پاکستان کا قیام ، قائد اعظم کی بصیرت کا سب سے بڑا ثبوت ہے، وہ حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی بصیرت ہی تھی کہ کانگریس کے درجن بھر رہنمائوں گاندھی ، نہرو، پٹیل ، ابوالکلام آزاد اور کئی دیگر اکٹھے ہو کر بھی قائد اعظم کا مقابلہ نہ کر سکے ، آخر کیا بات تھی کہ وجے لکشمی پنڈت کو کہنا پڑا تھا کہ ،
'' مسلم لیگ کے پاس ایک سو گاندھی اور دوسو ابوالکلام آزاد ہوتے اور کانگریس کے پاس اگر ایک محمد علی جناح ہوتے تو ،ہندوستان تقسیم نہ ہوتا اور پاکستان کبھی نہ بنتا ''
قائد اعظم کردار کے غازی تھے ، قابلیت وبصیرت کا ہمالہ تھے،
حضرت علامہ محمد اقبال کے بقول !
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا
قائد اعظم محمد علی جناح کی ثابت قدمی ، مؤقف پر قائم رہنا، آنے والے زمانے کو شعور کی آنکھ سے دیکھ لینا ،ان کی بصیرت کی کرنیں تھیں ، یہی وجہ تھی کہ متحدہ ہندوستان کے آخری وائسرائے ، لارڈ مائونٹ بیٹن نے کھلے بندوں اعتراف کیا تھا کہ ،
'' تسلیم کرتا ہوں کہ میں جناح کے سامنے ناکام رہا ''
قائد اعظم محمد علی جناح علامہ اقبال کے مرد مومن تھے ۔ محمد علی جناح ایک وسیع الخیال سیاستدان تھے، انہوں نے1916ہی میں لکھنؤ اجلاس میں بتا دیا تھا کہ قومی نشاةِ ثانیہ میں مسلمانوں کا کیا کردار ہو گا، 1918 میں بلبل ہند ، سروجنی نائیڈو نے محمد علی جناح کی تقاریر اور مضامین کی پہلی کتاب ، این ایمبیسڈر آف یونیٹی ، کے تعارف میں لکھا کہ ایسی بہت کم مثالیں ملتی ہیں کہ کسی کی ذات میں اس کی خارجی خوبیاں ، داخلی تقابل کے باوجود اس قدر کامل ہوں ، بلند قامت اور پر شکوہ کمزوری کی حد تک دبلاپتلا ، لیکن پرتکلف عادات و اطوار کا شہنشاہ ،محمد علی جناح اپنی طبیعت کے اعتبار سے ، کم گوئی کا مجسمہ ، تصنع سے بے نیاز، انسانیت کا متوالہ ، سریع الادراک ، خوش طبع، حقیقت پسند ، عملی جذبات کا مالک اپنے اندازے اور پسندیدگی کی قبولیت میں محتاط ، پر سکون ، بے لاگ ،واضح عقل سلیم ، اعلیٰ تصوریت جیسے اوصاف و عادات کے حامل تھے۔ قائد اعظم کی دور اندیشی اور بصیرت کا یہ عالم تھا کہ وہ آنے والے منظر نامے کو اپنی چشم بینا سے دیکھ لیا کرتے تھے ،انگریز تو تھاہی قائد کی بصیرت کا قائل، وہ علماء اور مسلم اکابرین جو ہندوستان کی تقسیم کے نظرئیے کے حق میں نہ تھے ، وہ بھی قائداعظم کی دور نگاہی کے قائل ہو گئے تھے ۔قائد اعظم چونکہ دیانت دار ، سچے ، کھرے اور وعدے کے پکے تھے، ایسے شخص کے سراپے میں بہت جلال اور تمکنت ہوتی ہے ، بڑے سے بڑے خان بہادر بھی قائد اعظم سے بات کرنے میں ہچکچایا کرتے تھے، دیانت دار شخص بے خوف ہوتا ہے، کھرااور بے عیب ہوتا ہے ، قائد اعظم جو قیاس کرتے تھے آگے چل کے وہ سچ ثابت ہوتا تھا۔
گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919 کی شق 84/A کے تحت 1927 میں ، تاج برطانیہ نے شاہی فرمان جاری کر کے برطانوی ہند کے لیے سائمن کمیشن مقرر کیا ، ان دنوں برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی کے لارڈ برکن ہیڈوز، وزیراعظم تھے، کمیشن کے ذمے ، رولٹ ایکٹ مجریا ، 21 مارچ 1919 جس نے ہندوستانیوں کی رہی سہی آزادی بھی سلب کر لی تھی کا جائزہ لینا تھا ، جس کے نفاذ کے خلاف 13 اپریل 1919 کو سانحہ جلیاں والا باغ بھی ہو چکا تھا جس میں سیکڑوں حریت پسندوں کو گولی مار دی گئی تھی ، سائمن کمیشن کا سربراہ ، سر جھون سائمن تھا اس نسبت سے وہ سائمن کمیشن کہلایا، اس میں سات افراد تھے، جو سارے کے سارے انگریز تھے ، ایک بھی ہندوستان کا باشندہ شامل نہ تھا ، قائد اعظم محمد علی جناح نے یکطرفہ سائمن کمیشن کی تشکیل پر اعتراض کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ جلیانوالہ باغ سے بھی سائمن کمیشن بڑا سانحہ ہے۔ ہندوستان کی قریب قریب ساری سیاسی جماعتوں نے سائمن کمیشن کے خلاف رد عمل دیا تھا ، انہیں اندازہ تھا کہ اگر قائد اعظم نے تحفظات کا اظہار کیا ہے تو محمد علی جناح کا مؤقف حکمت سے خالی نہیں ہوگا۔ لیکن مسلم لیگ کے بعض لوگوں نے ، سر جھون سائمن کا ساتھ دینے کے لیے الگ سے شفیع گروپ بنا لیا تھا ، قائد اعظم کا مسلم لیگی دھڑا جناح گروپ کہلایا !
چونکہ مسلم لیگ جناح گروپ اور دیگر ساری جماعتوں اور ہندو کمیونٹی نے سائمن کمیشن کی مخالفت کی تو پھر مسلم لیگ جناح گروپ کے علاوہ دیگر سب نے جواہر لعل نہرو کو 8 مارچ 1928 کو نیا آئین بنانے کی ذمہ داری سونپی ،جس کی رپورٹ 1929 میں آئی ، نہرو رپورٹ کے رد عمل میں 1929 میں ہی مسلمانوں کی آل پارٹی کانفرنس کلکتہ میں ہوئی جس میں قائد اعظم محمد علی جناح نے مشہور زمانہ اپنے 14 نکات پیش کیے جس پر ہندو کمیونٹی کی طرف سے سخت مزاحمت ہوئی ، اس شدید رد عمل کو دیکھ کر قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ' اب جدائی کا آغاز ہو گیا ہے'۔گویا تصور پاکستان کی ابتداء ان کے پیش کردہ چودہ نکات سے ہو گئی تھی، ادھر سائمن کمیشن اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھا۔ اس عرصے میں وہ دو بار ہندوستان آیا تھا، ایک بار 1927 میں اور دوسری مرتبہ 1928 میں جب کہ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ 1930 کے اوائل میں دی جو 7 جون 1930 میں شائع کی گئی تھی ، جس کو کوئی پذیرائی نہ ملی اور پھر قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے فرمایا کہ ''پاکستان ایک کثیر القومی ریاست ہونے کے ناتے اسے ترقی کی راہ پر چلانے کے لیے ، ایمان کی بنیاد پر ، پنجابی ، بنگالی پٹھان ، سندھی اور بلوچ کے اختلاف کو مٹانا ہوگا۔ اب ہم ایک ایسی کتاب کھولیں گے جس کے کسی ورق پر خیانت اور بد دیانتی کا داغ دھبہ نہ ہو ۔''
قائد اعظم ایک وجدانی شخصیت تھے، غیر اعلانیہ صوفی ، وعدے کے پکے اور وقت کے پابند تھے
دنیا بھر کے ممتاز مؤرخین اور محققین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کا شمار ان رہنمائوں میں ہوتا ہے جنہوں نے دنیا کی تاریخ کے ساتھ ساتھ جغرافیہ بھی تبدیل کیا ہے۔ قائد اعظم نے 22 اکتوبر 1939 کو لاہور میں ، آل انڈیا مسلم لیگ کے کونسل اجلاس میں اپنے بصیرت افروز خطاب میں اپنی آخری خواہش کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ'' مسلمانو! میں نے دنیا کو بہت دیکھا، دولت و شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے ، اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سر بلند دیکھوں ، میں چاہتا ہوں ، کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں ، میرا ضمیر اور میرا اللہ گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی ، تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کر دیا ہے ۔''
مولانا عبد الحامد بدایونی نے قائد اعظم سے اپنی 3 مئی 1947 کی ایک خصوصی ملاقات کے احوال میں لکھا ہے کہ قائد اعظم سے ملاقات کی جو دن گیارہ سے بارہ بجے تک جاری رہی، جس میں اسلامی حکومت کے آئین اور دستور پر بات کی تو ، قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا کہ'' میں اس بات سے کلیتاً متفق ہوں کہ پاکستان کا دستور وہی ہو گا جو اسلام اور قرآن کریم کے مطابق ہو ، سوشلزم اور مغرب کے قوانین ہمارے مرض کا علاج نہیں ، ایک وقت آئے گا کہ جب ساری دنیا قرآن و اسلام کی جامعیت کو تسلیم کرے گی۔'' عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد کے طلبا کے اگست 1941 میں سوال و جواب کی محفل میں قائد اعظم نے طلباء سے فرمایا ''اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کشی کا مرجع اللہ تعالیٰ کی ذات با برکات ہے ، جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکامات اور اصول ہیں، اسلام میں عملًا نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے اور نہ پارلیمان کی ، نہ کسی اور شخص یا ادارے کی، قرآنِ حکیم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کرتے ہیں ، اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآنی اصول اور احکام کی حکمرانی کا نام ہے اور حکمرانی کے لیے آپ کو لا محالہ علاقہ اور مملکت کی ضرورت ہوتی ہے۔''
25 جنوری 1948 کو قائد اعظم محمد علی جناح نے گورنر جنرل پاکستان کی حیثیت سے کراچی بار ایسوسی ایشن کی طرف سے منعقدہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریب سے خطاب میں فرمایا کہ'' میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور سے شرارت کرنا چاہتا ہے اور یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔'' قائد اعظم نے فرمایا :'' آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو برس پیشتر ہوا تھا۔'' صوبائیت کے بارے میں قائد اعظم نے فرمایا :'' یہ ایک بیماری ہے اور ایک لعنت ہے۔'' انہوں نے فرمایا کہ'' میں چاہتا ہوں ، مسلمان صوبائی عصبیت کی بیماری سے چھٹکارا پالیں، ایک قوم جب تک کہ وہ ایک صف میں نہ چلے ، کبھی ترقی نہیں کر سکتی ، ہم سب پاکستانی اور اس مملکت کے شہری ہیں اور ہمیں مملکت کے لیے خدمات ، ایثار اور زندگی کا نذرانہ پیش کرنا چاہیے تاکہ ہم اسے دنیا کی عالیشان اور خود مختار مملکت بنائیں ۔'' قائدِ اعظم نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ'' میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے خوش آمدید کہا ، میں اس بار ایسوسی ایشن سے کافی عرصے سے واقف ہوں ، آج ہم یہاں تھوڑی سی تعداد میں اس عظیم شخصیت نبیِّ آخر الزماں حضرت محمد مصطفےۖ کے حضور خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں، جن کے لیے نہ صرف لاکھوں دل احترام سے لبریز ہیں بلکہ جو دنیا کے عظیم ترین لوگوں کی نظر میں بھی محترم ہیں، میں ایک عام سا آدمی اس عظیم المرتبت شخصیت کو کیا خراج عقیدت ، پیش کر سکتا ہوں۔رسول اکرم ۖ ایک عظیم راہبر تھے ، آپ ایک عظیم قانون عطا کر گئے، آپ ایک عظیم مدبر تھے ، آپ ایک عظیم فرما روا تھے جنہوں نے حکمرانی کی ''
قائد اعظم نے فروری 1948 کو دنیا کے منصفوں پر اپنے ایک خصوصی پیغام میں پاکستان کے دستور کے بارے واضح کر دیا تھا کہ :''پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ابھی پاکستان کا آئین مرتب کرنا ہے ، میں نہیں جانتا کہ اس آئین کی آخری شکل کیا ہو گی ، لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اسلام کے بنیادی اصولوں کا آئینہ دار جمہوری انداز کا ہو گا ، اسلام نے ہمیں وحدت انسانیت اور ہر ایک کے ساتھ عدل و دیانت کی تعلیم دی ہے۔آئین پاکستان کے مرتب کرنے کے سلسلہ میں جو ذمہ داریاں اور فرائض ہم پر عائد ہوتے ہیں ان کا ہم پورا پورا احساس رکھتے ہیں ، کچھ بھی ہو یہ امر مسلمہ ہے کہ پاکستان میں کسی صورت میں بھی تھیا کریسی رائج نہیں ہو گی ۔''
قائدکے اقوال اور تعلیمات سے یہ عیان ہوتا ہے ، قائد اعظم محمد علی جناح کا متمع نظر صرف اور صرف قرآن ِحکیم تھا اور یہی ایمان افروز پہلو قائد اعظم کی بصیرت کا نکتہ عروج اور پاکستان کی اساس تھی۔
مضمون نگار: ایک معروف صحافی اور مصنف ہیں۔ ایک قومی اخبار کے لئے کالم بھی لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے