حوالدار شفیق اﷲ شہید کے بار ے میں رابعہ رحمن کی تحریر
دہشت گردی فارسی کا لفظ ہے جس کے معنی خوف وہراس پھیلانے کے ہیں۔ اسلام میں قتل کرنا قطعی حرام ہے، تمام انسانیت کے لیے اسلام رحمت کا مذہب ہے، اسلام ہرطرح کے ظلم وجبر کو سختی سے منع فرماتاہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ دہشت گردی کی عالمی جنگ میں سب سے زیادہ نقصان صرف اور صرف پاکستان کو اٹھانا پڑرہاہے۔
دہشت گردی کا بیج کس نے بویا ؟وہ کون ہے جس نے اس کو پودا بنانے میں پانی اورکھاد دینے کا کام کیا؟ اور اپنے ساتھ بہت سے ہمنوا بھی بنالیے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہر مسئلے کا حل گولہ باردو نہیں ہوتا جو دہشت گرد استعمال کرتاہے ، مختلف علاقوںمیں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر نے جہاں علاقے میں خوف وہراس پھیلایاہے وہاں پہ ہماری افواج پاکستان نے اپنی بہادری کے جھنڈے بھی گاڑے ہیں۔
اسی طرح مئی2024ء کو سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر پشاور کے علاقے حسن خیل میں آپریشن کیا۔ سکیورٹی فورسز کے دلیرانہ حملے اور مؤثرکارروائی سے پانچ دہشت گرد ہلاک کردیئے گئے جبکہ تین زخمی ہوئے۔ پاکستان کی افواج اپنے وطن کی محبت پہ قربان ہونے کو اپنا فخر سمجھتی ہیں۔وہ کیسے بھی مشکل حالات ہوں قدم پیچھے نہیں لیتیں۔ ان کو کوئی یہ بھی کہے کہ آگے خطرہ ہے تو نعرہ تکبیر بلندکرکے، حوالدار شفیق اللہ شہید جیسے سپاہی کہتے ہیں، میں تو ایک ہوں میری شہادت سے اور میری قربانی سے میرے وطن کی کروڑوں مائوں کے بیٹے محفوظ رہیں گے، کروڑوں بچوں کومیں یتیم ہونے سے بچالوںگا۔ کیا ہوا اگر میرے بچے یتیم ہوجائیںگے۔ ایسے میں حوالدار شفیق اللہ اپنی جان کا نذرانہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ پیش کردیتے ہیں۔ افواج پاکستان ملک کی ہر سرحد پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کررہی ہیں، سرحدوں پر امن اور شہریوں کی حفاظت کو وہ اپنے ایمان کا حصہ سمجھتی ہیں۔
حوالدار شفیق اللہ شہید کا تعلق ضلع کرک سے تھا. ان کی عمر36سال تھی۔ انہوں نے پاک فوج میں18سال تک دفاع وطن کیلئے خدمات انجام دیں۔ شہید کی نماز جنازہ پشاور گیریژن میں ادا کی گئی جس میں کورکمانڈر پشاور، پاک فوج کے افسران، سول حکام اور دیگر اہل علاقہ نے شرکت کی۔ نمازجنازہ کے بعدجسدخاکی شفیق اللہ شہید کے آبائی علاقے کی طرف روانہ کردیاگیا جہاں پورے اعزاز کے ساتھ انہیں سپردخاک کیاگیا۔
حوالدار شفیق اللہ کے گائوںمیں شہادت کے اعزاز پر ہر شخص فخر محسوس کررہاتھا، حوالدار شفیق اللہ شہید کے بھائی امجد سے بات چیت ہوئی، انہوں نے بتایا کہ شفیق اللہ شہید پورے علاقے کے لوگوں سے محبت کرتے تھے، سب بہن بھائیوں اورماں باپ کی ان میں جان تھی، بہت ہنس مکھ تھے، سکول کی تعلیم کے دوران ہی کرکٹ اور والی بال کے بہترین کھلاڑی بن چکے تھے۔ انہیں فوج میں جانے کا بہت شوق تھا، ہمارے ایک رشتہ دار بھی فوج میں تھے، انہوں نے شفیق اللہ کا شوق دیکھتے انہیں اسے فوج میں جانے کے لیے رہنمائی کی۔2004ء میں وہ فوج میں بھرتی ہوگئے۔ شفیق اللہ شہید کی طبیعت بہت مزاحیہ تھی، وہ بولتے ہوئے اچانک ایسی مزاحیہ بات کرتے کہ ہم ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجایا کرتے تھے۔ رِیت روایت کی بہت پاسداری کرتے تھے۔ اپنی زندگی کی کبھی کوئی مشکل یا تکلیف کسی سے بھی بیان نہیں کرتے تھے ہمیشہ کہتے'' اللہ کا شکرہے''۔
ان کی ٹریننگ ہوئی، پاس آئوٹ ہوئے اور اپنے شوق سے SSGمیں چلے گئے۔ پھر فوج کی طرف سے سری لنکا اورکینیا بھی گئے، کورسز میںہمیشہ اچھے درجے میں پاس ہوتے، سری لنکا میں جب وہ اپنے کورس میں اول آئے تو بریگیڈئرصاحب کی طرف سے انہیں پچاس ہزار اروپے نعام اور چالیس دن کی چھٹی ملی۔ چھٹی پہ وہ جب آتے سب گھر والوں کے ساتھ وقت گزاتے ، انہیں دوستوں کے ساتھ زیادہ باہر رہنے کا شوق نہ تھا۔ وہ ماں باپ اور بہن بھائیوں کے علاوہ بیوی بچوں کو بہت وقت دیتے، مگر چھٹی سے واپسی پرکبھی اداس نہیں ہوتے تھے۔ اپنی شہادت سے پہلے شفیق اللہ شہید نے اپنے والدین کو عمرے پر بھی بھیجا تھا اور اب وہ اپنے والدین کو حج پر بھیجنے کا ارادہ کرچکے تھے مگر یہ خواب اس کی چمکتی آنکھیں پورا ہوتانہ دیکھ سکیں اور والدین کی محبت کی روشنی اپنی آنکھوں میں سمائے ابدی نیند سوگئے۔ والدہ شفیق اللہ شہید سے بہت پیارکرتی ہیں، اس لیے کہ وہ ایک فوجی تھا۔ وہ اپنے بیٹے کی وردی میں تصویرکو اکثر چوماکرتی تھیں۔یقیناً ان کے دل میں آتاہوگا کہ وردی میں زندگی تو وطن کی امانت ہوتی ہے، نجانے کب یہ امانت وطن کی مٹی واپس لے لے۔ وہ ماں کے ہاتھ کا کابلی پلائو بہت شوق سے کھایاکرتے ، شہید کو لسی بہت پسند تھی وہ دیگر مشروبات کی جگہ ہمیشہ لسی پینے کی خواہش کرتے۔
شفیق اللہ کے بھائی امجد سے بات کرتے ہوئے ایک اور اہم خبر یہ سامنے آئی کہ شفیق اللہ کے ایک اور بھائی سپاہی خالد عثمان شہید جو پہلےFFمیں تھے پھر وہSSG کمانڈوبن گئے ، ان کی شہادت ایک معرکے میں2018ء میں ہوئی، ایک گھرانے کے دو لعل اس مٹی پہ وردی سجائے سینے پہ گولیاں کھاتے جان کا نذرانہ دے چکے تھے ۔ والد کا کہنا کہ مجھے میرے بیٹے شفیق اللہ نے فخر دیاہے، بے شک دل درد سے بھرجاتاہے مگرجب خیال آتاہے کہ موت تو آنی ہے توکیوں نہ اللہ کا شہیدبن کے اس کے دربار میں قیامت تک رزق کا حصہ لیتا رہوں اور اپنے پیارے نبیۖ کے حضور سرخرو ہوکر پیش ہوجائوں۔
شہادت سے پہلے شفیق اللہ پندرہ دن کی چھٹی پہ آئے ہوئے تھے مگر دس دن کے بعد واپسی کی کال آگئی، شفیق اللہ شہید نے یقیناً سوچا ہوگاکہ جو کام ادھورے رہ گئے ہیں وہ واپس آکے کرلوںگا۔ آخر بہت کچھ زندگی میں ادھورا بھی تو رہ جاتاہے، اور پھر واقعی شفیق اللہ کے سارے کام ادھورے رہ گئے اور اس لیے کہ انہوں نے ایک عظیم کام مکمل کرنا تھا۔ ایک دن پہلے سب سے فون پہ بات کی۔ وہ زندگی میں پریشان نہیں ہواکرتے تھے۔ ان کا کہنا تھاکہ جو بھی مشکل آئے اس سے گزرنا پڑتاہے توکیوں نہ مسکراکراور ہمت سے گزرا جائے۔
شفیق اللہ کے والدین اب زیادہ تر اللہ کے ذکر میں وقت گزارتے ہیں۔ ان کے ہونٹوں سے کبھی ناشکری کا کوئی لفظ مایوسی کاکوئی حرف نہیں نکلتا ،آتے جاتے راستے میں جب کوئی پوچھتا ہے کیسے ہیں توکہتے ہیں'' اللہ کا شکرہے بہت مزے میں ہیں''۔ان باتوں سے علاقے کے لوگوں کا جذبہ بھی بڑھ جاتاہے۔شفیق اللہ نے دہشت گردوںکی موجودگی کی اطلاع پر سکیورٹی فورسز کے دیگر ساتھیوںکے ساتھ پشاور کے علاقے حسن خیل میں آپریشن کیا اورمؤثرانداز میں شرپسندوں کو ٹھکانے لگایا، مگرفائرنگ کے تبادلے میں بہادری سے لڑتے ہوئے شفیق اللہ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے آپریشن جاری رہا، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری قربانیاں ہمارے عزم کومزید تقویت دیتی ہیں۔
شفیق اللہ شہید کے بچے ابھی معصومیت کے دور سے گزر رہے ہیں کہ شاید شہادت کے معنی نہ سمجھ سکتے ہوں مگر ان کے دادا ابوکاکہناہے کہ شفیق اللہ شہید کا بیٹا بڑا ہوکر اپنے والدشفیق اللہ شہید کی وردی پہنے گا۔
اپنے پاک وطن کی حفاظت کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے پاک فوج کے شیردل مجاہدو، تمہارا کوئی ثانی نہیں۔ بے شک پاکستان کی بقاء تمہارے وجود سے ہے۔
مضمون نگار ایک قومی اخبار میں کالم لکھتی ہیں اور متعدد کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔
[email protected]
تبصرے