• مسلمانوں کی مذہبی آزادی بنیاد پرست ہندوحکومت کے دور میں خواب بن کررہ گئی ہے۔
• تیسری بار اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں کی جائیدادیں،کاروباراورعبادت گاہیں مودی سرکارکے نشانے پرہیں۔
• بھارت میں ''ہندوتوا'' نظریے کی بڑھتی ہوئی لہر مذہبی ہم آہنگی اور علاقائی امن کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
• انتہاپسندہندوؤں کے ہاتھوں درجنوں مساجد شہید کی جاچکی ہیں جبکہ گائے کی حفاظت کے نام پرمسلمانوں کاقتل معمول کی بات بن چکی ہے۔
• اقوام متحدہ اورامریکہ سمیت عالمی تنظیمیں اقلیتوں پرڈھائے جانیوالے مظالم پراحتجاج کرچکی ہیں۔
• امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن بھی مودی سرکارکی متعصبانہ اورظالمانہ پالیسیوں پراظہارتشویش کرچکے ہیں۔
• مسلمانوں کے قتل عام پرمودی کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ چلناچاہیے۔
بھارت میں ہندوانتہاپسندی مسلسل بڑھ رہی ہے اوروہاں کی زمین مسلمانوں کے لیے تنگ کردی گئی ہے۔بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی پالیسیوں کے باعث مسلمانوں کی جان ومال غیرمحفوظ ہوگئے ہیں۔تاریخی مساجد کوشہید کرنااوران کی جگہ مندر بنانامعمول کی بات بن چکی ہے اب تک درجنوں مساجد کوشہید کیاجاچکاہے جوصدیوں سے قائم تھیں۔ مودی کے عام انتخابات سے قبل 22جنوری 2024 کو الیکشن میں کامیابی کے لیے ایودھیا میں شہید بابری مسجد کی جگہ رام مندر کے افتتاح کا مقصد یہ تھاکہ وہ'' ہندوتوا'' نظریے کافروغ جاری رکھیں گے اورمساجد کوشہید کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں گے۔اس موقع پر مودی کاکہناتھاکہ ملک صدیوں کی غلامی کی ذہنیت کی زنجیر توڑ کر باہر آ گیا ہے۔اس تقریب میں مرکزی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت بھی شریک تھے۔رام کی مورتی پر فوجی ہیلی کاپٹرزسے پھول پھینکے گئے اوربابری مسجد کی شہادت کا جشن سرکاری طورپر منایا گیا۔ کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کومجروح کیاگیا۔مودی کے تیسری بار اقتدارمیں آنے کے بعد مسلمانوں کی جائیدادیں،کاروباراورعبادت گاہیںحکومت کے نشانے پرہیں۔ مودی مسلمانوں کودرانداز بھی قراردے چکے ہیں اوراپنے کئی بیانات میں مسلمانوں کوتضحیک کانشانہ بناچکے ہیں۔آرایس ایس مودی کی اتحادی جماعت ہے۔ آپ کویاد ہوگا 1992 میں آر ایس ایس کے زیرقیادت عسکریت پسندوں نے ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کو شہید کرنے کے بعد ایودھیا اور بمبئی میں ایک ہزار سے زیادہ مسلمانوں کا قتل عام بھی کیا۔ 2002 میں گجرات میں دو ہزار سے زیادہ مسلمان مردوں، خواتین اور بچوں کو بے رحمی سے شہید کیا گیا،گجرات میں اس وقت نریندر مودی وزیر اعلیٰ تھے۔ اسی طرح اپریل 2020 میں بھی نئی دہلی میں مسلمانوں کو سرکاری سرپرستی میں بیدردی سے شہید کیاگیا۔
مودی سرکار ماضی میں بھی مسلمانوں اوردیگر مذہبی اقلیتوں کے حقوق پامال کرتی رہی ہے۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اور نئی دہلی میں سات سوسال پرانی مسجد اخوند جی کوشہید کرنا بھارت کی فسطائیت کا ثبوت ہے۔مسلم دشمنی میں اندھی مودی سرکار کی مساجد کوشہید کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے قبرستان مسمار کرنے کی مہم بھی جاری ہے۔ مسلم دشمن اقدامات اور ہندوؤں کے دل جیتنے کے لیے مودی اورانکی جماعت بی جے پی یہ ثابت کرنے پرتلی ہوئی ہے کہ وہ ہندوؤں کے مفادات اورمسلمانوں کوکچلنے کے لیے کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں ۔دلی کی تاریخی مسجد شہید کرنے پرعالمی میڈیا نے بھی احتجاج کیا۔عرب میڈیا گروپ کی ویب سائٹ العربیہ اُردو کی ایک رپورٹ کے مطابق بابری مسجد کے ملبے پر مندر کے افتتاح کے بعد نئی دہلی کی تاریخی 'اخوندجی مسجد' کو بھی گرا دیا گیا۔ جمہوریت کی دعویدار مودی سرکار بھارت میں قائم مساجد کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہے۔نئی دہلی کی مساجد کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے قبرستان بھی ہندو انتہا پسندوں کے نشانے پرہیں۔ صدیوں پرانی اخوندجی مسجد کو شہید کرنے کے بعد ہندو انتہا پسندوں نے مسجد سے ملحقہ قبرستان میں قبروں اور قرآن پاک کی بھی بے حرمتی کی۔مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ قبروں کی اس حد تک بے حرمتی کی گئی کہ کفن اور میتیں بھی نظر آ رہی تھیں۔ایک امام مسجد نے میڈیاسے گفتگو میں بتایا کہ مسجد کوشہید کرنے سے قبل اس جگہ کو خالی کرنے کا کوئی نوٹس نہیں دیا گیا تھا، بھارتی فوج اچانک بلڈوزر کے ساتھ زبردستی مسجد کے احاطے میں داخل ہوئی اور انھیں کہا کہ یہ جگہ خالی کردو۔عرب میڈیا کی یہ رپورٹ بھارتی مسلمانوں کی پریشانی کوظاہرکرتی ہے۔انھیں خوفزدہ کرکے مساجد کے اندرہی ہندوؤں کوپوجاکرنے کی اجازت دی جارہی ہے۔جس کے بعد بھارت میں کوئی مسجد محفوظ نہیں رہی۔
مودی کے متعصبانہ مسلم کش دور میں مسلمانوں کے لیے عزت کے ساتھ زندہ رہنا اوردو وقت کی روٹی کھانامشکل ہوگیاہے۔ایک انڈین اخبار نے اپنی رپورٹ میں اس بات کااعتراف کیاکہ بی جے پی کی سرپرستی کے باعث انتہا پسند ہندو خودسر اوردہشت گرد بن گئے ہیں جومسلمانوں کوان کے گھروں اورکاروبارسے بے دخل کررہے ہیں لیکن ان کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔نریندر مودی کی قیادت میں ہندوتوا نظریے کی بڑھتی ہوئی لہر مذہبی ہم آہنگی اور علاقائی امن کے لیے سنگین خطرہ ہے۔اس سے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں اوردوسری اقلیتوں کی زندگیاں خطرے میں پڑگئی ہیں۔
بھارت میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی خواب بن کررہ گئی ہے۔ مساجد کوشہید کرنے کے حالیہ واقعات سے بھارتی مسلمانوں میں غم وغصہ ہے۔بھارت کے مختلف شہروں میں مسلمان تنظیموں کی جانب سے احتجاج بھی کیاجارہاہے،لاکھوں مسلمان مودی حکومت کی متعصبانہ اورمسلم دشمن پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پرنکل آئے ہیں۔اقوام متحدہ اورامریکہ سمیت کئی عالمی تنظیموں نے بھی تشویش کااظہارکیا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن اپنے ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ بھارت میں اقلیتوں کوجھوٹے اورمن گھڑت الزامات پرہراساں کیاجارہاہے۔بھارت میں تبدیلی مذہب مخالف قوانین، نفرت انگیز تقاریر،گھروں اوراقلیتی مذہبی برادریوں کی عبادت گاہوں کومسمار کرنے کے واقعات میں اضافہ ہورہاہے۔بھارت میں مذہبی تشدد مسلسل جاری رہنے پرافسوس ہے،بھارت مذہبی اقلیتوں کے خلاف بیان بازی میں ملوث افرادکے خلاف کارروائی کرے۔امریکی محکمہ خارجہ اس سے پہلے بھی کئی بار بھارت سے اپنی تشویش کااظہارکرچکاہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے اپنی 2023 کی رپورٹ میں کہا ہے کہ بی جے پی حکومت نے مذہبی اور دیگر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ اپنا منظم امتیازی سلوک اور بدنامی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔مذہبی اقلیتوں کے خلاف جرائم کے بارے میں سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، لیکن آزاد محققین اور تنظیموں نے نفرت پر مبنی جرائم میں اضافے کے بارے میں معلومات اکٹھی کی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر تشویش کااظہارکرچکی ہے لیکن مودی کے کان پرجوں تک نہ رینگی اوروہ مسلسل متشدد کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔
عالمی میڈیا بھی متعددبار مسلمانوں پرڈھائے جانے والے مظالم رپورٹ کرچکاہے۔ مسلمان آبادیوں پرحملے،ان کی تضحیک،مسلمان نوجوانوں کومارناپیٹنا اورگھروں کونذرآتش کرناعام سی بات ہے۔کئی معروف مسلمان شخصیات شکایت کرچکی ہیں کہ انھیں مذہب کی بنیاد پرتعصب اورتضحیک کانشانہ بنایاجاتاہے۔اکثرعلاقوں میں مسلمانوں کوگھرکی خریداری یاکرائے کامکان لیتے ہوئے ناقابل بیان مشکلات کاسامناکرناپڑتاہے۔انھیں ڈرایااوردھمکایاتک جاتاہے۔پہلی بات تویہ کہ ان واقعات کی ایف آئی آرہی درج نہیں کی جاتی، اگرایف آئی آر ہوبھی جائے تومقامی پولیس کوئی کارروائی نہیں کرتی ۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے پہلے دورِ اقتدارسے ہی گائے کی حفاظت اورتعظیم کے لیے کئی پروگرام شروع کیے۔سرکاری دفاترمیں گائے کے پیشاب کاچھڑکاؤ کیا۔ مسلمان افسروں کوبھی ترغیب دی کہ وہ بھی یہ کام کریں۔گائے کی حفاظت کے لیے خصوصی اسکواڈ بنادیاگیاہے۔گاؤ رکشکوں کی جانب سے درجنوں مسلمانوں کوتشدد کرکے شہید کیاگیا صرف یہ الزام لگاکر کہ انہوں نے گائے کی بے حرمتی کی ہے یااُن کے پاس سے گوشت برآمد ہواہے۔ سوشل میڈیا پردرجنوں ایسی ویڈیوز وائرل ہوچکی ہیں جن میں گاؤ رکشک مسلمان نوجوانوں کودرختوں اورکھمبوں سے باندھ کرتشدد کانشانہ بنایا جارہا ہے۔جس گاؤں سے یہ افواہ آجائے کہ وہاں گائے کوذبح کیا گیاہے اس گاؤں پرحملے شروع کردیے جاتے اورمسلمانوں کے گھرجلا دیے جاتے ہیں۔
بھارت میں مسلمانوں سے تعصب اورنفرت کی ایک طویل داستان ہے۔ماضی میں یہ تعصب اورمسلمانوں سے امتیازی سلوک دوقومی نظریے اورقیام پاکستان کاباعث بنا۔ انتہاپسند ہندو مسلمانوں کومساوی حقوق دینے کے لیے تیارنہیں تھے۔دوسرے مذاہب اورفرقوں کواپنے سے کم تر سمجھنے کی جوسوچ ہندو معاشرے میں صدیوں پہلے تھی آج بھی اسی طرح قائم ہے۔جلتی آگ پرتیل پھینکنے کاکام بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے کیا ہے،انہوں نے اکثریت کومسلمانوں کے خلاف بھڑکایاہے۔بی جے پی کے رہنماء کئی باریہ کہہ چکے ہیں کہ وہ مسلمانوں پراعتماد نہیں کرسکتے۔ بڑھتی ہوئی مذہبی نفرت کے باعث بھارت میں انتشار مسلسل بڑھ رہاہے۔ مسلمان اوردیگر اقلیتیں کوشش کررہی ہیں کہ وہ بھارت کوخیرباد کہہ کرکسی اورملک منتقل ہوجائیں۔بھارت چھوڑنے والے مسلمانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہواہے۔ اس بڑھتی ہوئی مذہبی نفرت کے باعث لگتا ہے کہ بھارت ظاہری معاشی ترقی کے باوجود تقسیم در تقسیم ہوتاجارہاہے۔مذہبی،نسلی اورلسانی تقریق،بڑھتی ہوئی نفرت اورانتشارکے باعث بھارت کاموجودہ شکل میں قائم رہنا ممکن نظرنہیں آرہا۔ آئندہ چند دہائیوں میں بھارت کئی آزاد ریاستوں میں تقسیم ہوسکتاہے۔
برطانوی نشر یاتی ادارے بی بی سی کے مطابق مسلمانوں پر ہندو بلوائیوں کی طرف سے بلا اشتعال حملے انڈیا میں معمول بن گئے ہیں اور حکومت کی طرف سے ان کی کوئی مذمت نہیں کی جاتی۔کچھ عرصہ پہلے ایک اندوہناک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک خوفزدہ مسلمان بچی اپنے باپ سے چمٹی ہوئی تھی جن کو ہندو انتہا پسند گھیر کر ان پر تشدد کر رہے تھے۔ اس انتہائی تکلیف دہ منظر میں دیکھا جا سکتا تھا کہ ایک 45 سالہ رکشہ ڈرائیور کو انڈیا کی شمالی ریاست اتر پردیش کے شہر کانپور کی گلیوں میں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور ان کی چھوٹی سی بچی انتہا پسند ہندوؤں سے اپنے باپ کو بچانے کے لیے داد فریاد کر رہی تھی۔ہندو انتہا پسند رکشہ ڈرائیور کو بھارت زندہ باد، جے شری رام اور جے رام کے نعرے لگانے پر مجبور کر رہے تھے۔ اسی طرح تشدد کے ایک واقعہ کے بعد زخمی مسلمان تسلیم علی نے پولیس میں درج کرائی گئی اپنی درخواست میں بتایاکہ ہندوؤں کے علاقے میں چوڑیاں فروخت کرنے پر اس کو پانچ چھ افراد نے تشدد کا نشانہ بنایا، مذہبی منافرت سے بھر پور گالیاں دیں۔ اس کا فون، پیسے اور ذاتی شناختی دستاویز چھین لیں۔لیکن ظلم یہ کہ اس کے ساتھ انصاف کرنے کے بجائے اگلے دن تسلیم علی کوہی گرفتارکرلیاگیا۔ایک عینی شاہد نے مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ تسلیم علی کو مسلمان ہونے کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ایک اورواقعہ میں چودہ سالہ مسلمان لڑکا جو پانی پینے کے لیے ایک مندر میں گیا تھا اس کو بے دردی سے مارا پیٹا گیا۔ دارالحکومت دہلی میں ایک مسلمان پھل فروش کو ہندوؤں کے علاقے میں پھل بیچنے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔یہ تو محض چند واقعات ہیں، ایسے سیکڑوں واقعات ریکارڈ پرآچکے ہیں جب مسلمانوں کوہندوؤں کے علاقے میں جانے پرتشدد کانشانہ بنایاگیا۔ مسلمانوں پر ہونے والے حملوں کے دستاویزی ثبوت جمع کرنے والے آزاد صحافی علی شان جعفری کا کہنا ہے تشدد کی انتہا کر دی گئی ہے، یہ ہر جگہ کیا جاتا ہے اور بہت عام ہو گیا اور سب سے بڑھ کر اس کو اب برا بھی نہیں سمجھا جاتا۔ انھیں ہر روز تین سے چار ایسی ویڈیوز موصول ہوتی ہیں۔صحافی کی یہ بات حالات کی سنگینی کااندازہ لگانے کے لیے کافی ہے۔ مودی کی حمایت کی وجہ سے مساجد کوشہید کرنے کے لیے باقاعدہ ایک تحریک بن گئی ہے۔ظاہر ہے ہندو اکثریت میں ہیں،انتظامہ اورعدلیہ میں بھی انتہاپسند ہندو موجود ہیں۔انتہا پسند ہندو مذہبی قوم پرست مساجد پر قبضے کی تحریک زور شور سے آگے بڑھا رہے ہیں۔مقصد یہ ہے اسلام اورمسلمانوں کی نشانیوں کوختم کردیاجائے۔ مساجد کوشہید کرنے اوروہاں مندر بنانے کے لیے ایک طریقہ کار بنالیاگیاہے، پہلے ایک کیس تیارکیاجاتاہے اورپھرمقامی انتظامیہ یاعدالت میں درخواست دائر کردی جاتی ہے کہ اس مسجد کی جگہ پرپہلے مندر تھا جسے گرا کرمسجد بنائی گئی ہے۔مسجد کی جگہ کاسروے کرانے کی بات کی جاتی ہے اورجب تک عدالت فیصلہ نہیں دیتی،عدالت کودرخواست کی جاتی ہے کہ ہندوؤں کوعبادت کی اجازت دیدی جائے۔ عدالت عموماً ہندوؤں کوپوجا پاٹ کی اجازت دے دیتی ہے۔ کیس کے فیصلے میں تو کئی سال لگ جاتے ہیں لیکن اس دوران مسجد پرہندوؤں کاقبضہ ہوجاتاہے۔اسی طریقہ کارکے تحت کئی صدیوں پرانی مساجد کوشہید کیاجاچکاہے۔یہ سب کچھ مودی سرکار کی سرپرستی میں ہورہاہے۔ افسوسناک واقعات میں غیرملکی میڈیا کے مطابق بی جے پی کے انتہا پسندوں نے ہریانہ میں مسجد کو آگ لگا دی اور امام مسجد کو شہید کر دیا۔ ریاست اتراکھنڈ کے شہر ہلدوانی میں بھی بی جے پی کے غنڈوں نے خود ہی مسجد کو غیر قانونی قرار دے کرنذر آتش کر دیا۔ انتہا پسندوں نے علاقے میں جلاؤ گھیراؤ، پتھراؤ کیا اور متعدد گاڑیوں کو آگ لگائی۔مودی سرکار کی فرقہ وارانہ تشدد کی آگ میں 2 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں انتظامیہ کی جانب سے روڈ کو وسعت دینے کی آڑ میں 400 سالہ تاریخی مسجد کو شہید کردیا۔نشریاتی ادارے 'بزنس اسٹینڈرڈ' نے بتایا کہ گریٹ حیدرآباد میونسپل کارپوریشن نے گزشتہ ہفتے روڈ کی توسیع کی خاطر 4 صدیوں سے قائم مسجد کو شہید کردیا۔ یہ تاریخی مسجد حیدرآباد کے علاقے عنبرپیٹ کے مرکز میں واقع تھی اور اسے شہر کی قدیم ترین مسجد کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ستم ظریفی دیکھیے کہ مسجد کو مقامی انتظامیہ اورپولیس کی جانب سے شہید کیے جانے کے بعد ریاست تلنگانہ کے وقف بورڈ سمیت دیگر اداروں نے مسجد کی شہادت کو غلطی قرار دیا اورتسلیم کیا کہ جس جگہ مسجد تعمیر تھی وہ جگہ 400 سال سے مسجد انتظامیہ کے لیے وقف تھی۔
بھارتی اخبار''انڈیا ٹو ڈے'نے مئی 2019 میں جب مودی سرکار کادوسرا دور شروع ہوا ،اپنی رپورٹ میں تسلیم کیاکہ بھارت میں بی جے پی کے ایک بار پھر اقتدار میں آتے ہی مسلمانوں پرمظالم کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔مودی کے حلف لینے سے قبل ہی انتہا پسند ہندوئوں کے حوصلے بلند ہوگئے۔بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں ایک خاتون سمیت 3 مسلمانوں کو انتہاپسندوں کے ایک گروہ نے گائے کا گوشت رکھنے کے شبہے میں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔دونوں افراد کو باری باری زبردستی پکڑ کر لاٹھیوں سے مارا گیا، مسلمان نوجوانوں کے معافی مانگنے اور گائے کا گوشت رکھنے سے انکار کے باوجود انہیں تشددکا نشانہ بنایا گیا۔سوشل میڈیا پرایک دونہیں درجنوں ویڈیوز گردش کررہی ہیں۔
بھارت میں مسلمانوں کی تعداد ایک رپورٹ کے مطابق مجموعی آبادی کابیس فیصدہے، لیکن بھارت کی اشرافیہ سمیت کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جہاں مسلمانوں کوبیس فیصد نمائندگی حاصل ہو۔ بھارتی ایوان زیریں لوک سبھا میں ارکان کی کل تعداد 545 ہے،جس میں مسلمان اراکین کی تعداد صرف 24 ہے جبکہ یہ ایک سوسے زیادہ ہونی چاہیے۔جون 2024 میں ہونیوالے عام انتخابات میں زیادہ ترانتہاپسند ہندو نمائندے منتخب ہوکر آئے ہیں۔ مودی اورانکی جماعت بی جے پی کے تعصب کاحال یہ ہے کہ کہ بی جے پی نے 430 ہندوؤں اورصرف ایک مسلمان کوٹکٹ جاری کیا۔اس سے زیادہ برا حال سول بیوروکریسی اورسرکاری ملازمتوں میں ہے۔نریندر مودی نے مسلمانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند کررکھے ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور آرایس ایس سمیت انتہاپسند گروپوں پرمشتمل حکومت کے سال 2014 میں حکومت سنبھالنے کے بعد سے ''ہندوتوا'' نظریے کے دائرہ کار میں کروڑوں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف منظم طریقے سے نفرت، جبر اور تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔بھارت میں شہریت قانون اور قومی رجسٹریشن کی فہرست تشکیل دیتے ہوئے مسلمانوں کی شہریت چھیننے اور ملک بدر کرنے کی کوششیں تک کی گئیں۔ انتہا پسند ہندو گروہوں نے مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کی اپیلیں شروع کردیں۔ جینوسائیڈ واچ نامی تنظیم نے پوریبھارت میں نسل کشی کے امکان سے خبردار کیا۔ وزیر اعظم مودی نے مسلمانوں کو جاسوس کہہ کر نفرت اور تشدد کو ہوا دی۔بھارتی حکومت نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کثیراسلامی ورثے کوملیا میٹ کردیا۔ بھارت میں بڑھتا ہوا اسلامو فوبیا تشویشناک ہے اورہندو گروپ مساجد کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے درپے ہیں۔مودی حکومت کی پالیسیوں کے باعث مسلمانوں سمیت مساجد اوراقلیتوں کی عبادت گاہیں بھی خطرے میں ہیں۔
عالمی برادری کو انڈیا میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا، نفرت انگیز تقاریر اور نفرت انگیز جرائم کا نوٹس لینا چاہیے۔ اقوام متحدہ اور دیگر متعلقہ بین الاقوامی اداروں کو چاہیے کہ وہ انڈیا میں اسلامی ورثے کے مقامات کو انتہا پسند گروپوں سے بچانے اور انڈیا میں اقلیتوں کے مذہبی اور ثقافتی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے میں اپنازیادہ مؤثر کردار ادا کریں۔ عالمی برادری نے اس صورتحال پرکئی مرتبہ اپنی تشویش کااظہارکیاہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا عالمی دباؤ میں آکر مودی سرکار اپنے مسلم مخالف بیانیے سے پیچھے ہٹے گی یااپنی ہٹ دھرمی پرقائم رہے گی؟میں سمجھتاہوں کہ عالمی برادری جب تک بھارت پرپابندیاں عائد نہیں کردیتی اورمودی سرکاری کے خلاف عملی اقدامات نہیں اٹھاتی صرف تشویش ظاہرکرنے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔اقلیتوں پرڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف بھارت پراقتصادی وتجارتی پابندیاں عائد کی جانی چاہئیں۔نریندرمودی کے خلاف اقلیتوں کے قتل عام کے جرم میں عالمی عدالت میں مقدمہ چلناچاہیے۔
مضمون نگاراخبارات اورٹی وی چینلزکے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔آج کل ایک قومی اخبارمیں کالم لکھ رہے ہیں۔قومی اورعالمی سیاست پر اُن کی متعدد کُتب شائع ہو چکی ہیں۔
[email protected]
تبصرے