اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو ضائع ہونے سے بچائیں
زینب اور زہراکھانے کی میز پر بیٹھیں عمار بھائی کا انتظار کر رہی تھیں۔اسی اثنا میں باہر سے سکول وین کا ہارن سنائی دیا۔ دونوں نے شورمچا دیا،’’ بھائی آ گئے، بھائی آ گئے۔‘‘
عمارنے گھر میں داخل ہوتے ہی سب کو بلند آوازسےسلام کیا۔جواب میں زینب اور زہراسمیت سب نے جواب دیا... ’’ وعلیکم السلام! ‘‘
’’بیٹا!خیریت تو تھی....آج بہت دیر سے گھر پہنچے؟‘‘ بابا نے فکرمندی سے پوچھا۔
’’بابا!آج سڑک پر اس قدر ٹریفک تھی کہ بس کچھ نہ پوچھیں۔ رہی سہی کسر پانی کے ٹینکروں نے پوری کر دی اور ہماری وین آہستہ آہستہ بلکہ یوں کہیے کہ رینگتے ہوئے گھر پہنچی۔‘‘عمار تھکے ہوئے انداز میں بولا۔
’’اچھا تو پھر جلدی سے یونیفارم تبدیل کرو اور منہ ہاتھ دھو کر کھانے کی میز پر آجائو، کب سے تمہاری بہنیں تمہارا انتظارکررہی ہیں۔‘‘امی نے میز پر کھانا رکھتے ہوئے کہا۔
جب سب میز پر کھانا کھانے میں مصروف تھے، بابا جان کچھ سوچتے ہوئے بولے، ’’ آبادی بڑھنے سے ہمارے وسائل میں کمی آرہی ہے۔ خاص طور پر دنیا کو پانی کی کمی کا سامنا ۔ چونکہ ہمارے شہر کے مختلف علاقوں میں پانی ختم ہوگیا ہے اس لیے اسے شاید دوردراز علاقوں سے ٹینکروں کےذریعے پانی سپلائی کیا جارہا ہے۔
زینب نے حیرانی سے پوچھا، ’’بابا جان!پانی کی کمی؟ وہ کیسے؟ ہمارے گھر میں تو پانی کی کبھی کمی نہیں ہوئی۔‘‘
’’پیاری بیٹی!اس وقت تک تو اللہ تعالیٰ نے اس نعمت کو ہمیں وافر مقدار میں عطا کیا ہے۔ لیکن بہت سے علاقوں میں لوگوں کو پانی کے بحران کا سامنا ہے۔‘‘ بابا نے جونہی اپنی بات ختم کی تو امی گلاس میں پانی ڈالتے ہوئے بولیں، ’’بچو!پانی ہماری زندگی ہے مگر ہم اکثر اسے ضائع کردیتے ہیں۔پانی کا استعمال احتیاط سے نہ کیا جائے تو پھر پانی کے ٹینکر منگوانے پڑتے ہیں۔ اسی لیے پانی بھی ایک دولت ہے،جس کا تحفظ بہت ضروری ہے۔‘‘
امی کی بات سن کر زہرا بولی: ’’ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ پانی زندگی ہے اور زمین کا اکہتر فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ پھر پانی کیسے کم ہو سکتا ہے؟‘‘
’’آپ کی بات ٹھیک ہے بیٹی !لیکن اس میں سے 97 فیصد پانی نمکین ہے جو پینے کے لیے ٹھیک نہیں۔ صرف تین فیصد ایسا ہے جسے ہم پی سکتے ہیں۔ جب ہم پانی کے تحفظ کی بات کرتے ہیں تو اسی تین فیصد کی بات کررہے ہوتے ہیں۔‘‘
زینب جو غور سے یہ باتیں سن رہی تھی، بولی: ’’بابا جان! یہ بتائیں کہ ہم پانی کو سمجھداری سے کیسے استعمال کریں؟ ویسے میں توپانی بہت احتیاط سے استعمال کرتی ہوں۔ ‘‘
بابا جان زینب کی بات پر مسکراتے ہوئے بولے، ’’زینب!آپ کا سوال بہت اہم ہے۔پہلے تو ہمیں یہ احساس کرنا ہوگا کہ بہت سے لوگوں کو پانی پینے کے لیے بھی نہیں ملتا۔ وہ دوردراز علاقوں سے لا کر اسے پینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ دوسری بات بڑھتی آبادی پر قابو پانا ہوگا کیونکہ یہ وسائل کی کمی کا باعث ہے۔ جتنی آبادی زیادہ ہوگی، اس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پانی بھی اتناہی درکار ہوگا۔اب بات کرتے ہیں کہ ہم اللہ کی اس نعمت کو ضائع ہونے سے کیسے بچائیں تو سب سے پہلے یہ کام اپنے گھر سے شروع کریں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ لوگ اکثر نلکے سے پا ئپ لگا کر گھروں کے درودیوار اور گا ڑیوں کو گھنٹوں دھوتے رہتے ہیں، اسی طرح لان میں پودوں کو پانی دینے کے لیے پائپ کو کھلا چھوڑ دیا جاتاہے۔ جب گھر کی ٹینکی خالی ہوتی ہے تو ہمیں اس کا احساس ہوتا ہے۔‘‘بابا جان کی بات ختم ہوئی تو امی گویا ہوئیں۔
’’پیارے بچو!ہمیں پانی ضائع ہونے سے بچانا چاہیے۔یاد رکھیں، ہم گھرمیں ہوں یا کھیل کے میدان میں، سکول میں ہوں یا مسجد میں، پانی کو احتیاط سے استعمال کریں۔ وضو کرتے ہوئے پانی کو زیادہ استعمال نہ کیا جائے۔ نہاتے ہوئے شاور کھولنے کے بجائے ایک بالٹی پانی سے باآسانی نہایا جا سکتا ہے۔ دانت صاف کرتے ہوئے اکثر پانی کی ٹوٹی کھول دیتے ہیں،یہ بھی بری بات ہے۔‘‘ امی نے بات ختم کی توبابا کو ان کے ابو کی بات یاد آگئی۔وہ بولے، ’’بچو!مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب آپ کے دادامرحوم کبھی دیکھتے کہ نلکے سے خواہ مخواہ پانی بہہ رہا ہے تو وہ ناراض ہو جاتے تھے۔ گھر میں ہر کسی کو تلقین کرتے کہ ’’پانی ضائع مت کرو، اسے معمولی شے نہ سمجھو۔‘‘
تینوں بچوںنے عہد کیا کہ وہ اللہ کی اس نعمت کو ضائع نہیں کریںبلکہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی تلقین کریں گے۔بابا جان نے تینوں کو شاباش دی اور چشمہ لگا کر اخبار کا مطالعہ کرنے لگے۔
تبصرے