سوشل میڈیا موجودہ صدی کا سب سے بڑا انقلاب ہے جس نے پوری دنیا کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے ۔ انسان نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ پوری کی پوری دنیا سمٹ کر اس کے ہاتھوں میں ایک موبائل ڈیوائس کے ذریعے سما جائے گی۔ گویا سوشل میڈیا نے پوری دنیا کوصحیح معنوں میں ایک گلوبل ویلج کی شکل دے دی ہے ۔ سوشل میڈیا اس وقت دنیا کا سب سے برق رفتار ہتھیار ہے ، مختلف سوشل میڈیا ایپلیکیشنز نے پوری دنیا میں رہنے والے سات ارب سے زائد افراد کو اپنے سحر میں مبتلا کر رکھا ہے ۔
پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد
پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک میں تمام پلیٹ فارمز پر سوشل میڈیا صارفین کی تعداد سولہ کروڑ سے زائد ہے ۔ ملک میں سب سے زیادہ یوٹیوب صارفین ہیں جن کی تعداد سات کروڑ ستر لاکھ ہے ، اسی طرح فیس بک کے صارفین کی تعداد پانچ کروڑ اکہتر لاکھ ہے ۔ یو ٹیوب کے مرد صارفین کا تناسب 72 فیصد جبکہ خواتین کا 28 فیصد ہے ۔اسی طرح فیس بک کے 71 فیصد مرد صارفین ہیں اور 22 فیصد خواتین ہیں ۔
رپورٹ کے مطابق ٹک ٹاک صارف ایک کروڑ تراسی لاکھ ہیں ، ان میں بیاسی فیصد مرد ٹک ٹاکرز ہیں اور خواتین اٹھارہ فیصد ہیں ۔ پاکستان میں انسٹا گرام صارفین کی تعداد ایک کروڑ اڑتیس لاکھ ہے اور ان میں پینسٹھ فیصد مرد اور چونتیس فیصد خواتین ہیں ۔
جدید دور ٹیکنالوجی کا دور ہے ۔یہ ڈیجیٹل دور بھی کہلاتا ہے ، دور حاضر کے تقاضوں سے عہدہ برا ہونے کے لیے سوشل میڈیا کو ذمہ داری سے استعمال کرنا بہت اہم ہے ۔
غیر روایتی میڈیا
سوشل میڈیا ایک غیر روایتی میڈیا ہے۔ اس نے کئی پہلوئوں کی بنیاد پر رسمی پرنٹ اور الیکڑونک میڈیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا نے خبر کی رفتار اور رسائی کے لیے لوگوں کو نئے مواقع فراہم کیے ہیں ۔ اب رائے عامہ کی تشکیل میں روایتی میڈیا کی گرفت کمزور ہو گئی ہے، اب سوشل میڈیا ایک نئی طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے اور اس کا ادراک ہر سطح پر ہونا چاہیے ۔
روزگار کے وسیع مواقع
سوشل میڈیا نے بیروزگاری کو کافی حد تک کم کیا ہے۔، دیہاتوں ، قصبوں اور دوردراز علاقوں میں عوام کی اکثریت کے پاس موبائل انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے جہاں نسبتاً کم پڑھے لکھے افراد بھی مثبت انداز سے کسی بھی موضوع پر ویڈیو بنا کر اپ لوڈ کرتے ہیں اور باآسانی پیسے کما سکتے ہیں ۔
رابطے کا ذریعہ
سوشل میڈیا جیسے انسٹا گرام ، وٹس ایپ ، فیس بک وغیرہ کے ذریعے ہم ہمہ وقت اپنے پیاروں ، دوستوں اور عزیزوں سے رابطے میں رہ سکتے ہیں ، ہم پوری دنیا کے انسانوں کو اپنا پیغام تحریر اور تقریر یعنی ویڈیو پیغامات کے ذریعے بھی پہنچا سکتے ہیں ۔
سیاست میں کردار
ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ اب ترقی پذیر ممالک میں بھی سوشل میڈیا سیاست میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ مختلف سیاسی پارٹیاں دور دراز کے عوام تک اپنا پیغام سوشل میڈیا کے توسط سے باآسانی پہنچا سکتی ہیں ۔ یہ عوام میں ایک مؤثر اور مضبوط سیاسی بیانیہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے ۔
اظہار رائے کا نیا انداز
سوشل میڈیا نے روایتی سوچ کو شکست دی ہے اور اظہار رائے کے لیینئے ٹرینڈز اور جدید ٹیکنالوجی فراہم کی ہے ، اس پر تنقید بھی بہت کی جاتی ہے لیکن حیرت تو یہ بھی ہے کہ اس کے نقاد بھی اسے ہی استعمال کرتے ہیں ۔
مطالعے کے نئے رحجانات
سوشل میڈیا نے مطالعے کے نئے رحجانات کی ابتدا کی ہے۔ اب بہت سی ای بکس دستیاب ہیں جنہیں ہم اپنی مرضی سے جب چاہیں پڑھ سکتے ہیں ۔
معلومات کا اشتراک
یہ کسی بھی موضوع پر بروقت معلومات جیسے صحت ، سپورٹس اور دیگر موضوعات کی اپ ڈیٹس فراہم کرتا ہے ، سوشل میڈیا آن لائن تعلیم کے ضمن میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے ۔
کاروباری تشہیر
سوشل میڈیا کاروباری تشہیر کے لیے بھی اہم ہے یہاں ایک جیسے علم اور مہارت رکھنے والے لوگ باآسانی ایک گروپ میں بات چیت کر سکتے ہیں۔ بسا اوقات کئی لوگ براہ راست اپنی مصنوعات کی تشہیر کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں، سوشل میڈیا ان کو ماہرین کی خدمات مہیا کرتا ہے۔ یہاں فیس بک اور وٹس ایپ پر بہت سے گروپس تشکیل دئیے جا سکتے ہیں جہاں کاروباری امور سے متعلق آگاہی اور تشہیر باآسانی کی جا سکتی ہے۔
معلوماتی اور تعلیمی لیکچرز
سوشل میڈیا جیسے ہم فیس بک کی بات کریں تو یہاں کئی لیکچرز لائیو اور بالکل فری ہوتے ہیں۔ ان گروپ ڈسکشنز میں شرکت کر کے آپ اپنی ذاتی مہارتوں کو بڑھا سکتے ہیں ۔ سوشل میڈیا کے ذریعے کسی ایک خاص فیلڈ کے ماہرین کو تلاش کرنا بھی بہت آسان ہو گیا ہے اور اس طرح کیرئیر کوچنگ بھی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ ہم کسی فرد واحد یا پوری ٹیم سے بھی رابطہ کر سکتے ہیں ۔
اہم موضوعات پر آواز اٹھانا
سوشل میڈیا ایک مؤثر ہتھیار ہے۔ اس کے ذریعے ہم ان موضوعات پر بات کر سکتے ہیں جن کے بارے میں عوام کی ایک بڑی تعداد کو آگاہ کرنا ہو ۔ جیسے کینسر کے خلاف مہم ، نسلی امتیاز کے خلاف آگاہی فراہم کرنا ، روڈ سیفٹی یا صاف پانی کی فراہمی ، خواتین یا بچوں پر تشدد کے خلاف مؤثر انداز میں آواز اٹھائی جا سکتی ہے ۔
تفریح کے ذرائع
سوشل میڈیا تفریح کا بھی ذریعہ ہے ، آپ اپنی پسند کی ویڈیوز باآسانی ایک کلک کر کے دیکھ سکتے ہیں ، شعر و شاعری ، ادب یا موسیقی کا انتخاب اور ترجیح آپ کی اپنی ہوتی ہے ۔
تخلیقی صلاحتیں
سوشل میڈیا انسان میں تخلیقی صلاحتیوں کے بہتر اظہار کے لیے بھی راہ ہموار کرتا ہے، ہم اپنی رائے کو ان پلیٹ فارمز کے ذریعے مؤثر بنا کر پیش کر سکتے ہیں ۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز آج کے دور میں بہت اہمیت کے حامل ہیں تاہم اس پر بہت تنقید بھی کی جاتی ہے کہ اس کے بے لگام استعمال سے منفی خبریں پھیلتی ہیں ، افواہوں کا بازار گرم ہوتا ہے ۔ کسی کے بارے میں کوئی بھی منفی رائے سوشل میڈیا پر ایک دم عام کر دی جاتی ہے اور لوگ بغیر تحقیق کے سوشل میڈیا کی اندھا دھند تقلید کرتے ہیں ۔
چند احتیاطی تدابیر
سوشل میڈیا نوجوان نسل کو تنہائی کا شکار بھی بنا رہا ہے ، سوشل میڈیا پر تنقید جائز سہی لیکن کوئی بھی ایجاد بذات خود اچھی یا بری نہیں ہوتی بلکہ اصل مسئلہ اس کے اچھے یا برے استعمال پر ہوتا ہے ۔ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کے لئے باقاعدہ پالیسیاں وضع ہونی چاہیں۔ ہمارے ملک میں سائبر کرائمز میں گزشتہ برس سترہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ سائبر کرائمز میں سب سے زیادہ شرح مالیاتی جرائم کی ہے ۔ پاکستان کے عام شہریوں میں انٹرنیٹ کا استعمال زیادہ سے زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ صارفین کی ڈیجیٹل شناخت کی چوری اور آن لائن جرائم میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جو عوام کے لیے آئے دن کی پریشانیوں کا سبب بن رہا ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے صارفین کے بینک اکائونٹس، کریڈٹ کارڈز کی تفصیلات اور آن لائن پاس ورڈز چوری کرنے والے ہیکرز بالعموم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایسے ماہر ہوتے ہیں، جن کے لیے قومی اور بین الاقوامی سرحدوں میں تفریق کوئی معنی نہیں رکھتی۔
سائبر کرائمز بِل
پاکستان میں 11 اگست 2016 کو سائبر کرائمز بل کی منظوری دے دی گئی تھی جس کے تحت23 ایسے جرائم کی وضاحت کی گئی ہے جن پر ضابطہ فوجداری کی تیس دفعات لاگو ہو سکیں گی ۔ معلوماتی نظام یا ڈیٹا تک غیر مجازی رسائی پر تین ماہ قید ، پچاس ہزار جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں ۔
بین المذاہب، فرقہ وارانہ یا نسلی منافرت کو بڑھاوا دینے والی معلومات تیار کرنے یا اسے نشر کرنے پر سات سال قید اور جرمانے کی سزائیں دی جائیں گی۔
سوشل میڈیا اور بے لگام آزادی
بغیر کسی اختیار کے کسی دوسرے شخص کی شناختی معلومات حاصل کرنے، فروخت کرنے، قبضے میں رکھنے، منتقل کرنے، استعمال کرنے پر تین سال تک کی قید یا پچاس لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ جس شخص کی معلومات استعمال کی جائیں وہ اپنی معلومات کو روکنے کے لیے اتھارٹی کو درخواست دے سکتا ہے جو مناسب اقدامات کرے گی۔ اسی طرح کئی دیگر قوانین بھی بنائے گئے ہیں اور ان کے تحت گرفتاریاں عمل میں لا کر سزائیں بھی دی جا رہی ہیں۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا کو باقاعدہ ایک منظم دھارے میں لایا جائے، عوام کو بلاشبہ آزادی حاصل ہو لیکن بے لگام آزادی پر روک لگائی جائے ۔
مضمون نگار گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور رپورٹر ، محقق اور پروڈیوسر وابستہ ہیں ، کالم اور بلاگس کے ساتھ ساتھ افسانے بھی تحریر کرتی ہیں ۔
[email protected]
تبصرے