افنان رات کو چھت پر بیٹھا بڑے غور سے آسمان کو تک رہا تھا۔
’’ارے افنان! بیٹا آپ ابھی تک سوئے نہیں ہیں؟ اور اس وقت چھت پر کیا کر رہے ہیں...؟‘‘
’’ ابو جان!میں غور کر رہا تھا کہ یہ ستارے اور چاند کس طرح چمکتے ہیں؟‘‘
’’ دراصل ہمارے سائنس کے ٹیچر نے آج فلکیات پر ایک موضوع ہمیں سمجھایا تھا اور اس میں چاند اور ستاروں کے چمکنے کی وجوہات پر روشنی ڈالی تھی۔ اب اسی سلسلے میں ہمیں ایک مضمون لکھنا ہے۔ لیکن مضمون لکھنے سے زیادہ مجھے اس چیز کو سمجھنا ہے کہ آخر اتنے اندھیرے میںیہ چاندستارے اس طرح روشن ہوتے ہیں کہ اتنی دُور سے بھی ہمیں نظر آتے ہیں؟‘‘
’’یہ موضوع تو واقعی بہت دلچسپ ہے۔ آپ کو اس کے تمام تصور کو اچھی طرح جان کر اپنا مضمون لکھنا چاہیے، تاکہ اس کو پڑھنے والے سب ہی اس عنوان کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔‘‘
’’ابو جان! کیا آپ اس سلسلے میں میری کوئی مدد کر سکتے ہیں؟‘‘
’’بالکل ! میں ضرورآپ کی مدد کروں گا۔ ان شاءاللہ! کل رات ہم تفصیل سے اس موضوع پر بات کریں گے۔ اس وقت آرام کریں۔‘‘
’’شکریہ ابوجان ! آپ نے میری بہت بڑی الجھن دور کردی۔‘‘
اگلی رات ڈنر کے بعد افنان اوراس کے ابوجان چھت پر آچکے تھے۔
’’جی بیٹا!سب سے پہلے ہمیں اس بات کا جواب تلاش کرناہے کہ دن اور رات کیسے بنتے ہیں؟ ‘‘
’’دراصل زمین آہستہ سے گھومنے والی ایک گیند کی طرح ہے۔ جوسورج کے گردچوبیس گھنٹے میں ایک چکر مکمل کرتی ہے۔ جس جگہ پر ہم رہتے ہیں اگر وہ حصّہ سورج کے سامنے ہو تو دن ہوگا اور جن اوقات میں سورج ہم سے دور ہوتا ہے ، اس وقت یہاں رات ہو جاتی ہے۔یہ بھی یاد رکھو، دنیا کے مختلف حصّوں میں ہمیشہ مختلف وقت ہوتا ہے۔‘‘
جی ابو جان! یہ بات ہمارے ٹیچر نے ہمیں بتائی تھی۔‘‘ افنان بولا۔
’’اب ہم بات کریں گے روشنی کے متعلق ۔عام روشنی سات رنگوں سے مل کر بنتی ہے۔ ہم ان میں سے کسی بھی رنگ کو صرف اس وقت دیکھ سکتے ہیں، جب یہ کسی چیز سے منعکس ہو یا کسی اور طریقے سے منتشر ہو۔ جب سورج کی روشنی زمین کی فضا سے ٹکراتی ہے تو ہوا نیلی روشنی کو منتشر کرتی ہے ،جس کی وجہ سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ آسمان نیلا ہے۔‘‘
افنان بابا جان کی دلچسپ گفتگو میں پوری طرح کھویا ہوا تھا۔ بابا جان اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولے۔
’’ چاند کی اپنی کوئی روشنی نہیں ہوتی بلکہ یہ سورج کی منعکس ہونے والی روشنی کے باعث چمکتا ہے۔ اگرچہ منعکس ہونے والی روشنی کا صرف سات فیصد زمین تک پہنچ پاتا ہےتاہم یہ ہماری راتوں کو منور کردیتی ہے، خاص طور پر جب پورا چاند ہو۔اس کے علاوہ یہ جوہمیں کھلا آسمان دکھائی دیتاہے، جس میں باریک باریک روشن نقطے چمکتے نظر آتے ہیں، ان میں سے کچھ ستارے ہوتے ہیں جو گیس کی دہکتی گیندیں ہیں اور جن سےروشنی اور توانائی کی دوسری اقسام خارج ہوتی رہتی ہیں۔‘‘ابو نے وضاحت سے سمجھایا ۔
’’ اب آپ اس ساری بات سے کیا سمجھے؟‘‘ انہوں نے افنان سے سوال کیا۔
’’چاند کی اپنی روشنی نہیں ہے۔ جب ہم آسمان کوروشن دیکھتے ہیں، تو ہم دراصل چاند پر سورج کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ سورج روشنی کا بنیادی ذریعہ ہے۔یعنی ایک چمکدار چیز۔
’’شاباش! ‘‘ ابو جان نے افنان کی معلومات کی داد دی۔
’’اس سے ثابت ہوا کہ سورج ایک ستارہ ہے، اور یہ اور دیگر تمام ستارے چمکتے ہیں کیونکہ وہ جن گیسوں سے بنے ہیں وہ گرم اور روشن ہیں۔ چاند اور دوسرے سیارے روشنی کی عکاسی کرتے ہوئے چمکتے ہیں۔ چاند ہمارے اتنا قریب ہے کہ اس کی منعکس روشنی ہمیں زیادہ نظر آتی ہے۔‘‘
’’ان ستاروں کے مرکز میں دباؤ اور حرارت اتنی شدید ہو جاتی ہے کہ حرارت اور روشنی کی صورت میں توانائی کی ایک بڑی مقدار خارج ہوتی ہے۔ اپنی حرارت اور روشنی پیدا کرنے کی یہ خاصیت ستاروں کو سیاروں سے ممتاز کرتی ہے۔‘‘
’’بہت خوب ابو جان!میں سمجھ گیا۔ اب میں ایک بہترین مضمون لکھ لوں گا۔‘‘ افنان خوشی سے چہکا۔
’’الحمدللہ بیٹا! مجھے خوشی ہے کہ آپ کو میری بات سمجھ آگئی۔‘‘ابا جان نے کہہ کر آسمان کی طرف دیکھنے لگے جہاں دُور آسمانوں میں ستاروں کا ایک جھرمٹ انہیں دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔
تبصرے