شہر کے قریب ایک قصبہ تھا جہاں سکون اور خوبصورتی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ نوجوان دوست حسان، سعد ،زین ، سلیمان، عبد اللہ اورعلی بھی اسی قصبے میں رہتے تھے۔ سبھی ذہین ، خوش اخلاق اور خوب محنتی تھے ۔ کتابوں اور فطرت سے محبت بھی مشترکہ تھی ۔ ہمیشہ اپنے علاقے اور ملک کی خدمت کے لیے کچھ نہ کچھ نیا سوچتے رہتے تھے۔ خاص طور پر وہ ہر سال یوم ِ آزادی کے موقع پر پودے لگاتے۔ اس طرح انہوں نے سیکڑوں پودے لگا کر انھیں پروان چڑھایا تھا جس کی وجہ سے اب ان کے علاقے کا موسم نہ صرف خوش گوار ہو گیا تھا بلکہ اس کی خوبصوررتی کو چار چاند لگ گئے تھے۔ اب تو اسی خوبصورتی کو دیکھنے کئی سیاح آنےلگےتھے۔اچھی دوستی اور اچھے کاموں کی وجہ سے انہیں سارے گائوں میں پسند کیا جاتا تھا۔
ایک دن جب وہ سب میدان میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے، زین بولا،’’ کیا تمہیں معلوم ہے کہ اگلے مہینے یوم آزادی ہے اور اس سے دودن پہلے 12 اگست کو نوجوانوں کا عالمی دن بھی آ رہا ہے؟ یہ ایک زبردست موقع ہے کہ ہم کچھ خاص کرتے ہیں اور ان دنوں کو ایک ساتھ خوبصورت طریقے سے مناتے ہیں۔‘‘
’’ہاں، یہ تو زبردست بات ہے۔‘‘ سلیمان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
سعد بولا:’’ ہمیں واقعی کچھ ایسا کرنا چاہیے جو لوگوں کے دلوں کو چھو جائے اوریہ سب یاد گار بن جائے۔ ‘‘
علی نے کچھ دیر سوچا اور پھر کہا :’’کیوں نہ ہم ایک بڑی تقریب کا انعقاد کریں جس میں گاؤں کے تمام نوجوان شامل ہوں؟ ہم انہیں تعلیم، فنون اور قومی جذبے کے بارے میں آگاہ کریں گے۔‘‘
’’ یہ تو بہت اچھا خیال ہے!ہم ثقافتی کلچرل شو تیار کریںگے اور ایک تعلیمی سیمینار کا انتظام بھی ۔‘‘ عبد اللہ نے خوش ہو کر کہا۔
’’ ہمیں علاقے کے بزرگوں سے بھی مدد لینی چاہیے تاکہ یہ تقریب واقعی کامیاب اور شانداررہے۔‘‘حسان کو بھی آئیڈیا پسند آیا تھا۔
سبھی دوستوںنے دن رات محنت کر کے تقریب کی تیاری شروع کر دیں۔قصبے کے لوگ ان کا جوش و جذبہ دیکھ کر خوش ہونے لگے ۔ قصبے کے ہر فرد کو اس تقریب کا بے چینی سے انتظار تھا ۔
یوم آزادی کی پُر نور صبح، گاؤں کا میدان خوبصورت جھنڈیوں سے سجایا گیا۔ گاؤں کے سب لوگ جمع ہوئے اور تقریب کا آغاز قومی ترانے سے ہوا جسے گاؤں کے بچوں نے خوبصورت انداز میں گایا۔ لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں تھیں اور سب بہت خوش تھے۔
تقریب کی ابتدا علی کی تقریر سے ہوئی۔ علی نے نوجوانوں کو علم کی اہمیت اور ملک کی خدمت کا درس دیا۔ اس نے کہا:’’آج کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم آزاد ہیں اور یہ آزادی ہمارے بزرگوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ ہمیں اپنے ملک کی ترقی کے لیے علم حاصل کرنا اور محنت کرنی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے اتحاد کی قوت سے ہمیں ایک آزاد وطن دیا ہے ۔ ہم سب کو بھی مل جل کر دن رات کام کرنا ہوگا۔ اسے اسلام کا مضبوط قلعہ بنانا ہوگا ۔ یہ وقت باتیں کرنے کا نہیں بلکہ عمل کا ہے۔ ہمیں اپنی صلاحیتوں اور ہمت کے مطابق ملک کو ترقی یافتہ اور قوم کو با شعور بناناہو گا ۔ ‘‘
اس کے بعد ایک ڈرامہ پیش کیا گیا جس میں ملک کی تاریخ اور ثقافت کو خوبصورتی سے دکھایا گیا تھا۔ تاریخ کی جھلکیاں بھی پیش کی گئی تھیں کہ کیسے ہمارے بزرگوںنے قربانیاں دے کر ہمیں آزاد وطن دیا اور اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس آزادی کی حفاظت کریں اور اس کو ترقی کی راہ پر لے جائیں۔ لوگوں نے دل کھول کر تالیاں بجائیں اور نوجوانوں کی کوشش کو سراہا۔ اس کے بعد ملک کے مختلف حصوں کی ثقافتیں پیش کی گئیں جس میں لباس اورمختلف علاقائی رنگ نمایاں تھے۔لوگوں نے پہلی بار اپنے ملک کی مختلف ثقافتوں کو اس خوبصورتی سے ایک جگہ دیکھا اورخوب داد دی۔
تقریب میں کچھ اور نوجوانوں نے بھی مختلف پروگرام پیش کیے۔ کسی نے ملی نغمہ پیش کیا تو کسی نے شاعری کے رنگ بکھیرے اور کسی نے اپنی تقریر سے حاضرین کے دلوں کو گرمایا ۔ ہر پروگرام میں ایک ہی پیغام تھا:جذبہ حب الوطنی، تعلیم کی اہمیت، اور دورِ حاضر میں نوجوانوں کا کردار۔
تقریب کی سب سے خوبصورت بات یہ تھی کہ اس میں کچھ غیر ملکی سیاحوں نے بھی شرکت کی اور سارے پروگرام کو بے حد پسند کیا ۔ تقریب کے اختتام پرسب نے مل کر عہد کیا کہ وہ ہمیشہ اپنے ملک کی خدمت کریں گے اور نوجوانوں کو تعلیم اور آزادی کی اہمیت سے آگاہ کرتے رہیںگے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تقریب صرف ایک آغاز ہے اور وہ ہر سال اس دن کو اسی جوش وجذبے سے منائیں گے۔
گاؤں کے بزرگوں نے بھی نوجوانوں کی محنت اور جذبے کو سراہا اور انہیں دعائیں دیں،’’تم لوگ ہمارے ملک کا مستقبل ہو۔ تمہاری محنت اور جذبہ دیکھ کر ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ ہمارا ملک ایک روشن مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے۔‘‘
اس دن کے بعد تقریب میں شامل سبھی نوجوانوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوا۔ انہوں نے عزم کیا کہ وہ اپنی محنت اور علم سے ملک کا نام روشن کریں گے۔ انہوں نے ایک کمیٹی بنائی جس میں تعلیم، صحت اور دیگر اہم مسائل پر کام کیا جانے لگا۔ نوجوانوں نے گاؤں کے بچوں کو پڑھانا شروع کیا اور انہیں مختلف فنون سکھائے جا نے کا بندبست کیا ۔ان پا نچ نو جوانوں کی قیادت میں گاؤں میں بہت سی تبدیلیاں آئیں۔ گاؤں کے لوگ تعلیم کی اہمیت کو سمجھنے لگے اور اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے لگے۔ صحت کے مسائل پر بھی کام کیا گیا اور لوگوں کو صحت مند زندگی گزارنے کے طریقے بتائے گئے۔
یوم آزادی اور نوجوانوں کا عالمی دن گاؤں میں ایک نئے سویرے کی طرح آیا تھا جس نے سب کو نئی امید اور حوصلہ دیا۔ لوگوں نے محسوس کیا کہ اگر وہ سب مل کر محنت کریں تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ ان نو جوانوں کی محنت اور جذبے نے گاؤں کے لوگوں کو ایک نئی راہ دکھائی تھی۔ انہوں نے عزم کیا کہ وہ ہمیشہ اپنے ملک کی خدمت کریں گے اور اس کے ہر ذرے کو آفتاب بنائیں گے۔
اس چمن کے پھولوں پر رنگ و آب تم سے ہے
اس زمیں کا ہر ذرہ آفتاب تم سے ہے
یہ فضا تمہاری ہے، بحر و بر تمہارے ہیں
کہکشاں کے یہ اجالے، رہ گزر تمہارے ہیں
تبصرے