پاکستان اللہ کی عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے جس میں ہم اپنی پوری مذہبی ، معاشرتی اور اخلاقی آزادی کے ساتھ سانس لے رہے ہیں۔ اس نعمتِ خداوندی کا جتنا شکرادا کیا جائے، کم ہے۔ آزادی کی قدر و قیمت پوچھنی ہے تو محکوم قوموں سے پوچھیں جن کی زندگی کا ہر ہر لمحہ تکلیف و پریشانی ،ذلت و رسوائی میں برسوں کے برابر گزرتا ہے۔ یہ تو پروردگار عالم اللہ بزرگ و برتر کا کروڑہا شکر ہے کہ اس نے ہمیں یہ آزادی جیسی گراں قدر اور بیش قیمت دولت محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرما ئی۔ہمیں چاہیے کہ اس کی قدرو منزلت کو پہچانیں اور اللہ وحدہ' لاشریک کا شکر ادا کریں۔ آج جو ہم آزاد ملک اور آزاد فضا میں من مانی اور سکون کی زندگی گزار رہے ہیں، اپنے مذہبی فرائض و عبادات اور اسلامی رسومات کو آزادی سے ادا کر رہے ہیں، در حقیقت یہ سب ہمارے آباو ٔاجداد اور ان بزرگوں مجاہدوں،غازیوں اور شہیدوں کی قربانیوں کی بدولت ہے، جنہوں نے اس وطن عزیز کے حصول کی خاطر جان ، مال ،اولاد ،عزت و آبرو ، تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا۔ اس مملکت خدا داد پاکستان کی تعمیر و ترقی اور بنیادوں میں لاکھوں مسلمانوں کی بے پناہ جدوجہد و قربانیاں اور شہداء کا خون شامل ہے۔ آزادی خیرات میں یا پلیٹ میں رکھ کر کوئی نہیں دیتا، آزادی تو دلوں کو پگھلا دینے والی اور کلیجوں کو چیر دینے والی قربانیاں مانگتی ہے جو کہ ہمارے بزرگوں نے دی ہیں۔
ہم میں سے ہر ایک کو اپنے ضمیر سے پوچھنا چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کتنی محبت رکھتا ہے، پاکستان کا وہ کتنا خیر خواہ ہے اور ابھی تک پاکستان کی تعمیر وترقی میں اس کا کردار کیا رہا ہے؟ کسی بھی معاشرے کی معاشی ترقی ہی قوم کی خوشحالی کا باعث ہوسکتی ہے۔ جبکہ ایک نئی تحقیق کے مطابق معاشرتی ترقی کے اس روایتی تصور پر سنجیدہ سوالات اٹھانے سے اقتصادی اور سماجی حلقوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ جرمنی کے مشہور اقتصادی ادارے کے لیے انسٹیٹیوٹ برائے عالمی اقتصاد نے اپنی ریسرچ میں خوشحالی کا ایک نیا ماڈل پیش کیا ہے۔ اس ریسرچ کا نام 'دی ری کپلنگ ڈیش بورڈ' رکھا گیا ہے۔ اس میں لوگوں کی معاشی ترقی کو ملکی سالانہ مجموعی قومی پیداوار سے علیحدہ کر کے دیکھا گیا ہے۔ اس نئے ماڈل میں اتفاق کیا گیا کہ اقتصادی ترقی کسی بھی قوم کے لیے بہت ضروری ہے لیکن یہ خوشحالی کا مکمل معیار ظاہر نہیں کرتی اور اس کے لیے ضروری ہے کہ اس قوم کے اندر استحکام ، باہمی یگانگت اور محبت اور ترقی کی لگن موجود ہو، تبھی خوشحالی بھی آسکتی ہے۔
بلاشبہ شعور و آگہی اور معاشرتی و معاشی ترقی کی جڑیں شعبۂ تعلیم کے ساتھ جُڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم پاکستان کودیگر ممالک جیسا تعلیم یافتہ کیسے بنائیں۔اس سوال پر کچھ لوگ آپ کو بتائیں گے کہ اس معیار ِتعلیم تک پہنچنے کے لیے زیادہ وسائل درکار ہیں۔ اچھی تعلیمکے لیے بہت زیادہ دولت مند ہونا ضروری ہے لیکن یہ مکمل سچائی نہیں ہے۔ بہت سے غریب ممالک ہیں جنہوں نے تعلیم عام کی اور خوشحال ہوگئے ، اس کا مطلب ہے کہ مشکلات سے نکلنا ممکن ہے۔ اس ضمن میں چین اور ملائیشیا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ غریب ممالک کے لیے غربت اور جہالت کی زنجیر وں کو توڑنا ممکن ہے۔ ارسطو کا کہنا ہے کہ بچوں کی نگہداشت کرنا انسانوں کا سب سے اہم کام ہے۔ اس پر غور کرنے سے آپ کو اس جملے میں پوشیدہ سچائی کا اندازہ ہوگا۔ اگر والدین اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اپنے بچوں کی اچھی پرورش کریں تو ایک نسل کی عمر میں ہی معاشرے کی تمام خرابیاں ختم ہوجائیں گی۔ ہر شہری تعلیم یافتہ، مہذب اور مہربان ہوگا۔
پاکستان کو تعلیم یافتہ بنانے کی جانب ہمارا سفر جاری ہے۔ تعلیم کے لیے وسائل مختص کرنے سے اس مسافت میں آسانیاں پیدا ہوں گی۔ ہمارے معاشرے میں اساتذہ، مصنفین، شاعروں، سائنسدانوں اور محققین کی تکریم کی جاتی ہے، معاشرہ ان کی خدمات کا معترف ہوتا ہے ، ان کی موجودگی اپنے لیے عزت کا باعث سمجھتا ہے۔ تعلیم کے معیاری اور بامقصد ہونے کا سب سے زیادہ انحصار خود طالبعلموں پر ہے، جنہوں نے تعلیم حاصل کرنی ہے۔ اگر وہ خود حصول تعلیم کے سلسلے میں مخلص نہیں ہوں گے، ان میں اخلاص اور لگن کے ساتھ، ایک جذبے اور شوق سے تعلیم اورتربیت حاصل کرنے کا ذوق پیدا نہیں ہو گا تو پھر انہیں کسی طرح کا لالچ اور خوف حقیقی علم حاصل کرنے پر مائل نہیں کرسکے گا۔ دنیا کی اقوام سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت آگے بڑھ رہی ہیں۔ ڈاکٹرز، انجینئرز اور سائنس دانوں کی حیثیت سے بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں نے اپنی محنت اور خداداد صلاحیتوں سے بہت نام کمایا ہے اور ثابت کیا ہے کہ اگر پاکستانی نوجوان زندگی کے اعلیٰ نصب العین لیے ہوئے اخلاص کے ساتھ محنت کریں تو یہ کوئی بھی منزل حاصل کرسکتے ہیں۔
ہمیں پاکستان کی قدر کرنی چاہیے اور اسے مضبوط اور ترقی یافتہ بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنے اختلافات کو بھول کر ایک متحد قوم کے طور پر کام کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنے ملک کے لیے کام کرنے اور اسے ایک مثالی ملک بنانے کے لیے اپنی پوری توانائیاں صرف کرنی چاہئیں۔
مضمون نگارایک اخبار کے ساتھ بطورایسوسی ایٹ ایڈیٹرمنسلک ہیں۔
[email protected]
تبصرے