گزشتہ دنوں منشیات کے عالمی دن کی مناسبت سے لاہور گیریژن یونیورسٹی کے اردو ڈرامیٹک کلب نے یونیورسٹی کے جناح آڈیٹوریم میں ایک اہم ڈراما"طلب" پیش کیا۔ اس ڈرامے کا بنیادی مقصد نوجوانوں کو منشیات کے نقصانات اور ان کے سنگین اثرات سے آگاہ کرنا تھا۔ اس کے ذریعے کوشش کی گئی کہ پاکستان کو منشیات سے پاک کیا جائے اور لوگوں میں اس حوالے سے شعور بیدار کیا جا سکے۔
محمد بلال کی تحریر اور ہدایات پر مبنی اس ڈرامے کی کہانی ایک نوجوان کی زندگی کے گرد گھومتی ہے جو منشیات کے استعمال کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے وہ منشیات کے چنگل سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے اور اس دوران اسے کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ڈراما نہ صرف جذباتی تھا بلکہ اس میں نوجوانوں کو منشیات کے استعمال سے بچنے کی ترغیب بھی دی گئی۔
ڈرامے کو دیکھنے کے لیے اداکاروں کے والدین، لاہور گیریژن یونیورسٹی کے طلبا اور اساتذہ کرام کی بڑی تعداد موجود تھی۔ حاضرین نے نہ صرف ڈرامے کی پیشکش کو سراہا بلکہ اردو ڈرامیٹک کلب کی اس کاوش کی بھی بہت تعریف کی۔ حاضرین کا کہنا تھا کہ اس طرح کے ڈرامے معاشرے میں منشیات کے خلاف شعور بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور نوجوانوں کو مثبت راستے پر گامزن کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
اس ڈرامے کے بعد ایک مختصر تقریب منعقد ہوئی جس میں پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف جاوید نے حاضرین سے خطاب کیا اور منشیات کے نقصانات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ منشیات کے خلاف اس جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد ارشد اویسی اور پروفیسر ڈاکٹر محمد ہارون قادر نے بھی حاضرین سے خطاب کیا اور اردو ڈرامیٹک کلب کی اس کاوش کو سراہا۔
تقریب کے اختتام پر تمام حاضرین نے اردو ڈرامیٹک کلب کے ارکان کی محنت کی تعریف کی اور اس امید کا اظہار کیا کہ اس طرح کی تقریبات مستقبل میں بھی جاری رہیں گی تاکہ نوجوانوں کو منشیات کے خطرات سے آگاہ رکھا جا سکے۔ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے ڈرامے جہاں نوجوانوں کو منشیات کے خلاف شعور دیتے ہیں وہاں یہ نئے فن کارانہ جوہر کو بھی سامنے لانے کا باعث بنتے ہیں۔
یاد رہے کہ لاہور گیریژن یونیورسٹی ہائر ایجوکیشن کمیشن سے منظور شدہ ایک اہم تعلیمی ادارہ ہے جو پاک فوج نے 2010 میں قائم کیا تھا۔اس کے وائس چانسلر میجر جنرل محمد خلیل ڈار (ریٹائرڈ )ہیں۔
(رپورٹ: پروفیسر ناصر بشیر)
تبصرے