جس ملک کو وجود میں آتے ہی ایک ناقابل ِ بیان مکار دشمن کا سامنا کرنا پڑ جائے جو کبھی فوج کی تعداد میں دو گنا ہونے کی وجہ سے تو کبھی عسکری وسائل زیادہ ہونے کی بنیاد پر پاکستان کو کسی عفریت کی طرح نگل جانا چاہتا ہو، وہاں ایک ایسے ملک کی فوج کو اپنے وطن کی حفاظت کے لیے کس قدر عسکری دانائی اور جنگی حکمت عملی اختیار کرنا پڑتی ہوگی۔ ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ اس پر احساس اور خلوص کے ساتھ غور کریں ۔ ایسا ملک جو آبادی میں دشمن سے کم ، رقبے میں چھوٹا اور وسائل میں اس کے مقابلے میں آدھا بھی نہ ہو، دشمن کے سامنے 76 سالوں سے نہ صرف ڈٹ کر کھڑا ہے بلکہ اس کی ہر جارحیت کا ایسا جواب دیتا آیا ہے کہ اس بدمست ہاتھی کو دن میں تارے نظر آتے رہے ہیں ۔
یہ بھی یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ پاکستان کا دشمن صرف بھارت ہی نہیں بلکہ ہر وہ اسلام دشمن سامراجی قوت ہے جو اسلام اور مسلمانوں سے خوفزدہ ہے ۔ اب اسے خوش نصیبی کہیے یا تھریٹ کہ مسلمان ممالک میں پاکستان کو واحد ایٹمی طاقت اور اہم عسکری قوت ہونے کا اعزازحاصل ہے جس کی وجہ سے امن و سلامتی کے دشمن ہمہ وقت پاکستان سے خوف زدہ رہتے ہیں اور اسے عسکری و معاشی سطح پر کمزور دیکھنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کو لمحہ لمحہ نئے چیلنجز سے نمٹنا پڑتا ہے۔ گزشتہ 76 سالوں کا تجزیہ کرلیا جائے تو پاکستان اور افواج پاکستان پر نازل کی گئی مشکلات کی گنتی ممکن نہیں ۔ یقینا ان مشکلات سے پاکستان کو بچا کر نکال لے جانے پر قوم کے ہر فرد کو سانس سانس کے ساتھ رب تعالیٰ کا شکرگزار ہونا چاہیے اور اپنی افواج پر فخر سے سربلند رکھنا چاہیے ۔
آج تک دفاع پاکستان کے لیے پاکستانی فورسز کے جوانوں نے جس قدر قربانیاں دیں وہ ساری دنیا کے سامنے ہیں ۔ 1965 کی جنگ ، 71 کی جنگ، سیاچین اور کارگل کا دفاع ، کشمیر اور گلگت کا دفاع ، فرقہ واریت سے جنگ، دہشت گردی سے جنگ، سوات اور وزیرستان آپریشنز ، بھارت کی طرف سے بار بار پیش قدمی ، ایئر سٹرائکس ، افغانستان کی بے وفائی اور ایران کی غلط فہمی ۔ پاکستان ہر لمحے کتنے خطرات میں گھرا رہتا ہے اور عوام بیچاری کو تو کم ظرف دشمن کی طرف سے کیا جانے والا پروپیگنڈا ہی ہوش میں نہیں آنے دیتا ۔
وفاقی حکومت نے نئے مالی سال کے مالیاتی تخمینے میں دفاع کے لیے 2128 ارب 78 کروڑ دس لاکھ روپے مختص کیے ہیں۔ آئندہ مالی سال کے لیے دفاعی ایڈمنسٹریشن کی مد میں چھ ارب 78 کروڑ روپے اور دفاعی سروسز کے لیے 2122 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس رقم میں سے ملازمین کے متعلقہ اخراجات کا تخمینہ 81 ارب 51 کروڑ روپے لگایا گیا ہے جبکہ آپریٹنگ اخراجات کا تخمینہ 513.3 ارب روپے ہے اور فزیکل اثاثوں کے لیے 548.6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اسی طرح دفاعی شعبہ کے سول ورکس کی مد میں 244.8 ارب روپے مختص ہوئے ہیں۔
اس حوالے سے یہ بات سمجھنا بھی بہت اہم ہے کہ افواج پاکستان کے خلاف بجٹ کے 70 فیصد اور کبھی 80 فیصد ہونے کے جھوٹے پروپیگنڈے کو مسلسل لانچ کرنے والے بھی یہی پاکستان دشمن ہیں اور ہمیں چاہیے کہ جب بھی اور جہاں بھی کوئی ایسی بات کرے اس کی اصلاح کریں ۔
مختلف ذرائع کے مطابق سالانہ دِفاعی اخراجات کے حوالے سے بھارت دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے جس کا دِفاعی بجٹ پاکستان کی نسبت 7 گنا زیادہ ہے، اس کے علاوہ بھارت 5 سال کے دوران سالانہ 19ارب ڈالر خرچ کرکے دنیا کا دوسرا بڑا اسلحہ درآمد کرنے والا ملک بھی بن چکا ہے، یہ اخراجات پاکستان کے دفاعی بجٹ سے تین گنا زیادہ ہیں۔
بھارت کا ۲۵-۲۰۲۴ میں دفاعی بجٹ 75 بلین ڈالر ہے جبکہ پاکستان کادفاعی بجٹ 2122 ارب روپے ہے جو تقریباً 7.5 بلین ڈالر بنتا ہے۔
2022 میں پاکستان کا دفاعی بجٹ مجموعی قومی بجٹ کا 18فیصد تھا، جو 2023 میں کم ہوکر 16 فیصد سے بھی کم ہو گیا، جس میں سے 7 فیصد پاکستان آرمی جب کہ باقی نیوی اور ائر فورس کے حصے میں آتا ہے۔ افراط زر کے دفاعی بجٹ پر اثرات اس کے علاوہ ہیں۔ سال 2020 کے بعد سے پاک فوج کے بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔
سال ۱۸-۲۰۱۷ کا دفاعی بجٹ مجموعی قومی بجٹ کا 18فیصد تھا۔ ۱۹-۲۰۱۸ میں 19فیصد ،
2019-20میں دفاعی بجٹ 14 فیصد
2020-21کا دِفاعی بجٹ17.7فیصد
2021-22کا دفاعی بجٹ 18 فیصد اور
2022-23کا دفاعی بجٹ 16 فیصد رہا۔
سال 2018 کے بعد کولیشن سپورٹ فنڈ کی بندش کے باوجود دِفاعی اور سکیورٹی ضروریات کو ملکی وسائل سے پورا کیا گیا، متفرق آپریشنز کے اہداف اور دائرہ کار سمیت دیگر سکیورٹی امور میں کوئی کمی نہیں آنے دی گئی۔
بین الاقوامی عسکری تجزیے کے ادارے سپری کا کہنا ہے کہ 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق ان پانچ ممالک نے مجموعی طور پر دنیا کے 60 فیصد دفاعی اخراجات کیے۔ جس میں امریکہ پہلے نمبر پر، چین دوسرے نمبر ، سعودی عرب تیسرے اور بھارت چوتھے نمبر پر ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے مقابلے میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
• سپری کی جانب سے کی جانے والی عالمی درجہ بندی کے مطابق پاکستان گذشتہ ایک دہائی کے مقابلے میں دفاع پر اخراجات کی مد میں کم ترین سطح پر کھڑا ہے۔
• رپورٹ کے مطابق مالی سال ۲۴-۲۰۲۳ میں پاکستان نے دفاع پر 8.5 ارب ڈالرز خرچ کیے۔ جو 2014 سے 2023 دس سالوں کی اوسط کے مطابق منفی 13 فیصد بنتی ہے۔
• اگر پاکستان کی جی ڈی پی میں دفاعی بجٹ کے حصے کی بات کی جائے تو 2014 میں یہ 3.1فیصد تھی جو 2023 میں 1.7 فیصد رہ گئی ہے۔
• ۲۰۲۲ میں پاکستان دفاعی اخراجات کی عالمی درجہ بندی میں 24ویں نمبر پر تھا جو اب 30ویں نمبر پر موجود ہے۔
• سپری کی جاری کردہ دفاعی اخراجات کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان 30ویں نمبر پر موجود ہے (سپری رپورٹ)
سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کا دشمن نہ تو کمزور ہوا ہے اور نہ اس کی پاکستان کے بارے میں جارحانہ سوچ اور اقدامات میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے ۔ بلکہ پاکستان کے لیے اندرونی و بیرونی خطرات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے ۔ مگر دوسری طرف افواج پاکستان کے حصے میں آنے والے اتنے معمولی بجٹ کے حوالے سے بھی زہریلا پروپیگنڈا پھیلایا جاتا ہے، حالانکہ یہ ٹوٹل بجٹ کا 18 فیصد سے کبھی بھی زیادہ نہیں ہوا بلکہ گزشتہ برس اسے کم کرکے16 فیصد سے بھی کم کردیا گیا تھا۔ جبکہ مالی سال ۲۵-۲۰۲۴ میں دفاعی پیداوار کا ترقیاتی بجٹ 2 ارب روپے مختص کیا گیا ہے۔
کہاں 75 بلین ڈالرز اور کہاں 2122 ارب روپے جو تقریباً 7.5 بلین ڈالر بنتے ہیں۔ کہاں 15 لاکھ فوج اور کہاں اس سے آدھی سے بھی کم ۔ پاکستان کے دفاعی بجٹ کے مقابلے میں افواج پاکستان کے جنگی وسائل اور اس کی کارکردگی پر بھارت کی بیچارگی کا اندازہ لگانا بھی کچھ مشکل نہیں کہ افواج پاکستان نے ہمیشہ دنیا کی تیسری بڑی عسکری قوت کی ہر جارحیت کے جواب میں اسے تگنی کا ناچ نچا کے رکھا ہے ۔
پچھلے دوسال کے سیاسی و معاشی بحران کے دوران بھارت نے پاکستان کے اندر دہشت گردی کرانے سے لیکر افغانستان کی طرف سے محاذ کھولنے تک پاکستان کے دفاع کو آزمانے اور اسے کمزور کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر دیکھ لیا لیکن ہر قدم پر ہزیمت اٹھانے کے بعد بھارتی تجزیہ کار یہ تسلیم کرتے نظر آئے کہ پاکستان کا دفاعی نظام اتنا خود انحصار اور مضبوط ہو چکا ہے کہ ملک کو معاشی اور سیاسی جھٹکے دے کر اس پر غالب آنے کا خواب کسی نفسیاتی بیماری سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا ۔
دشمن کے لیے یہ بات بھی کسی صدمے سے کم نہیں کہ افواج پاکستان کی تربیت ، پروفیشنل ازم ، جنگی حکمت عملی اور سب سے بڑھ کر جذبہ شہادت جو ہمارے جوانوں کی رگوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، یہ تمام عناصر جب عظیم افواج ِ پاکستان کو ایک ناقابل ِ شکست اکائی میں بدلتی ہیں تو دشمن کی افرادی برتری ، اسلحے کی مقدار اور وسائل کی زیادتی دھری کی دھری رہ جاتی ہے ۔
دنیا بھر کے فوجی تجزیہ نگاروں کی نظر میں یہ امر بھی حیرت کا باعث ہے کہ محدود ترین وسائل میں رہتے ہوئے پاکستان نے جدید ترین فوجی ٹیکنالوجی کے حصول ، مینوفیکچرنگ اور درآمدی صلاحیت کو ممکن بنایا ہے ۔
افواج ِپاکستان نے بلاشبہ اہم دفاعی مصنوعات کی ان ہاؤس پروڈکشن کے حوالے سے جس طرح دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور اپنے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنایا ہے اور اسلحہ سازی میں پاکستان کو سرفہرست ممالک میں شامل کروایا ہے یہ یقینا لائق ِ تحسین ہے ۔ پاکستان کا دفاعی مواصلاتی نظام اور چھوٹے بڑے ہتھیاروں کے علاوہ بھاری اسلحہ، دنیا بھر میں اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے۔ پاک افواج کی دفاعی صلاحیت کی بات کی جائے تو ہم نے بہت قلیل عرصے میں اپنے دفاع کو سٹیٹ آف دی آرٹ ٹیکنالوجی سے مزین کیا ہے ۔
پاکستان کی سالمیت کے ضامن ایٹم بم، میزائل ٹیکنالوجی،الخالد اور ضرار ٹینک کی تیاری،براق ڈرون اور مقامی طور پر تیار کردہ بکتربند اور بلٹ پروف گاڑیاں، یہ سب ایسی کامیابیاں ہیں جنہیں اسلحہ بنانے والے بڑے ممالک بھی رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا اس وقت پاکستان کی دفاعی مصنوعات کا بہت بڑا مرکز ہے، جہاں جدید ترین اسلحے کی تیاری اور معیار کو ہر سال ہونے والی دفاعی نمائش میں بھی بے حد سراہا جاتا ہے۔
پاکستان نے اپنا جوہری پروگرام 1970 کی دہائی میں شروع کیا اور آج پاکستان نہ صرف ایک جوہری طاقت ہے بلکہ اس کے جوہری میزائل دنیا میں بہترین مانے جاتے ہیں۔ پاکستان کا37میل (60کلومیٹر) تک مار کرنے والا نصر نامی ٹیکٹیکل میزائل ایک ایسا جوہری میزائل ہے، جو امریکا کے پاس بھی نہیں۔ اس کے علاوہ حتف میزائل (ملٹی ٹیوب بلیسٹک میزائل)، غزنوی ہائپر سانک میزائل، غزنوی (بیلسٹک میزائل) ابدالی سوپر سانک میزائل، غوری ون میزائل، شاہین ون ( بلیسٹک میزائل)، غوری II ، شاہین II اور شاہین IIIمیزائل شامل ہیں۔ شاہین III کی پہنچ 2750کلومیٹر تک ہے اور اس کی بدولت پاکستان کا ہر دشمن اب رینج میں ہے۔
الخالدٹینک پاکستانی فوج کا نیا اور جدید ترین ٹینک ہے۔ یہ 400 کلومیٹر دور تک بغیر کسی مزاحمت کے سفر کر سکتا ہے۔ اس کے اندر یوکرین کا12ہارس پاور کاانتہائی جدید انجن نصب ہے۔ یہ ٹینک 70کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتا ہے۔اس کے علاوہ یہ فرینچ آٹومیٹک ٹرانسمیشن سے لیس ہے۔ الخالد ٹینک میں ایک مشین گن چھت پر اور ایک نیچے لگی ہوتی ہے۔ اس کی توپ200میٹر سے لیکر 2000 میٹر کے فاصلے تک دشمن کو نشانہ بنا سکتی ہے۔ اس میں روس کا بنایا گیا گولہ لگانے والا خودکار نظام نصب ہے۔یہ پانچ میٹر گہرے پانی میں سے بھی گزرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ واضح رہے کہ اس کے دو ماڈل الخالد ٹینک I اورIIہیں۔
پاکستان کے جے ایف تھنڈر17لڑاکا طیارے نے دنیا کو حیران کیا ہے ۔ یقینا اس کی فروخت میں اضافے کے ساتھ غیر ملکی زرمبادلہ لانے میں مدد ملے گی۔پاک فضائیہ نے جے ایف تھنڈر 17کے پہلے ورژن کا استعمال 2010 میں شروع کیا تھا جبکہ اس سے پہلے اس کی دفاعی ضروریات کا انحصار امریکی ساختہ طیاروں پر تھا جنھیں بھارت کے خلاف جنگوں میں بھی استعمال کیا گیا تھا ۔پاک فضائیہ کے مطابق بلاک ٹو جے ایف تھنڈر17طیاروں میں پہلے سے بہتر ایویونکس سسٹمز، فضامیں ایندھن بھرنے کی صلاحیت، اضافی ہتھیاروں کو لے جانے کی صلاحیت اور کچھ اضافی آپریشنل صلاحیتیں موجود ہیں۔یہ ایک ہلکے وزن کے کثیرالجہتی طیارے کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے جو کہ 55ہزار فٹ کی بلندی تک 1500میل فی گھنٹہ سے زائد کی رفتار سے پرواز کرسکتا ہے۔
اس کے علاوہ دفاعی مصنوعات کے تحقیقی ادارےGIDS نے بیک وقت 4گولے داغنے والی ملٹی بیرل بکتر شکن توپ تیار کی ہے، اس توپ کو ایک بریف کیس جتنے جدید فائرنگ سسٹم سے منسلک کیا گیا ہے۔ توپ پر لگے ہوئے طاقتور کیمرے کے ذریعے اندھیرے میں بھی دشمن کی بکتر بند گاڑیوں کونشانہ بنایاجا سکتاہے۔ 90میٹرکے فاصلے سے کنٹرول پینل کے ذریعے ایک کے بعد ایک4گولے داغے جاسکتے ہیں، جس سے دشمن کی متعدد بکتر بندگاڑیوں کو تباہ کیا جاسکتا ہے۔ عام توپ کے برعکس اس توپ کو چلانے والے (فائرر) دشمن کے جوابی وار سے محفوظ رہتے ہیں۔
پھر ڈرونز کی طرف آئیں تو براق ڈرون مکمل طور پر پاکستان میں تیار کردہ ڈرون طیارہ ہے۔ یہ ڈرون پاکستان ایئر فورس اورنیشنل انجینئرنگ اینڈ سائنٹیفک کمیشن (NESCOM) نے تیارکیا ہے، جوکہ بغیر پائلٹ کے اڑتا اور حملہ کرتا ہے۔ براق ڈرون میں مختلف منظر کشی موشن سینسرسے کی جاتی ہے اور یہ برق نامی لیزر گائیڈڈ میزائل سے لیس ہے۔ پاکستانی ڈرون20سے 22ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے زمین پر موجود اپنے ہدف کو100فیصد نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔دنیا کے کئی ممالک کے پاس نگران ڈرون طیارے ہیں مگر اسلحہ سے لیس ڈرون ٹیکنالوجی صرف چند ممالک کے پاس ہے۔ 2009 میں مقامی سطح پر تیار کیے گئے اس ڈرون طیارے کو ابتدا میں جاسوسی اور دہشت گردوں کی نگرانی کیلئے استعمال کیا گیا، بعد ازاں انہیں جدید لیزر گائیڈڈ میزائل سے لیس کردیا گیا۔2013 میں ڈرون طیاروں کو مسلح افواج کے حوالے کیا گیا، جس کا پہلا تجربہ انتہائی کامیاب رہا اور لیزر گائیڈڈ میزائلوں سے لیس ان ڈرون طیاروں نے کامیابی سے اپنے اہداف کو نشانہ بنایا۔
دسمبر 2023 کو پاکستان نے بیک وقت کئی میزائل داغنے کی صلاحیت رکھنے والے فتح ٹو راکٹ کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔400 کلومیٹر کے فاصلے پر مار کرنے والے اس میزائل میں اپنے ہدف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنانے کی صلاحیت ہے۔
اس سے قبل 24 اگست 2021 کو مقامی طور پر تیار کردہ فتح ون راکٹ سسٹم کا تجربہ کیا جا چکا ہے۔ فتح ٹو میزائل سسٹم پرواز کی جدید ترین صلاحیتوں سے لیس ہے اور یہ ہدف تک مار کرنے کی جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہے۔ فتح ٹو اس لحاظ سے منفرد میزائل ہے کہ یہ اپنے ہدف پر Precision یعنی بہتر انداز میں نشانہ لگانے کی ٹیکنالوجی کا حامل ہے۔ اس کے مطابق سیٹلائٹ سے منسلک اس میزائل کی فضا میں پرواز کی صلاحیت نے اسے مزید مؤثر بنا دیا ہے۔ اس کی ایک نہایت اہم خوبی یہ ہے کہ یہ میزائل داغے جانے کے بعد اپنے ہدف سے نہیں چوکتا اور داغے گئے ہدف کو درست انداز میں نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔فوجی اسلحہ اور سازو سامان کے بعض ماہرین فتح ٹو کو فلیٹ ٹرجیکٹری وہیکل قرار دیتے ہیں جس کا ایک مطلب یہ ہے کہ اسے ریڈار پر نہیں دیکھا جاسکتا۔
بلاشبہ جہاں انتہائی محدود وسائل میں پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کا دنیا کے بڑے بڑے ممالک کے ہم پلہ ہونا کسی معجزے سے کم نہیں وہاں یہ سوچ کر آنکھوں میں آنسو بھی آجاتے ہیں کہ وطن کی حفاظت کے لیے جان فدا کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہمارے فوجی جوان ملک کی معاشی پریشانی دیکھتے ہیں تو اپنے نان نفقے کی قربانی بھی پیش کر دیتے ہیں ۔
جہاں ہمارے لیے افواج پاکستان کی عظمت باعث فخر ہے وہاں بھارت کے لیے اتنے بڑے صدمے کا باعث ہے کہ اس کا دفاعی بجٹ 75 بلین ڈالر اور پاکستان کا 2122 ارب روپے مختص کیا گیا ہے جو کہ تقریباً 7.5 بلن ڈالر یعنی بھارت سے دس گنا کم ہے ۔ اس دفعہ اگرچہ یہ 15 فیصد اضافے کے ساتھ بتایا گیا ہے لیکن روپے کے ڈی ویلیو ہونے کی اوسط کے حساب سے گزشتہ سال سے بھی کم ہوگیا ہے ۔ لیکن ان تمام حالات کے باوجود افواج پاکستان کی کار کردگی پر کبھی آنچ نہیں آئی ۔
مضمون نگار معروف شاعر، مصنف اور تجزیہ کار ہیں۔
[email protected]
تبصرے