’’ احمد بیٹا جلدی اٹھو، اسکول سے دیر ہو رہی ہے۔‘‘ امی نے کمبل میںلپٹے احمد کو آواز دی۔
’’امی! مجھے آج اسکول نہیں جانا۔‘‘ وہ کمبل کے اندر سے بولا۔
’’ضد نہیں کرتے بیٹا! آپ کے امتحانات سر پر ہیں۔ اس لیے فی الحال چھٹی کی کوئی گنجائش نہیں۔‘‘ انہوں نے کمبل کھینچا۔
’’پلیز! آج چھٹی کرنے دیں۔‘‘ اس نے ضد پکڑ لی۔
’’نہیں! بالکل بھی نہیں، اٹھو شاباش!‘‘ وہ اس کے سرہانےآن بیٹھیں۔
’’میرے پیٹ میں درد ہورہا ہے۔‘‘ یہ بہانہ اسے مناسب لگا۔
’’آج یہ بہانہ نہیں چلنے والا۔‘‘ انہوں نے مسکرا کرکہا۔
چاروناچاروہ بستر چھوڑ کر باتھ روم میں گھس گیااوربے دلی سے یونیفارم پہن کر اسکول جانے کے لیے تیار ہوگیا۔
......
احمد پڑھائی میں بے حد کمزور تھا۔ اس کی وجہ عدم دلچسپی تھی جس نے اسے ایک سست طالب علم بنا دیا تھا۔ اساتذہ کرام اسے ہمہ وقت سمجھاتے ،مختلف حیلے کرتے کہ شاید وہ پڑھنے لگ جائے مگر اس کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔ وقت گزرتا رہا اور امتحانات قریب آگئے لیکن اسے ایک لفظ بھی یاد نہ ہوسکا۔اسکول میں اس کے ٹیسٹ ہو رہے تھے اس لیے وہ جانے سے کترا رہا تھا۔
اس کا اسکول گھر سے زیادہ دور نہ تھا اس لیے وہ پیدل ہی چلا جاتا تھا۔ راستے میں وہ ایک چیز نوٹ کرتا تھا کہ جیسے ہی وہ گھر کی گلی مڑتا، دوسری نکڑ پر کھڑا ایک بچہ اس کا اسکول تک پیچھا کرتا اور آنکھوں سے اوجھل ہوجانے تک اسے دیکھتا رہتا۔ایک دن احمدنے اس بچے کو پکارا تو وہ ڈر کر بھاگ گیا۔نہ جانے کون تھا اور کیوں اس کی راہ تکتا تھا؟ بہر حال وہ سر جھٹک کر آگے بڑھ گیا۔
اگلے روز احمد نے اس گلی میں آتے ہی دائیںکی بجائے بائیں جانب چلنا شروع کر دیا اور اس بچے کو جالیا۔وہ اسے روبرو دیکھ کر گھبرا گیا۔
’’دیکھو!ڈرو نہیں،مجھے تم سے بات کرنی ہے۔‘‘ احمدنے پیارسے کہاتو وہ رک گیا۔
’’تم کون ہو اور روزانہ میرا پیچھا کیوں کرتے ہو؟‘‘ احمد نے پوچھا ۔
’’بتاؤ! میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔‘‘ احمد نے اس کی ہمت بندھائی تو وہ دھیمی آواز میں بولا۔
’’میرا نام شبیر ہے۔ میں پچھلی گلی میں رہتا ہوں۔ آپ مجھے اچھے لگتے ہیں اس لیے روز آپ کو دیکھنے یہاں چلا آتا ہوں۔‘‘ ہچکچاہٹ اس کے چہرے سے نمایاں تھی۔
’’بھلا یہ کیا بات ہوئی۔میں کوئی مشہور شخصیت تھوڑے ہی ہوں۔‘‘اسے اچنبھا ہوا۔
’’دراصل مجھے آپ کا یونیفارم بہت پسندہے،یہ بیگ اور کتابیں آپ پر خوب جچتی ہیں۔ میرا دل بھی چاہتا ہے کہ میں روزاسی طرح کے کپڑے پہن کر، کتابیں سینے سے لگائے اسکول جاؤں مگر...‘‘ وہ خاموش ہوگیا۔
’’مگر؟‘‘ احمد نے تجسس سے پوچھا۔
’’میرے امی ابو بہت غریب ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری اتنی حیثیت کہاں کہ تمہیں تعلیم دلوا سکیں۔‘‘ شبیر کی آنکھیں نم اور احمدشرمسار ہو گیا۔
.....
احمد کے والد مہنگائی کے اس دور میں نہ جانے کتنی محنت اور مشقت برداشت کر کے اسے ایک مہنگے اسکول میں تعلیم دلوا رہے تھے مگر احمد ان کے شوق اور محنت کو نظر انداز کر کے مسلسل پڑھائی سے جی چرا رہا تھا۔ اسکول کو وہ دوستوں سے ملاقات کی جگہ سمجھ بیٹھا تھا۔ گھر آ کر وہ سارا وقت کھیل کود میں ضائع کردیتا اور کتابوں کو ہاتھ تک نہ لگاتا تھا۔
آج اسے احساس ہو گیا تھا کہ کچھ بچے وسائل نہ ہونے کی وجہ سے کس طرح اپنی خواہشات پوری نہ ہونے پر ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں اور اس جیسے لوگ تمام وسائل ہونے کے باوجود ناقدری کرتے ہیں۔اب اسے صحیح معنوں میں تعلیم اور اس کی اہمیت کا اندازہ ہوا تھا۔ اسے اب قدر ہوئی تھی کہ اس کے پاس علم کے حصول کاایک سنہری موقع ہے جسے وہ اپنی نادانی کی وجہ سے کھو رہا تھا۔
آج اس نے اسکول میں تمام پیریڈز انہماک سے لیے تھے۔ سبق اچھے سے پڑھا اور دہرائی کی۔ گھر آکر ہوم ورک لکھا اور اسے یاد بھی کیا۔اب وہ روز خوشی خوشی اسکول جاتا اوراسی طرح پڑھائی کرتا تھا۔اس محنت پر اللہ نے اسے اجر دیا۔ امتحانات میں اس نے اچھے نمبر لیے اور پاس ہوگیا۔ اساتذہ کرام اور اس کے والدین اس کی کارکردگی سے متاثر اور خوش تھے۔
......
’’احمد بیٹا!آپ کے ٹیچر آپ کی بہت تعریف کر رہے تھے کہ اب آپ نے پڑھنا شروع کردیاہے اور اس بات کا ثبوت آپ کا رزلٹ بھی ہے لیکن بیٹا کیا میں اچانک کایا پلٹ جانے کی وجہ جان سکتا ہوں؟‘‘ابو کے استفسار پر احمدنے انہیں شبیر کا قصہ سنا دیا جس کی باتوں نے اسے پڑھائی کی طرف راغب کیا تھا ۔
احمدکے ابو اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اگلے ہی دن شبیر کے والدین سےرابطہ کیا اور اس کا داخلہ کروا دیا۔اسکول انتظامیہ نے صورتحال بھانپتے ہوئے اسے کتابیں اوریونیفارم مفت دے دیے۔اس طرح شبیر بھی تعلیم کےزیور سے آراستہ ہونے لگا۔
پیارے بچو!ہمارے والدین اور اساتذہ کرام ہمارے اچھے مستقبل کے لیے بہت محنت کرتے ہیں۔آج کے جدید دور میں ہمارے وطن پاکستان کو بھی پڑھے لکھے اور ذہین نوجوانوں کی بہت ضرورت ہے۔ آئیے، علم کی قدرکرکے کامیابیاں حاصل کریں اور محنت کو شعار بنا کر پاکستان کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
تبصرے