پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے خوبصورت ترین خطے عطا کیے ہیں جن کا ثانی ساری دنیا میں نہیں ملتا ۔ ہمارے اس وطن کو بلند و بالا برف پوش چو ٹیوں کی سرزمین کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
دنیا کی بلند ترین چوٹیوں میں دوسری بلند ترین چوٹی k-2 اپنی پوری آن بان شان کے ساتھ گلگت بلتستان میں کھڑی ہے۔ جس کا شمار دنیا کے خوبصورت پہاڑوں میں بھی ہوتا ہے۔ نانگا پربت دنیا کی 9 ویں بلند ترین چوٹی ہے جو کوہِ پیمائوںکے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے، اپنے خدوخال کی وجہ سے اسے ''موت کے پہاڑ ''(Killer Mountain) کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے ۔ اس پہاڑ پر چڑھتے ہوئے کئی نامور کوہِ پیماہ اپنی جان گنوا چکے ہیں۔
شاہراہِ قراقرم پر سفرکرتے ہوئے گلگت شہر سے پہلے ایک ایسا مقام بھی آتا ہے جہاں دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلے "کوہِ قراقرم ،کوہِ ہندوکش اور کوہِ ہمالیہ " آپس میں ملتے ہیں ۔ دنیا میں اس جیسی منفرد جگہ کہیں اور نہیں۔
دنیا کا دوسرا بڑا سطح مرتفع "دیوسائی " اسکردو شہر سے تقریباً 70 کلو میٹر کے فاصلے پر موجود ہے جو اپنے قدرتی حسن ، حسین جھیلوں ، خوبصورت پھولوں ،برف پوش پہاڑوں ، سرسبز چراگاہوں ، خوبصورت جانوروں اور پرندوں کی وجہ سے اس کائنات کا سب سے دلکش و دل فریب میدان تصور کیا جاتا ہے۔
دیوسائی کو بین لاقوامی سطح پر نیشنل پارک کا درجہ بھی حاصل ہے۔یہاں جنگلی حیات اپنے قدرتی ماحول میں خوش وخرم زندگی بسر کررہے ہیں، نایاب نسل کے بھورے ریچھ بھی اس نیشنل پارک کے ہی مکین ہیں جن کی نسل کو بچانے کے لیے انتھک کوششیں جاری ہیں ۔
ہنزہ اور نگر (گلگت بلتستان)اپنی قدیم تاریخی روایات کے ساتھ پاکستان کی خوبصورتی کو چارچاند لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔تحقیق کے مطابق ہنزہ کے چشمے اور گلیشیئرز کا پانی دنیا بھر میں معدنیات اور صحت کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر آتا ہے۔
ہنزہ اور نگر شاید دنیا کا وہ واحد علاقہ ہے جسے چاروں طرف سے خوبصورت بلند و بالا برف پوش پہاڑی سلسلوں نے اپنے حصار میں لیا ہوا ہے۔جن میں راکا پوشی، براڈ پیک، دیران پیک اور لیڈی فنگر جیسی چوٹیاں قابلِ ذکر ہیں ۔شاہراہِ قراقرم اس علاقے سیگزر رہی ہے جو یہاں کے محلِ و قوع کو اُجاگر اور اسکی حیثیت کو مزید دلکش بناتی ہے۔
شاہراہِ قراقرم کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہا جاتا ہے جو پاک چین دوستی کی بہترین مثال ہے۔ سنگلاخ چٹانوں اور دشوارگزار راستے کو کاٹ کر جس طرح اس شاہراہ کی تعمیر کی گئی ہے بلاشبہ وہ کسی گوہرِنایاب سے کم نہیں۔
CPEC کے منصوبے کے بعد اس سڑک میں مزید بہتری آئے گی جو بالخصوص اس علاقے کے لوگوں کے لیے ترقی کی نئی راہیں کھولے گی جو کسی نعمت سے کم نہیں۔
شاہراہِ قراقرم ہنزہ سے مزید آگے دلفریب نظاروں سے ہوتی ہوئی ،پاک چائنا ٹنل سے گزرتی ،عطاء آباد جھیل کو سلام کرتی پاکستان اور چائنا کی سرحد خنجراب ٹاپ پر جاکر پاکستانی حدود میں ختم ہوجاتی ہے۔یہ دنیا کا سب سے اونچا سرحدی مقام ہے جہاں دو ملکوں کی فوجیں موجود ہیں ۔اس مقام کی اونچائی تقریباً15,397فٹ ہے۔
قطب شمالی کے بعد دنیا کے طویل ترین گلیشیئرز بھی ہمارے پیارے ملک پاکستان میں ہی موجودہیں۔جن میں سیاچن گلیشیئرز، باتورا گلیشیئرز، ہسپر گلیشیئرز اور بالترو گلیشیئرز قابلِ ذکر ہیں ۔
کشمیر کو جنت نظیر وادی بھی کہا جاتا ہے جہاں کی دلکشی و رعنائی انسانی دلوں کو موہ لیتی ہے اور سیاح ان وادیوں میں پہنچ کر اللہ کی ثناء کیے بغیر نہیں رہ سکتے اور دم بخود رہ جاتے ہیں۔کشمیر کی وادیوں میں وادی ٔنیلم، وادیٔ لیپا، اور وادیٔ باغ مشہور ہیں جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں ۔مظفرآباد آزاد کشمیر کا دارالحکومت ہے جو قدرتی رنگ اور جدید طرزِ زندگی کا شاہکار ہے۔
صوبہ خیبر پختونخواہ میں چترال سے تقریباً 28کلو میٹر کے فاصلے پرکیلاش قبیلے کے لوگ آباد ہیں جو اپنے مذہبی لگائو اور تہذیبی روایات میں دنیا بھر میں منفرد مقام سے پہچانے جاتے ہیں۔ہر سال یہاں موسم بہار میں ایک میلا لگتا ہے جو "چلم جوشی" کے نام سے مشہور ہے ۔ ساری دنیا سے کثیر تعداد میں سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں ۔
چترال میں " شندور" کے مقام پر دنیا کا سب سے بلند ترین پولو گرائونڈ مو جودہے جہاں ہر سال ٹورنامنٹ بھی ہوتا ہے اور ملک و بیرونِ ملک سے کثیر تعداد میں شائقین تشریف لاتے ہیں اور اس منفرد پولو میچ سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں سوات جیسی خوبصورت اور دلفریب وادی بھی موجود ہے جسے خوبصورتی و رعنائی کی وجہ سے ایشیاکا سوئیٹزرلینڈ بھی کہا جاتا ہے۔یہاں کے چشمے، آبشار ، دریا، برف پوش پہاڑی سلسلے ، باغات اور گھنے جنگلات اپنی مثال آپ ہیں۔
ہمارے پیارے ملک میں ایشیا کی خوبصورت ترین''جھیل سیف الملک ''بھی موجود ہے۔جو چاروں طرف سے برف پوش پہاڑی سلسلوں میں گھری ہوئی ہے اور اپنے رومانوی قصے کی وجہ سے مزید پراسرار اور دلفریب ہو جاتی ہے۔اس کے علاوہ اَن گِنت جھیلیں اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ہمارے اس خوبصورت وطن کی زینت ہیں۔
صوبہ بلوچستان کے علاقے زیارت میں دنیا کے دوسرے قدیم ترین قیمتی صنوبر کے جنگلات موجود ہیں۔ ان قیمتی اثاثوں کی حفاظت کرنا ہماری اولین ذمہ داری ہے ۔
زیارت ایک نہایت پرفضا مقام ہے جو تقریباً 8343 فٹ بلندی پر واقع ہے۔ بانیِ پاکستان قائداعظم نے اپنی زندگی کے آخری ایام اسی مقام پر گزارے جو "زیارت ریذیڈنسی" کے نام سے مشہور ہے۔صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً 335 کلو میٹر کے فاصلے پر ژوب میں کوہِ سلیمانی کے پہاڑی سلسلے میں دنیا کے دوسرے بڑے چلغوزے کے جنگلات ہیں جو خالصتاً قدرتی ہیں اور اپنی انفرادیت کی وجہ سے دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں ۔
دنیا کی دوسری بڑی قدرتی نمک کی کان صوبہ پنجاب کے علاقے کھیوڑہ میں موجود ہے جہاں سیاحوں کی تفریح کے لیے خاطر خواہ انتظامات کیے گئے ہیں اور کان تک جانے کیلئے خصوصی ٹرین ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔
پاکستان کا ساحلی علاقہ صوبہ سندھ بدین سے شروع ہو کر بلوچستان جیونی تک جاتا ہے۔ ان ساحلی علاقوں میں مینگروز کے نایاب جنگلات پائے جاتے ہیں ۔پاکستان کی سمندری حدود میں کئی جزیرے موجود ہیں جو قدرت کی فیاضیوں کاشاہکار ہیں۔ جہاں آبی جانور اور ہجرت کرکے آئے پرندے آزادانہ ماحول میں زندگی بسر کررہے ہیں
سینڈزپٹ کے ساحل پر نایاب نسل کے ہرے کچھوے پائے جاتے ہیں جو دنیا کے کسی اور خطے میں موجود نہیں ۔اعلیٰ قسم کے جھینگے کثیر تعداد میں اور لاتعداد مچھلیوں کی اقسام بھی ہمارے ان نیلگوں پانی میں موجود ہیں ۔
دریائے سندھ طویل سفر کرتا ،مختلف خطوں کو سیراب کرتا ، سرسبز و شاداب بناتا، زندگی کو رواں دواں رکھتا بالآخر بحیرۂ عرب سے جا ملتا ہے ۔ بلاشبہ دریائے سندھ ایک عظیم دریا ہے جو اپنے اندر سیکڑوں کہانیاں سموئے ہوئے ہے۔دریائے سندھ میں سکھر کے آس پاس نایاب نسل کی اندھی ڈولفن پائی جاتی ہیں جو اکثر و بیشتر اچھلتی کودتی نظر آتی ہیں ۔ ان کی افزائش کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں ۔
ریگستانوں میں تھر اور چولستان کے ریگستان اپنی مثا ل آپ ہیں جو اپنے اندر کئی رومانوی داستانیں سموئے ہوئے ہیں ۔ اسکردو کے قریب سرد ریگستان "KATPANA" موجود ہے جو بلند و بالا برف پوش پہاڑی سلسلوں کے درمیان دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا واحد ریگستان ہے اور دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
آثارِ قدیمہ کے لحاظ سے تو پاکستان میں بے شمار خزانے چھپے ہوئے ہیں جن میں موہنجوداڑو،ہڑپہ، ٹیکسلا اور مہر گڑھ قابلِ ذکر ہیں اور اس شعبے میں تحقیق کرکے کئی مزید گوہردفن خزینے نکالے جاسکتے ہیں ۔
تاریخی مقامات کی ایک طویل فہرست بھی موجود ہے جن میں شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد، رنی کوٹ، عمر کوٹ اور بلتت فورٹ کافی مشہور ہیں۔یہ پاکستان کو دوسرے ملکوں سے منفردو اعلیٰ مقام دلاتے ہیں ۔
پاکستان کی خوبصورتی کا شاید ہم اس چھوٹے سے فیچر میں حق ادا نہ کرسکیں۔ چند گزارشات جو پاکستان میں ٹورازم کو فروغ دینے کے لیے انتہائی ضروری ہیں وہ یہ ہیں کہ پاکستان کی خوبصورت جھیلوں ، آبشاروں، برف پوش پہاڑوں ،لہلہاتے کھیتوں ، خوبصورت ریگستانوں اوردلکش آب گینوں تک پہنچنے کیلئے خاطر خواہ سہولیات بہم پہنچائی جائیں۔
گھنے اور برف پوش پہاڑوں کے درمیان چیئرلفٹ لگائی جائیں ۔تیزو تند دریائوں میں رافٹنگ کی سہولیات مہیا کی جائیں ۔سمندری جزیروں تک رسائیکے لیے فیری اور تیز بوٹ سروس متعارف کروائی جائیں ۔راستے پکے کیے جائیں ۔ہوٹلنگ کے سسٹم کو مزید بہتر بنایا جائے ۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے خاطر خواہ تشہیر کی جائیتاکہ ہماری ان جنت نظیر وادیوں کا نظارہ اقوامِ عالم بھی کرسکیں اور خاطر خواہ بیرونی ذرمبادلہ بھی حاصل ہوسکے۔
مضمون نگار سماجی، معاشرتی اور سیاحتی موضوعات پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے