور ارضِ وطن کی شہ رگ پنجہ استبداد میں ہے۔بھارت کا ناجائز قبضہ اور غاصبانہ تسلط اہل کشمیر سے ان کا زندہ رہنے کا حق بھی چھین چکا ہے۔ بھارتی فوج کی ظالمانہ دراندازی نے اس جنت نظیر وادی کے باشندوں کی سانس لینے تک کی آزادی بھی سلب کر لی۔
ہر سال 5فروری کو تحریک آزادی کشمیر کے شہداء کی قربانیوں کی یاد میں یوم کشمیر منایا جاتا ہے جس کا مقصد نہ صرف ان حریت پسند جوانوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہوتا ہے بلکہ تحریک حریت کو ایک نیا عزم اور ولولہ دینا بھی، تاکہ کشمیر کے نوجوان اپنی منزل کے حصول کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہیں۔ اپنے بلند ارادوں سے ایک نئے جہان تازہ کی بازیافت کریں جس کی بدولت آزادی کا سورج طلوع ہو۔ یہی جوش و جذ بہ ہی تحریک آزادی کشمیر کی اصل اساس ہے جو اس تحریک کو مرنے نہیں دیتا اور ہر تازہ لہو کے نذرانے سے شمعِ آزادی کو مزید فروزاں کر دیتا ہے۔اس طرح ہر سال 27اکتوبرکے موقع پر یوم سیاہ منانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ بھارت نے جس طرح کشمیرپر غاصبانہ قبضہ کررکھا ہے اس کی مذمت کی جائے اور کشمیریوں کو ان کا حق دلوایا جائے۔
مسئلہ کشمیر طویل عرصے سے اقوام متحدہ کی توجہ کا منتظر ہے جسے سنجیدہ کاوشوں کے برعکس محض رنگا رنگ قرار دادوں کے ذریعے فریب دیا جا رہا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ بظاہر خوش نما الفاظ کی مینا کاری سے مزین یہ قرار دادیں بڑی دلکش اور دلفریب معلوم ہوتی ہیں مگر ان کے بطن سے کیا پھوٹا؟ یہ سوال تا حال جواب طلب ہے۔ البتہ واقفان حال اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرار دادوں میں اگر کوئی حرف صداقت پنہاں ہوتا تو یہ معاملہ حل ہو چکا ہوتا مگر حقیقت کا بر عکس ہونا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ عالمی ضمیر بھی بے ضمیر ہو چکا ہے۔ لہٰذا فی الواقع اب اگر کسی کے ذہن رسا کی کسی شاخ پہ کوئی شگوفہ اس نو کا پھوٹتا ہے اور وہ یہ گمان کرنے لگتا ہے کہ مسئلہ کشمیر قرار دادوں کے ذریعے حل ہو سکتا ہے تو اسے دیوانے کا خواب سمجھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ "ایں خیال است و محال است و جنوں "
مسئلہ کشمیر کا حل رنگ برنگے بیانات اور لفظوں کی دلکش لڑی پرونے کے برعکس عملی اقدامات کا متقاضی ہے۔ جس میں سب سے بنیادی عنصر عالمی ضمیر کی بیداری ہے۔ جب تک تمام عالمی طاقتوں اور بیرونی ممالک کو اس کی سنگینی کا ادراک اور احساس نہیں ہو گا تب تک یہ مسئلہ جوں کا توں ہی رہے گا۔ مدت سے اہل کشمیر حصولِ آزادی کی تگ و دو میں مصروفِ عمل ہیں مگر تادم تحریر کوئی ان کی صدا کو سننے والا نہیں۔ کوئی ان کی پکار پر لبیک کہنے والا نہیں۔ کوئی ان کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں، اب نوبت اس مقام پر آپہنچی ہے کہ کوئی ان کے جینے کا حق ماننے کے لیے بھی تیار نہیں۔ لہٰذا عالمی ضمیر کی بیداری کے بغیر اس مسئلے کا حل کیونکر ممکن ہے ؟
اسلامی ممالک اور او آئی سی بھی صرف وقت گزاری کی غرض سے وقتی بیانات پراکتفا کیے ہوئے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کو اس کی کوئی فکر نہیں کہ معصوم بچوں کو کس بے دردی سے شہید کیا جا رہا ہے۔ انھیں کوئی پر واہ نہیں کہ کشمیری خواتین کے ساتھ کیسا بہیمانہ سلوک روارکھا جا رہا ہے۔
معروف نقاد اور ماہر تعلیم پروفیسر فتح محمد ملک صاحب نے اپنے ایک مضمون بعنوان "امریکہ بھارت کے ذہن سے سوچتا ہے ؟ " جو ان کی کتاب " فتنہ انکار پاکستان " میں بھی موجود ہیں تذکرہ کیا ہے کہ کچھ عناصر کشمیر کے حوالے سے کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی کی بات کرتے ہیں جو کسی طور پر بھی مناسب نہیں ہے۔ پاکستان کا کشمیر پر مئوقف بہت واضح اور غیر مبہم ہے اور وہ یہی ہے کہ کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیاجائے۔
پاکستان کا مطالبہ تو یہ رہا ہے کہ کشمیریوں کو خودارادیت کا حق دینے کی خاطر رائے شماری کرائی جائے۔ یہ مطالبہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ اقوام متحدہ کا بھی ہے جس نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت میں متعدد قرار دادیں منظور کر رکھی ہیں۔ پاکستان چاہتا ہے کہ ان قرار دادوں پر عمل کرتے ہوئے مسلمان اکثریت کے ساتھ ساتھ ہندو اور بدھ مت اقلیتوں کو بھی رائے شماری میں حصہ لینے کا موقع دیا جائے اور پھر اکثریت جو بھی فیصلہ کرے اس پر اقوام متحدہ پاکستان اور بھارت ہر دو کو عمل کرنے پر مجبور کرے کیونکہ یہ مذہبی نہیں، انسانی حقوق کی سربلندی کا مطالبہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کشمیری مسلمانوں کو خودارادیت کا حق دینا بھارتی قومیت کے تصور سے متصادم ہے۔ پانچ برس قبل بھارت کی جانب سے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے وہاں ناجائز قبضہ کر لیا گیا جو سراسر ظلم اور استحصال ہے، جس کے نتیجے میں اہل کشمیر پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ لہٰذا عالمی ضمیر کو بیدار ہونے کے ساتھ ساتھ یکجا ہو کر مسئلہ کشمیر کے درست حل کے لیے بھارت پر دبائو ڈالنا ہو گا کہ بھارت کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کرے۔
تبصرے