لانس نائیک صغیر احمد شہید کے بارے میں نسیم الحق زاہدی کا مضمون
تمام ممالک کی افواج اپنے وطن کے دفاع اور امن کو برقراررکھنے کے لیے لڑتی ہیں لیکن اس جذبے میں پاک افواج ،اس کے سپاہی اور افسر دنیا میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔ان کو اپنی دھرتی سے اس قدر عشق ہوتا ہے کہ یہ اپنی جان کی پرواکیے بغیر اپنے سے کئی گناہ بڑے دشمن سے ٹکراجاتے ہیں۔لانس نائیک صغیر احمد بھی دھرتی کا وہ بیٹا ہے جو اپنے وطن سے محبت کا حق ادا کرتے ہوئے شہادت کاجام پی کر ہمیشہ کے لیے خود کو امر کرگیا۔لانس نائیک صغیر احمد 5جنوری 1990ء کو بستی اولک سندھو تحصیل کبیر والا ضلع خانیوال کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کھیتی باڑی کرتے ہیں، صغیر احمد چار بھائیوں اور دوبہنوں میں چوتھے نمبر پر تھے۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ مڈل سکول بستی اولک سندھو سے حاصل کی اور پھر گورنمنٹ ہائی سکول سرائے سندھو سے امتیازی نمبروں میں میٹرک کاامتحان پاس کیا ۔
شہید کے بھائی الطاف سندھو بتاتے ہیں کہ ان کو بچپن سے ہی فوج میں جانے کا جنون کی حد تک شوق تھا ، میٹرک کرنے کے فوراً بعد آرمی بھرتی سنٹر ملتان میں ٹیسٹ دیا جس میں وہ پاس ہوگئے ۔جس دن ان کو آرمی میں سلیکشن کا لیٹرموصول ہوا تھا ،اس دن ان کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔ ا نہوں نے سب سے پہلے شکرانے کے نوافل ادا کیے اور پھر پورے گائوں میں لڈو بانٹے ،خوشی سے ان کے پائوں زمین پر نہیں لگ رہے تھے۔ والدہ اور پورے خاندان نے دعائوں کے ساتھ صغیر احمدکو آرمی ٹریننگ سنٹر مانسہرہ کے لیے روانہ کیا۔ ٹریننگ کے بعد 15اپریل 2007ء کو ان کی بطور سپاہی پہلی پوسٹنگ ایبٹ آباد میں ہوئی۔اپنی محنت اور لگن سے قلیل عرصے میں لانس نائیک کے عہدے پر ترقی پاگئے۔شہید کے بھائی بتاتے ہیں کہ شہید بہت ہی ہنس مکھ اور محبت کرنے والا انسان تھا اور کرکٹ کا بڑا شوقین تھا۔ وہ چھٹی پر جب گھر آتا تو سارا سارا دن کرکٹ کھیلتا ۔پانچ وقت کا پکا نمازی اور ایک سچا انسان تھا ۔اسے وطن سے بڑا عشق تھا ،وطن سے محبت اور شہادت کے فضائل پر اسے بہت سی قرآنی آیات اور احادیث زبانی یاد تھیں ۔وہ حلقہ یاراں میں بریشم کی طرح نرم اور دشمن کے لیے فولاد تھا ۔اسے کھانے میں چکن کڑاہی اور والدہ کے ہاتھ کے پراٹھے بہت پسندتھے ۔ شہید کے بھائی بتاتے ہیں کہ صغیر احمد اکثر کہا کرتا تھا کہ میں ''ہمیشہ زندہ رہنا چاہتا ہوں اور ہمیشہ زندہ توصرف شہید ہی ہوتا ہے''وہ والدہ سے کہتا تھا کہ اس کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اسے شہادت کا مرتبہ نصیب فرمائے۔
2014میں لانس نائیک صغیر احمد کی شادی ہوئی۔یہ خاندان میں واحد شادی تھی کہ جس پر سب سے زیادہ خوشیاں منائی گئیں ۔ان کے ہاں پہلی پیدائش بیٹی کی ہوئی جس پر وہ اتنا خوش تھے کہ جس کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔انہوں نے بیٹی کا نام زاہرہ رکھا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بھائی کو دو بیٹوں حسنین اور احمد سے نوازا ۔ان کو اپنے سبھی بچوں سے بے حد پیار تھا مگر زاہرہ اپنے بابا کے بہت قریب تھی، باپ بیٹی کی محبت ایک فطری عمل ہے ۔بھائی کی خواہش تھی کہ ان کے سبھی بچے پاک فوج میں جائیں ،اپنے بابا کی اس خواہش کی تکمیل کے لیے زاہرہ بھی بچپن سے ''فوجی ڈاکٹر''بننے کاخواب دیکھ رہی ہے ۔ لانس نائیک صغیر احمد کی آخری پوسٹنگ کھاریاں میںتھی۔الطاف سدھو بتاتے ہیں کہ بھائی دو دن کی چھٹی پر گھر آئے تھے اور 10دسمبرکو واپس روانہ ہونے سے پہلے شہید نے سارے بہن بھائیوں کو اکٹھا کیااور ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا اور کہنے لگے کہ ممکن ہے کہ میری آپ سے یہ آخری ملاقات ہوکیونکہ اب کسی بھی وقت میری شہادت کی دعا پوری ہونے والی ہے کیونکہ مجھے خواب میں والدہ نے یہ بشارت سنا دی ہے، لہٰذا میری شہادت پر کسی نے رونا نہیں اورایک دوسرے کو حوصلہ دینا ہے اور بالخصوص دونوں بہنوں اور میری بیوی اوربچوں کا خیال رکھنا ہے اور والد صاحب سے مخاطب ہوکر بولا کہ آپ نے میری شہادت پر سجدۂ شکر ادا کرنا ہے اور میرا استقبال پھولوں کی پتیوں سے اور مسکراتے چہروں کے ساتھ کرنا ہے۔ اُن کے جانے کے بعد والد صاحب نے کہا کہ اللہ مجھے اس خبر کو سننے کی ہمت دے کیونکہ اس مرتبہ میں نے اپنے صغیر کی آنکھوں میں عجیب چمک دیکھی ہے۔
شہید صغیر احمد کی یونٹ ڈیرہ اسماعیل خان میں تعینات تھی ۔ڈیرہ اسماعیل خان کے نواحی علاقے میں دہشت گردوں کی نقل وحرکات دیکھنے میں آئیں تو 12دسمبر 2023ء کی رات علاقے کو دہشت گردوںسے پاک کرنے کے لیے کلین اپ آپریشن کیا گیا، اس مشکل آپریشن کے لیے لانس نائیک صغیراحمد نے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا۔ پاک فوج کے جوانوں نے دہشت گردوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اورانہیں گھیرے میں لے لیا۔ دونوں جانب سے شدید فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا، سبھی جوانوں نے انتہائی بہادر ی کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا۔صغیر احمد دشمن کی فائرنگ سے جامِ شہادت نوش کرگئے۔
شہید کا جسدخاکی سبز ہلالی پرچم میں لپیٹے رات گئے گائوں لایا گیا ،جہاں گائوں والوں نے منوں پھولوں کی پتیاں نچھاور کرکے شہید کاوالہانہ استقبال کیا۔ 13دسمبر 2023کو اس مقدس دھرتی کے ایک اور فرزند کو سیکڑوں سوگواران کی موجودگی میںاُن کے آبائی قبرستان بستی اولک سندھو میں سپرد خاک کردیا گیا۔ شہید کے جنازے میں پاک فوج کے اعلیٰ افسران ،پنجاب پولیس کے افسران سمیت سیاسی وسماجی شخصیات کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔
شہیدکی تدفین پورے فوجی اعزاز کے ساتھ کی گئی ،گارڈ آف آنرپیش کیا گیا اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔شہید کے والد کہتے ہیں کہ ''مجھے اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر ہے۔میرے بیٹے نے شہید ہوکر میرا سینہ فخر سے چوڑا کردیا ،میں اللہ کا بہت شکر ادا کرتا ہوں کہ میرے بیٹے نے ملک کا نام روشن کیا ہے ۔بے شک بوڑھے کندھوں پر جوان بیٹے کی لاش اٹھا نابڑا مشکل ہوتا ہے۔''شہید کی بیوہ کہتی ہیں کہ ''مجھے اپنے شوہر کی شہادت پر فخر ہے،میں اپنے بچوں کی اچھی تربیت کر کے ان کو والد کے نقش قدم پر چلائوں گی۔میرا بیٹا پڑھ لکھ کر اپنے والد کی طرح ملک کا نام روشن کرے گا۔''شہید کی بیٹی زاہرہ کہتی ہے کہ مجھے اپنے بابا بہت یاد آتے ہیں جب عید پر سب کے بابا گھر آتے ہیں اور میرے بابا نہیں آتے تو اس وقت۔۔۔۔اس سے آگے وہ رونے لگتی ہے ۔کہتی ہے کہ میں فوجی ڈاکٹر بن کر اپنے بابا کا خواب پورا کرونگی۔اللہ تعالیٰ ہمارے جوانوں کی شہادتوں کو قبول فرمائے، اور اس ملک کو دہشت گردوں سے پاک فرمائے ۔آمین
مضمون نگار مختلف قومی اخبارات اور رسائل میں لکھتے ہیں اور متعدد کتب کے مصنف ہیں۔
[email protected]
تبصرے