جنگ ستمبر میں سیالکوٹ ، لاہور اور سرگودھا کو اس کے عوام کی طرف سے پاک افواج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونے اور استقامت کا مظاہرہ کرنے پر ہلال استقلال کا اعزاز عطا کیا گیا
وطن عزیز پاکستان کی تاریخ میں جنگ ستمبر 1965 لازوال کامیابیوں ، کامرانیوں اور فتح و نصرت کی ایک ایسی روشن داستان ہے جسے یاد کرکے ہر پاکستانی کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ 59 سال قبل پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے رات کی تاریکی میں بلاجواز جارحیت کرتے ہوئے لاہور کی بین الاقوامی سرحد اورضلع سیالکوٹ کے ساتھ ملحقہ پاکستان کی شہ رگ مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر پر واقع ورکنگ بائونڈری عبور کرتے ہوئے پاکستان پر اچانک حملہ کردیا۔حملے کا مقصد بھارت کا وہ ناپاک منصوبہ تھا جس کے تحت لاہور اور سیالکوٹ پر قبضہ کرکے وزیر آباد تک آکر جی ٹی روڈ کو بند کرنا تھا تاکہ پاکستان کو اس بات پر مجبور کیا جاسکے کہ وہ نہ صرف مسئلہ کشمیر سے دستبردار ہوجائے بلکہ آزاد جموں و کشمیر بھی خالی کرکے اسے بھارت کے حوالے کردے۔ لیکن قدرت کا بھی اپنا ایک نظام ہے اس نے نہ صرف بھارت کے اس ناپاک منصوبے کو خاک میں ملا دیا بلکہ اسے عبرت ناک شکست سے بھی دوچار کر دیا اور دنیا بھر میں اس کی زبردست جگ ہنسائی بھی ہوئی جبکہ پاکستانی فوج کو بھارت کے مقابلے میں عددی اقلیت اور کم اسلحہ اور کمتر سہولتیں ہونے کے باوجود اپنی سرزمین کا جرأت و بہادری اور اعلیٰ جنگی حکمت عملی کی بنا پرفتح نصیب ہوئی اور دنیا کی بہترین فوج کا اعزاز حاصل ہوا ۔
جنگ ستمبر 1965 کے دوران لاہور،سیالکوٹ اور سرگودھا کے عوام نے جرأت و بہادری کی وہ داستانیں رقم کیں کہ تاریخ میں کہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ جنگ سے متاثرہ علاقوں میں عوام کی طرف سے کسی بھی قسم کی بھگدڑ نہیں مچی اور نہ ہی ان میں کسی قسم کا خوف و ہراس پیدا ہوا بلکہ انہوں نے متاثرہ علاقوں میں روزمرہ کے معمول کو جاری رکھا اور پاک فوج کی بھرپور انداز سے مدد کی اور تعاون کرتے ہوئے ہر ممکن آسانیا ں پیدا کرنے کی کوشش کی۔ شہریوں اور دیہاتیوں کی طرف سے ایک تو پاک فوج کے جوانوں کے لیے اپنے گھروں میںپکے کھانے فراہم کرنے اور ان کے لیے تحفے تحائف، سگریٹ ، چائے وغیرہ پیش کرنے میں تو ہر کوئی آگے آگے ہوتا اور ان کی خدمت کرکے خوشی و مسرت محسوس کرتا۔ حالانکہ پاک فوج کے جوانوں کو میدان جنگ میں یہ کھانے اور تحائف کی اس لیے ضرورت نہیں ہوتی تھی کہ انہیں اپنی یونٹوں اور کمانڈ کے ذریعے تمام اشیاء کی تسلسل سے سپلائی کی جاتی تھی ۔ جنگ میں زخمی ہونے والے جوانوں اور افسران کے لیے خون کے عطیات دینے والوں کی ہسپتالوں میں لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ ان میں خواتین بھی اپنے فوجی بھائیوں کو خون کا عطیہ دینے کے لیے بے تاب ہوتی تھیں۔
سیالکوٹ کے محاذ پر اس وقت بطور لیفٹیننٹ خدمات سرانجام دینے والے حامد سعید اختر جو بعد میں بطور بریگیڈیئر ریٹائر ہوئے اور ماشاء اللہ لاہور میں مقیم ہیں ۔ وہ زمانہ جنگ کی یادشتیں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنگ ستمبر میں عوام کے جذبے کو یاد کرکے اب بھی اپنے اندر ایک عجیب طرح کی روحانی خوشی اور جوش و ولولہ محسوس کرتا ہوں۔ جنگ ستمبر میں عوام کا پاک افواج کے ساتھ اپنی عقیدت و محبت ہر جگہ دیدنی تھا۔سیالکوٹ کے عوام نے 'اگوکی' ریلوے سٹیشن پر ٹرین سے رضاکارانہ طور پر گولہ بارود اتارنے اور پھر اسے ٹرکوں پر اپ لوڈ کرنے میں مثالی کردار ادا کیا۔ان کی ٹیم میں شامل ایک جوان جب بھی بھارت کی طرف سے ہماری توپ کی طرف فائر آتا دیکھتا تو وہ توپ کے ٹائر سے لپٹ جاتا۔ میرے استفسار پر وہ جب یہ بتاتا کہ چونکہ ہمارے پاس کوئی اضافی ٹائر موجود نہیں اس لیے اگر یہ ٹائر گولا لگنے سے پھٹ گیا تو ہم اپنی توپ کو کیسے آگے چلائیں گے اور دشمن کی توپوں کا منہ کیسے بند کریں گے ؟ میری جان سے زیادہ اس ٹائر کو پھٹنے سے بچانا ہے۔
گولہ لگنے سے ہمارے اس جوان کی حکمت عملی کس حد تک کارگر ثابت ہوئی اس کو ایک طرف رکھتے ہیں یہاں صرف اس جوان کی اپنے ملک اورفوجی اثاثوں کی حفاظت کرنے کے جذبے کی بات ہو رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک وقت جب بھارتی جنگی طیاروں کی فائرنگ سے محفوظ رہنے کے لیے درختوں کے نیچے پناہ لینے کے لیے اپنی جیپ کو کھیتوں میں انتہائی تیز رفتاری سے چلا رہے تھے تو ان کی جیپ پکڈنڈی پر چلتے ہوئے پانی میں دھنس گئی تو ہم صرف چار لوگ تھے جبکہ دو دیہاتی جو اپنے کھیتوں میں کام کر رہے تھے وہ بھی ہماری مدد کو آگئے ۔ ہم چھ لوگ 35من سے زیادہ اتنی وزنی جیپ کو اٹھا کر وہاں سے نہیں نکال سکتے تھے ۔ میںنے تمام ساتھیوں کو یہ بتایا کہ جیپ کا وزن تو صرف سات من ہے اسے ہم اٹھا لیں گے۔ آپ یقین نہیں کریں گے ہم نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور اللہ کی طرف سے غیبی مدد حاصل ہو گئی کہ ہم نے پا نی اور کچڑ میں دھنسی ہوئی جیپ کو ایسے اٹھا یا اور پکڈنڈی پر دوبارہ ڈال لیا کہ کسی کو یقین نہیں آیا کہ یہ معرکہ کیسے ممکن ہو گیا ہے۔
اسی دوران بھارتی جنگی طیاروں کو پاک فضائیہ کے شیر دل پائلٹوں نے مار بھگایا۔کرکٹ کے عالمی شہرت یافتہ شیدائی صوفی عبدالجلیل (چاچا کر کٹ) نے بتایا کہ وہ جنگ ستمبر میں صرف چندسیکنڈوں کے فرق سے سیالکوٹ ریلوے اسٹیشن کے سامنے بس اسٹینڈ پر گرکر جانی و مالی نقصان پہنچانے والے خطرناک بم سے محفوظ رہے ۔ جس کی وجہ سے پاک آرمی کی طرح وطن عزیز کا قومی پرچم دنیا بھر میں بلند کیے ہوئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ چوک شہداںسیالکوٹ میں گرنے والے بھارتی بموں کی وجہ سے ہونے والے جانی و مالی نقصان کے دوران شہریوں کا جذبہ دیکھنے کے لائق تھا۔یہاں سونے کی دکانیں بھی تھیں لیکن کسی نے ایک تولہ سونابھی نہیں اٹھایا اورلوگ جن میں شہری دفاع کے رضاکار بھی شامل تھے زخمیوں کو ہسپتالوں تک پہنچا رہے تھے اور اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے اپنے بہن بھائیوں کی مدد کرتے رہے جبکہ جنگ سے متاثرہ خاندانوں کی رہائش اور کھانے وغیرہ کا بندوبست بھی کرتے رہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاک افواج نے اپنی پیشہ وارانہ مہارت اورجانثاری کے جرأت مندانہ جذبوں سے اور قوم کے بھرپو ر تعاون سے نا ممکن کو ممکن بنا کر دکھایا۔ پاکستان پر1965ء میں بھارت کی طرف سے جنگ مسلط کرنے کا ایک اہم مقصد دراصل پاکستانی قوم کے ریاستی نصب العین ، دوقومی نظریہ،قومی اتحاد اور حب الوطنی کوچیلنج کرنا بھی تھا۔ جسے جری قوم نے کمال و قار اور بے مثال جذبہ حریت سے قبول کیا اور لازوال قربانیوں کی مثال پیش کر کے زندہ قوم ہونے کاثبوت دیا۔ دوران جنگ ہر پاکستانی کی ایک ہی سوچ اور فکر تھی کہ اُسے دشمن کا کیسے سامنا کرنا ہے اور ہر حال میں کامیابی حاصل کرکے سرخرو ہونا ہے۔جنگ کے دوران نہ تو پاک فوج کے جوانوں اور افسران کی نظریں دشمن کی نفری اور عسکریت طاقت پر تھی اور نہ پاکستانی عوام کا دشمن کو شکت دینے کے سوا کوئی اورمقصد تھا۔ تمام پاکستانی میدان جنگ میں اللہ کانام لے کر کود پڑے تھے۔اساتذہ، طلبہ، شاعر، ادیب، فنکار، گلوکار، ڈاکٹر، سول ڈیفنس کے رضاکار، مزدور، کسان، تاجر و صنعت کار اور ذرائع ابلاغ سب کی ایک ہی دھن اور آواز تھی کہ اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا۔
ہر کسی کی خواہش اور کوشش تھی کہ اس نے اپنے حصے کی شمع جلانی ہے اور اس نے اپنا فرض ادا کرنا ہے۔ جنگ ستمبر میں ریڈیو پاکستان نے بھی قوم کا مورال بلند کرنے کے لیے جو گراں قدر خدمات سرانجام دیں اور ملکہ ترنم نورجہاں سمیت وطن عزیز کے فن کاروں ، گلوکاروں ، شاعروں اور صدا کاروں نے جس انداز سے اپنا حصہ ڈالا اس کی اپنی ایک لمبی تفصیل ہے۔ عالمی شہرت یافتہ براڈ کاسٹر ، ریڈیو پاکستان کے مقبول ترین پروگرام صبح پاکستان کے بانی و سپوت شہر اقبال عظیم سرور کا کہنا تھا کہ پاک فوج جہاں اپنی سرحدوں کا دفاع کر رہی تھی ۔وہاں فوج اور عوام میں جوش خروش پیدا کرنے کے لیے ریڈیو پاکستان کی خدمات کو نظر انداز ممکن نہیں۔
ستمبر 1965ء کی جنگ کا ہمہ پہلو جائز لینے سے ایک حقیقی اور گہری خوشی محسوس ہوتی ہے کہ کم وسائل ہونے کے باوجود اتنے بڑے اور ہر لحاظ سے مضبوط ملک کے مقابلے میں چھوٹے سے پاکستان میں وہ کون سا عنصر کارفرما تھا اور کیاجذبہ تھا جس نے پوری قوم کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار میں تبدیل کرکے رکھ دیا تھا۔
صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے ریڈیوپاکستان پر قوم سے ایمان فروز اور جذ بہ ایمانی سے لبریز خطاب کی وجہ سے پورا ملک اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اُٹھا۔فیلڈ مارشل ایوب خان کے خطاب کے دوران اس جملے : پاکستانیو! اٹھو لا الہ الا اللہ کا ورد کرتے ہوئے آگے بڑھو اوردشمن کو بتا دو کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے ،نے قوم کے اندر گویا بجلیاں بھردی تھیں اور ہر کوئی یک زبان اور یک جان ہو گیا تھا۔ پاکستان آرمی نے ہر محاذ پر دشمن کی جارحیت اور پیش قدمی کو حب الوطنی کے جذبے اورپیشہ وارانہ مہارتوں سے روکا ہی نہیں بلکہ مکار دشمن کی فوج کو پسپا ہونے پر بھی مجبور کر دیا تھا۔
بھارت کا پسندیدہ محاذ ضلع سیالکوٹ کا قصبہ چونڈہ تھا جہاں پاکستانی فوج کے جوانوں اور افسران نے جس اعلیٰ حکمت عملی اور جرأت و بہادری سے بھارتی فوجیوں اور ٹینکوں کا قبرستان بنایا اس کی دنیا کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ بھارتی فوج اور ٹینکوں کے اس سطح پر نقصان اور تباہی کو دیکھ کر بیرون ممالک سے آئے ہوئے صحافی بھی حیران اور پریشان ہوئے اور پاکستانی مسلح افواج کی دلیری ، جرأت اور بہادری کی داد دیتے رہے۔
نہ صرف پاک آرمی بلکہ چونڈہ اورتحصیل پسرور کے عوام نے بھی اپنی افواج کے ساتھ بڑھ چڑھ کر دشمن کی جارحیت کا مقابلہ کیا اور دشمن کے اپنے ایریا میں گھس جانے کے باوجود اپنے دیہاتوں میں مورچے بنا کر ڈٹے رہے اور دشمن کو دکھلا دیا کہ کہ اہل پسرور کو روند کر پاکستان میں داخل ہونا اتنا آسان نہیں۔ دشمن ٹینکوں کی ایک بہت بڑی تعداد لے کر جب دیہاتوں سے اندر گھس آیاتو اسے پھلورہ کے مقام پر پاکستانی فوج اور قوم نے وہ سبق سکھایا کہ اس کی آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی۔
1965ء میں پاک بھارت جنگ کے دوران دوسری جنگ عظیم میں سوویت یونین اور نازی جرمنی کے درمیان کرسک کی جنگ کے بعد تاریخ کی سب سے بڑی ٹینکوں کی لڑائی راوی اور چناب کے درمیانی علاقہ میں لڑی گئی۔ اس لڑائی کا مرکز ضلع سیالکوٹ کی تحصیل پسرور کا قصبہ چونڈہ تھا جو پاک افواج اور اس علاقے کے عوام کی مشترکہ کوششوں سے بھارتی فوجیوں اور بھارتی ٹینکوں کا قبرستان ثابت ہوا اور دنیا بھر میں اس کا چرچا ہوا اور اس معرکے میں کامیابی کی وجہ اس کی ایک پہچان ہوئی۔
جنگ ستمبر 1965 میں قوم نے خصوصاً سیالکوٹ ، لاہور اور سرگودھا کے شہریوں نے جب یہ شہر بھارتی پیش قدمی کا اہم ترین نشانہ تھے انہوں نے پاک افواج کے ساتھ مل کر جس استقامت جرأت و بہادری کا مظاہرہ کیا اس کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے ہلالِ استقلال جیسا منفرد اعزازعطا کیا۔ یہ ایک ایسا پرچم ہے جو نہ تو قومی پرچم کی طرح ہر روز صبح سویرے لہرایا جاتا ہے اور سورج غروب ہونے پر اتارا جاتا ہے بلکہ یہ دن رات مسلسل پوری آب و تاب سے لہراتا رہتاہے ۔ اس کی سال میں ایک بار تبدیلی ہوتی ہے اور پرانا پرچم اتار کر نیا پرچم لہرایا جاتا ہے۔ یہ پرچم کبھی سرنگوں بھی نہیں ہوتا۔ پرچم کی تبدیلی کی رسم ہر سال چھ ستمبر کو یوم دفاع کے موقع پر سرانجام دی جاتی ہے۔ سیالکوٹ کے تارٰیخی قلعہ پر واقع جناح ہال پر سارا سال ہلال استقلال پوری آب و تاب سے لہراتا ہے اور سیالکوٹ کے عوام کی جرأت و بہادری کی گواہی دیتا ہے ۔ سیالکوٹ کینٹ کی انتظامیہ نے سی ایم ایچ چوک کو ہلال استقلال چوک بنا کر سیالکوٹ کینٹ میں بھی یہی صدا بلند کرنے کی ایک روشن مثال قائم کی ہے۔ لاہور اور سرگودھا کے عوام بھی ہلال استقلال کی عطائیگی پر نازاں اور خوش ہیں۔
1965ء کی جنگ کا غیر جانبداری سے اور غیر جذباتی جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس جنگ میں ایک بڑے سرکش اورخونخوار شکار کوپاکستان نے چھوٹے سے جال میں آسانی سے قید کر لیا۔ اتنی عظیم کامیابی بانیٔ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے بتائے اصول ایمان، اتحاد،نظم پر عمل کرنے سے حاصل ہوئی ۔کسی بھی زاویۂ نگاہ سے دیکھیں تو یہی اصول1965ء کی جنگ میں پاکستان کی کامیابی کامرکز اور محور تھے۔ پاکستانی قوم اور پاکستانی افواج نے ملی یکجہتی،نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر ہر طرح کا فرق مٹا دیا اور قوم کا ہر فرد اپنے طور پوری طرح سرخرو ہوا۔
تعارف:مضمون نگار ایک معروف صحافتی گروپ کے ساتھ وابستہ ہیں اور مختلف موضوعات پر قلم کشائی کرتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے