اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 14:23
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھارت کی سپریم کورٹ کا غیر منصفانہ فیصلہ خالصتان تحریک! دہشت گرد بھارت کے خاتمے کا آغاز سلام شہداء دفاع پاکستان اور کشمیری عوام نیا سال،نئی امیدیں، نیا عزم عزم پاکستان پانی کا تحفظ اور انتظام۔۔۔ مستقبل کے آبی وسائل اک حسیں خواب کثرت آبادی ایک معاشرتی مسئلہ عسکری ترانہ ہاں !ہم گواہی دیتے ہیں بیدار ہو اے مسلم وہ جو وفا کا حق نبھا گیا ہوئے جو وطن پہ نثار گلگت بلتستان اور سیاحت قائد اعظم اور نوجوان نوجوان : اقبال کے شاہین فریاد فلسطین افکارِ اقبال میں آج کی نوجوان نسل کے لیے پیغام بحالی ٔ معیشت اور نوجوان مجھے آنچل بدلنا تھا پاکستان نیوی کا سنہرا باب-آپریشن دوارکا(1965) وردی ہفتۂ مسلح افواج۔ جنوری1977 نگران وزیر اعظم کی ڈیرہ اسماعیل خان سی ایم ایچ میں بم دھماکے کے زخمی فوجیوں کی عیادت چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا دورۂ اُردن جنرل ساحر شمشاد کو میڈل آرڈر آف دی سٹار آف اردن سے نواز دیا گیا کھاریاں گیریژن میں تقریبِ تقسیمِ انعامات ساتویں چیف آف دی نیول سٹاف اوپن شوٹنگ چیمپئن شپ کا انعقاد یَومِ یکجہتی ٔکشمیر بھارتی انتخابات اور مسلم ووٹر پاکستان پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پاکستان سے غیرقانونی مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ اور اس کا پس منظر پاکستان کی ترقی کا سفر اور افواجِ پاکستان جدوجہدِآزادیٔ فلسطین گنگا چوٹی  شمالی علاقہ جات میں سیاحت کے مواقع اور مقامات  عالمی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ پاکستانی شہریوں کے قتل میں براہ راست ملوث بھارتی نیٹ ورک بے نقاب عز م و ہمت کی لا زوال داستا ن قائد اعظم  اور کشمیر  کائنات ۔۔۔۔ کشمیری تہذیب کا قتل ماں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور بھارتی سپریم کورٹ کی توثیق  مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ۔۔ایک وحشیانہ اقدام ثقافت ہماری پہچان (لوک ورثہ) ہوئے جو وطن پہ قرباں وطن میرا پہلا اور آخری عشق ہے آرمی میڈیکل کالج راولپنڈی میں کانووکیشن کا انعقاد  اسسٹنٹ وزیر دفاع سعودی عرب کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی سے ملاقات  پُر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطرۂ افتاد بھارت میں اقلیتوں پر ظلم: ایک جمہوری ملک کا گرتا ہوا پردہ ریاستِ پاکستان اورجدوجہد ِکشمیر 2025 ۔پاکستان کو درپیش چیلنجز اور کائونٹر اسٹریٹجی  پیام صبح   دہشت گردی سے نمٹنے میں افواجِ پاکستان کا کردار شہید ہرنائی سی پیک 2025۔امکانات وتوقعات ذہن سازی ایک پیچیدہ اور خطرناک عمل کلائمیٹ چینج اور درپیش چیلنجز بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کے منصوبے ففتھ جنریشن وار سوچ بدلو - مثبت سوچ کی طاقت بلوچستان میں سی پیک منصوبے پانی کی انسانی صحت اورماحولیاتی استحکام کے لیے اہمیت پاکستان میں نوجوانوں میں امراض قلب میں اضافہ کیوں داستان شہادت مرے وطن کا اے جانثارو کوہ پیمائوں کا مسکن ۔ نانگا پربت کی آغوش ا یف سی بلوچستان (سائوتھ)کی خدمات کا سفر جاری شہریوں کی ذمہ داریاں  اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ''کشور ناہید''۔۔ حقوقِ نسواں کی ایک توانا آواز نہ ستائش کی تمنا نہ صِلے کی پروا بسلسلہ بانگ درا کے سو سال  بانگ درا کا ظریفانہ سپہ گری میں سوا دو صدیوں کا سفر ورغلائے ہوئے ایک نوجوان کی کہانی پاکستانی پرچم دنیا بھر میں بلند کرنے والے جشنِ افواج پاکستان- 1960 چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا جمہوریہ عراق کا سرکاری دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا اورماڑہ کے فارورڈ نیول آپریشنل بیس کا دورہ  چیف آف آرمی سٹاف، جنرل سید عاصم منیر کی نارووال اور سیالکوٹ کے قریب فیلڈ ٹریننگ مشق میں حصہ لینے والے فوجیوں سے ملاقات چیف آف آرمی سٹاف کاوانا ، جنوبی وزیرستان کادورہ 26ویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کے شرکاء کا نیول ہیڈ کوارٹرز  کا دورہ نیشنل سکیورٹی اینڈ وار کورس کے وفد کا دورہ نیول ہیڈ کوارٹرز جمہوریہ آذربائیجان کے نائب وزیر دفاع کی سربراہ پاک فضائیہ سے ملاقات  گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی طالبات اور اساتذہ کا ہیڈکوارٹرز ایف سی بلوچستان (ساؤتھ) کا دورہ کمانڈر کراچی کور کا صالح پٹ میں تربیتی مشقوں اور پنوں عاقل چھائونی کا دورہ کمانڈر پشاور کورکی کرنل شیر خان کیڈٹ کالج صوابی کی فیکلٹی  اور کیڈٹس کے ساتھ نشست مالاکنڈ یونیورسٹی کی طالبات کا پاک فوج کے ساتھ یادگار دن ملٹری کالج جہلم میں یوم ِ والدین کی تقریب کی روداد 52ویں نیشنل ایتھلیٹکس چیمپئن شپ 2024 کا شاندار انعقاد    اوکاڑہ گیریژن میں البرق پنجاب ہاکی لیگ کا کامیاب انعقاد ملٹری کالج جہلم میں علامہ اقبال کے حوالے سے تقریب کا انعقاد حق خودرادیت ۔۔۔کشمیریوں کا بنیادی حق استصوابِ رائے۔۔مسئلہ کشمیر کا حتمی حل انتخابات کے بعد کشمیرکی موجودہ صورتحال سالِ رفتہ، جموں وکشمیر میں کیا بدلا یکجاں ہیں کشمیر بنے گا پاکستان آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ ایک شاندار فضائی حربی معرکہ حسینہ واجد کی اقتدار سے رُخصتی کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش میں دوطرفہ تعلقات کے نئے دور کا آغاز شائننگ انڈیا یا  ہندوتوا دہشت گرد خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل امیدوں، چیلنجز اور کامیابیوں کے نئے دور کا آغاز کلام اقبال مدارس رجسٹریشن۔۔۔حقائق کے تناظر میں اُڑان پاکستان پاکستان میں اردو زبان کی ترویج وترقی امن کی اہمیت مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے میری وفا کا تقاضا کہ جاں نثارکروں ہرلحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن بڑھتی ہوئی آبادی، درپیش مسائل اور ان کا حل تھیلیسیمیا سے بچا ئوکیسے ممکن ہے ماحولیاتی آلودگی ایک بڑا چیلنج سانحہ مشرقی پاکستان مفروضے اور حقائق - ہلال پبلیکیشنز کے زیر اہتمام شائع کردہ ایک موثر سعی لا حاصل کا قانون یہ زمانہ کیا ہے ترے سمند کی گرد ہے مولانا رومی کے افکار و خیالات کشمیر جنت شہید کی آخری پاکستان کا مستقل آئین۔1973 بنگلہ دیش کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی قیادت میں اعلیٰ سطحی دفاعی وفد کا ائیر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کا دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا کویت کا سرکاری دورہ بنگلہ دیش کی مسلح افواج کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی چیف آف آرمی سٹاف سے ملاقات سربراہ پاک بحریہ ایڈمرل نوید اشرف سے بنگلہ دیش کے پرنسپل اسٹاف آفیسر کی ملاقات بنگلہ دیش کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی قیادت میں اعلیٰ سطحی دفاعی وفد کا ائیر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کا دورہ البرق ڈیژن اوکاڑہ کی طرف سے مسیحی برادری کے لیے فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد سیلرز پاسنگ آؤٹ پریڈ پاک بحریہ فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد کمانڈر سدرن کمانڈ و ملتان کور کی بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے اساتذہ اور طلباء کے ساتھ خصوصی نشست نمل یونیورسٹی ملتان کیمپس اور یونیورسٹی آف لیہّ کے طلبہ و طا لبات اوراساتذہ کا مظفر گڑھ فیلڈ فائرنگ رینج کا دورہ اوکاڑہ گیریژن میں تقریبِ بزمِ اقبال کاانعقاد ملٹری کالج سوئی میں سالانہ یوم ِوالدین کی تقریب آل پاکستان ایف جی ای آئی ایکسیلنس ایوارڈ کی تقریب 2024ء اوکاڑہ گیریثر ن، النور اسپیشل چلڈرن سکول کے بچوں کے لیے
Advertisements

ہلال اردو

1948بھارتی مظالم اورکشمیریوں کے حقوق کا استحصال

اگست 2024

میں اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کے تحفظ اور آگاہی کے لیے48 ممالک کی رضا مندی سے 30 دفعات پر مشتمل عالمی منشور جاری کیا تھاجس کے تحفظ، بہتری اور عمل در آمد کو یقینی بنانے کے لیے ایک مستقل کمیشن برائے انسانی حقوق بھی قائم کیا گیا۔ اس عالمی منشور میںبنیادی انسانی حقوق مثلاََبنیادی آزادی، مساوی حیثیت، آزادانہ نقل و حرکت، آزادی اظہار، باوقار زندگی گزارنے کی آزادی، سماجی تحفظ کا حق، مذہبی آزادی، تشدد اور ظلم و ستم سے تحفظ، غیر انسانی اور توہین آمیز سلوک یا سزا کا نشانہ نہ بنائے جانے کو یقینی بنایا گیا ہے ۔عالمی منشور کی رُو سے 1947 میں قائم ہونے والا ملک بھارت تو ان تمام بنیادی آزادی کے قوانین کو جیسے بھول ہی گیا ہو اور بھارت نے فوراََ ہی کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کا آغاز کر دیا او ر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی پس پشت ڈال دیا۔ بھارت کے اس اقدام سے نہ صرف کشمیریوں کا آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق سلب کیا گیا بلکہ اس سے کشمیریوں کی آزادی اظہار ِ رائے کو بھی یکسر نظر انداز کیا گیا جو جمہوری عمل کا اہم جزو ہے۔    



جمہوریت ایک ایسے نظام کا نام ہے جس میں عوام کے حقوق ، جان و مال کا تحفظ اور عزت نفس کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ اس نظام میں بسنے والے تمام افراد کو مذہب ، نسل یا کسی فرق کی بنا پر کسی کو جانچا نہیںجاتا بلکہ تمام شہریوں کے حقوق یکساںاہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔بھارت دنیا کے سامنے جمہوریت کا پرچار کرنے والا ایسا ملک ہے جہاںنہ صرف انسانیت کی تذلیل عام ہے بلکہ سماجی تضاد کے باعث آبادی کا بڑا حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بھارت میں سماجی تضاد کے ساتھ ساتھ مذہبی تضاد بھی عروج پر ہے اور متعصب ہندئووں کی منفی ذہنیت کے باعث آج بھارت میں مسلمانوں کے لیے جگہ تنگ ہو کر رہ گئی ہے۔
 بھارت نہ صرف اپنے ملک میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا رہا ہے بلکہ کشمیر جہاں بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے، میں بھی بنیادی حقوق سلب کر رہا ہے۔ گزشتہ 76برسوں سے بھارت کشمیر پر اپنے غاصبانہ قبضے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کشمیر ی عوام پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہر طرح کے مظالم ڈھائے ہوئے ہے اور خصوصاََ گزشتہ 35 برسوں سے تو مظالم کی انتہا کر دی ہے جس کا اندازہ کشمیر میڈیا سروس کے ان اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنوری 1989 سے جنوری 2024 تک 96 ہزار 320کشمیریوں کو شہید کیا گیاجس کا آٹھ فیصد یعنی 7ہزار 341 کشمیریوںکو زیر حراست شہید کیا گیا۔ مذکورہ عرصے کے دوران 22 ہزار 976 خواتین بیوہ ہوئیں جبکہ ایک لاکھ 7 ہزار 963 بچے یتیم ہوئے۔11 ہزار سے زائدخواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اورتقریباً  دو لاکھ بے گناہ افراد کو حراست میں لیا گیا ۔
بھارتیہ جنتا پارٹی جب دوسری مرتبہ بر سر اقتدا ر آئی تو اس نے 5 اگست 2019 کو انڈین آئین کی شق 370 ختم کرنے کا اعلان کیا جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو نیم خود مختار حیثیت اور خصوصی اختیارات حاصل تھے۔پارلیمنٹ سے پاس ہونے والے مودی حکومت کے اس فیصلے کے بعد  بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ۔سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل بنچ نے ہنگامی بنیادوں پر سماعتوں کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔بعد ازا ں انڈین سپریم کورٹ نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے معاملے پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 370 آئین کی عارضی شق تھی اور یہ کہ ''جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔'' واضح رہے کہ اس فیصلے سے ایک سال قبل کشمیر میں بی جے پی نے محبوبہ مفتی کی قیادت والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سے حمایت واپس لے کرحکومت گرا دی تھی اور جموں و کشمیر میں براہ راست صدارتی راج نافذ ہو گیا تھا۔
 بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیںوہ اس دفعہ کے تحت ریاست مقبوضہ کشمیر پر لاگو نہیں کیے جا سکتے۔بھارتی آئین کے آرٹیکل 35-A کے تحت کسی بھی دوسری ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر کا شہری نہیں بن سکتا اور نہ ہی وادی میں جگہ خرید سکتا تھا۔ بھارت نے آرٹیکل 370  اور35-Aختم کرنے سے قبل مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوجی دستے تعینات کر دیے تھے کیونکہ اسے معلوم تھا کہ کشمیری اس اقدام کو قبول نہیں کریں گے۔ان آرٹیکلزکو ختم کرنے کے جہاں دیگر کئی مقاصد تھے وہاں ایک اہم مقصد خطے سے مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنا بھی تھا۔ اس مقصد کے لیے بھارتی حکومت نے ہندوئوں کو کشمیر میں بسانے کے لیے اقدامات شروع کیے۔ سابق بھارتی فوجیوں اور دیگر کئی محکموں کے اہلکاروں کو کشمیر میں بسانے کے لیے انہیں سستے داموں رہائشی سہولیات فراہم کرنے کے اقدامات بھی کیے گئے۔ بھارت کے ان تمام اقدامات کا ایک ہی مقصد تھا کہ کشمیر سے مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنا اور وہاں جاری آزادی کی جدوجہد کو کچلناتھا۔    



بھارت نے راجیہ سبھا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا بل پیش کرنے سے قبل صدارتی حکم نامے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی اور ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر کو وفاق کے زیر انتظام دو حصوں یعنی یونین ٹیریٹریز میں تقسیم کر دیا جس کے تحت پہلا حصہ لداخ جبکہ دوسرا حصہ جموں اورکشمیر پر مشتمل ہو گا۔اس بل کے مطابق جموں کشمیر سے لداخ کا خطہ الگ کر کے اسے بغیر اسمبلی والی یونین ٹیریٹری بنایا گیاجبکہ جموں وکشمیر کو اسمبلی والی یونین ٹیریٹری بنایا گیا۔تاہم یہ اعلان کرنے سے دو روز قبل کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ ٹیلیفون، موبائل اور انٹر نیٹ کی سروسز معطل کر دی گئیںاور معروف سیاسی و سماجی لیڈروں کو قید کر دیا گیا تھا۔ 
 بھارت نے یہ دونوں بل لوک سبھا سے بھی بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کروائے اور کشمیر میں مظالم مزید تیز کر دیے۔بھارتی افواج نے انسانیت کی تذلیل کے لیے پبلک  سیفٹی ایکٹ، ٹیرارسٹ اینڈ ڈسرپٹو ایکٹویٹز اور آرم فورسز سپیشل پاورز جیسے کالے قوانین بنا رکھے ہیں۔پی ایس اے ایک ایسا قانون ہے جس کے تحت کسی بھی شخص کوحراست میں رکھا جا سکتا ہے اور بھارتی پولیس نے اس قانون کا جواز بنا کر کشمیریوں کو کسی جرم کے بغیر حراست میں رکھنا شروع کر دیا جبکہ ٹی اے ڈی اے قانون کو جواز بناتے ہوئے لوگوں پر دہشت گردی کے الزامات لگائے گئے اور اے ایف ایس پی قانون کے مطابق فوج کو ایسے اختیارات دیے گئے جس کے تحت وہ کبھی بھی کسی کے خلاف کسی بھی طرح کی کارروائی کر سکتے ہیں اور اس قانون کی آڑ میں بھارتی افواج نے کشمیریوں کے گھروں میں گھس کر نہ صرف خواتین اور بچوں کو ہراساں کیا بلکہ چادر اور چار دیواری کے تقدس کو بھی پامال کیا۔
مقبوضہ کشمیرمیں جاری تنازعات اور ہنگامہ آرائی نے کشمیری معاشرے کے تقریباََ ہر پہلو پرتباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔تعلیم جو ہر انسان کا بنیادی حق ہے، سے خطے کے بچوں کو محروم رکھنے کے لیے درسگاہوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جس کا اندازہ اس سروے سے  لگایا جا سکتا ہے کہ خطے میں 1990 سے2023 تک اوسطاََ سالانہ 88یعنی کل 3000 سے زائد تعلیمی ادارے بند ہوئے۔ 90 کی دہائی کے بعد پیدا ہونے والے بچے مسلسل تشدد اور غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے سکول جانے کے بجائے گھروں میںٹھہرے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں 27 لاکھ سے زائد بچے تعلیم سے محروم ہیں اور بھارتی مظالم کے باعث خطے میں خواندگی کی شرح کم ہو رہی ہے۔
بھارتی درندگی اور سفاکیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور ایسے افراد خوراک جیسی بنیادی ضرورت سے بھی محروم ہیں۔ خوراک کی محرومی کے باعث کشمیری بچوں کی اکثریت کم وزنی کا شکار ہے۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر استثنیٰ حاصل ہے جس کی وجہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میںملوث بھارتی اہلکاروں کا احتساب ممکن نہیں۔ بھارتی استعماریت سے تنگ آکر پچھلے بیس سالوں میں 1700 سے زائدافراد نے خود سوزی کی ہے۔ کشمیر کے ہسپتالوں میں بھارت کی بربریت کا شکار ہونے والے ایک لاکھ سے زائد افراد داخل ہیں۔بھارتی فوج کے تشدد کے باعث اکثریت ذہنی مریض بن چکی ہے۔


مضمون نگار ایک قومی اخبار کے ساتھ وابستہ ہیں۔
[email protected]