• ہمارا دفاعی بجٹ، وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی مجموعی پنشن سے بھی کم ہے۔
• چند لوگوں کی طرف سے دفاعی بجٹ پرتنقید محض پروپیگنڈے کے علاوہ کچھ نہیں۔ جس طرح اپنے گھر کی حفاظت ضروری ہے اسی طرح ملک کادفاع مضبوط بنانابھی ضروری ہے۔
• سچ یہ ہی ہے کہ طاقت امن کی ضمانت ہے۔
1948 میں پاکستان کے پہلے بجٹ میں دفاعی بجٹ کل آمدن کا 46فیصد تھا۔بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور وزیراعظم لیاقت علی خان جانتے تھے پاکستان کودفاعی اعتبارسے مضبوط بنانابے حد ضروری ہے۔
• پاکستان کادفاعی بجٹ ہمسایہ ممالک سے بہت کم ہے۔
• بجٹ وزیرخزانہ ذاتی طورپرپیش نہیں کرتا بلکہ یہ حکومت کی ترجیحات اور وژن کے مطابق ہوتاہے۔
• وفاقی حکومت نے۲۵-۲۰۲۴ کے بجٹ میں دفاع کے لیے 2 ہزار 122 ارب روپے مختص کیے ہیں
آج کی دنیا میں کوئی بھی ملک اپنے دفاع سے غافل نہیں ہوسکتا۔ ترقی یافتہ ممالک کاجائزہ لیں یا ترقی پذیرممالک کے بجٹ کاتجزیہ کریں یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ ہرملک اپنے بجٹ کاایک بڑا حصہ دفاع پرخرچ کرتاہے۔ پاکستان بھی اپنے جارح ہمسائے کی وجہ سے دفاع کونظراندازنہیں کرسکتا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اپنے بیانات میں کئی بارپاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم کااظہارکرچکے ہیں۔ وطن عزیزکے خلاف ان کی دھمکیوں کے باعث یہ بات زیادہ ضروری ہوگئی ہے کہ ہم جنگ مسلط کیے جانے کی صورت میں اپنی تیاریاں مکمل رکھیں۔
ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کم بجٹ اورمحدود وسائل کے باوجود دنیا پاکستان کوایک مضبوط اورفوجی اعتبارسے طاقتورملک تسلیم کرتی ہے۔ کسی میں اتنی جرأت نہیں کہ پاکستان کومیلی نظر اٹھا کر دیکھنے کاسوچ بھی سکے۔ یہ مضبوط دفاع کی وجہ سے ہے اورمضبوط دفاع،دفاعی سازوسامان اورمہارت کے بغیر ممکن نہیں۔
وفاقی حکومت نے۲۵-۲۰۲۴ کے بجٹ میں دفاع کے لیے 2 ہزار 122 ارب روپے مختص کیے ہیں ۔ وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگ زیب نے 12 جون کو 8.5 کھرب خسارے پر مشتمل 18 کھرب 87 ارب روپے سے زائد کا بجٹ پیش کیا۔اس بجٹ میں ٹیکسوں کاہدف 12.97 کھرب روپے مقررکیاگیاہے۔اگرصرف دفاعی بجٹ کو دیکھا جائے تویہ ہمسایہ ممالک اوربہت سے ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ بجٹ میں صرف وفاقی محکموں کے سرکاری ملازمین کی پنشن کے لیے ایک ہزارچودہ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ یہ بات بھی نوٹ کرنے والی ہے کہ چاروں صوبوں کے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن اس کے علاوہ ہے ۔وفاقی اورصوبائی حکومتوں کوجتنی رقم سرکاری ملازمین کی پنشن پرخرچ کرنا پڑتی ہے ہمارا دفاعی بجٹ اس سے کم ہے۔یہ ہے اصل حقیقت۔ایک رپورٹ کے مطابق اگلے چند سال میں ہمارا پنشن کابجٹ 22سے 25فیصد کی شرح سے بڑھتا ہوا 1.5ٹریلین روپے سے بھی بڑھ جائے گا،اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف توہرسال بڑی تعداد میں سرکاری ملازمین ریٹائر ہورہے ہیں دوسری طرف مہنگائی کے باعث پنشن میں بھی اضافہ مجبوری ہے۔اسی طرح غیرملکی قرضوں کابڑھتا ہوابوجھ اوراس پرادا کیاجانے والا سود پریشان کن ہے۔نئے مالی سال میں صرف سود کی ادائیگی پر 9775ارب روپے خرچ ہوں گے۔آپ خود اندازہ کرلیں ہم اپنے دفاعی بجٹ سے کتنا زیادہ صرف سود کی ادائیگی پرخرچ کررہے ہیں ۔میں اعداد وشمار کے گورکھ دھندے سے آپ کوچکرانانہیں چاہتا۔حکومت کوہرسال بجٹ کاایک بڑا حصہ قرضوں کی واپسی کے لیے رکھناپڑتاہے۔
نئے مالی سال ۲۵-۲۰۲۴ کے بجٹ میں وفاق اور صوبوں کے ترقیاتی بجٹ میں 1000 ارب روپے کے اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق آئندہ مالی سال معاشی شرح نمو کا ہدف 3.6 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ زرعی شعبے کی ترقی کا ہدف 2 فیصد،صنعتی شعبے کی ترقی کا ہدف 4.4 فیصد اور بڑی صنعتوں کی شرح نمو کا ہدف 3.5 فیصد رکھا گیا ہے۔ یہ ہدف اتنے بڑے نہیں کہ انھیں حاصل کرنامشکل ہو۔
حکومت نے گذشتہ مالی سال 2023-24 میں دفاع کے لیے 18 کھرب 4 ارب روپے مختص کیے تھے جوبظاہر اس سے پہلے کے بجٹ کے مقابلے میں کچھ زیادہ تھے لیکن اگرافراط زر کودیکھا جائے تو دفاعی بجٹ بڑھنے کی بجائے کم ہوا۔ یہ دفاعی بجٹ جی ڈی پی کا تقریباً 1.7 فیصد اور مختص اخراجات کا 12.5 فیصد بنتا ہے۔ دفاعی بجٹ میں سے بری فوج کے لیے 824 ارب 60 کروڑ روپے، پاک فضائیہ کے لیے 368 ارب 50 کروڑ روپے اور پاک بحریہ کے لیے 188 ارب 20 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے۔اگردیگر ممالک یا عالمی دفاعی بجٹ کاجائزہ لیاجائے توسویڈن میں قائم امن پر تحقیق کرنے والے بین الاقوامی ادارے سِپری (SIPRI) کی رپورٹ کے مطابق عالمی دفاعی بجٹ میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ جسے روکنا یا منجمد کرنا ناممکن ہے۔
پاکستان کاپہلا بجٹ 8فروری 1948 کواس وقت کے وزیرخزانہ ملک غلام محمد نے پیش کیاتھا،اس بجٹ کی تیاری میں بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح اوروزیراعظم لیاقت علی خان کی ہدایات شامل تھیں۔ ہم جانتے ہیں بجٹ وزیرخزانہ ذاتی طورپرپیش نہیں کرتا بلکہ یہ سربراہ حکومت کی ترجیحات اور وژن کے مطابق ہوتاہے۔ مالی سال ۴۹-۱۹۴۸ کے بجٹ کا حجم 89 کروڑ 57 لاکھ روپے تھا۔کل خرچ 89کروڑ 68 لاکھ روپے جبکہ کل آمدن 79 کروڑ 57لاکھ روپے تھی۔ دس کروڑ گیارہ لاکھ روپے کاخسارہ تھا۔ دفاعی بجٹ کے لیے 37کروڑ گیارہ لاکھ روپے رکھے گئے تھے ،یہ دفاعی بجٹ کل آمدن کا 46فیصد تھا۔ یہ خسارے کابجٹ تھا لیکن اس میں بڑا حصہ قائداعظم کے حکم پردفاع کے لیے مختص کیاگیاتھا۔ میں قارئین کویہ بھی بتادوں کہ ۴۹-۱۹۴۸ میں امریکی ڈالر دو روپے پچاس پیسے کاتھا۔پاکستان کی کرنسی کافی تگڑی تھی۔کئی دہائیوں تک ہم دنیا کی ایک بڑی معاشی قوت تھے۔ پاکستان کی پہلی چار دہائیوں میں اقتصادی ترقی کی رفتار چھ فیصد سالانہ رہی، فی کس سالانہ آمدنی دوگنی ہو گئی۔ 1980 کی دہائی کے آخر تک غربت 46 فیصد سے کم ہو کر 18 فیصد رہ گئی تھی۔ قیام پاکستان کے وقت سونے کی فی تولہ قیمت 57 روپے تھی۔کسی کی تنخواہ اگراس وقت ساٹھ یاستر روپے ماہانہ تھی توبہت مناسب تھی۔آج فی تولہ 22قیراط سونے کی قیمت آپ کے سامنے ہے (تقریبا دولاکھ 41ہزار روپے۔)
اگرہم اپنے ہمسائے بھارت کی بات کریں تو پچھلے مالی سال 2024ـ2023 میں بھارت نے فوجی بجٹ میں 13 فی صد اضافہ کیاتھا جو تقریباً 73ارب امریکی ڈالر تھا،جبکہ اس سے پچھلے مالی سال 10 فی صد اضافہ کیا گیا تھا۔ اس فوجی بجٹ میں سے ایک بڑی رقم گولہ بارود کی تیاری میں خرچ کی گئی جبکہ گاڑیوں، مشینوں اور ایئر کرافٹ کی خریداری میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ بری اورفضائیہ کے ساتھ ساتھ بھارتی بحریہ کے سازوسامان کے لیے بجٹ بڑھا کر 9500 کروڑ روپے کر دیا گیا۔ ڈک یارڈ پروجیکٹ اور نیوی لینڈ اسکیم کا بجٹ بھی بڑھا دیا گیا۔پاکستان کے ساتھ جنگی جنون میں مبتلا بھارت فوجی بجٹ مسلسل بڑھا رہاہے۔13 لاکھ سے زائد فوج کے حامل بھارت کا دفاعی بجٹ جی ڈی پی کا 2فیصدسے زیادہ ہے۔نئے مالی سال میں فوجی بجٹ میں مزید اضافے کی خبریں ہیں۔ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کادفاعی بجٹ بہت کم ہے۔
اگرمزید جائزہ لیں توصرف ہمارے ہمسائے میں ہماراعظیم دوست عوامی جمہوریہ چین ہرسال اپنے دفاع پر 230 ارب ڈالر خرچ کرتاہے،برادر اسلامی ملک ایران نے پچھلے سال اپنے دفاع پر سات ارب ڈالرزسے زیادہ خرچ کیے۔بھارت کادفاعی بجٹ پہلے لکھ چکا ہوں 73ارب امریکی ڈالر تھا۔یوں اگرتقابلی جائزہ لیں تو پاکستان نے مالی سال ۲۴-۲۰۲۳ میں اپنے ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں دفاع پرصرف 6.27 ارب ڈالر خرچ کیے جوبھارت کے مقابلے میں بہت کم ہے اورایران سے بھی کم ہے۔کسی بھی ملک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنادفاعی بجٹ مختص کرتے ہوئے دشمن پرکڑی نظررکھے۔
بجٹ کاجائزہ لیتے ہوئے افراط زر یا روپے کی گرتی ہوئی قدر پرنظررکھنابھی بہت ضروری ہے۔جب بجٹ پربحث شروع ہوتی ہے تو بعض لوگوں کی باتوں سے ایسا تاثرملتاہے کہ دفاعی بجٹ کوبہت زیادہ بڑھا دیاگیاہے جبکہ افراط زر کودیکھیں توعملاً ایسا نہیں ہوتا، خاص کران اشیاء یامعاملات میں جب ادائیگی ڈالرز میں کرنی ہو۔ قارئین کے لیے میں بتاتا چلوں کہ دفاعی بجٹ کامطلب یہ نہیں کہ یہ رقم تنخواہوں یامراعات پر خرچ کی جاتی ہے،تنخواہوں اورپنشن کی مد علیحدہ ہے۔ ہمارے دفاعی بجٹ کاایک بڑا حصہ دفاعی ضروریات پرخرچ ہوتاہے۔ بری فوج کے ساتھ ساتھ،ائیرفورس اوربحریہ کابجٹ بھی اس دفاعی بجٹ میں شامل ہے۔
دہشت گردی کے واقعات اوردشمن کی سازشوں کے باعث پاکستان کے لیے خطرات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ ہم انڈیا اوراسرائیل کی طرح جدید ترین ٹیکنالوجی اورجنگی طیارے خریدنے پراربوں ڈالر خرچ نہیں کررہے ۔اسرائیل اپنی فوجی طاقت بڑھانے کے لیے سالانہ 27.5ارب ڈالرز سے زیادہ خرچ کررہاہے۔امریکی فوجی امداد اس کے علاوہ ہے۔
بھارت پاکستان کے مقابلے میں ایک فوجی پر سالانہ 4 گنا زیادہ خرچ کرتا ہے۔ اس کے باوجود غیرجانبدار ادارے کارکردگی کے اعتبار سے پاکستانی فوجیوں کی پیشہ وارانہ مہارت کو بہترقراردیتے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان ایک فوجی پر اوسطاً سالانہ 13400 ڈالر، بھارت میں 42000 ڈالر، امریکا 392,000 ڈالر، ایران 23000 ڈالرجبکہ سعودی عرب371,000 ڈالر خرچ کرتا ہے۔ پاکستان سب سے کم خرچ کررہاہے۔ بھارت فوجی اخراجات کے حوالے سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے،بھارت کو اسلحہ خریدنے والا دوسرا بڑا ملک قراردیاجاتاہے۔ برادر اسلامی ملک سعودی عرب کادفاعی بجٹ 55.6 بلین ڈالر، چین کا 293 بلین ڈالر، ایران کا 24.6 بلین ڈالر، متحدہ عرب امارات کا 22.5 بلین ڈالر اور ترکیہ کا 20.7 بلین ڈالر ہے۔ 2022 میں پاکستان کا دفاعی بجٹ مجموعی قومی بجٹ کا 18فیصد تھا، جو 2023ء میں کم ہوکر 16 فیصد سے بھی کم ہو گیا۔
مالی سال2018-19 کاکل بجٹ 5932 ارب روپے تھا۔اس میں دفاع کے لیے 1100 ارب روپے رکھے گئے جو کل بجٹ کا 18.54 فیصد بنتا ہے۔مالی سال2019-20 کا کل بجٹ 7022 ارب روپے تھا جس میں دفاع کے لیے 1150 ارب مختص کیے گئے۔یہ کل بجٹ کا16.37 فیصد بنتا ہے۔سال 2020-21 کا کل بجٹ 7136 ارب روپے تھا جس میں دفاع کے لیے 1290 ارب روپے رکھے گئے تھے جو کل بجٹ کا 18 فیصدتھا۔
پاکستان کو ایک طرف بھارتی جارحیت کاخطرہ ہے تودوسری طرف بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی مدد کررہی ہے۔دہشت گرد اوربعض نام نہاد علیحدگی پسند گروپس روزانہ سکیورٹی فورسز کے افسروں، جوانوں اورعام شہریوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ ایک بڑا فتنہ تحریک طالبان پاکستان کاہے۔ سب جانتے ہیں کہ بلوچ علیحدگی پسندوں اورٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی ڈوریں بیرون ممالک سے ہلائی جارہی ہیں۔ ان گروپوں کو مسلسل فنڈنگ اورٹریننگ فراہم کی جارہی ہے۔ ٹی ٹی پی اوربلوچ علیحدگی پسندوں سمیت دہشت گرد گروپ سی پیک منصوبوں پرکام کرنے والے چینی انجینئرز اورماہرین کوبھی نشانہ بناچکے ہیں۔ان دہشت گرد گروپوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے دفاع کومضبوط بنائیں۔
اس سال امریکہ کادفاعی بجٹ 841.4بلین ڈالرز ہے،یہ کل بجٹ کا 12.9 فیصد ہے۔جوتمام ممالک سے زیادہ ہے گذشتہ سالوں کے مقابلے میں دیکھاجائے تواس میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔1996 میں امریکہ کادفاعی بجٹ 266 ارب ڈالر تھا۔مالی سال 2025 میں دفاعی بجٹ میں 25سے 30ارب ڈالر اضافے کاامکان ہے۔ دنیاکے بدلتے ہوئے حالات کے باعث ہرملک اپنی ضرورت کے مطابق دفاع پرخرچ کررہاہے۔ٹیکنالوجی میں تبدیلی کی وجہ سے بھی خود کوتیار کرناضروری ہوگیاہے۔فرسودہ اورروایتی اسلحہ کی جگہ ڈرون،روبوٹس اوردوسری مشینیں لے رہی ہیں۔ دفاعی شعبے میں بھی نئی نئی ایجادات ہورہی ہیں۔ جس طرح اپنے گھر کو محفوظ رکھنے کے لیے حفاظتی انتظامات ضروری ہیں اسی طرح ملک کومحفوظ رکھنے کے لیے بھی دفاع کومضبوط بنانابے حدضروری ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ طاقت ہی امن کی ضمانت ہے۔ کمزور پرہرکوئی چڑھ دوڑتا ہے چاہے وہ کوئی شخص ہویا کوئی ملک۔ طاقتورسب کوکھاجاتاہے۔عالمی طاقتوں میں کشیدگی کے باعث دنیاکے بہت سے ممالک نے اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کردیاہے۔دوست ملک چین نے بھی اپنے دفاعی بجٹ میں 7.2 فیصد اضافہ کیاہے جواب بڑھ کر 232 ارب ڈالر ہوگیاہے۔ پاکستان کوجن ممالک سے خطرہ ہے ان میں بھارت اوراسرائیل سرفہرست ہیں۔ اسرائیل کوخوف ہے کہ پاکستان عرب ممالک سے کشیدگی کی صورت میں ان کی مدد کے لیے آئے گا۔ عالمی دفاعی ماہرین اس بات کااعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان دفاعی شعبے میں بھی خودانحصاری کے راستے پرگامزن ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے تعاون سے دفاعی شعبوں میں بھی کام جاری ہے۔
معاشی چیلنجزاورمشکل حالات کے باوجود قوم اپنی افواج کومضبوط اوروطن عزیزکوناقابل تسخیربنانے کے لیے تیارہے۔ماضی گواہ ہے کہ قوم ہرامتحان میں پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی رہی۔قوم کویقین ہے کہ تمام ادارے مل کرملک کومعاشی بحران سے نکال کردوبارہ ترقی کے راستے پرگامزن کردیں گے۔عالمی اداروں نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پاکستان نے کامیابی سے معاشی مشکلات پرقابوپالیاہے اوراس کاترقی کی جانب سفردوبارہ شروع ہوگیاہے۔
مضمون نگاراخبارات اورٹی وی چینلزکے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔آج کل ایک قومی اخبارمیں کالم لکھ رہے ہیں۔قومی اورعالمی سیاست پر اُن کی متعدد کُتب شائع ہو چکی ہیں۔
[email protected]
تبصرے