ابا جان دفتر سے گھر آئے ہی تھے کہ سب بچے بھاگ کر اِن کے پاس چلے آئے ۔حمزہ ، زینب اور عکاشہ نے ابا جا ن کے ہاتھ سے پھلوں والا تھیلا پکڑا اور امی جان کے پاس باورچی خانے میں لے گئے ۔ اتنے میں امی جان،بابا کے لیے ٹھنڈا پانی لے آئیں۔ابا جان نے پانی پیا ، پھر متلاشی نگاہوں سے اِدھر اُدھر دیکھ کرپوچھا، ’’بھئی !علی نظر نہیں آرہا ،کدھر ہے میرا بیٹا؟‘‘
ابا جان کے اس اچانک سوال پر بچے کن اکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ آخر ننھی زینب نے ہمت کی اور بتایا کہ علی بھائی کمرے میں ہیں ۔ انھیں امی جان سے ڈانٹ پڑی ہے ،اس لیے وہ ناراض ہیں۔
زینب کی بات سنتے ہی ابا جان نے علی کو آواز دی ، تو تھوڑی دیر کے بعد و ہ منہ بسورے ان کے پاس آ گیا۔ آتے ہی اُس نے ڈبڈباتی آنکھوں سے اباجان کی طرف دیکھا ،پھر روتے ہوئے اُن سے چمٹ گیا۔ امی جان بھی اس کے پاس آ گئیں اور مسکراتے ہوئے اُس کے بالوں میںانگلیاں پھیرنے لگیں ۔
’’کیا ہوا تھا میرے بیٹے کو ،کیوں ڈانٹ پڑی امی سے؟‘‘ ابا جان نے اُس کے گال تھپتھپاتے ہوئے پوچھا۔ اس سے پہلے کہ علی کچھ بتاتا، جلدی سے عکاشہ نے بولنا شروع کردیا۔
’’باباجی !علی بھائی او ر اِس کے سبھی دوست ،پڑوسی انکل آصف کے پالتو کتے کو پتھر ماررہے تھے۔آصف انکل نے گھر آکر امی جان سے شکایت کی تو امی جان نے اسے ڈانٹا تھا ۔‘‘ عکاشہ نے اباجان کو تفصیل بتادی ۔ اباجان نے سوالیہ نگاہوں سے علی کی طرف دیکھا توو ہ یک دم گھبرا گیا ،پھر اُس نے شرمندہ ہوتے ہوئے نظریں نیچی کرلیں۔
’’بیٹا ! ایسا تو نہیں کرتے ناں !آپ کو پتا تو ہے کہ پڑوسیوں کےبہت سارے حقوق ہوتے ہیں ۔پھر آپ تو پڑوسیوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کے حقوق بھی پامال کررہے ہیں ۔کیا ایسا ہی ہے؟‘‘
اباجان نے علی سے سرد لہجے میں پوچھا، تو وہ نظریں جھکائے خاموشی سے کچھ سوچنے لگا،پھر دھیرے سے گویا ہوا ، ’’ابا جان !انکل آصف کا بیٹا ولیدبھی تو ہمارے ساتھ لڑائی کرتا ہے۔وہ ہمارے دروازے پرپتھربھی مارتارہتاہے۔‘‘علی کی ساری بات سن کر ابا جان نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا اور نرم لہجے میں سمجھانے لگے:’’دیکھوبیٹا!ضروری نہیں کہ آپ کے ساتھ کوئی جیسا سلوک کرے ، آپ بھی اس کو ویسا ہی جواب دیں۔ اگر اسی طرح سے ہوتا رہاتو معاشرے میں امن کیسے ہوگا؟آپس میں محبت کیسے بڑھے گی؟جانور آپ سے کیوں کر مانوس ہوں گے؟ پڑوسیوں اور جانوروں کے ساتھ اچھاسلوک تو دینی طور پر بھی اہم ہے اور اس کی اخلاقی طور پر بھی بہت اہمیت ہے ۔مجھے امید ہے کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ــ‘‘
اباجان نے تفصیل سے بات کی توعلی کے ساتھ ساتھ باقی سب بچوں نے بھی سر جھکا لیے ۔اس کا مطلب تھا کہ وہ ابا جان کی بات اچھی طرح سمجھ گئے ہیں۔
’’علی بیٹا ! مجھے یقین ہے کہ اگر آپ ولید کے ساتھ اچھا برتائو کرو گے اور اس کی غلطی معاف کردو گے تو آئندہ وہ بھی آپ کے لیے اپنے دل میں محبت رکھے گا۔ویسے مجھے یہ جاننا ہے کہ وہ ہمارے گھر کے دروازے پر پتھر کیوں ماررہا تھا؟ آپ نےاسے کچھ کہا تو نہیں تھا ؟ــ‘‘ابا جان نے سوال کیا توعلی نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا :’’جی ابا جان ! میں نے اس کا نام بگاڑا تھا ۔‘‘
یہ کہتے ہی علی نے سر جھکا لیا۔اباجان دھیرے سے مسکرادیے اور بولے:’’دیکھا،میں بھی کہوں کہ ولید اتنا پیارا بچہ ہے، وہ کیوں کر ہمارے دروازے پر پتھر مارے گا؟بیٹا !کسی کا نام نہیں بگاڑنا چاہیے۔لیکن مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ آپ نے اپنی غلطی تسلیم کی اور سچ بولا ۔ مجھے آپ پر فخر ہے۔امید ہے کہ آپ آصف انکل سے بھی اپنی غلطی کی معافی مانگ لوگے۔‘‘ابا جان کی بات پر علی نے اثبات سے سر ہلادیا۔
تھوڑی ہی دیر بعد سب بچے کچھ تحائف لے کر ابا جان کے ہمراہ آصف انکل کے دروازے پر کھڑے تھے ۔عکاشہ نے دستک دی تو خود آصف انکل ہی نے دروازہ کھولا ۔باہر کا منظر دیکھ کر وہ حیران رہ گئے ۔ ابا جان نے آصف انکل کو گلے لگایا اور ان سے معذرت کی ۔ پھرعلی نے بھی آگے بڑھ کر انکل سے معذرت کی تو انکل آصف کو اس پر بہت پیار آیا۔
’’ارے احمد صاحب ! کیوں شرمندہ کرتے ہیں۔ میں تو بس بچوں کی لڑائی میں ایسے ہی ذراجذباتی ہوگیا تھا ،اسی لیے آپ کو شکا یت کردی، بعد میں پتا چلا کہ قصور تو ہمارے بچے کا بھی تھا۔چنانچہ اب ہم آپ کی طرف ہی جانے والے تھے ،تاکہ معذرت کرسکیں ۔ آپ ہمارے بہت اچھے پڑوسی ہیں ۔ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھیں۔‘‘
یہ کہہ کر آصف صاحب نےولید کو آواز دی تو وہ ہاتھوں میں ایک پیکٹ اٹھائے باہر آیا۔باہر کا منظر دیکھ کر وہ بھی حیران رہ گیا۔اس پر آصف صاحب اور احمد صاحب مسکرادیے ۔
’’احمد صاحب !آپ اور آپ کے بچے بہت اچھی طبیعت کے مالک ہیں،اسی لیے توآپ لوگ پہل کرگئے اور ہم سے جیت گئے ورنہ ہم بھی آپ کی طرف آنے والے ہی تھے۔ ‘‘آصف صاحب نے احمد صاحب اور ان کے بچوں کا شکریہ ادا کیا، پھر سب بچے آپس میں گلے ملنے لگے ۔اس کے بعد چائے کا دور چلا ۔اچانک علی اور ولید کمرے سے غائب ہوگئے ۔
سب لوگ جب باہرگئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ علی اور ولید ساتھ ساتھ بیٹھے ایک دوسرے سے گپ شپ لگا رہےہیں ۔یہ دیکھ کر آصف صاحب او راحمد صاحب نے قہقہہ لگایا :’’لگتا ہے اب دوستی پکی ہوگئی ہے۔‘‘ابا جان نے کہا تو علی اور ولید مسکرا دیے ۔ وہ اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے سے ہی حقیقی خوشیاں ملتی ہوتی ہیں ۔
تبصرے