پانی ایک نعمت ہے، اس کی قدر کیجیے اور اسے ضائع ہونے سے بچایئے۔
صحن میں بندھی بکری بری طرح چلّا رہی تھی۔مجیب نے پہلے تو اپنے کانوں پر ہاتھ رکھے لیکن بکری کی تیز اور التجا کرتی آواز اسے مسلسل سنائی دیتی رہی۔ اس نے کروٹ بدلی اور اب کانوں پر تکیہ رکھ لیا ۔ بکری کی منمناتی آواز اب کچھ کم ہوگئی تھی۔
’’اے اللہ!یہ ناگہانی مصیبت ٹال دے، اے مہربان خدا !تو بارش برسا دے اور خشک زمین کو سیراب کر دے ، ہمارے جانور پیاس سے مرتے جا رہے ہیں ۔ اب تو ہماری جانوں کو بھی پانی کے لالے پڑ چکےہیں، اپنا کرم فرما دے مولا!رحم کر، مالک رحم کر!‘‘اماں جائے نماز پر بیٹھیں خشوع و خضوع سے دعا مانگ رہی تھیں۔ نماز کے بعد وہ اکثر ایسی ہی دعائیں مانگا کرتی تھیں۔
کچھ لمحوں بعد دروازے پر آہٹ ہوئی۔مجیب کے ابا مایوس چہرے کے ساتھ اندر داخل ہو رہے تھے۔ ان کے ہاتھ میں پکڑی بالٹی خالی تھی۔ ابا نے بالٹی ایک طرف رکھی پھر صحن میں بچھی چارپائی پر بیٹھ گئے۔ بکری انہیں بالٹی لاتے دیکھ کر اور زیادہ شورمچانے لگی تھی۔ گھرمیں ایک گھونٹ جتنا پانی تک نہ تھا ورنہ وہ اپنے حصے کا پانی بھی بکری کو پلا دیتے۔
انھیں اب انتظار کرنا تھا، شہر سے پانی آنے کا۔ شام کو ایک ٹینکر روز ان کی بستی کے ’’کنڈ‘‘میں پانی ڈال جاتا تھا جسے بستی والے استعمال میں لاتے تھے۔ وہ میٹھا پانی ان کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ چونکہ وہاں جانور بھی سیکڑوں کی تعداد میں تھے اسی لیے پانی بہت ناپ تول کر استعمال کیا جاتا تھا۔ کبھی کبھار مویشی پیاسے بھی رہ جاتے تھے جنہیں پھر مجبوراً تالاب سے پانی پلایا جاتا جو بہت کھارا تھا اور اس پانی کا رنگ بھی سیاہ پڑ گیا تھا۔ بستی والوں کو یہ خوف بھی تھا کہ اگر کسی دن میٹھے پانی کا ٹینکر وہاں نہیں آیا تو انھیں بھی وہی سیاہ اور کھارا پانی پینا پڑ جائے گا۔
.....
چولستان پراس سال عجیب قحط طاری ہوا تھا۔ دو سالوں سے بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے وہاں پانی کے لیے بنائے سبھی ٹوبے سوکھ گئے تھے۔ ان ٹوبوں سے چولستان کے باشندے اپنی پانی کی ضرورت پوری کرتےتھے۔ زمین سے نکلنے والا پانی بہت کھارا ہوتا ہے جو پینے کے قابل نہیں ہوتا۔
مجیب کی بستی بہاولپور سے ڈیڑھ سو کلومیٹر دور چولستان صحرا میں واقع تھی۔ اس بستی میں ڈیڑھ سو کے قریب کچے پکے مکانات تھے۔ بستی کے لوگوں کا پیشہ ایک ہی تھا یعنی جانور پالنا۔ ایک ایک خاندان کی ملکیت میں سیکڑوں جانور ہوتے جنھیں وہ دن بھر صحرا میں چراتے پھرتے۔ ریت پر اگی جھاڑیاں، گھاس اور درختوں کے پتے ان جانوروں کی خوارک بنتے ۔ جب بارش آتی تو صحرا سر سبز ہو جاتا جس سے جانوروں کا چارہ بھی بڑھتا اور پانی بھی وافر مقدار میں دستیاب ہوتا ۔
پانی کی کم یابی کی وجہ سے اب چارہ بھی نہیں ملتا تھا۔ انھیں اپنے جانور چرانے پندرہ بیس کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا تھا۔ چرانے کے بعد پانی پلانے پھر بیس کلو میٹر کا سفر درپیش ہوتا تھا۔ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے چولستان کے باشندوں کی زندگی سخت مشکلات کا شکار تھی۔ ان کے جانور دن بدن شدید گرمی اور پیاس کی وجہ سے مرتے چلے جا رہے تھے۔
صحرا میں درجہ حرارت پچاس ڈگری سے بڑھ جاتا ہے۔ اس سال تو گرمی کا موسم بھی بہت جلدی آگیا تھا۔ اپریل میں ہی موسم اچانک جون جولائی جیسا بن گیا تھا۔ گلوبل وارمنگ اس کی واحد وجہ ہے۔آبادی بڑھنے اور جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے موسموں کا توازن بہت خراب ہو چکاہے۔ گرمی کے دن بڑھتے جا رہے ہیں اور سردی کے موسم کا دورانیہ کم ہو رہا ہے۔ بارشیں ہونا کم ہوگئیں اور اب صورتحال اتنی ابتر تھی کہ پینے کے لیے پانی تلاش کرنا دشوار ہوگیا ہے۔ چولستان کی بستیوں کے کنوئیں سوکھ چکے تھے۔ بارشوں کا پانی جمع کرنے کے لیے مقامی طور پہ بنائے گئے ’’کنڈوں‘‘میں بھی پانی کی مقدار کم ہو رہی تھی۔
شدید گرمی کی وجہ سے جانور بیمار پڑے ،پھر گندا پانی پینے کی وجہ سے ایک کے بعد ایک مرنے لگے۔گرمی کا موسم آتے ہی عموما ًاس بستی کے باسی وہاں سے ہجرت کرکے دوسری جگہ چلے جاتے جہاں ان کے جانوروں کو اور انھیں پانی اور خوارک کی کمی نہیں ہوتی تھی۔ اس بار گرمی کا موسم یکایک ہی وارد ہوگیا تھا اور اس نے آتے ہی صحرا کے مکینوں کو شدید مشکلات میں مبتلا کر دیا۔مجیب کے ابا کے پاس بھی بہت سے جانور تھے۔ ابا کو شاید آنے والے کڑے وقت کا پہلے سے اندازہ ہوگیا اور انھوں نے گھر کے دودھ کے لیے تین بکریاں رکھ کر باقی سب شہر جاکر بیچ دیں۔
.....
بستی میں پینے کا پانی ختم ہو رہا تھا۔ جب ان کے جانور شدید گرمی کی وجہ سے ہلاک ہونے لگے تو سوشل میڈیا پر مردہ جانوروں کی بنائی گئی ویڈیوز وائرل ہوگئیں ۔ پورے ملک سے امدادی تنظیمیں ان کی جانب دوڑ پڑی تھیں۔ ان کا سب سے بڑا مسئلہ میٹھے اور صاف پانی کا تھا۔ بہت سے لوگ اجتماعی اور انفرادی طور پر چولستان کے لوگوں کے لیے پانی کی بوتلیں اور ٹینکر لانے لگے تھے۔ اس پانی کو وہ’’کنڈ‘‘ میں ڈلوا لیتے اور پھر وہیں سے استعمال کرتے۔
اب روز ایک ٹینکر ان کی بستی میں آ جاتا لیکن وہ پانی اتنے سارے لوگوں اور جانوروں کے لیے ناکافی تھا۔ انھیں اب یہاں سے ہجرت کرنی تھی، تب ہی ان کے بچے کچے جانور زندہ رہ پاتے۔ جب پانی جلدی ختم ہو جاتا تو مویشیوں کو تالاب کا کھارا پانی پلانا پڑتا تھا جو بہت آلودہ تھا۔ اسی پانی کو پی کر مجیب کی دو بکریاں ایک کے بعد ایک مر گئیں۔
مجیب کے گھر میں اب ایک بکری سمیت کل چار نفوس تھے۔ آج کنڈ سے پانی جلدی ختم ہوگیا اور بکری پیاسی رہ گئی۔ وہ مسلسل بولتی رہی پھر وہ گھٹنوں پہ بیٹھ گئی۔ اس کی گردن زمین کی طرف جھک آئی تھی۔ مجیب کو کئی دن سے بخار تھا۔ گیارہ بارہ سال کا وہ نحیف سا لڑکا تھا۔ اس سے اپنی لاڈلی بکری کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی۔ اس نے پانی کی تلاش میں جانے کے لیے بہت بار چارپائی سے قدم نیچے رکھنا چاہے لیکن ہر بار وہ چکرا کر واپس لیٹ گیا ۔اس کے ابا کئی جگہ پانی ڈھونڈ آئے تھے۔ بستی والے زیادہ تر وہاں سے جا چکے تھے۔ چند ایک گھرانے باقی تھے جن کے اپنے سیکڑوں جانور تھے اور انھیں بھی پانی کی تنگی کا سامنا تھا۔
مجیب کئی دن سے مسلسل سوچ رہا تھا کہ اگر انسان زمین کا ماحول خراب نہ کرتے، جنگلات نہ کاٹتے، شجر کاری کرتے اور آبادی کو کنٹرول کرتے تو موسم بھی یوں بے رحم نہ ہوتے۔ درجہ حرارت نہ بڑھتا، نہ بہت کم بارشیں ہوتیں اور نہ ہی اتنی زیادہ کہ سیلاب آ جائے، نہ بے وقت کی برف باری ہوتی۔ درختوں کی بہتات ہوتی، جنگلات پھیلتے جاتے اور زمین انسانوں پر ہمیشہ مہربان رہتی۔ کاش! کوئی اب بھی سمجھ جائے اور واپسی کا سفر کرنے کے لیے سنجیدگی سے کوششوں کا آغاز کر سکے۔ کاش!
بکری دوبارہ ہلکی آواز میں اپنی خراب ہوتی حالت کا بتانے لگی۔ تبھی باہر کسی بھاری گاڑی کی آواز ابھری۔ ابا تیزی سے اٹھے اور بالٹی اٹھا کر باہر کو لپکے۔ پانی کا ٹینکر آگیا تھا۔مجیب نے بے اختیار خدا کا شکر ادا کیا۔
پیارے بچو! پانی ایک نعمت ہے۔ اگر یہ کسی کو آسانی سے دستیاب ہے تو اس کی قدر کیجیے۔اسے ضائع ہونے سے بچایئے۔
تبصرے