بوسنیا ہرزیگووینا میں امن مشن کے ساتھ کام کرتے ہوئے ہمیں تقریباً ایک سال ہونے والا تھا اور چند ہفتوں میں ہم نے اپنی ڈیوٹی کا دورانیہ ختم کر کے واپس پاکستان چلے جانا تھا۔ ایک دن میں امدادی سامان سے لدی گاڑیوں کا قافلہ جس میں بہت سے غیر ملکی بھی شامل تھے، کولے کر کروشیا سے بوسنیا جا رہا تھا کہ موستار شہر کے مضافات میں سڑک سے تھوڑا ہٹ کے ایک تباہ حال مسجد نظر آئی جس کی دیواریں نفرت اور تعصب سے چلائی گئیں ان گنت گولیوںسے چھلنی تھیں اور چھت کا ایک حصہ بھاری بھر کم مینار کے گرنے سے زمین بوس ہو چکا تھا۔
میں نے قافلے کو دو پہر کے کھانے کے لیے رکنے کا کہا اور خود اس مسجد کی جانب چل پڑا تا کہ اس کو اندر سے دیکھوں۔ یہ تر کی طرز تعمیر والی مسجد تھی جسکی کھڑکیاں اور دروازے ٹوٹ چکے تھے جبکہ صحن گولیوں کے ٹکڑوں ،پتھروں اور ٹوٹے ہوئے شیشوں سے اٹا ہوا تھا۔ ان سب کے بیچوں بیچ ایک نامعلوم ساراستہ چھت کے سلامت حصے کی طرف جارہا تھا۔
باہر والے ٹوٹے ہوئے دروازے کے ساتھ جوتوں کا ایک جوڑا بھی پڑا تھا۔ مجھے بہت حیرت ہوئی کہ اس وقت اس مسجد میں کون ہوگا۔ میں نے بھی اپنے جوتے اتارے اور مسجد میں داخل ہو گیا۔ باوجود احتیاط کے شیشے کا ایک چھوٹا ٹکڑا جراب میں سے گزر کر میرے پائوں میں پیوست ہو گیا اور خون رسنے لگا۔ میں نے کچھ پرواہ نہ کی اور ٹکڑا نکال کر ہال کی طرف چل پڑا اور پھر ہوا کے دوش پر تیرتی ہوئی نہایت دل آویز قرأت کی آواز میرے کانوں میں پڑی۔ کوئی سورہ واقعہ کو نہایت دلنشیں انداز میں تلاوت کر رہا تھا۔ آواز اس جگہ سے آرہی تھی جہاں چھت کا ملبہ اپنے سلامت حصے کے ساتھ مل کر ایک غار سا بنا رہا تھا۔ میں اس غار کے دہانے پر پہنچا تو ایک بزرگ رحل پر قرآن رکھے تلاوت میں مشغول تھے۔ دائیں جانب ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے روشنی کی ایک شعاع اندر آ کر اجالا کر رہی تھی اور چھوٹے چھوٹے ذرات اس روشنی میں سست روی سے تیر رہے تھے۔ میں بغیر آواز نکالے وہیں پر بیٹھ گیا اور وہ بزرگ میری موجودگی سے لاعلم قرأت کرتے رہے۔
''تو بھلا بتائو تو وہ پانی جو پیتے ہو
کیا تم نے اسے بادل سے اتارا ہے یا ہم ہیں اتارنے والے
ہم چاہیں تو اسے کھاری کر دیں تو پھر کیوں نہیں شکر کرتے
جو آگ تم روشن کرتے ہو
کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ہے یا ہم ہیںپیدا کرنے والے
ہم نے اسے جہنم کا یادگار بنایا اور جنگل میں مسافروں کا فائدہ
تو تم پا کی بولو اپنے عظمت والے رب کی
تو مجھے قسم ہے ان جگہوں کی جہاں تارے ڈوبتے ہیں
اور تم سمجھو تو یہ بڑی قسم ہے بے شک یہ عزت والا قرآن ہے
( آیت نمبر 68-77 تک )
اجنبی دیس میں ایک روشن غار، خوش شکل اور خوش الحان قاری ، دل جیسے پنجرے میں پھڑ پھڑانے لگا اور ایک عمیق اداسی اور امید کی گرفت میں آگیا۔ انہیں میری موجودگی کا احساس ہوا تو انہوں نے سورةکو ختم کیا اور قرآن کریم بند کر کے میری طرف متوجہ ہوئے اور مجھے وردی میں دیکھ کر ذرا حیران بھی ہوئے۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے میں نے انہیں سلام کیا اور مجھے معلوم تھا کہ سلام وہ کنجی ہے جو ہر دروازہ کھول دیتی ہے۔ انہوں نے سلام کا جواب دیا اور اٹھ کرمجھے گلے لگایا اور میرے بازو پر لگے پاکستان کے الفاظ پر شفقت سے ہاتھ رکھا۔
وہ ایک عمر رسیدہ شخص تھے مگر کا ٹھی مضبوط ۔ بالکل سیدھے کھڑے تھے۔ لمبا قد، سر پر بڑی سی گول ٹوپی، سبز گہری آنکھیں اور سفید رنگت ۔ صاف انگریزی میں مجھے بیٹھنے کے لیے کہا اور ہم باتیں کرنے لگے۔ ان کا نام شیخ دائو د تھا اور انہوں نے جامعہ الازہر سے اسلامک سٹڈیز اور عریبک لینگویج میں ماسٹر ڈگری حاصل کر رکھی تھی۔ دو بیٹے جنگ میں شہادت پاچکے تھے جبکہ وہ اس مسجد کے امام تھے اور نزدیکی قصبے میں اپنی بیوی کے ساتھ رہتے تھے۔
جنگ کی ہولنا کی اور اپنے بیٹوں کی بہادری اور شجاعت کی داستانیں سناتے رہے مگر مجال ہے چہرے پر دکھ یا ملال کے تاثرات ابھرے ہوں بلکہ بار بار اللہ کا شکر ادا کرتے رہے۔ میرے چہرے پر گہری نظر ڈالی اور بولے اس ویران اور ٹوٹی ہوئی مسجد میں کیا ڈھونڈ رہے تھے، کسی چیز کی تلاش میں ہو ؟
میرے منہ سے نکلا جناب ایک مدت سے مرشد کی تلاش میں ہوں ۔ میری بات سن کے وہ خاموش ہو گئے اور خاموشی اتنی طویل ہوئی کہ میں سوچنے لگا کہ کاش میں نے کچھ اور کہا ہوتا۔ بولے سورۂ کہف میں اللہ فرماتے ہیں'' جسے اللہ راہ دے تو وہی راہ پر ہے اور جسے گمراہ کر دے تو ہرگز اس کا کوئی حمایتی اور مرشد نہ پا ئوگے ۔ (18:17) تو اللہ سے ہدایت اور مرشد مانگو۔
میں نے پوچھا کہ آخر مرشد کیوں ضروری ہے۔ شیخ بولے اگر اللہ کے رستے پر چلنے اور اس رستے کی منازل طے کرنے کا ارادہ ہو تو جو لوگ ان منازل کو طے کر چکے ہوں ان کی رہنمائی منازل کو آسان بنادیتی ہے۔ میں نے پوچھا کہ سورۂ کہف کی آیت میں جس مرشد کا ذکر ہے کیا اس کا انسان ہونا ضروری ہے یا کوئی کتاب بھی رہنما ہو سکتی ہے۔ بولے اگر صبر ہمت اور حوصلہ ہو تو قرآن کریم بھی مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ بے شک قرآن اللہ تبارک و تعالیٰ کو آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سے زیادہ پیارا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:''قرآن روز قیامت شفاعت کرنے والا ہے جو مقبول ہوگی اور اللہ تعالی سے نافرمان بندے کا شکوہ کرنے والا ہے جو سنا جائے گا۔ جس نے اسے امام بنالیا یہ اسے جنت میں لے جائے گا اور جس نے اسے پس پست ڈال دیا یہ اسے جہنم کی طرف ہانک کر لے جائے گا۔''
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا:'' روز قیامت قرآن مجید پڑھنے والے سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتا جا اور جنت میں منزل بہ منزل او پر بڑھتا جا اور یوں ترتیل سے پڑھ جیسے تو دنیا میں ترتیل کیا کرتا تھا۔ تیرا ٹھکانہ جنت میں وہاں پر ہوگا جہاں تو آخری آیت کی تلاوت ختم کرے گا۔'' میں نے پوچھا کہ بر صغیر اور دنیا کے دوسرے حصوں میں تصوف اور سلوک کے جو مختلف سلسلے ہیں وہ کیا ہیں اور ان کی منزل کیا ہے؟ بولے جناب یہ ایک ہی منزل کی طرف جانے والے راستے ہیں،کوئی خشکی سے گزرتا ہے، کوئی سمندر سے، کوئی صحرا سے اور کوئی جنگل سے ۔ مقصد سب کا ایک ہی ہے " حصول رضائے الٰہی" دراصل مسلمانوں کی پچاس فیصد سے بھی کم آبادی نے پورا قرآن پڑھا ہے جبکہ اس کو سمجھنے اور روزانہ پڑھنے والوں کی تعداد تو دس فیصد سے بھی کم ہے۔ اب باقی نوے فیصد مسلمان جب تلاش حق میں نکلتے ہیں تو اپنی جبلی سُستی، کاہلی اور لاعلمی کے سبب خود محنت کرنے کے بجائے سہارا ڈھونڈتے ہیں ، پکی پکائی روٹی چاہتے ہیں، تو وہ کسی سلسلے کے ساتھ منسلک ہو جاتے ہیں حالانکہ اگر آپ کسی سلسلے کے مکمل منشور پر عمل کریں تو آپ کو مجاہدات اور مشقت کے مشکل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جس میں کئی کئی روز کی بھوک اور معکوس چِلے بھی شامل ہیں اور بات وہیں پر آجاتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ تصوف کے سلسلے منزل تک کے راستے کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر لیتے ہیں تا کہ لوگ اس سفر سے اکتا نہ جائیں اور چھوٹے ٹکڑوں کے اختتام پر کامیابی کا احساس اور کچھ دلچسپی کے اسباب مسافروں کی ہمت قائم رکھیں ۔ وہ کیسے؟ میں نے پوچھا۔ شیخ بولے سب سے پہلے سائل کو درود شریف کی مخصوص تعداد روزانہ پڑھنے کے لیے دی جاتی ہے۔ اس تعداد کو پورا کرنے کے بعد سائل ایک طمانیت محسوس کرتا ہے اور جلد ہی درود شریف کی برکت سے زندگی غیر محسوس طریقے سے سہل ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ درود شریف وہ واحدعمل ہے جو اللہ کی ذات فرشتوں اور انسانوں میں مشترک ہے۔ اس کے پڑھنے کی کوئی حد نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک صحابی کو تمام وقت درود شریف پڑھنے کی تلقین کی۔ اس کیفیت میں اللہ تعالی انسان کے تمام کاموں کو آسان کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد سائل کو توبہ کروائی جاتی ہے۔ گزشتہ ، آئندہ ، چھوٹے، بڑے، دانستہ، نادانستہ گنا ہوں سے تو بہ مگر تو بہ کی اعلیٰ ترین قسم یہ ہے کہ تو بہ سے تو بہ کر لی جائے ۔ بات میرے اوپر سے گزر گئی۔ توبہ سے، توبہ کیسے! میں نے پوچھا! وہ بولے ایسی توبہ کی جائے کہ پھر کبھی تو بہ نہ کرنی پڑے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ'' جو شخص ہمیشہ استغفار کرتا ہے اللہ اس کی ہر تکلیف کو دور کر دیتے ہیں اور اس کو ایسی جگہ سے رزق پہنچاتے ہیں جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔''
ذاکرین کی زندگی آسان ہو جاتی ہے اور ان کے لیے بخشش اور بڑے اجر کا وعدہ ہے۔ ذاکر کے دل کو چین اور اطمینان نصیب ہو جاتا ہے اور پھر شکر ، قناعت اور شفقت و رحمت کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں اور دراصل یہی تصوف اور سلوک کا حاصل ہے۔ ذکر پہلے باآواز کیا جاتا ہے پھر جب دل میں اس کی سکت پیدا ہو جائے تو یہ زبان سے دل اور پھر روح میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے بھی کسی مرشد کی ضرورت نہیں ۔ جب ذکر کی کثرت ہوگی تو یہ منازل خود بخود طے ہو جائیں گی۔
شیخ دائودر اہِ حق کے مسافر کے لیے سائل، مسالک اور ذاکر کے الفاظ استعمال کر رہے تھے۔ ذکر کے راسخ ہوتے ہیں دل موم ہو جاتا ہے۔ چڑیوں کے دلوں کی طرح نرم۔ اکثر اوقات اللہ کے ذکر سے دل پانی بن کر آنکھوں سے بہہ نکلتا ہے۔ اس گریہ اور آہ و بکا سے پہلے پہل سائل پریشان ہو جاتا ہے مگر بعد میں گریہ کے بہانے ڈھونڈتا ہے اس سے لطف اٹھاتا ہے ۔ گر یہ در اصل مالک کی جانب سے ذکر کی قبولیت کا انعام ہے۔ گریہ کی قدر تو ذاکرین ہی جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گریہ کرنا اکثر روایات سے ثابت ہے۔ اپنی ہر سانس کو اللہ کے ذکر میں ڈبو دینا بھی ایک نہایت خوشگوار عمل ہے۔ تھوڑی سی مشق کے بعد سانس خود بخود اللہ کے ذکر سے مزین ہو کر زندگی کو آسان بنا دیتی ہے۔ لا الٰہ الا اللہ کوا فضل ذکر کہا گیا ہے تو باہر جاتی ہوئی سانس کے ساتھ لا الٰہ اور اندر جاتی ہوئی سانس کے ساتھ الا اللہ کہنا اور اس کے علاوہ اندر جاتی سانس کے ساتھ ھو اور باہر جاتی سانس کے ساتھ اللہ کہنا سانس لینے کے عمل کو ذکر میں بدل دیتا ہے۔ اب سالک کی ہر سانس عبادت بن جاتی ہے۔ اس عمل کو' پاس انفاس' کہتے ہیں۔
حق تعالیٰ سورہ مزمل میں فرماتے ہیں :''اور اپنے رب کے نام کا ذکر کرو اور سب سے ٹوٹ کر اس کے بنے رہو'' (83:8)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ انسان کو مراقبے کی ترغیب بلکہ حکم دیتے ہیں۔ اسکے لیے کسی آرام دہ جگہ پر بیٹھ کر اپنے اندر کو ہر قسم کے خیالات سے خالی کر کے اللہ کا تصور ذہن میں بٹھا کر اس کا نظارہ کرنا اور اس کی قربت حاصل کرنی ہوتی ہے۔ آج کی دنیا میں اسے meditation بھی کہتے ہیں اور اسے ذہنی دبائو کو کم کرنے کا بہترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ مراقبہ میں اللہ تعالی کے کسی نام یا قرآن مجید کی کسی آیت کو بار بار دُہرایا جاتا ہے۔ پاس انفاس کو مراقبہ کے ساتھ ملا لینا بھی نہایت آسان اور عمدہ عمل مراقبہ میں حق تعالیٰ اپنے آپ کو ذاکر کے حوالے کر دیتا ہے۔ ذاکر جیسا چاہے اللہ کا تصور باندھے۔ جس قدر چاہے خوب صورت بنائے ۔ جتنا حسین اللہ کا تصوّر ہو گا اتنی ہی خوبصورت ذاکر کی شخصیت ہوتی جائے گی ۔ مراقبہ میں مرشد ذاکر کو اپنے ذہن کو خالی کرنے ، اللہ کی طرف دھیان لگانے اور خیالات کے بھٹک جانے پر انہیں دوبارہ مرکوز کرنے میں مدد دیتا ہے۔
پھر رفتہ رفتہ ذاکر کی محنت ، استطاعت اور حق تعالیتعالیٰٰ کی عنایت کے مطابق سالک پر عبدیت کا انکشاف ہوتا ہے۔ یہ انکشاف ایک مدت تک سالک کو عجیب سرور میں مبتلا کیے رکھتا ہے اور یہ منزل بالآخر اعتراف عبدیت پر جا کر تمام ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی محبوب حقیقی سے وصال کی آرزو سالک کو بے تاب کر دیتی ہے اور دیدار الٰہی کی خواہش ایک عشق کی صورت اختیار کر لیتی ہے لیکن مالک نے ابھی اس سے بہت آگے جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں! ''تو جو امید رکھے اپنے رب سے ملاقات کی تو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے'' (18:110)
یہاں پہنچ کر ذاکر پر لا الہ الا اللہ کی حقیقت آشکار کر دی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے معبود مطلق ہونے کے شواہد سالک کو دکھا چکا ہوتا ہے۔ اب سالک کے دل میں خوف اور امید کے جذبے جنم لیتے ہیں۔ خوف اللہ کی ناراضگی اور عذاب سے جبکہ امید اپنے رب کی خوشنودی اور ملاقات کی ۔
یہ دونوں جذبے انسان میں عمل صالح کی تحریک پیدا کرتے ہیں اور سالک کے لیے نیک عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے ہے بلکہ وہ اس کے لئے بے قرار رہتا ہے اور پھر درجہ بدرجہ اطاعت اور فرماں برداری کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے اللہ پاک فرماتے ہیں ''بیشک یہ قرآن رہنمائی کرتا ہے اس ہدایت کی جو سب سے زیادہ سیدھی اور سب سے زیادہ پائیدار ہے'' (17:9) اب سالک کو اللہ تعالیٰ کی محبت نصیب ہو چکی ہوتی ہے اور وہ ہر دم اپنے محبوب حقیقی سے ہم کلام ہونا اور اس کے کلام کو سننا چاہتا ہے اورتشنگی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے اس لیے وہ اپنا زیادہ وقت قرآن کے ساتھ گزارنا پسند کرتا ہے، اس کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے معمولات کی درستگی کے لیے قرآن سے ہدایت کا طلب گار ہوتا ہے۔ قرآن کریم بھی نہایت فراخ دلی سے سالک کے دنیاوی اور اخروی معاملات میں رہنمائی کرتا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ آہستہ آہستہ قرآن کو سالک کے دل پر اتارتا جاتا ہے۔ یوں انسان کو اپنے معاملات میں رہنمائی کے لئے قرآن کو کھولنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ دل کے آئینے میں دیکھ کر وہاں پہلے سے موجود قرآن سے واضح ہدایات حاصل ہو جاتی ہیں۔
اب سالک قرآن پاک کی محبت میں ہر طریقہ اختیار کرتا ہے۔ وہ قرآن پڑھتا ، سنتا ہے اور بعض خوش نصیبوں کو اللہ تعالیٰ قرآن لکھنے کی توفیق سے بھی نواز دیتا ہے۔ قرآن کی محبت جوں جوں بڑھتی ہے سالک قرآن کی ہدایات کی روشنی میں برائیوں سے پر ہیز کرنے لگتا ہے اور نماز قائم کر کے ہمہ وقت حق کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ صلہ رحمی میں آگے بڑھتا ہے صدقات و خیرات کی کثرت کرتا ہے، روزہ سے محبت کر کے بعض اوقات صائم الدھر ہو جاتا ہے۔ اور بالآخر حج کی سعادت حاصل کر کے گزشتہ گنا ہوں اور کوتاہیوں کے بوجھ سے نجات پا جاتا ہے۔ یوں وہ پاکیزہ زندگی اختیار کر کے قرب الہی میں بڑھتا جاتا ہے۔ اسی دوران عمر کی بیشتر پونجی خرچ ہو چکی ہوتی ہے تو اب سالک یا ذاکر آخرت کی تیاری میں مشغول ہو جاتا ہے۔
شیخ دائود ایک لمبا سانس لے کر خاموش ہو گئے جیسے بات مکمل ہوگئی ہو۔ یوں لگا جیسے مجھے شیخ دائود کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیے ہوئے قرنوں بیت چکے ہوں مگر دل چاہتا تھا کہ وہ بولتے رہیں اور میں سنتا رہوں۔ اس دوران مجھے ان کی گہری آنکھوں اور روشن چہرے کی عادت بھی ہو چکی تھی اور مختلف سوالات پوچھنے کی ہمت بھی پیدا ہو گئی تھی۔ میں نے پوچھا جناب میر امر شد کون ہوگا ؟
اپنی ذات کو کسی کے حوالے کرنا، بیعت ہونا یا اپنے ہاتھ کو کسی کے ہاتھ میں دے دینا میری جبلت میں ہی نہیں میں ایسا سوچوں بھی تو مخالف سوچیں مشین گن اور راکٹ لانچر لے کر ماتھے پر رومال باندھے میرے سامنے آکھڑی ہوتی ہیں۔ میں کسی کا مرید نہیں بن سکتا۔ شیخ مسکرائے اور دیر تک سر ہلاتے رہے پھر بولے اس میں کوئی پریشانی کی بات نہیں، جبلت تو آپ کے اختیار میں نہیں یہ تو خالصتاً آپ کا اور مالک کا معاملہ ہے یہ سب تو اللہ کی دین ہے۔ شیخ نے آہستگی سے میرا دایاں ہاتھ تھاما تو مجھے یوں لگا جیسے کوئی ریشمی کپڑا میرے ہاتھ سے چھو گیا ہو۔ وہ میری شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کے پوروں کو نرمی سے دبانے لگے پھر نہ جانے کیا ہوا ایک بند تھا جو ٹوٹ گیا اور میری آنکھوں سے آنسوئوں کا نہ رکنے والا سیلاب رواں ہو گیا۔ میں کیوں رو رہا تھا مجھے کچھ معلوم نہ تھا اور پھر میں دھاڑیں مارنے لگا۔ اب شیخ نے میرا ہاتھ چھوڑ کر مجھے رونے دیا۔ جب سیلاب کا ریلا گزر گیا تو شیخ بولے بات بن گئی ہے گر یہ مبارک ہو۔ میں خالی ذہن اور خالی آنکھوں سے شیخ دائود کو دیکھتار ہا اور وہ مسکراتے رہے۔میں نے پھر ہمت کر کے پوچھا سر میری رہنمائی کون کرے گا؟مجھے منزل تک کون پہنچائے گا ؟
بولے فکر نہ کریں قرآن مجید آپ کا مرشد ہے اور سنت نبوی آپ کی رہنما۔ دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ رکھ کر پڑھو اور سمجھو اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے گا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ اس لڑکی کے بارے میں بھی پوچھوں جو چارے کے طور پر استعمال ہوئی۔ جس کی محبت مجھے اس راستے پر ڈال گئی۔ اس سے پہلے کہ میں اس کا ذکر کرتا شیخ اپنا چہرہ میرے چہرے کے مقابل لا کر بولے یاد رکھو پھل کبھی پک کر کچا نہیں ہوتا ۔ پیچھے مڑ کر دیکھا توپتھر ہو جائو گے۔ مجھے جواب مل گیا تھا اس لیے میں خاموش ہو گیا۔ شیخ بولے بس اب کمر کس لو اور مردوں کی طرح مستقل مزاجی کے ساتھ شریعت کے راستے پر چل نکلو۔ یہ راستہ خشک، بے آب و گیاہ اور معمول سے بندھا ہے۔ اس میں کوئی پیچ وخم یا مد و جزر نہیں ۔ سیدھا رستہ تا حد نگاہ ایک جیسا لینڈ سکیپ لیکن خبردار رہنا راستے میں آزمائش اور دکھ کی آندھیوں سے اکثر پالا پڑے گا۔ انکی طرف جتنی زیادہ توجہ دو گے وہ اتنی ہی زیادہ تکلیف پہنچائیں گی۔ راستے میں کچھ واضح نشانات منزل نظر آئیں گے یہاں رک کر تھوڑا دم لینا اور سوچنا ۔ جب قرآن بتائے گا کہ'' اللہ ہر چیز پر قادر ہے'' تو اس کو من و عن مان لینا اور پھر جو دل چاہے اللہ سے مانگنا وہ ہر چیز پر قادر ہے وہ میرے جیسے گنہگار کو بھی کسی دوسرے کی ہدایت کا ذریعہ بنا سکتا ہے۔ مالک کا ئنات Gliese 436 B جیسے جہانوں کا تخلیق کار بھی ہے جہاں درجہ حرارت تو 438 ڈگری سینٹی گریڈ ہے مگر اس کی سطح پر موجود زبر دست موسمیاتی دبائو وہاں پر جمی برف کو پگھلنے نہیں دیتا یعنی جلتی ہوئی برف کا جہاں اسی طرح ایسے جہان بھی ہیں جہاں ایک سے زیادہ سورج موجود ہیں۔ ایک ہی وقت میں جب ایک سورج ڈوب رہا ہوتا ہے تو دوسرا طلوع ہوتا ہے تو یقین کر لینا کہ اس کی قدرت بے انت اور ہماری عقل و فہم سے ماورا ہے۔
اور جب قرآن تمہیں بتائے کہ ''نہ غم کیا کرو اس پر جونہ مل سکے تمہیں اور نہ اِترایا کرو اس پر جو اُس نے دیا تم کو'' یہاں پہنچ کر رک جانا اور اپنی گزشتہ زندگی پر نظر ڈالنا اور پھر آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنا کیونکہ اب تم ایک ایسی راہ پر قدم رکھو گے جو سود و زیاں سے مبرا ہوگئی ۔ زمانے کے حوادث تم پر اثر انداز نہ ہونے پائیں اور نفع و نقصان برابر ہو جائے۔ یہ ایک اعلیٰ حالت ہوگی، اللہ تمہارا یہاں پہنچنا نصیب فرمائے۔ اور پھر جب تم اس منزل پر پہنچو جب اللہ تعالیٰ فرمائے کہ'' اور تم کیا چاہو مگر جو اللہ چاہے"
اس کے بعد اپنا آپ اللہ کے حوالے کر کے اپنا اختیار ترک کر دینا اور اللہ کی رضا پر راضی رہنا اور اس کے بعد کسی بھی وقت وصال کی امید رکھنا " عنقریب تمہارا رب تم کو اتنا دے گا کہ تم خوش ہو جا ئوگے''
میرے پاس اب کہنے سنے کو کچھ نہیں رہا تھا مگر شیخ دائود کا چہرہ اسی طرح روشن اور چمکدار تھا۔ اتنے میں ٹوٹے ہوئے شیشوں اور گولیوں کے ٹکڑوں سے آٹے ہوئے مسجد کے صحن سے قدموں کی آواز آئی۔ میرا ڈرائیور بوٹوں سمیت اندر گھسا چلا آ رہا تھا۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے مسجد سے باہر رکنے کا کہا اور شیخ سے اجازت لینے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا کیونکہ قافلہ روانگی کے لیے تیار ہو چکا تھا۔ شیخ دائود بھی اٹھ کر کھڑے ہو گئے ان کا سراپا مسکرارہا تھا اور عود عراقی کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔
انہوں نے مجھے گلے سے لگایا اور خوب بھینچا یہاں تک کہ عود کی خوشبو یو نیفارم سے گزر کر میرے رگ و پے میں سما گئی۔ ایک خوشبو دار اور روشن نرمی میرے اندر سرائیت کرتی جارہی تھی۔ شیخ بولے اب جا ئواپنا راستہ ما پو اورمخلوق پر مہربان ہو جائو۔ اللہ تمہیں شہادت عطا فرمائے گا۔ ہاں یا درکھنا شریعت اور طریقت دونوں کی ابتدا بھی ذکر ہے اور انتہا بھی ذکر۔ اللہ تمہاری حفاظت کرے اور تمہیں معرفت عطا فرمائے۔
مسجد سے باہر نکل کر میں نے اپنے بوٹ پہنے، جیب سے رومال نکالا اور شیخ دائود کے جوتے جھاڑ کر انہیں سیدھا کر کے رکھ دیا۔ جب پیچھے مڑ کے دیکھا تو شیخ دائود کھڑے ہاتھ ہلا رہے تھے ، الوداع کہہ رہے تھے۔ میں نے بھی ہاتھ ہلایا اور ایک نئے یقین پختہ ارادے اور عزم کے ساتھ اپنے قافلے کو لے کر منزل کی جانب روانہ ہو گیا۔
مضمون نگار عسکری ودیگر موضوعات پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے