سال 2023 کوپاکستان کی سکیورٹی صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس برس ملک کو ریکارڈ تعداد میں دہشت گرد حملوں کا سامنا رہا ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ افغانستان میں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور بعض دیگر گروپوں کو افغان عبوری حکومت کی جانب سے سرپرستی اور معاونت حاصل رہی اور ان گروپوں کو افغان عبوری حکومت نے پاکستان کے خلاف بطور پراکسی استعمال کیا ۔ تاہم سال 2024 کے دوران پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے ہزاروں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کرتے ہوئے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں سیکڑوں مطلوب دہشت گردوں کو ہلاک کیا اور سیکڑوں گرفتار ہوئے ۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں پاک فوج سمیت مختلف سکیورٹی اداروں کے متعدد نوجوان شہید ہوئے تاہم دن بدن فورسز کی کارروائیوں میں اضافہ ہوتا گیا اور روزانہ کی بنیاد پر کارروائیاں جاری رکھی گئیں ۔
ایک سرکاری سکیورٹی رپورٹ کے مطابق پاک فوج نے یکم جنوری سے لیکر اب تک بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں متعدد انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے۔ ان آپریشنز کے نتیجے میں کئی مطلوب دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا جبکہ کثیر تعداد میں زخمی یا گرفتار کیے گئے ۔ دہشت گردوں کے خلاف ان کارروائیوں میں پاک فوج کے جوانوں اور آفیسرز نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔
دوسری جانب کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ ( سی ٹی ڈی)نے بھی سال 2024 کے ابتدائی پانچ مہینوں کی اپنی کارروائیوں کی تفصیلات جاری کردیں ۔ رپورٹ کے مطابق یکم جنوری سے 31 مئی کے درمیان سی ٹی ڈی اور ریگولر پولیس نے خیبرپختونخوا کے تقریباً 26 اضلاع میں 237 آپریشن کیے ۔ ان آپریشنز کے نتیجے میں اس عرصے کے دوران 117 انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا جبکہ 299 کو گرفتار کیا گیا ۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ ان کارروائیوں کے دوران پولیس کے 65 جوانوں نے شہادت پائی جبکہ 86 زخمی ہوئے ۔ خیبرپختونخوا کے جن علاقوں میں پاک فوج اور پولیس کے ذریعے سب سے زیادہ کارروائیاں کی گئیں ان میں شمالی وزیرستان ، ڈی آئی خان ، ٹانک، بنوں ، لکی مروت ، جنوبی وزیرستان ، ہنگو ، کرک ، کوہاٹ اور پشاورشامل ہیں۔
قبل ازیں ایک اور رپورٹ میں کہا گیا کہ ستمبر 2023 کے بعد خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کے 993مقدمات درج کیے گئے ۔ بعض مقدمات کی بنیاد پر 32 دہشتگردوں کو سزائیں دلوائی گئیں ۔ بھتہ خوری کے کیسز میں 200 سے زائد ملزمان نامزد کیے گئے جبکہ مختلف کارروائیوں کے نتیجے میں تقریباً 10 بھتہ خور ہلاک ، 105 گرفتار کیے گئے ۔
رواں برس افغانستان کی فورسز اور طالبان کی جانب سے 4 قبائلی اضلاع میں تقریباً 13 بار سرحدی خلاف ورزیاں کی گئیں ۔ مئی کے مہینے میں ضلع کرم کی جانب پاک افغان سرحد پر تقریباً 3 دن تک دو طرفہ فائرنگ اور حملوں کا سلسلہ جاری رہا جس کے دوران بھاری ہتھیار بھی استعمال کیے گئے ۔ شمالی وزیرستان کو بھی متعدد بار ایسی صورت حال کا سامنا رہا۔ ایسی ہی ایک کارروائی کے دوران جب شمالی وزیرستان کے علاقے غلام خان میں موجود ایک فوجی چیک پوسٹ پر خودکش حملہ کیا گیا تو بڑے پیمانے پر نہ صرف یہ کہ آپریشن شروع کیا گیا بلکہ پاکستان ایئرفورس نے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں گھس کر مختلف مقامات پر ان ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جہاں حملہ آور اور ان کے سہولت کاروں کی موجودگی کی اطلاعات تھیں ۔ اس کارروائی پر دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید تنائو پیدا ہوگیا ۔تاہم پاکستان اپنے اس مؤقف پر ڈٹا رہا کہ افغان عبوری حکومت کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی لیڈر شپ اور جنگجوؤں کے خلاف یا تو خود کارروائی کرے یا ان کو پاکستان کے حوالے کیا جائے ۔
مارچ 2024 کو امریکہ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ افغانستان میں داعش خراسان اور القاعدہ کی سرگرمیوں میں افغان حکومت کی کمزوریوں اور مبینہ سرپرستی کے باعث تقریباً 40 فی صد اضافہ ہوگیا ہے اور اس صورتحال سے پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان بری طرح متاثر ہونے لگا ہے ۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق داعش خراسان نے سال 2023 کے دوران خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دو درجن سے زائد حملے کیے ۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی پالیسی میں چونکہ 2023 کے بعد انتہائی حد تک کلیریٹی واقع ہوئی ہے اس لیے اس کے ردعمل میں پاکستان کو دوبارہ سے دوچار کرنے کے لیے شدت پسند گروپوں نے حملوں کی تعداد میں اضافہ کی پالیسی اختیار کی ۔ اور اس تمام صورتحال کے اندر افغان عبوری حکومت کی سرپرستی پاکستان مخالف گروپوں کو حاصل رہی ۔
ایک تو ریاست پاکستان کی کائونٹر ٹیررازم پالیسی زیرو ٹالرنس کے تحت بہت واضح ہے اور دوسرا یہ کہ ریاستی کارروائیوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہورہی ۔ اسی تناظر میں جون کے پہلے ہفتے کے دوران سامنے آنے والی ایک رپورٹ انتہائی اہمیت کی حامل ہے جس میں 2023 کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ2024 کے دوران حملوں کی تعداد میں 2023 کے انہی مہینوں کے مقابلے میں تقریباً 40 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔
دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے جون کے دوسرے ہفتے کے دوران شبقدر فورٹ میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کی ایک پریڈ کے دوران اپنے خطاب میں جہاں تمام فورسز کے کردار اور قربانیوں کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا وہاں انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی اور شرپسندی کرنے والوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی اور یہ کہ بہت جلد حالات پر قابو پاتے ہوئے امن قائم ہوگا ۔ اس موقع پر وزیر داخلہ نے شہداء پیکج 30 لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ روپے کرنے کا اعلان بھی کیا ۔
مضمون نگار معروف صحافی ہیں۔ علاقائی و بین الاقوامی امور پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے