انسان جب پیدا ہوتا ہے، پھلتا، بڑھتا ، نشوونما پاتا ہے اور اقامت پذیر ہوتا ہے۔ اور شعور کی منزلوں کو طے کرتا ہوا آگہی کے سن کو پہنچتا ہے تو اسے اپنے وطن کی محبت اپنی گھٹی میں محسوس ہوتی ہے۔ وہ اس خاکِ وطن کو اپنی ماں سے تشبیہ دیتا ہے، اس کی طرف میلی نگاہ کو اٹھنے سے پہلے پھوڑ دینے کا عزم اسے لاشعوری طور پر ملتا ہے۔
انسان کی فطرت میں قدرت نے ایسا مادہ رکھا ہے کہ وہ اپنے وطن سے بے لوث اور بے غرض محبت کرتا ہے کیونکہ اس کے نام سے ہی انسان کو شناخت اور پہچان ملی۔ وہ دنیا کے جس کونے میں بھی چلا جائے اپنے وطن کی ہی نسبت سے پہچانا جائے گا، یہ اس کی اصل شناخت اور اعتماد کی ضمانت ٹھہرے گا۔
وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے یہ ایک حدیث ''حب الوطن من الایمان'' سے لیا گیا ہے۔ امام صعانی رحمة اللہ علیہ نے اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے۔ اس پر سیر حاصل گفتگو اور دلیلیں بھی دی گئی ہیں۔ مگر ہم یہاں اس حدیث پر نہیں بلکہ اس کے معنی کو موضوع سخن بنا رہے ہیں کہ وطن سے محبت واقعی ایمان کا حصہ ہے۔
جہاں ایمان کی بات آجائے وہاں مسلمانیت شرط ہو جاتی ہے۔ عمومی طور پر تو ہر فرد کو اپنے وطن سے محبت ہوتی ہے چاہے وہ کافر ہو یا مشرک۔ مگر جب اس محبت کو ایمان کے ساتھ مشروط کر دیا جائے تو اس کی لذت اور خمار ہی نرالا ہو جاتا ہے۔
اسلام نے اپنے پیروکاروں کو وطن سے محبت کرنے کا حق دیا ہے۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے قرآن مجید میںمؤمنین کی کیفیت کا ذکر اس انداز میں فرمایا ہے؛
ترجمہ:'' بولے ہمیں کیا ہوا کہ ہم اللہ کی راہ میں نہ لڑیں حالانکہ ہم نکالے گئے ہیں اپنے وطن سے ۔'' (پارہ2 سورہ بقرہ)
یعنی ایمان کی خاطر وطن کو چھوڑ کر ہجرت ضرور کی مگر وطن کی محبت دل میں پیوست ہے،جو اب بھی ایک چنگاری کی مانند دل کو سلگا رہی ہے۔
ضحاک رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکلے اور مکان جحفہ پہنچے تو آپ ۖ کو مکہ شریف کی جانب رغبت ہوئی، جس پر اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کے لیے یہ آیت نازل فرمائی:
ترجمہ:'' بے شک جس نے تم پر قرآن فرض کیا وہ تمہیں پھیر جائے گا جہاں پھرنا چاہتے ہو ،یعنی مکہ کی طرف')سورہ قصص۔ آیت: 37 )
یعنی آپۖ بحکمِ ربی ہجرت فرما رہے ہیں، سارے ہم وطن دشمن بن گئے ہیں، ہر طرف خوف و دہشت کا غلغلہ ہے مگر وطن اصلی کی محبت جاگزیں ہے۔ پلٹ پلٹ کر دیکھ رہے ہیں۔
اس وقت آپ ۖنے فرمایا ؛
''اے مکة المکرمہ !تو کتنا پاکیزہ شہر ہے اور تو مجھے کتنا محبوب ہے!اگر میری قوم تجھ سے نکلنے پر مجھے مجبور نہ کرتی تو میں تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا۔ ''
پھر دنیا نے دیکھا کہ کس شان سے رب کا وعدہ پورا ہوا اور کس رعب و دبدبے، جاہ و حشم کے ساتھ فتح مکہ کے دن نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم داخل وطن ہوئے۔اللہ اکبر!
وطن کی محبت ایمان کا تقاضا ہے۔ انسان کا اپنی جائے ولادت اور مسکن کے ساتھ محبت ویگانگت کا تعلق ایک فطری عمل ہے۔ نبی اکرم ۖ کی احادیثِ مبارکہ میں مکہ المکرمہ سے والہانہ محبت کا اظہار اسی حب الوطنی کا ثبوت ہے۔ کسی چیز کے ساتھ خالص محبت ترجیحات کے عملی تعین کی متقاضی ہوتی ہے۔ اگر کسی مرغوب جگہ یا چیز کے ساتھ محبت والہانہ ہو تو فوقیات و ترجیحات ہو جاتی ہیں۔
محدثین و مفسرین نے حضور نبی اکرم ۖ کی اپنے مولد ومسکن یعنی مکہ مکرمہ کے ساتھ محبت و عقیدت سے متعلقہ کئی روایات ذکر کی ہیں، یہاں تک کہ امام سہیلی نے اپنی کتاب الروض الانف میں باقاعدہ یہ عنوان باندھا ہے:
حب الرسولِ وطنہ(یعنی رسول ۖ کی اپنے وطن کے لیے محبت)
اس عنوان کے تحت امام سہیلی لکھتے ہیں کہ جب ورقہ بن نوفل نے آپ ۖ کو بتایا کہ آپ کی قوم آپ کی تکذیب کرے گی تو آپ ۖ نے خاموشی فرمائی۔ ثانیاً جب انھوں نے بتایا کہ آپ کی قوم آپ کو تکلیف و اذیت میں مبتلا کرے گی، تب بھی آپ ۖ نے کچھ نہ کہا۔ تیسری بات جب اس نے عرض کی کہ آپ ۖ کو اپنے وطن سے نکال دیا جائے گا تو آپ ۖ نے فوراً فرمایا:
''کیا وہ مجھے میرے وطن سے نکال دیں گے؟''
یہ بیان کرنے کے بعد امام سہیلی لکھتے ہیں:
'ففِی ھٰذا دلِیل علی حبِ الوطنِ وشِدِ مفارقتِہِ علی النفسِ'
یہ وطن سے محبت اور جان کے لیے چھوڑنے کی شدت کا ثبوت ہے۔
(سہیلی، الروض الانف، ج: 2، ص 421)
اِس ارشاد میں آپ ۖ کی اپنے وطن سے شدید محبت پر دلیل ہے اور یہ کہ اپنے وطن سے جدائی آپ ۖ پر کتنی شاق تھی۔
ہر انسان طبعی طور پر اپنے وطن سے محبت کا جذبہ رکھتا ہے۔ اسلام میں کسی مقام پر بھی وطن سے محبت کی نفی کے متعلق احکامات وارد نہیں ہوئے۔ البتہ اس کے بر عکس قرآن و سنت میں واضح طور پر ایسی نصوص ملتی ہیں جو صریحاً وطن کی محبت پر دلالت کرتی ہیں۔ حضور نبی اکرم ۖ کے اقوال و افعال مبارکہ میں واضح طور پر وطن سے محبت کی نظائر و امثال ملتی ہیں۔ مستزاد یہ ہے کہ علماء وفقہا نے ایسی نظائر و امثال سے وطن کے ساتھ محبت کو شرعاً جائز قرار دیا ہے۔
انسان چاہے کسی بھی ضرورت کے تحت دنیا کے کسی بھی خطے یا کونے میں چلا جائے اپنے وطن کی طرف لوٹنے کے لیے ہر وقت شعوری طور پر سوچتا رہتا ہے اور جب چند دن یا ماہ گزر جاتے ہیں تو دل میں ایک ہمک، ایک تڑپ سی محسوس ہوتی ہے؛
کب لوٹو گے؟ اس شہر، گلیوں، قریوں اور دالانوں میں جو اپنے ہیں، جہاں سب خار بھی گل دکھتے ہیں، جہاں سب زخم بھی لذت دیتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ؛ جب لوگ پہلا پھل دیکھتے تو حضور نبی اکرم ۖ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوتے۔ حضور نبی اکرم ۖ اسے قبول کرنے کے بعد دعا کرتے:
''اے اللہ! ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرما، ہمارے (وطن)مدینہ میں برکت عطا فرما۔ ہمارے صاع میں اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما۔'' (مسلم)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
جب حضور نبی اکرم ۖ سفر سے واپس تشریف لاتے اور مدینہ منورہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی سواری کو تیز کر دیتے اور اگر دوسرے جانور پر سوار ہوتے تو اس کی محبت میں اسے ایڑی لگاتے۔ (بخاری)
اِس حدیث مبارک میں صراحتاً مذکور ہے کہ اپنے وطن مدینہ منورہ کی محبت میں حضور نبی اکرم ۖ اپنے سواری کی رفتار تیز کردیتے تھے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اﷲعلیہ نے اس کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے:
یہ حدیث مبارک مدینہ منورہ کی فضیلت اور وطن سے محبت کی مشروعیت و جواز اور اس کے لیے مشتاق ہونے پر دلالت کرتی ہے۔
ترجمہ: ابن بطال رحمة اللہ فرماتے ہیں کہ مدینہ کی محبت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سواری تیز کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ آپ ۖ کا وطن ہے، اور اس میں آپ ۖ کے اہل وعیال تھے جو آپ ۖ کو لوگوں میں سب سے محبوب تھے، اور جہاں انسان کے گھر والے ہوتے ہیں اس وطن سے قدرتی طور پر محبت کا ہونا اور وہاں لوٹ کر آنے پر خوش ہونا فطری عمل ہے، اور آپ ۖ کے اس عمل میں بہترین نمونہ ہے، اور آپ ۖ نے امت کو سفر ختم ہونے کے بعد جلدی اپنے گھروالوں کی طرف لوٹنے کی تعلیم دی ہے۔
ذخیرہ احادیث میں متعدد احادیث مبارکہ پائی جاتی ہیں جو حضور نبی اکرم ۖ کی مدینة المنورہ کے ساتھ محبت کو واضح کرتی ہیں۔
اسی طرح دیگر انبیا ئِ کرام علیہم السلام نے بھی وطن کی محبت کے دم بھرے، جب حضرت یوسف علیہ السلام مصر کے حکمران بنے تو وہ کنعان کے بھکاری کو مصر کی حکومت سے زیادہ بہتر خیال کرتے تھے۔ اسی بات کو لے کر شیخ سعدی رحمہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے:
حب وطن از ملک سلیمان خوشتر
خار وطن از سنبک و ریحان خوشتر
یعنی وطن کا کانٹا بھی سنبل اور ریحان سے زیادہ عزیز ہے۔۔۔۔
اسی موضوع کو اگر کچھ اور آگے بڑھائیں تو یہ کہنا مناسب ہوگا کہ بحیثیت مسلمان تمام اسلامی ممالک ایک وطن کی مانند ہیں جس طرح حدیث شریف میں ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی بتایا گیا ہے۔
الغرض! وطن کی محبت ایک فطری عمل ہے جوانسان کے اندر پیدائش سے لے کر موت تک بڑھتا ہی رہتا ہے۔ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جس کی آمیزش لہو میں شامل رہتی ہے۔ اکثر افراد جو کئی کئی سال دیار غیر میں گزارتے ہیں لیکن سن عمری میں ان کی دیرینہ خواہش ہوتی ہے کہ مدفن وطن کی مٹی ہی میں بنے۔ اسی طرح وطن عزیز پاکستان کی محبت بھی ہماری نس نس میں بسی ہے، اور کوئی کچھ بھی کرلے ہم اس محبت کو ،اس الفت کوکم نہیں ہونے دے سکتے بلکہ وقت پڑنے پر اپنی جانیں بھی اس پر وار سکتے ہیں، جیسی ہمارے بزرگوں کی اور غیور نوجوانوں کی روایت رہی ہے۔
پاکستان زندہ باد!
مضمون نگار متعدد کتابوں کی مصنفہ ہیں اور صدارتی ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں۔
[email protected]
تبصرے