برف پوش پہاڑوں کے دامن میں ایک خوبصورت جزیرہ تھا۔ اُس پر موسم بہار میں رنگ، رنگ کے پھول کھلتے تھے اور رنگ برنگی تتلیاں جن کے پَر کانچ کے لگتے تھے، اُن پھولوں پر منڈلاتی رہتی تھیں۔
اُسی جزیرے پر ایک بہت پیاری نیلے رنگ کی جھیل تھی جس میں چمکتی مچھلیاں تیرتی تھیں۔روزانہ جھیل کنارے پانچ دوست اکٹھے ہوتے تھے۔ مینو مور، بھوری بُلبُل چنٹو چڑیا، موہنی مَینا اور راجہ طوطا۔ پانچوں کی پکّی دوستی تھی ۔ سب میں کچھ باتیں ایک جیسی تھیں۔ وہ سب خوبصورت تھے۔ راجہ طوطا کے بال سرخ وسبز اور پیلے تھے جبکہ لال لال چونچ ، وہ سچ میں راجہ ہی لگتا تھا۔سب دوست شرارتی بھی تھےاور سارادن خوب مستیاں کرتے رہتےتھے۔ ایک شام پانچوں دوست جھیل کنارے اکھٹے بیٹھےتھے۔
’’آج بہت سردی ہے۔ میرا تو دل ہی نہیں چاہ رہا تھا کہ کمبل سے نکلوں۔‘‘
’’ہاں! ٹھنڈ تو سچ میں بہت ہے ۔ابھی میں آرہا تھا تو چو چو چڑیا رو رہی تھی۔ جب سے اُس کے انڈے ٹوٹے ہیں بےچاری ہر وقت روتی رہتی ہے۔ راجہ! تمہیں اُس کے انڈے نہیں توڑنے چاہئیں تھے۔تمہارے دل میں ذرا بھی رحم اور ہمدردی نہیں ۔‘‘ مینو مور غصّےسے بول رہا تھا۔
’’میں نے جان بوجھ کے نہیں توڑے ، میں تو بس انہیں دیکھ رہا تھا۔ موہنی نے مجھ سے انڈہ چھینا اور پھر اُس کا پورا گھر ہی نیچے گر گیا۔‘‘ راجہ بے پروائی سے بولا۔
’’تمہیں میں نے اور چنٹو نے منع کیا تھا کہ یہ ایڈونچر نہ کرو مگر تم باز نہیں آئے۔ سب سے بُری بات یہ ہے کہ تم شرمندہ بھی نہیں ہو۔‘‘ مینو نے جواب دیا۔
’’تم کچھ زیادہ بول رہے ہو؟ لگتا ہے تم میری خوبصورتی سے جلتے ہو۔‘‘ راجہ طوطا غصّے سے چلّانے لگا ۔
’’میں تم سے کیوں جلوں گا؟ وہ چوچو چڑیا بے چاری آج کل چنٹو کے گھر رہ رہی ہے۔وہ اتنی شدید سردی میں نیا گھر کیسے بنائے گی؟‘‘ مینو نے جواب دیا۔
’’چوچو چڑیا نے مضبوط گھر نہیں بنایا تو اِس میں میرا کیا قصور ؟‘‘ راجہ پھر چیخا۔
’’ارے! کیا ہوگیا ہے؟ کیوں ایسے جھگڑ رہے ہو؟‘‘ چنٹو چڑیا آگے بڑھی۔
’’بہت بری بات ہے راجہ! کوئی اپنے دوست کو ایسے تھوڑے ہی کہتا ہے؟ ‘‘بھوری بُلبُل بھی بولی۔
’’ہم سب دوست ہیں اور ہمیں ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ چلو ہاتھ ملاؤ ایک دوسرے سے اور دونوں سوری کہو۔‘‘ موہنی مینا نے صلح کی طرف قدم بڑھائے۔
’’ہونہہ دوستی! مجھے نہیں کرنی۔‘‘ راجہ طوطا غرور سے بولا اور پُھر سے اُڑ گیا۔
مینو مور کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ سب دوست اُس شام اُداس دل کے ساتھ گھروں کو لوٹے۔
کچھ دن تک راجہ طوطا اُن سب سے ملنے نہیں آیا اور نہ ہی باقی دوستوں میں سے کوئی راجہ کو ملنے گیا۔ایک شام سب دوست جھیل کنارے اکٹھے تھے۔ بُھوری بُلبُل بولی۔’’آج، راجہ نہیں آیا؟ ‘‘
’’وہ تو بہت دن سے نظر نہیں آرہا۔‘‘ موہنی مینا نے جواب دیا۔
’’چلو! اُس کے گھر چلتے ہیں‘‘ موہنی مینا بولی۔
’’ٹھیک ہے چلتے ہیں ۔آخر یہ ہے کہاں؟ مینو سے تو ناراض تھا ،ہم سے کیوں نہیں ملا؟‘‘ بُھوری بُلبُل فکر مندی سے بولی۔
سب دوست راجہ طوطے کی طرف روانہ ہوئے اور جب وہاں پہنچے تو دروازے کے باہر بڑا سا تالا اُن کا منہ چڑا رہا تھا۔’’ارے! یہ لوگ کہاں گئے؟ راجہ تو ہمیں بتائے بغیر کہیں نہیں جاتا تھا۔‘‘ چنٹو چڑیا بولی۔
راجہ طوطے کے گھر کے ساتھ ہی بندر کا گھر تھا۔’’ یہ لوگ کہاں ہیں‘‘ بُھوری بُلبُل نے اس سے پوچھا۔
’’ راجہ کے ایک ہی انکل ہیں ،وہاں گئے ہوں گے ،ویسے بتا کر نہیں گئے اس بار۔‘‘ بندرنے جواب دیا۔
’’سب دوست راجہ کے انکل کے گھر روانہ ہوئے اور جب وہاں پہنچے تو دھک سے رہ گئے۔ انکل کے گھر کے دروازے پر بھی تالا پڑا تھا۔ وہ لوگ وہاں سے پریشان اور ناکام لوٹے تھے۔ راجہ طوطا اپنے خاندان سمیت غائب تھا اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ لوگ کہاں اور کس حال میں ہیں۔ دن پر دن گزرتے جارہے تھے سب دوست روزانہ راجہ کے گھر جاتے مگر دروازے پر تالا دیکھ کر واپس لوٹ آتے تھے۔
پھر ایک دن وہ روزانہ کی طرح راجہ کے گھر پہنچے تو دروازہ کھلا تھا۔ سب دوست بے چینی سے اندر داخل ہوئے۔ اندر راجہ کے والدین پریشان بیٹھے تھے اور راجہ دور دور تک کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔پوچھنے پر راجہ کے والدین نے بتایا کہ جب وہ یہاں تھے تو اسی دوران راجہ کے بال گر نا شروع ہوگئے۔ چند ہی دن میں وہ ایسا نظر آنے لگا جیسے مرغی کی کھال اُتارنے کے بعد اُس کی جلد نظر آتی ہے۔ ہم راجہ کو چھپا کر اُس کے انکل کے گھر لے گئے۔ بہت سے ڈاکٹروں کو دکھایا ۔سب نے کہا کہ اس کاعلاج ممکن نہیں۔یہ سن کر راجہ پریشان ہوگیا۔ صبح اُٹھے تو راجہ گھر نہیں تھا۔ ہم نے اسے بہت ڈھونڈا لیکن وہ کہیں نہیں ملا۔
سب دوست یہ سن کر افسردہ ہوئے اور اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔اُدھر راجہ جب پریشانی کے عالم میں گھر سے نکلا تو دور تک چلتا چلا گیا۔ سخت سردی کا موسم ، اندھیری رات ، پَر ٹوٹے ہوئے ، اور وہ اُڑبھی نہیں سکتاتھا۔ چلتے چلتے وہ کہاں پہنچ گیا تھا ، اسے کچھ خبر نہ تھی۔پھر اچانک اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ جب اُسے ہوش آیا تو اُس نے خود کو کمبل میں لپٹا پایا۔ پاس ہی آگ جل رہی تھی اور کمرہ خوب گرم تھا۔
’’پیارے بچے! تم ٹھنڈ میں بے ہوش پڑے تھے۔ اتنی رات کو گھر سے کیوں نکلے؟‘‘ وہ ایک کسان تھا جو اُس کے پاس بیٹھا مونگ پھلی کھاتے ہوئے راجہ سے ہمدردی سے پوچھ رہا تھا۔
راجہ طوطا کسان کو ساری بات بتانے لگا، ’’میں نہیں جانتا میرے بال کیوں جھڑ گئے؟‘‘ وہ رو رہا تھا۔
’’پیارے بچے! شرارتیں کرنا بری بات نہیں ہے لیکن شرارت میں کسی کے انڈے گرا دینا یا کسی کا گھر توڑ دینا بہت بری بات ہے۔ کسی کی دل آزاری کرنا شرارت نہیں بلکہ گناہ ہے۔ اپنے دل میں ہمیشہ سب کے لیے ہمدردی اور احساس کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ہوسکتا ہے اسی وجہ سے تمہارے بال جھڑ گئےہوں۔‘‘
’’ہمدردی کیا ہوتی ہے؟‘‘ راجہ طوطا کسان سے پوچھ رہا تھا۔
’’ہمدردی کسی کی مصیبت، تکلیف اور دکھ میں کام آنااور اُس کی مدد کرنا ہے۔‘‘ کسان نے سمجھایا۔
کسان راجہ کا خیال رکھنے لگا تھا۔جب وہ کام پرچلا جاتا تو راجہ سارا دن کمرے کی کھڑکی میں بیٹھ کر باہر دیکھتا رہتا۔ اُس دن بھی وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا کہ ایک سفید کبوتراچانک اس کے سامنے آ گرا ۔اُس کا پیر زخمی تھا۔ راجہ اُسے اُٹھا کر اندر لے آیا ،اُس کی مرہم پٹی کی اور اسے دانہ کھلایا۔ کبوتر نے اُس کا شکریہ ادا کیا اور بولا تم بہت پیارے طوطے ہو اور پُھر سے اُڑ گیا۔
راجہ حیران ہوا کہ کیا وہ اب بھی پیاراہے؟
کچھ دن بعد ایک پریشان کوّا اُس کی کھڑکی میں آن بیٹھا۔
’’سردی اتنی زیادہ ہے کہ ہر طرف برف ہے۔ کچھ کھانےکو نہیں مل رہا اور میرے بچے بھوکے ہیں۔‘‘ کوّا بولا۔ راجہ نے کوّے کو روٹی دی اور کہا، ’’اور روٹی چاہیے ہو تویہاں سے لے جانا۔‘‘ کوّا بہت خوش ہوا۔
’’تم بہت پیارے ہو‘‘ کوّا بھی یہی کہہ کر پُھر سے اُڑ گیا۔
راجہ کی کھڑکی کے سامنے ایک درخت تھا جس پر ایک چڑیا اپنے چار بچوں کے ساتھ رہتی تھی۔ راجہ نے سوچا کہ اگر اتنی سردی میں کوّے کو کھانا نہیں مل رہا تو چڑیا کا کیا حال ہو گا۔اُس نے بہت سارا دانہ لیا اور درخت کےنیچے رکھ آیا۔ چڑیا کے بچوں نے نیچے جھانکا اور خوشی سے بولے۔
’’ آپ بہت پیارے ہیں۔‘‘
ایک دن موسم بہت اچھا تھا اور دھوپ بھی نکلی ہوئی تھی ۔سردیاں ختم ہونے والی تھیں اور برف پگھل رہی تھی۔ اس دن کسان کچھ جلدی میں تھا۔ وہ پانی کے مٹکے بھرنا بھول گیا۔ راجہ کو شدید پیاس لگی۔ وہ گھر کے پاس والی جھیل سے پانی پینے چلا گیا۔ جیسے ہی وہ پانی پینے کے لیے جھکا، اُس نے پانی میں اپنا عکس دیکھا اور حیران رہ گیا۔ اُس کی جلد پر بہت سے رنگ برنگے بال اُگ آئے تھے۔ سرخ، سبز، پیلے اورنیلے۔ وہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔واپس آکر اس نے کسان سے پوچھا، ’’آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ میرے بال آگئے ہیں۔‘‘
’’ میں چاہتا تھا کہ تم کچھ اور نیکیاں کما لو ۔ ‘‘ کسان مسکرایا۔
’’میرے بچے، یاد رکھو! کسی کا مشکل میں ساتھ دینا، اُس سے ہمدردی کے دو بول کہنا ، ایسی نیکی ہے جو ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔‘‘
میں یہ سب ہمیشہ یاد رکھوں گا اور اب اپنے گھر واپس جاؤں گا۔میں کسی کی دل آزاری نہیں کروں گا۔‘‘ راجہ پَر پھیلا کر بولا۔
راجہ کے پَر پھیلا کر عزم کرنے کا منظر کسان کو بہت اچھا لگا۔ اس نے ہنسی خوشی راجہ کواس کے گھر جانے کی اجازت دے دی۔ جب راجہ نےاسے خدا حافظ کہا تو اس کی آنکھوں میں امڈآنے والے آنسواس کی محبت کا اظہار کررہے تھے۔
تبصرے