نریندر مودی اور ان کی پارٹی بی جے پی کی بد قسمتی دیکھیں کہ انہیں لگاتار ایک کے بعد ایک مشکل مرحلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سے قبل روایتی گولہ بارود اور ہتھیاروں کی تیاری کے لیے ان کی نام نہاد ''میک ان انڈیا'' مہم بری طرح ناکام ہوئی اور اب ان کی پارٹی کو زوال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حالیہ انتخابات میں جوڑ توڑ کر کے وہ حکومت بنانے میں کامیاب تو ہوئے لیکن انہیں مطلوبہ اکثریت نہیں مل سکی جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ عوام میں اپنی مقبولیت بہت تیزی سے کھو رہے ہیں کیونکہ ان کی پالیسیوں نے بھارت کا امن تباہ کر دیاہے۔ ان کے مسلم اور سکھ مخالف بیانیے کو 640 ملین ووٹروں میں سے اکثریت نے مسترد کر دیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی نے اپنا گڑھ اتر پردیش بھی کھو دیا ہے جہاں بی جے پی کی حکومت تھی اور مودی نے اس صوبے میں بابری مسجد کو شہید کر نے کی حمایت کی تھی۔ بعد میں مودی نے انتخابات سے چند دن قبل وہاں رام مندر کی تعمیر کا افتتاح کیا تاکہ ہندو ووٹوں کی اکثریت حاصل کی جا سکے لیکن ناکام رہے۔ مودی کی پارٹی یوپی کے ضلع فیض آباد سے الیکشن ہار گئی جہاں ایودھیا واقع ہے۔
بھارت میں انتخابات کے حتمی نتائج کے مطابق مودی کی بی جے پی اپنی مقبولیت کھو چکی ہے اور ضدی مودی کو ایسے مرحلے پر لے آئی جہاں انہیں حکومت بنانے کے لیے سادہ اکثریت حاصل کرنے کی خا طر اتحادیوں کی حمایت کی ضرورت پڑ گئی۔ مودی نے کل 543 میں سے 240 سیٹیں جیتی ہیں۔ اس طرح مودی کو پچھلے الیکشن کے مقابلے میں 63 سیٹوں کا نقصان ہوا ہے۔ لیکن مودی کی اتحادی جماعتوں نے 53 سیٹیں حاصل کی ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ مودی اور ان کی اتحادی کل 293ارکان ہیں۔ سادہ اکثریت 272ہے،وہ توحاصل کرلی لیکن 63 سیٹیں گنوا کر نریندر مودی اپنے طور پر سادہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے، وہ اب اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ دوسروں کو ڈکٹیٹ کر سکیں اور جو چاہیں کرسکیں ۔ مزید یہ کہ مودی دو تہائی اکثریت کھو چکے ہیں ۔ 2019 کے انتخابات میں بی جے پی کی زیر قیادت نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے)نے 353 سیٹیں جیتیں، جن میں سے 303 بی جے پی نے حاصل کیں۔
یہ ہے مودی کی مقبولیت کا حال جبکہ وہ دوسرے محاذوں پر بھی ناکام ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ مودی نے بھارت میں خاص طور پر پاکستان کے خلاف جنگی جنون کو ہوا دی لیکن انہیں اپنی تمام کوششوں میں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یقینا جنگوں کے لیے ملکوں کو گولہ بارود کے بڑے ذخیرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے مودی نے پہلی بار الیکشن جیتنے کے فوراً بعد'' میک ان انڈیا ''مہم شروع کی۔ لیکن یہ مہم ان کے ملک میں نااہلی کے ساتھ ساتھ کرپشن کی وجہ سے ناکام رہی۔
بھارت اس لحاظ سے بہت بدقسمت ملک ہے کہ ایک طرف وہ ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑلگاتا اور پڑوسیوں کی سلامتی کو چیلنج کرتا ہے لیکن دوسری طرف روایتی ہتھیاروں جیسے رائفلز، توپ خانے، ٹینکوں اور دیگر ہتھیاروں کے لیے گولہ بارود بنانے میں ناکام ہے۔ ایک طرف بھارت دنیا میں ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے اور دوسری طرف مقامی طور پر معیاری روایتی ہتھیار اور گولہ بارود تیار نہیں کر سکتا۔ بھارتی کمپنیاں اور ہتھیاروں کے ڈیلرز مودی کی جنگ بازی کا فائدہ اٹھا کراربوں روپے کمیشن اور رشوت کی مد میں لوٹ رہے ہیں جبکہ ہتھیار اس قدر ناقص ہیں کہ فوجیوں کی جانیں جا رہی ہیںاور یہ کسی دوسرے ملک کا پروپیگنڈہ نہیں، بھارتی میڈیا پر یہ خبریں زیر بحث ہیں۔ ماضی قریب میں اور اب بھی بھارتی میڈیا ''میک ان انڈیا '' ہتھیاروں کی کوالٹی پر بے شمار سوالات اٹھا رہا ہے جس نے بہت سے اہلکاروں کی جانیں لینے کے ساتھ ساتھ بھارت کے فوجی شراکت داروں کو بھی خفت کا سامنا کرناپڑا۔بھارتی میڈیا والے جو اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان میں دی ڈیفنس پوسٹ، گلوبل ڈیفنس انسائٹ، این ڈی ٹی وی، دی اکنامک ٹائمز، دی ٹائمز آف انڈیا، اے پی این، دی ویک، انڈیا ٹوڈے اور بہت سے دوسرے شامل ہیں۔ ان کی رپورٹس گوگل پر بہت آسانی سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ مزید برآں بین الاقوامی میڈیا جیسے ویون ٹی وی اور دیگر نے بھی بھارتی ہتھیاروں اور دفاعی سازوسامان کے خراب معیار کی رپورٹیں نشر اور شائع کی ہیں۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق بھارتی سکیورٹی فورسز کے 429 ہتھیار، سازوسامان اور آلات ناقص پائے گئے ہیں جس نے نہ صرف بھارتی ''میڈ ان انڈیا'' والی مودی حکومت کو چونکا دیا ہے بلکہ اس کی نام نہاد دفاعی صلاحیتوں کے بارے میں بھی خطرے کی گھنٹیاں بجاد ی ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے علاوہ خود بھارتی فوج نے کئی ہتھیاروں کو مسترد کرتے ہوئے خراب معیار پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بھارتی فوج نے مقامی ساختہ ٹینکوں، توپ خانے، فضائی دفاع اور دیگر توپوں کے لیے فراہم کیے جانے والے گولہ بارود کے ناقص معیار کی وجہ سے بڑی تعداد میں ہونے والے حادثات پر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
دی ویک لکھتا ہے کہ "انساس " صحیح طریقے سے فائر کرنے میں ناکام رہی۔ بھارتی حکومت کی آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رائفل کام نہیں کر رہی۔اے پی این نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ رائفل ٹیسٹ کے مرحلے میں ناکام ہوگئی۔
این ڈی ٹی وی نے مغربی بنگال میں بھارتی فضائیہ کے تربیتی کرافٹ کے گر کر تباہ ہونے پر ایک رپورٹ نشر کی ہے جبکہ ویون ٹی وی نے تکنیکی خرابیوں پر مدھیہ پردیش میں بھارتی فضائیہ کے 2 جہازوں کے حادثے کے بارے میں ایک اور رپورٹ نشر کی ہے۔
دسمبر 2021 میں بھارت کے چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل بپن راوت ان کی اہلیہ مدھولیکا راوت اور دیگر 11 افرادریاست تامل ناڈو میں ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ جنرل راوت بھارت کے پہلے چیف آف ڈیفنس سٹاف تھے، یہ عہدہ حکومت نے 2019 میں قائم کیا تھا، اور انہیں وزیر اعظم نریندر مودی کے قریب دیکھا جاتا تھا۔دراصل بھارت نے چیف آف ڈیفنس سٹاف کی پوسٹ پاکستان کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کی پوسٹ سے نقل کی کیونکہ اس کی فوج کے تینوں ونگز کے درمیان رابطے میں مدد ملتی ہے۔ ہیلی کاپٹر روسی ساختہ ایم آئی 17 تھا، لیکن اسے بھارتی نظام سے چلایا جا رہا تھا۔
K9 وجرا ہووٹزر پر بھی انڈیا میں ہا ہا کار مچی ہوئی ہے۔جب بھارت نے انہیں مقامی طور پر تیار کیا تو یہاں بھی بھارت کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا کیونکہ اس میں تکنیکی خرابیاں پائی گئی ہیں اور فوج نے ان کے معیار پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارتی میڈیا فوجی سازوسامان بنانے والی کمپنیوں اور ڈیلروں پر ایسے معاہدوں اور سودوں میں کمیشن لینے اور کک بیکس لینے کے الزام لگاتاآر ہا ہے۔
بھارت کے پاس 15 لاکھ سے زیادہ فعال اہلکاروں کی دنیا کی سب سے بڑی فوجی قوت ہے۔ اس کے پاس 51 لاکھ سے زیادہ اہلکاروں پر مشتمل دنیا کی سب سے بڑی رضاکار فوج بھی ہے۔ مالی سال 2021 کے لیے بھارتی فوج کا بجٹ 4 لاکھ78 ہزار کروڑ روپے تھا۔ 2023 میں 5.6 ٹریلین روپے یا 70 ارب ڈالر تھا۔ امریکہ 372 ارب ڈالر اور چین 261 ارب ڈالرکے بعد تیسرا سب سے بڑا سالانہ فوجی بجٹ بھارت کاہے۔یہ سعودی عرب کے بعد دوسرا سب سے بڑا فوجی درآمد کنندہ ہے جو عالمی ہتھیاروں کی درآمد کا 9.2 فیصددرآمد کرتاہے ۔بھارت نے 2000 سے 2022 تک،روس، فرانس، اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ سے سب سے زیادہ اسلحہ درآمد کیا۔
دریں اثناء دفاعی شعبے کی تزویراتی اور اقتصادی اہمیت کے باوجود، ایسے متعدد سکینڈل سامنے آئے ہیں جن کا تعلق دفاعی سودوں سے ہے جن میں بھارتی حکومت کی جانب سے غیر ملکی ہتھیاروں کی درآمد شامل ہے۔ ان میں سے بہت سے سکینڈلز میں رشوت ستانی اور درمیانی افراد کی مبینہ شمولیت کے الزامات شامل ہیں۔
سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی)کے مطابق، وپن کھنہ، سدھیر چودھری اور سریش نندا ہتھیاروں کے تین سب سے بڑے اور طاقتور ڈیلر تھے۔ مبینہ طور پر، کھنہ، چودھری اور نندا نے 1980 کی دہائی میں بوفورس سکینڈل سے پہلے سے ہی دفاعی شعبے پر غلبہ حاصل کرنا شروع کر دیا تھا اور ان کے خاندان نے اپنی پوزیشن برقرار رکھی ہے۔
ہتھیاروں کے سودوں سے ان کا کمیشن 15% تک ہو سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، کھنہ، چودھری اور نندا نے دفاعی سودوں کی منظوری حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ ان کے پاس بھارت کے اندر اپنے اثر و رسوخ اور روابط کی وجہ سے سیاسی اور بیوروکریٹک پروکیورمنٹ کے عمل کے ذریعے ڈیل حاصل کرنے کی صلاحیتیں ہیں۔تینوں افراد اور ان کے خاندان کے افراد پر کئی دفاعی سکینڈلز میں الزام عائد کیا گیا ہے، تاہم ان کے خلاف کوئی بھی الزام ثابت نہیں ہوا۔
فوجی ہتھیاروں اور ساز و سامان کی تیاری میں بھارت کا یہ حال ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ متحدہ برصغیر کی تقسیم کے بعد تمام آرڈیننس فیکٹریاں بھارت میں چلی گئیں جبکہ پاکستان کی سرزمین پر ایک بھی آرڈیننس فیکٹری نہیں تھی۔ اس کے باوجود پاکستان نے اپنا سفر صفر سے شروع کیا اور اب اس مقام پر پہنچ گیا جہاں دنیا کے کئی ممالک پاکستانی آرڈیننس فیکٹریوں میں تیار ہونے والے ہتھیار اور آلات خریدنا پسند کرتے ہیں اور ایک ایسا ملک جس نے تمام کارخانے لے لیے وہ دفاعی پیداوار کے میدان میں اب بھی بہت پیچھے ہے۔
اللہ کے فضل و کرم سے پاکستانی آرڈیننس فیکٹریاں جدید ترین ہتھیار اور سازوسامان تیار کر رہی ہیں جن کا استعمال کرنے والے اہلکاروں کے لیے 100% حفاظتی معیارات ہیں۔ پاکستانی دفاعی مصنوعات جدید ترین ہیں جن کی دنیا میں بڑی مارکیٹ ہے۔ پاکستانی فوج پوری دنیا کی واحد فوج ہے جو خود انحصاری کے فلسفے پر کام کرتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ضروری مواد، سازوسامان، آلات اور ہتھیار مقامی طور پر تیار کیے جائیں اور قومی خزانے پر کم سے کم انحصار کیا جائے۔
مضمون نگار انگریزی میگزین اور اردو اخبار کے ایڈیٹر ہیں اور حالات حاضرہ کے تجزیہ کار ہیں۔
[email protected]
تبصرے