اب کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن اس کی گواہیاں آنا شروع ہوچکی ہیں کہ دنیا پر راج وہی قوتیں کریں گی جو آرٹیفشل انٹیلی جینس میں آگے ہوںگی ۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا، انتہای تیزرفتاری سے تعلیم سے لے کر انڈسٹری تک اور اقتصادیات سے لے کر جنگوں تک ایک ایک شعبہ ہائے زندگی میں انسانوں کی جگہ مصنوعی ذہانت رکھنے والی مشینیں نظر آنا شروع ہوجائیں گی ۔ حتیٰ کہ انسانی رشتوں کی جگہ بھی روبوٹس لے لیں گے اور عام انسان اپنی معاشرت سمیت صحیح معنوں میں مشین کے قبضے میں چلا جائے گا ۔ جبکہ مشینوں کے مالکان اس تسلط کو پورے اعتماد سے انجوائے کر سکیں گے ۔
دنیا کا صاحب الرائے طبقہ اگرچہ کلوننگ کی طرح مصنوعی ذہانت کے معاملے میں بھی تقسیم ہوچکا ہے لیکن جو قوتیں اسے اپنے لیے ضروری سمجھ رہی ہیں وہ ہزار دو ہزار ماہرین یا با اثر شخصیات کے دبائو میں آئے بغیر بڑی سرعت سے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ خدشات ابھارنے والی تین باتیں ہر اعلیٰ سطح پر زیر بحث ہیں ۔ ایک تو ہیومن ریسورس کی ری پلیسمینٹ ، دوسری معاشرتی اخلاقی ویلیوز کی پوزیشن اور تیسری آرٹیفشل انٹیلی جنس کی ملٹریلائزیشن کے خطرات کیونکہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آنے والے دنوں میں خاص طور پر وار انڈسٹری کا زیادہ تر انحصار آرٹیفشل انٹیلیجنس پر بڑھتا دکھائی دے رہا ہے ۔
اس وقت مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی پر ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کا نتیجہ انسانی روبوٹس کو انسانوں سے زیادہ مؤثر و مستعد بنانے کی کوشش میں ظاہر ہو رہا ہے خاص طور پر جنگی اور تجارتی روبوٹس تیزی سے مصنوعی ذہانت کے حامل بنائے جا رہے ہیں تاکہ مصنوعی ذہانت انہیں اپنے طور پر کام اور مشن انجام دینے کے قابل بنا سکے۔
عسکری تناظر میں کی جانے والی پیش رفت جس بحث کو جنم دے رہی ہے وہ یہ ہے کہ کیا مصنوعی ذہانت کے حامل روبوٹس کو ایسے مشن انجام دینے کی اجازت دی جانی چاہیے جس میں کسی انسانی جان کو خطرے میں ڈالنے کا امکان ہو۔ کیونکہ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی بھی صورتحال میں علم ، تجزیے اور خصوصاً فیصلے کی ضرورت اور اس فیصلے کی ذمہ داری کے حوالے سے کیا انسان کی جگہ مصنوعی ذہانت پر انحصار کیا جا سکتا ہے ۔
تاریخی پس منظر
آرٹیفشل انٹیلی جنس یا مصنوعی ذہانت (AI) کا آغاز 1940 کی دہائی میں ہوا جب ریاضیاتی استدلال یا لسان الاعداد ( Digital Language ) پر مبنی پروگرام کے مطابق چلنے والا ڈیجیٹل کمپیوٹر ایجاد ہوا۔ 1950 میں ایلن ٹورنگ نے ٹورنگ ٹیسٹ کی تجویز پیش کی تاکہ مشین کے ذہین رویے کو ظاہر کرنے کی صلاحیت کا اندازہ لگایا جا سکے جو انسان سے مختلف نہیں ہوتا۔
1956 میں ڈارٹ ماتھ کانفرنس کے دوران ''مصنوعی ذہانت''کی اصطلاح وضع کی گئی، جہاں جان میک کارتھی، مارون منسکی، نتھینیئل روچیسٹر، اور کلاڈ شینن جیسے علمبرداروں نے انسانی ذہانت کی نقل کرنے کے لیے مشینوں کی صلاحیت پر بحث و مباحثہ اور تبادلۂ خیال کیا۔
1960-1970 کے دورانیے میں ابتدائی مصنوعی ذہانت پر ہونے والی تحقیق علامات کی مدد سے وضع کیے جانے والے طریقوں کے ذریعے مسئلہ حل کرنے پر مرکوز تھی۔ جس کے نتیجے میںELIZAجیسے پروگرام (ایک ابتدائی قدرتی لینگویج پروسیسنگ سسٹم)نے اور مختلف مہارتیں رکھنے والے سسٹمز نے نمایاں پیشرفت کی۔
آرٹیفشل انٹیلی جنس یا مصنوعی ذہانت (AI)کی اقسام
مصنوعی ذہانت کو اس کی صلاحیتوں کی بنیاد پر ابتدائی تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
1 ۔کمزور یا محدود ذہانت جو کہ مخصوص اور ابتدائی نوعیت کے کاموں کے لیے ڈیزائن کی گی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ مشین کی مصنوعی ذہانت کے خطوط پر تربیت کی گئی ہے ۔
مثال کے طور پر صوتی معاونت ۔ جس طرح ہم گوگل کو بول کے کچھ کہتے ہیں یا جی پی ایس سسٹم جو ہمیں بول کے راستہ بتاتا ہے یا جیسے Siri اور Alexa، اسٹریمنگ پلیٹ فارمز پرتجاویزکا نظام اور ای میل میں اسپام فلٹرز وغیرہ ۔
2 ۔ طاقتور یا عمومی ذہانت جسے آپ آسانی سے سمجھنے کے لیے کامن سینس بھی کہہ سکتے ہیں ۔ یہ ایک طرح کا مصنوعی شعوری یا آرٹیفشل ادراکی نظام ہے جو کسی بھی ایسے فکری کام کو انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے جو انسان کر سکتا ہے۔ یعنی تھاٹ پراسیس کی طرح چلنے والا نظام جس طرح انسان کسی آواز کو سن کر اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ گھوڑے کے ہنہنانے یا گاڑی کے ہارن کی آواز ہے ۔
یہ بڑی حد تک غیر نظریاتی ہے، جس میں بظاہر ابھی تک تو کسی طرح کا نظریاتی جھکائو یا مؤقف کا نفاذ نہیں کیا گیا لیکن انٹرنیشنل افیرز اور پولیٹیکل اکانومی کے خصوصی معاملات پر تحقیق کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اتنا ہی غیر نظریاتی ہوگا جتنا کہ یوٹیوب اور فیس بک سمیت سوشل میڈیا ہے۔
3 ۔ تیسری قسم سپر انٹیلی جنس ہے جو کہ انسانی ذہانت اور صلاحیتوں سے بالاتر مصنوعی ذہانت ہے اور یہ وہی مصنوعی ذہانت ہے ، اہل بصیرت جس کو انسان ، انسانیت اور دنیا کے لیے خطرے کا باعث قرار دے رہے ہیں ۔ سپر آرٹیفشل انٹیلی جنس سے ایسے ایسے کام لیے جاسکتے ہیں جن کے بارے میں اب تک صرف کہانیاں ہی لکھی گئی ہیں ۔ میرے ذاتی خیال کے مطابق سپر آرٹیفشل انٹیلی جنس کیذریعے پوری دنیا اور دنیا کی مخلوقات کو کنٹرول کرنے کے خواب دیکھے جا رہے ہیں ۔ یہ انسانی وجود اور اخلاقی معاملات سمیت ہر طرح کی حیثیت کے لیے چیلنج ثابت ہوسکتی ہے ۔ انسان کے لیے سب سے بڑا خطرہ اور خوف موت میں ہے ۔ یہ قیاس کیا جانا غلط نہیں ہوگا کہ آرٹیفشل انٹیلی جنس کے ذریعے موت کو چکمہ دینے کا منصوبہ بنایا جا سکتا ہے ۔
مصنوعی ذہانت کا کلیدی ٹیکنالوجیز میں عمل دخل
مشین لرننگ (ML) مصنوعی ذہانت کا ایک ایسا ذیلی سیٹ ہے جو الگورتھم کی ڈویلپمنٹ پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور مشینوں کو حاصل شدہ ڈیٹا سے سیکھنے کے قابل بناتا ہے۔ یہ کسی نگران کی موجودگی اور غیرموجودگی دونوں صورتوں میں سیکھنے کے عمل کو جاری رکھتا ہے ۔ اس کے علاوہ اس سے اگلی سٹیج مزید گہرائی میں جا کر مشین کے سیکھنے کا پراسیس ہے ۔ ساتھ ساتھ یہ مشین لرننگ کی ایک خصوصی شکل ہے جس میں کئی تہوں پر مبنی گہرے نیورل نیٹ ورکس کے اندر موجود نیورل نیٹ ورکس کی تعلیم شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصنوعی ذہانت نے تصویر اور تقریر کی شناخت، قدرتی زبان کی پروسیسنگ اور خود مختار ڈرائیونگ جیسے شعبوں میں انقلاب برپا کیا ہے۔
لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی اور ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کا کام اس سے اگلے پروگرام پر بھی فوکس کیے ہوئے ہے جسے نیچرل لینگویج پروسیسنگ (NLP) کہا جاتا ہے۔
انسانوں میں اعصابی اور حواس کے نظام کے ذریعے دماغ کو جانے والے پیغامات اور اس کے مطابق دماغ کے ردعمل کو این ایل پی کہا جاتا ہے ۔ جس میں انسانی زبان کو سمجھنے، تشریح کرنے اور تخلیق کرنے کے خطوط پر مشینی ایپلیکیشن کی زبان کا ترجمہ، جذبات کا تجزیہ کرنے جیسے ٹاسک یا صلاحیت شامل ہے اور اس کی مثال کے طور پر AI چیٹ بوٹس کو دیکھا جاسکتا ہے جو انتہای تیزرفتاری سے سوال کو پراسس کرکے اس کا منطقی جواب دینے کی قابلیت حاصل کرچکے ہیں ۔
مزید یہ کہ یہ نظام بالکل انسانوں کے نیورو لنگوسٹک پروگرام کی طرح کام کرتا ہے ۔ مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والی کمپنیاں ایسے روبوٹس بنا چکی ہیں جو انسانوں کو پہچاننے ان سے لاگ اِن ( Login ) ہو کر پیشہ ورانہ اور دوستی کا رشتہ بنانے کی اہلیت رکھ سکتے ہیں ۔ اس وقت مصنوعی ذہانت کے ماہرین روبوٹس کے انسانوں کی طرح ردعمل اور ایکسپریشن پر کام کر رہے ہیں ۔ روبوٹکس کے ساتھ مصنوعی ذہانت کا انضمام دراصل ایسی ذہین مشینیں بنانے کے لیے بھی استعمال میں لایا جا رہا ہے جو انسانوں کی طرح جسمانی کام انجام دے سکیں۔ یہ ایپلیکیشنز انڈسٹریل آٹومیشن سے لے کر سروس روبوٹس اور خود مختار گاڑیوں تک پر مشتمل ہیں اور اسی طرح کمپیوٹر ویژن میں بھی مصنوعی ذہانت کے ذریعے دنیا سے بصری معلومات کو اکٹھا کرنے ، تشریح اور سمجھنے کی مشینی صلاحیت میں بہت تیزی سے ترقی کی جا رہی ہے ۔ یہ ایپلیکیشنز چہرے کی شناخت، اوبجیکٹ کا پتہ لگانے، اور طبی تصویر کے تجزیہ میں بھی استعمال کی جا رہی ہے۔
مصنوعی ذہانت تیزی سے مختلف صنعتوں اور روزمرہ کے معاملات کو تبدیل اور آسان بنا رہی ہے جس میں صحت کی دیکھ بھال کے لیے مصنوعی ذہانت رکھنے والی مشینوں کا استعمال ، بیماری کی تشخیص، ادویات، منشیات کی دریافت، اور روبوٹک سرجری میں کیا جا رہا ہے۔ نتیجے کے طور پر دیکھا گیا ہے کہ مشین لرننگ الگورتھم بیماریوں کے پھیلنے سے روکنے کے لیے قبل از وقت انتباہ اور مریضوں کے نتائج کی پیشین گوئی کرنے کے لیے طبی ڈیٹا کا تجزیہ زیادہ تیزی اور قابلیت سے کرتی ہے۔ مصنوعی ذہانت اسی طرح فنانس کے شعبوں میں فراڈ کا پتہ لگانے اور فنانشل اکاؤنٹس کے علاوہ ذاتی نوعیت کی تجارتی خدمات کو طاقت دے رہی ہے ۔ اسی طرح نقل و حمل کے شعبے میں بغیر ڈرائیور کے گاڑیاں، ٹریفک مینجمنٹ سسٹم اور نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کی پیشین گوئی کی دیکھ بھال کا کام بھی سرانجام دے رہی ہے ۔ اسی طرح تفریح ، تعلیم اور کسٹمرسروس کے شعبوں میں مصنوعی ذہانت نے وقت اور استعداد کے معاملات میں پیشوں کی معاونت کا کام بھی سنبھالنا شروع کر دیا ہے ۔
مصنوعی ذہانت کا عسکری استعمال
مصنوعی ذہانت کی ایک نئی لہر پوری دنیا کی فوجوں کی طرف سے کافی دلچسپی حاصل کر رہی ہے اور اس میں دلچسپی لینے والے ممالک کی بڑھتی ہوئی تعداد پہلے سے ہی فوجی صلاحیتوں کے لیے سرگرم عمل ہے اور اب تو یوں لگتا ہے کہ جس ملک کی ملٹری مصنوعی ذہانت کے فوجی استعمال میں پیچھے رہ گئی اس کے لیے ملک کا دفاع کرنا مشکل ہوجائے گا۔ اس حوالے سے معیشت کی طرح سب سے بڑا مقابلہ امریکہ اور چین کے درمیان ہے جبکہ باقی ممالک میں اسرائیل ، روس ، فرانس ، جرمنی ، برطانیہ ، ایران ، پاکستان ، بھارت اور شمالی کوریا وغیرہ سر فہرست ہیں ۔
جنگ اور ہتھیاروں میں مصنوعی ذہانت (AI) کا استعمال
1۔ خودمختار ہتھیار جو مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر اپنے ہدف کو نشانہ بناتے ہیں ۔
2۔ پیش گوئی کرنے والے تجزیات : یہ AI الگورتھم دشمن کی نقل و حرکت اور حکمت عملی کی پیش گوئی کرنے کے لیے ڈیٹا کا تجزیہ کرتے ہیں اور فوجی حکمت عملی کو بڑھاتے ہیں۔
3۔ سائبر وارفیئر : یہ جارحانہ اور دفاعی سائبر آپریشنز کے لیے AI سے چلنے والے ٹولز ہیں ۔
4۔ ڈرون سوارمز ، مصنوعی ذہانت کے زیر کنٹرول ڈرونز جو دشمن کے دفاع کو مغلوب کر سکتے ہیں۔
5۔ انٹیلی جنس اکٹھا کرنے والے پیٹرن اور ویژن کی شناخت کے لیے ڈیٹا کی وسیع مقدار کا تجزیہ کرنے والی مصنوعی ذہانت ۔
6۔ فیصلے کی معاونت کے نظام : یہ AI سسٹم کمانڈروں کو فیصلے کرنے میں مدد فراہم کرنے کے لیے ڈیٹا پر مبنی بصیرت فراہم کرتا ہے۔
7۔ لاجسٹکس اور سپلائی چین مینجمنٹ : AI وسائل کی تقسیم اور سپلائی چین کے انتظام کو بہتر بناتا ہے۔
8۔ مواصلاتی نیٹ ورک : یہ محفوظ اور مؤثر معلومات کے تبادلے کے لیے AI سے چلنے والے مواصلاتی نیٹ ورکس کہلاتے ہیں۔
خدشات و خطرات
جہاں AI فوجی صلاحیتوں کو بڑھاتا ہے، وہیں اس کے بارے میں خدشات بھی پیدا ہوتے ہیں جیسا کہ فیصلہ سازی میں تعصب،غیر ارادی نتائج،احتساب کا فقدان،تشدد میں اضافہ اور سائبر سکیورٹی کے خطرات جیسے عوامل۔ یہ بات اب بڑی طاقتوں سمیت تمام انسانی احساس ِ ذمہ داری رکھنے والے ادارے اور شخصیات پوری شدت سے محسوس کر رہے ہیں کہ جنگ میں AI کی ترقی اور استعمال کے لیے اخلاقی اور قانونی مضمرات پر احتیاط سے غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ذمہ دارانہ احساس اور انسانی اطلاق کو یقینی بنایا جا سکے۔
حفاظتی امور سے متعلق خطرات
AI سسٹم سائبر حملوں کا شکار ہو سکتے ہیں، بشمول مخالفانہ حملے جو سسٹم کو دھوکہ دینے کے لیے ان پٹ ڈیٹا میں ہیرا پھیری کرتے ہیں۔
اخلاقی اور معاشرتی مضمرات
اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈیجیٹل لینگوج پر دسترس ہونے کے بعد انسان کے معلومات کے حصول سے لیکر ان معلومات سے فوائد حاصل کرنے تک کے میدانوں میں مصنوعی ذہانت نے بے مثال ترقی کی ہے لیکن اس کی یہ تیز رفتار ترقی کئی اخلاقی اور معاشرتی خدشات کو جنم دے رہی ہے ۔ جس میں انسانوں سے روزگار کا چھن جانا اور تخلیق کاروں کی موجودگی میں محض ڈیٹا پراسیسنگ کی بنیاد پر تخلیق پارے سے ملتی جلتی چیز کی انجینئرنگ کرنا شامل ہیں ۔
تعصب اور انصاف
مصنوعی ذہانت کے کسی بھی نظام کی ڈویلپمنٹ کے وقت یہ ڈویلپر کے اختیار میں ہوتا ہے کہ سسٹمز کے تربیتی ڈیٹا میں موجود تعصبات کو برقرار رکھے یا بڑھا دے جس کے نتیجے میں غیر منصفانہ اور امتیازی نتائج برآمد ہونے لگیں ۔ اگر اخلاقی اور نفسیاتی بحران پیدا کرنے والا گھٹیا سے گھٹیا مواد کسی بھی سوشل میڈیا پر اپلوڈ کریں تو منٹوں میں وائرل ہوجائے گا لیکن ہٹلر کا لفظ تک لکھیں تو ان تمام ایپلیکیشنز کا AI الگورتھم یا تو اسے لکھنے ہی نہیں دے گا یا پھر ڈیلیٹ کردے گا ۔ سو یہ کہنا کہ AI سسٹم تعصب سے پاک رکھا جائے گا یہ ایک واضح جھوٹ ہوگا ۔
رازداری
مصنوعی ذہانت رکھنے والے سسٹمز کے ذریعے ڈیٹا کی وسیع مقدار کو اکٹھا کرنا اور تجزیہ کرنا رازداری کے لیے خطرات کا باعث بنتا ہے۔جیسیکہ فیس بک جیسے فورمز پر ڈیٹا بریچ کے الزامات لگائے گئے ہیں کہ انہوں نے صارفین سے متعلق معلومات کو ان کی اجازت کے بغیر استعمال کیا ہے ۔ اسی طرح کی دوسری سوشل میڈیا ایپلیکیشنز سے ڈیٹا چرائے جانے اور لیک کیے جانے کی خبریں آنا ابھی تک معمول کی بات ہے ۔
انسانوں کی ری پلیس مینٹ
مصنوعی ذہانت کی طرف سے کاموں کی آٹومیشن سے سب بڑا خطرہ ہیومن ریسورس کو پیدا ہوا ہے اور فیکٹریوں سے لیکر سروسز کے شعبوں تک میں انسانوں کی جگہ روبوٹس کو لایا جا رہا ہے ۔ اگر اس کا سدباب نہ کیا گیا تو لاکھوں کی تعداد میں انسانوں کو بیروزگار ہونا پڑے گا اور دنیا بھر کے انسان اور انسانی معاشرے مصنوعی ذہانت کے باعث معاشی اور سماجی بحرانوں کا شکار ہوجائیں گے ۔
وجودی خطرہ
سپر انٹیلجنٹ AI کا نظریاتی امکان وجودی خطرات کا باعث بن سکتا ہے ۔ علمی ، ادبی اور تخلیقی سطح پر انسان ہی کے دیے گئے علم ، معلومات اور ڈیٹا کو اکٹھا کرکے انسان کے آگے لا رکھنے سے انسانی عظمت کو نہ صرف نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے بلکہ نتیجے کے طور پر انسان کے ساتھ مشینی بدیانتی کے گلوبل ورلڈ پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اس کی سوچ بھی دہلا دینے کے لیے کافی ہے ۔
اخلاقی خدشات:
AI نظام کے ذریعے کیے گئے فیصلوں کے لیے جوابدہی اور ذمہ داری کا تعین کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ ابھی تو انسان پوری طرح اپنی اخلاقی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکا تو کیا مشین پر یقین کر لیا جائے کہ اس کے کسی فیصلے سے برپا ہوجانے والی تباہی کی ذمہ دار وہی ہے ۔ کیا مشین کو سزا کے طور پر جیل میں رکھا جائے گا یا سزائے موت دی جائے گی ۔ ایسی صورت میں سزا کا یہ عمل کیا دوسری مشینوں کے لیے کسی طرح کے سبق کا باعث ہوگا کہ نہیں ۔
ٹیکنالوجی پر انحصار:
مصنوعی ذہانت کے سسٹمز پر ضرورت سے زیادہ انحصار انسانی صلاحیتوں اور فیصلوں کے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
سسٹم کی ناکامیاں
مصنوعی ذہانت پر انحصار خطرناک ہو سکتا ہے۔ اگر سسٹم ناکام ہو جاتے ہیں یا غلط نتائج پیدا کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں کیا کیا ہوسکتا ہے اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس خدشے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ کل کلاں آرٹیفشل انٹیلیجنس اور انسان دشمنوں کی طرح آمنے سامنے بھی آ سکتے ہیں ۔
مصنوعی ذہانت کے فوائد
• کارکردگی اور پیداواری صلاحیت:
اے آئی سسٹمز اعلیٰ کارکردگی کے ساتھ دہرائے جانے والے کام انجام دے سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر جس طرح پہلے پہل آنے والی فوٹو کاپی مشین سے ایک ایک فوٹو کاپی نکالی جاتی تھی لیکن اب صرف ایک کمانڈ پر مرضی کی تعداد میں کاپیاں لی جاتی ہیں ۔ مصنوعی ذہانت کی حامل مشینیں بجا طور پر انسانی کارکنوں کو زیادہ پیچیدہ اور تخلیقی سرگرمیوں کے لیے آزاد کر سکتی ہیں۔مزید یہ کہ انسانوں کے برعکس، AI نظام تھکاوٹ کے بغیر مسلسل کام کر سکتا ہے، جس سے پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
• درستگی
انسانی خرابی میں کمی لانے کے لیے جب AI سسٹمز کو مناسب طریقے سے پروگرام کیا جاتا ہے تو یہ نظام اعلیٰ درستگی کے ساتھ کام انجام دے سکتا ہے اور دستی عمل سے وابستہ غلطیوں کو کم کرتا ہے۔
• ڈیٹا کا تجزیہ
مصنوعی ذہانت سسٹم بڑی مقدار میں ڈیٹا پر تیزی سے اور درست طریقے سے کارروائی کر سکتا ہے۔ یہ نظام ایسی پرفیکشن فراہم کرتا ہے جو انسانی تجزیہ سے نظر انداز ہو سکتی ۔
• لاگت کی بچت
مزدوری کی لاگت میں کمی لانے اور منافع کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے لیے AI کے ذریعے کاموں کی آٹومیشن مختلف صنعتوں میں مزدوری کے اخراجات کو کم کر سکتی ہے۔ اسی طرح آپریشنز ایفیشینسی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے جس سے توانائی اور مواد دونوں میں نمایاں بچت ہوتی ہے۔
• بہتر فیصلہ سازی:
ڈیٹا سے چلنے والی مہارتوں کے ضمن میںAI الگورتھم قابل عمل بصیرت فراہم کرنے کے لیے ڈیٹا کا تجزیہ کر سکتی ہے جس سے آرگنائزیشنز کو باخبر فیصلے کرنے میں مدد ملتی ہے۔
• جدّت اور نئے مواقع
نئی مصنوعات اور خدمات کے میدان میںAI اختراعی مصنوعات اور خدمات کی تخلیق کو قابل بناتا ہے، مثلاً ذاتی نوعیت کی سفارشات اور ورچوئل معاونت وغیرہ جیسے کہ تصویر سازی اور ڈیزاننگ اور ویڈیو فوٹو کلر گریڈنگ جیسے شعبوں میں غیر تخلیقی اور کم مہارت رکھنے والے انسانوں کو بہتر فنی صلاحیت کے ساتھ نئی آپشنز مہیا کرنے اور غیر جذباتی اور غیر قلبی انسانی فنکارانہ صلاحیتوں کو بڑھانے میں مدد کر سکتا ہے۔
• صحت کی دیکھ بھال کی ترقی
تشخیص اور علاج کے شعبے میں AI تشخیصی اور ذاتی نوعیت کے علاج کے منصوبوں کو بہتر بنا سکتا ہے جس سے مریض کے صحت یاب ہونے کے زیادہ بہتر نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
• کسٹمر سروس
چھوٹے کاروبار کی سطح پر AI صارف کو بروقت اور بہترین ورچوئل کسٹمر سپورٹ مہیا کرکے متعلقہ معلومات فراہم کرتے ہوئے کسٹمر کے اطمینان اور بزنس کے ساتھ لائلٹی کو بڑھا سکتا ہے۔
• نتیجہ
مصنوعی ذہانت ایک تیزی سے ترقی کرتا ہوا شعبہ ہے جس میں معاشرے کو گہرے طریقوں سے تبدیل کرنے کی صلاحیت ہے۔ اگرچہ اس کی ایپلی کیشنز اہم فوائد کا یقین دلاتی ہیں لیکن اخلاقی اور معاشرتی چیلنجز سے نمٹنا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بہت ضروری ہے کہ AI کی ترقی انسانی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ ہو اور بہتر کام کرے۔ جیسا کہ AI آگے بڑھ رہا ہے، اس کی صلاحیت کو ذمہ داری سے بروئے کار لانے کے لیے بین الضابطہ تعاون اور مضبوط گورننس فریم ورک بھی ضروری ہوگا اور انسانی احساس ِ ذمہ داری ناگزیر ہوگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یا تو انسانوں پر مشینی تسلط قائم ہوجائے یا ناعاقبت اندیش انسانوں کے ہاتھ میں آ کر تباہی کا باعث بن جائے ۔
مضمون نگار معروف شاعر، مصنف اور تجزیہ کار ہیں۔
[email protected]
تبصرے