پاکستان کے ریاستی بحران کو سمجھنے کے لیے ہمیں ایک اہم نقطہ معاشی ترقی، خوشحالی اور خود مختاری کو سمجھنا ہوگا ۔ ایسی معاشی ترقی جو ہمیں نہ صرف معاشی طور پر مستحکم کرسکے بلکہ داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر ہمارے ریاستی نظام کی مضبوطی اور اس سے جڑے عام افراد کی ترقی کے عمل کو یقینی بناسکے ۔آج کی گلوبل دنیا میں ریاستی نظام کی ساکھ اور آزدانہ فیصلوں کی اصل طاقت بھی معاشی ترقی سے جڑی ہوئی ہے اور یہ ہی ترقی آپ کو ایک آزادانہ داخلی و خارجی پالیسیوں کی طرف لے جاتی ہے ۔اسی طرح سیاست اور جمہوری ترقی کی بنیاد بھی ایک مضبوط معاشی نظام سے جوڑ کر دیکھی جاتی ہے ۔ایک نقطہ جس پر ہمارے یہاں بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے کہ ہمیں معاشی ترقی کو بنیاد بنا کر قومی سطح کی ترقی کے عمل کو آگے بڑھانا چاہیے ۔ یہ منطق درست ہے لیکن معاشی ترقی کا عمل کبھی بھی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوتا بلکہ معاشی ترقی عملی طور پر ایک مجموعی سیاسی ،جمہوری ، قانونی ، انتظامی ، ادارہ جاتی عمل سے جڑی ہوتی ہے ۔ یہ سب عوامل کو جوڑ کرہی مضبوط معیشت کے سفر کو یقینی بنایا جاتا ہے او راسی بنیاد پر ریاستی نظام کی ساکھ بھی قائم ہوتی ہے اور لوگ بھی اعتماد کرتے ہیں ۔
پاکستان میں کئی برسوں سے '' میثاق معیشت '' پر زور دیا جاتا ہے ۔ اس کی بنیاد یہ ہے کہ سیاسی اور غیر سیاسی سطح پر معاشی ترقی کے معاملات کی سطح پر ایک مکمل اتفاق رائے اور مل جل کر کام کرنے کا عزم شامل ہو۔ گلوبل دنیا کا تقاضہ ہے کہ ہمیں نہ صرف خود کو داخلی سطح پر مستحکم کرنا ہے بلکہ علاقائی او ر عالمی ترقی کے عمل سے خود کو جوڑ نا ہوگااور بالخصوص علاقائی ترقی بشمول بھارت سے جڑے معاملات کو حل کرکے معاشی امور پر توجہ دینا ہوگی۔ ہماری قومی سطح پر موجود '' نیشنل سکیورٹی پالیسی '' بھی اسی نقطہ کی طرف توجہ دلاتی ہے کہ ہمیں خود کو جیو معیشت اور جیو اسٹرٹیجک سے جوڑ کر معاشی روڈ میپ پر توجہ دینا ہوگی او راپنے داخلی نظام کو علاقائی اور عالمی ضرورتوں کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔
پاکستان نے معاشی ترقی کے عمل کو یقینی بنانے اور ریاستی سطح پر جو بھی داخلی معاشی معاملات پر توجہ دینے کے لیے سیاسی اور عسکری سطح پر ایک بڑے اتفاق رائے کی بنیاد پر"Special Investment Facilitation Council" (SIFC) کو قائم کیا ہے ۔ اس پر ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کا اتفاق ہے کہ ہمیں اس کو بنیاد بنا کر معاشی امور سے جڑے چیلنجز سے نمٹنا ہوگا ۔ اس کونسل میں ہمیں سیاسی و عسکری قیادت کا مل بیٹھنا او رمشترکہ معاشی حکمت عملی کو اختیار کرنے کا نظام مربوط نظر آتا ہے ۔ اس کے قیام کا ایک بنیادی پس منظر یہ ہی ہے کہ ہمار ے ہاں موجود مسلسل غیر سیاسی استحکام کی وجہ سے معاشی استحکام کا عمل بھی کمزور ہورہا تھا ۔اس کونسل کے مقاصد میں ون ونڈو طرز کے آپریشن یا ادارے کے قیام کو یقینی بنانا تاکہ کاروباری یا سرمایہ کاری کرنے والے افراد کو مختلف نوعیت کی مشکلات سے دور رکھاجائے ،پاکستان میں موجود معاشی ٹیلنٹ اور مواقعوں کو ابھارنا اور سامنے لانا یا ان کی نشاندہی کرنا ، کاروباری معاملات کو آسان بنانا ، برابری کی بنیاد پر ہمیں معاشی کامیابیوں کو سامنے لانا او رمعاشی گروتھ میںاضافہ،سازگار کاروباری ماحول کو یقینی بنانا ، داخلی و خارجی محاذوں سے سرمایہ کاری کو یقینی بنا کر معیشت کو ترقی کے عمل سے جوڑنا ، معاشی ترقی کے عمل میں سکیورٹی سے جڑے معاملا ت کو حل کرنا ،مائیکرو او رمیکرو معیشت کے مسائل پر توجہ دینا اور بالخصوص مضبوط معیشت کی بحالی او رپاکستان کی ساکھ کو ایک ایسا امیج دینا کہ لوگ یہاں ڈر اور خوف کے بغیر سرمایہ کاری کرنے کو ترجیح دیں ۔اس کونسل کی ضرورت اس لیے بھی محسوس کی گئی کہ سیاسی معاملات میں بگاڑ اور عدم اعتماد کی وجہ سے ہمارے معاشی مفادات مکمل طور پر نظر انداز ہورہے تھے یا اس کا نتیجہ کمزور معاشی بدحالی کی صورت میں سامنے آرہا تھا ۔
اس وقت اس معاشی کونسل کی توجہ کا مرکز ملک کے معاشی حالات کی درستی ہے اور اس کے نتیجے میں داخلی و خارجی محاذ پر ایسے معاشی امکانات کو پیدا کرنا ہے جو ہمیں معاشی میدان میں آگے بڑھنے میں معاون ثابت ہوں ۔ اگرچہ کچھ لوگ اس کونسل کے قیام پر یہ منطق پیش کرتے ہیں کہ اس سے حکومتی نظام میں مداخلت ہوتی ہے یا وہ آزادانہ بنیادوں پر فیصلہ کرنے میں ناکامی سے دوچار ہے ، لیکن اس تنقید سے ہٹ کر اگر ہم مجموعی طور پر دیکھیں تو موجود ہ حالات کا تقاضہ تھا کہ ہمیں کوئی غیر معمولی اقدام ہی کرنا ہوگا اور اس اقدام کو اگر ہم اسی تناظر میں ہی دیکھیں تو بہت سے معاملات کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے ۔کیونکہ پاکستان کا بڑا ہو یا چھوٹا کاروباری طبقہ مسلسل حکومت اور عسکری قیادت کے سامنے اپنا یہ مقدمہ پیش کرتا رہا ہے کہ ہمیں ملک میں کاروبار کرنے کے لیے انتظامی یا ادارہ جاتی سطح پر شدید مشکلات کا سامنا ہے جس میں کرپشن جیسے مسائل یا معاملات میں تاخری حربے اختیار کرکے معاشی امور کو نقصان پہنچانا بھی ہے ۔ ایسے میں سب ہی فریقین ون ونڈو طرز کا نظام چاہتے تھے او ران کے بقول یہ تاثر بھی غلط ہے کہ ہم ٹیکس چوری کرتے ہیں یا ٹیکس ادا نہیں کرنا چاہتے۔
بہت سے کاروباری طبقات کاموقف ہے کہ اس کونسل کے قیام کے بعد سے ہمارے معاملات میں کافی بہتری آئی ہے اور اس عمل کو مزید طاقت دینا ہوگی ۔اسی طرح پاکستان سے باہر بیٹھے پاکستانی افراد جو یہاں پر کاروبار کرنا چاہتے ہیں یا بڑی سرمایہ کاری کی خواہش رکھتے ہیں یا دیگر ممالک او ران کے سرمایہ دار یہاں سرمایہ کاری کے خواہش مند ہوتے ہیں، ا ن کو بھی داخلی سطح پر کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہوتا تھا جن میں کرپشن اور بدنیتی یا فراڈ کی بنیاد پر ان کے سرمائے کا ڈوبنا بھی شامل ہوتا تھا ۔ ان معاملات پر بھی یہ کونسل خصوصی توجہ دے رہی ہے ۔ عالمی برادری بھی دیکھ رہی ہے کہ پاکستان میں معاشی امور سے جڑے معاملات پر نظر رکھنے کے لیے یہ ادارہ فعالیت کی بنیاد پر کام کررہا ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ حالیہ کچھ عرصہ میں بیشترممالک پاکستان میں مشترکہ سرمایہ کاری یا منصوبے چلانے میں دلچسپی لے رہے ہیں ۔اس معاشی کونسل کی ایک کوشش، بالخصوص عرب ممالک کی توجہ پاکستان پر دلانی ہے تاکہ وہ یہاں آکر بڑی سرمایہ کاری میں دلچسپی لیں ۔اسی سوچ کو بنیاد بنا کر اسی کونسل میں جو بھی متنازع امور ہیں، ان سے نمٹنے کو بھی اپنی ترجیحات کا حصہ بنایا گیا ہے تاکہ بیوروکریسی کی سطح پر کاروباری طبقات یا باہر سے آنے والی سرمایہ کاری میں جو بھی رکاوٹیں ہیںان کو فوری طور پر دور کرکے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کیا جائے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ ہمیں آگے بڑھنے کے لیے Out of Box جاکر کچھ نیا کرنا ہے یا ایسی کڑوی گولیاں کھانی ہیں جو ہمیں بھی ہر محاذ پر جوابدہ بنائیں گی۔ہمیں اپنے داخلی اور معاشی مسائل کا درست تجزیہ کرنا ہوگا یا اس کا ہمیں بہتر ادراک ہونا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کہاں جانا چاہتے ہیں ۔ جذباتیت کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی بجائے ہوش مندی یا جو بھی تلخ حقایق ہیں ان کو مدنظر رکھ کر ہی آگے بڑھنے کی حکمت عملی کو اختیار کرنا ہوگااور معاملات سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اورمربوط پالیسی ہی ہمیں معاشی ترقی کے عمل سے جوڑ سکتی ہے ۔
مضمون نگار سیاسی تجزیہ نگار و کالم نگار ہیں ، جمہوریت ، گورننس، مقامی حکومتیں اور دہشت گردی سمیت کئی اہم موضوعات پر دسترس رکھتے ہیں ۔ اسی طرح ملکی سطح پر کئی اہم تھنک ٹینک کے رکن بھی ہیں ۔
[email protected]
تبصرے