شہید نائیک محمد اسدلنگاہ کے بارے میں توقیر ساجد کھرل کی تحریر
شہادت ایک ایسا خوشبو دار اور معطر پھول ہے کہ جو صرف پروردگار کے منتخب کردہ بندگان کوہی نصیب ہوتی ہے اور صرف اُن ہی کے مشام سونگھ سکتے ہیں۔ کرۂ ارض پرہر ذی نفس زندہ رہنا چاہتا ہے جبکہ مسلم سپاہ کا ہر فرد شہادت کا تمنائی ہوتا ہے۔ قرآن حکیم اور احادیث نبویۖ میں شہید و شہادت کا جو مرتبہ ہے، اس سے کون واقف نہیں۔ پاک فوج کی سپاہ تو ایک نظریاتی مملکت کی سپاہ ہے جس کی تخلیق ہی دو قومی نظریے کی مرہونِمنت ہے۔ گویا اس کا ذوقِ شہادت دوسرے مفادات کا ضامن بھی ہے۔
میرے وطن کے محافظ اسلام اور ملک دشمن عناصر کی سرکوبی کے لیے وطن عزیز کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ کسی کو کیا خبر کہ پاک افواج کے جوان چٹیل میدانوں، صحراؤں،ریگستانوں،تندخو دریاؤں، بپھری ہوئی فضاؤں اور فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیوں پرعین جوانی میں جان ہتھیلی پر رکھ کر قوم کی حفاظت کرتے ہیں۔اس دکھ کو وہ مائیں جانتی ہیں جن کے جگر گوشے ان سے جدا ہوگئے۔ بلاشک و شبہ شہادت عظیم مرتبہ ہے مگر یاد تو ستاتی ہے ۔شہید محمد اسد کی والدہ فضا بی بی اپنے جوان لخت جگر کی جدائی کا دکھ لے کر باقی ماندہ زندگی جی رہی ہیں لیکن ساتھ ہی ان کا سر بھی فخر سے بلند ہے کہ وہ ایک شہید کی ماں ہیں ۔بلاشبہ یہ افواجِ پاکستان کے شہداء کی عظیم مائیں کس قدر بلند حوصلہ ہیں کہ اپنے فرزندان کو وطن پر قربان کردیتی ہیں۔
محمد اسد کی بوڑھی والد ہ روہانسی آواز میںمسلسل اپنے بیٹے کا ذکر کرتے ہوئے بولے جارہی تھی کہ سب کے بیٹے جیتے جاگتے ہیں۔ان کی دنیا کی رونقیں ماند نہیں پڑی ہیں آہ ! میرا بیٹا آنکھوں سے دُور ہوگیا مگر وہ میرے دل اور ذہن سے ایک لمحہ کو بھی دور نہیں ہوا۔شہادت سے کچھ دن پہلے میرابڑا بیٹا اسلم انتقال کرگیا تھا وہ شہر میں سرکاری سکول میںاستاد تھا۔ والد کے انتقال کے بعد میرا مرحوم بیٹا اسلم ہی گھر کا سربراہ تھا اس کی وفات کے بعد محمد اسد شہید ہوگیا۔اب دونوں میرے خواب میں آتے ہیں اُجلے لباس پہنے خوش اور ایک ساتھ نظر آتے ہیں۔
شہید کی بیوہ کہتی ہیں"شہید کی بیوہ ہونا میرے لیے فخر کی بات ہے، یہ رتبہ ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔ محمد اسد شہید بہت پیار اور محبت سے رہتے تھے وہ جب بھی فون کرتے تھے تو یہی کہتے تھے کہ میرے بیٹے کا خیال رکھنا۔جب بیٹا پیدا ہوا تو وہ کئی دن گھر میں رہے۔بیٹے کو ہر وقت سینے سے لگائے رکھتے تھے، اپنے بیٹے سے بہت محبت کرتے تھے۔ شہید محمد اسد نے وطن کی مٹی کو جب اپنا کفن بنایا تو ان کا نومولود بیٹا عزادار، محض دو ماہ کا تھا اب وہ بڑا ہورہا ہے ۔شہید بابا کی تصویر دیکھ کر "بابا بابا" پکارتا ہے۔
شہید محمد اسد کے بھائی ڈاکٹر محمد اشرف لنگاہ کہتے ہیںکہ32سالہ محمد اسد میرا سب سے چھوٹا اور لاڈلہ بھائی تھا۔ بارہویں جماعت تک تلمبہ میں ہی تعلیم حاصل کی ۔ وہ علاقے میں فلاحی اور سماجی امور میں فعال تھا ۔شجاعت اور دلیری اس کی پہچان تھی۔تعلیم حاصل کرنے کے بعد شعبہ طب سے وابستہ ہوا ۔ایک دن اسے معلوم ہواکہ پاک فوج میں بھرتیاں ہورہی ہیں تو طب شعبہ کو ترک کرکے پاک فوج میں شمولیت کا فیصلہ کیا، وہ اس دن بہت خوش تھا۔جذبہ حب الوطنی نے اُسے منزل دکھادی تھی۔14سال تک پاک فوج میں شاندار خدمات انجام دیں۔پھرایک روزوہ اپنے لہو میں نہاکر سُرخرو ہو گیا۔ تاریخی اور اساطیری شہر تلمبہ کے قدیمی قبرستان میں شہید محمد اسد کا مرقد ہم سب کا فخر ہے۔ ہمیں نازہے کہ ہمارے بھائی نے وطن عزیز پر اپنی جان قربان کردی، تاابد مسرت اور بعد از مرگ ہمیں شہید محمد اسد کی قربانی قابل فخر بناتی رہے گی بطور شہیدوہ ہماری اُخروی نجات کا سبب بنے گا۔
لنگاہ خاندان کے چشم و چراغ محمد اسد نے 10فروری1989میں تلمبہ ضلع خانیوال میں آنکھ کھولی. 24ستمبر2009کو پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔ڈیرہ اسماعیل خاں کے علاقہ مدی دار بن میں دہشتگردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے 20مارچ 2023 کو جام شہادت نوش کیا۔ خوب صورت آنکھوں والے محمد اسد کی ڈیوٹی ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے ساگو میں تھی۔عارضی چیک پوسٹ پہ حملہ ہوا تو ساتھیوں سمیت چیک پوسٹ کی طرف مارچ کیا۔ رات گیارہ بجے گھات لگائے دہشت گردوں نے حملہ کردیا جس میں پاک فوج کے تین جوانوں نے جامِ شہادت نوش کیاتھا۔شہید کو پاکستان زندہ باد پاک فوج پائندہ باد کے نعروں اور فوجی اعزاز کے ساتھ تلمبہ کے قدیمی قبرستان بابا فاضل شاہ دیوان میں سپرد خاک کیاگیا۔شہید کے چچا زاد ایس ایس جی کمانڈو مختار حسین بابر کہتے ہیں شہادت کا درجہ قسمت والوں کو ملتا ہے وطن کی محبت اور دفاع میں محمد اسد شہید کی شہادت پر پورے خاندان اور اہلِ تلمبہ کو فخر ہے۔
شہید کی قبر کے کتبے پر یہ شعر کندہ ہے
ہرکسی کو میسر نہیں رتبہ شہادت کا
یہ عزم ہے مٹی کے لیے قربان ہونے کا
مضمون نگارسماجی و قومی موضوعات پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے