یوم شہدائے کشمیر(13جولائی1931)کے تناظر میں لکھی گئی تحریر
ماہ جولائی ہی میں حریت پسند برہان وانی شہید کی برسی بھی منائی جاتی ہے
بھارتی غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی فسطائی ہندوتوا سرکار کی بدترین ریاستی دہشتگردی جاری ہے ۔بھارت کی بات کریں تو محض مقبوضہ جموں و کشمیر ہی نہیں، خود بھارت میں بسنے والے مسلمان، عیسائی، سکھ و دیگر اقلیتیں بھی ہندو انتہا پسندی کے زہر سے محفوظ نہیں۔دہلی کے حکمران یوں تو سیکولر ازم اور جمہوریت کے دعوے کرتے نہیں تھکتے مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں اقلیتوں کے خلاف آئے روز ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ شاید دہلی کے حکمرانوں میں انسانیت کی ادنیٰ سی رمق بھی باقی نہیں ۔ تنازعہ کشمیر کے آغاز سے بالعموم اور پچھلے پانچ برس سے بالخصوص مقبوضہ کشمیر میں غیر انسانی تشدد اور مظالم کچھ اتنے تسلسل سے جاری ہیں جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم کوئی جدید دور میں نہیں بلکہ قدیم زمانے میں جی رہے ہیں، جب ہلاکو اور چنگیز خان کے دور میں کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کیے جاتے تھے اور انسانی حقوق کی پامالی کی جانب کوئی کان نہیں دھرتا تھا۔ کچھ ایسی ہی صورتحال مقبوضہ کشمیر میں درپیش ہے ، جہاں نہتے کشمیریوں کو شہید کرنا، پیلٹ گنز کا بے دریغ استعمال اور عفت مآب کشمیری خواتین کی بے حرمتی روزمرہ کا معمول ہے۔جبکہ انسانی حقوق کے عالمی چیمپئن اس صورتحال پر چپ سادھے ہوئے ہیں۔ کیا کسی مہذب معاشرے میں اس قسم کی سفاکیت کا تصور بھی دورِ حاضر میں کیا جا سکتا ہے؟ مگر آفرین ہے مودی کے وفادار بھارتی میڈیا پر کہ وہ اس سفاکیت پر ہندو انتہا پسندوں پر تنقید کے بجائے مسلمانوں کو ہی موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے۔
کسے معلوم نہیں کہ پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ تنازعہ کشمیر کے عملی طور پر تین فریق ہیں، پاکستان، کشمیری عوام اور بھارت۔ اس تنازعہ کو محض اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرار دادوں کے مطابق ہی حل کیا جا سکتا ہے اور جب تک کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت نہیں دیا جاتا، تب تک کوئی یک طرفہ فارمولہ پاکستان و کشمیری عوام کو کسی صورت قبول نہیں۔ یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اس مسئلے کو بھارت خود اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا اور اس وقت کے بھارتی وزیراعظم نے اعلانیہ طور پر اقرار کیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کو کشمیریوں کی خواہش کے مطابق ہی حل کیا جائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارتیحکمران ان وعدوں سے منحرف ہوتے چلے گئے اور اب صورتحال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو 5 اگست 2019 کے بعد سے اب تک قابض بھارتی فوج نے دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر رکھا ہے۔ غزہ کی یہودی بستیوں کی طرز پر مقبوضہ کشمیر کے طول و عرض میں ریٹائرڈ اور حاضر سروس بھارتی فوجی اہلکاروں کی کالونیاں بنائی جا رہی ہے اور انھیں ڈومیسائل سٹیٹس بھی دیا جا رہا ہے۔
بہرحال یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بھارتی حکومتوں کی جانب سے ظلم و استبدایت کی تمام حدیں پار کیے جانے کے باوجود کشمیریوں کے جذبہ حریت میں کوئی کمی نہیں آئی، بلکہ یہ تو وہ شمع بن چکی ہے جسے جتنا بجھانے کی کوشش کی جاتی ہے، اتنی ہی مزید بھڑک اٹھتی ہے۔ دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں گزری جو جنگجوئوں اور سرفروشوں کی قربانیوں کے بغیر آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہو۔ برہان وانی، افضل گورو، مقبول بٹ غرضیکہ کشمیری حریت پسند رہنمائوں کی شہادتوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اسے احاطہ تحریر میں لانے کیلئے بھی ان گنت صفحات درکار ہیں۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک میں یوں تو ہر دن ایک خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ گذشتہ 70 ۔80 برس میں قابض بھارتی حکمرانوں نے کشمیری عوام کے خلاف لگ بھگ ہر ہفتے،عشرے بعد کوئی نہ کوئی ایسا ظلم ڈھایا ہے جس کو فراموش کرنا کشمیری عوام کے بس کی بات نہیں مگر پھر بھی کچھ دن اور تاریخیں اس حوالے سے خصوصی اہمیت کی حامل ہیں ۔ مثال کے طور پر یوم شہدائے کشمیر یعنی 13 جولائی کو ہی لے لیجیے۔ آج سے 93 برس قبل 1931 میں اس دن کشمیر کے ہندو ڈوگرہ حکمرانوں نے 22 کشمیریوں کو شہید کر کے گویا تحریکِ آزادی کشمیر کی باقاعدہ بنیاد رکھ دی تھی۔یہ سانحہ سری نگر کی سینٹرل جیل کے سامنے پیش آیا کیونکہ جیل کے اندر عبدالقدیر نامی کشمیری نوجوان کو اذان دینے اور نماز پڑھنے سے روک دیا گیا۔اس ظلم کے خلاف جب معصوم کشمیریوں نے صدائے احتجاج بلند کی تو ڈوگرہ سپاہیوں نے نہتے کشمیریوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جس کے نتیجے میں 22 کشمیری موقع پر ہی دم توڑ گئے جبکہ 100 کے قریب زخمی ہوئے۔ان شہادت پانے والوں کا جرم محض یہ تھا کہ وہ اپنے ہندو حکمرانوں سے مطالبہ کر رہے تھے کہ انھیں اذان دینے اور نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے مگر اس انتہائی جائز مطالبے کے ردِ عمل کے طور پر ان سے زندہ رہنے کا بنیادی حق چھین لیا گیا اور کشمیری مسلمانوں کے اس قتل عام کی بنیاد رکھی گئی جو آج بھی پوری شدت سے جاری و ساری ہے۔
اسی طرح 8 سال قبل 8 جولائی 2016 کو سری نگر میں کشمیریوں کے اہم ترین رہنما برہان وانی کی شہادت کے بعد وادی میں صورتحال مزید ابتری کا شکار ہوگئی اور جدوجہد آزادی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوئی۔ وانی کے جنازے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی تھی جن پر قابض فوج کی فائرنگ سے بے شمار کشمیری شہید اور450 سے زائد زخمی ہوگئے تھے ، اس کے بعد مقبوضہ ریاست میں ظلم کی کالی رات مزید گہرا کر رہ گئی ہے اور اب تک ان گنت کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں اور یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا، بظاہر کوئی نہیں جانتا کہ تشدد کی یہ سیاہ رات کب ڈھلے گی اور صبح آزادی کا اجالا کب نمودار ہو گا۔ کیونکہ قابض بھارتی فوج کے مقبوضہ وادی میں مظالم ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اس پس منظر میں کشمیری اپنے بطل حریت ''برہان مظفر وانی'' کی شہادت کی 8 ویں برسی عقیدت و احترام سے منا رہے ہیں۔ 11 فروری 1984 کو دہلی کی تہاڑ جیل میں کشمیری رہنما مقبول بٹ کو پھانسی دی گئی تھی اور ان کا جسدِ خاکی بھی دہلی کی تہاڑ جیل کے کسی کونے میں دفن کیا گیا تھا اور اس کے کچھ عرصہ بعد کشمیر میں تحریکِ آزادی کا نیا مرحلہ ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ شروع ہو ا۔9 فروری 2013 کو ایل او سی کے دونوں اطراف شہید افضل گورو کی بھی برسی منائی جاتی ہے۔ بھارت نے افضل گورو کو دہلی کی اسی تہاڑ جیل میں پھانسی دی اور شہید کا جسدِ خاکی بھی اس کے لواحقین کے سپرد کیے جانے سے انکار کر دیا تھا۔ مبصرین کے مطابق افضل گورو کو 13 دسمبر 2001 کو بھارتی پارلیمنٹ پر ہونے والے مبینہ حملے میں ملوث ہونے کے نام نہاد الزام میں گرفتار کیا گیا ۔طویل عدالتی کارروائی کے دوران ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت بھارتی حکومت پیش نہ کر سکی جس کا اعتراف خود بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ان الفاظ کے ذریعے کیا''اگرچہ افضل گوروکے خلاف اس جرم میں ملوث ہونے کی کوئی ٹھوس شہادت یا ثبوت استغاثہ فراہم نہیں کر سکا مگر بھارتی عوام کے اجتماعی احساسات اور خواہشات کی تسکین کی خاطر انھیں پھانسی دینا ضروری ہے ''۔مبصرین کے مطابق دنیا کی جدید عدالتی تاریخ میں ایسی بے انصافی کی مثال شاید ڈھونڈنے سے بھی نہ مل سکے ۔جب کسی ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ایک جانب اس امر کا اعتراف کر رہی ہو کہ ملزم کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت بھی موجود نہیں مگر دوسری طرف کسی فرد یا گروہ کی نام نہاد تسکین کی خاطر اس بے گناہ شخص سے زندہ رہنے کا بنیادی انسانی حق چھین لیا جائے تو ایسے میں اس سزائے موت کو عدالتی قتل کے علاوہ اور بھلا کیا نام دیا جا سکتا ہے اور ایسا شاید برہمنی انصاف کے تقاضوں کے تحت ہی ممکن ہے وگرنہ کوئی مہذب اور نارمل انسانی معاشرہ شاید ایسی بے انصافی کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔یاد رہے کہ اس سانحہ کے فوراًبعد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف زبردست احتجاج کیا گیا تھا۔6 روز تک ریاست میں کوئی اخبار تک شائع نہ ہوا ،موبائل فون اور انٹرنیٹ پر پابندی عائد کر دی گئی اور احتجاج پر قابو پانے کے لیے قابض بھارتی افواج نے کرفیو نافذ کر دیا۔ ان سانحات کا جائزہ لیتے اعتدال پسند ماہرین نے کہا کہ بھارت سمیت دنیا کے سبھی ملکوں میں یہ مسلمہ روایت ہے کہ رحم کی اپیل خارج ہونے کے بعد سزائے موت دیے جانے سے قبل متعلقہ ملزم کے اہلِ خانہ کو باقائدہ اطلاع دی جاتی ہے اور پھانسی دیے جانے والے فرد سے اس کے وارثوں کی آخری ملاقات کروائی جاتی ہے مگر دہلی سرکار نے اس حوالے سے بھی تمام انسانی اور اخلاقی ضابطوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے گوروو کے لواحقین کو نہ اس کی رحم کی اپیل خارج ہونے کی اطلاع دی اور نہ ہی ان کی آخری ملاقات کروائی گئی اور نہ ان کی میت لواحقین کے حوالے کی گئی بلکہ تہاڑ جیل کے اندر ہی کسی نامعلوم گوشے میں دفن کر دیا گیا ۔ سفاک بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں کشمیریوں کی ہر شہادت کے بعد دہلی سرکار کو گمان ہوتا ہے کہ شاید اس نے جدوجہد آزادی کو نقصان پہنچا دیا لیکن درحقیقت ہر شہادت کے بعد تحریک پہلے سے تیز ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ مقبوضہ وادی میں کشمیریوں کی پراسرار گمشدگیوں کا گھنائونا سلسلہ بھی تسلسل سے جاری ہے اور ان گمشدہ افراد کے اہلخانہ عجب اذیت میں مبتلا ہیں کیونکہ ان بد قسمت خواتین کو بیوائوں میں شمار کیا جا سکتا ہے نہ ہی کسی دوسرے زمرے میں۔ مودی سرکار ان '' نصف بیوائوں'' کی حالت زار پر آخر کشمیر فائلز کی طرح کوئی فلم کیوں نہیں بناتی؟ بہرکیف یوم شہدائے کشمیر کے تناظر میں حرف آخر کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس ضمن میں عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ کشمیری عوام کے استحصال اور پورے بھارت میں بسنے والے مسلمانوں و دیگر اقلیتوںکی حالت زار کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائے۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں کو اس ضمن میں زمینی حقائق کی شفاف دستیابی کو یقینی بنانا چاہیے تا کہ دنیا حقیقت اور پروپیگنڈے کے مابین فرق کر سکے۔
مضمون نگار ایک اخبار کے ساتھ بطور کالم نویس منسلک ہیں۔
[email protected]
تبصرے