دس ارب ڈالر کی مالیت سے تیار شدہ جیمز ویب ٹیلی سکوپ اس وقت خلا میں ہے اور ہمیں ماضی کی تصاویر بھیج رہی ہے۔یہ تصاویر ان کہکشائوں اور ستاروں کی ہیں جو ہم سے لاکھوں نوری سال کے فاصلے پر ہیں، ان تصاویر میں خلا میں لا تعداد چمکتے ہوئے ذرات نظر آرہے ہیں جنہیں زوم کر کے دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ماضی میں یہ ذرات دراصل کہکشائیں تھیں۔ سوال یہ ہے کہ ماضی میں کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟ کیا زمین کے علاوہ بھی کہیں زندگی موجود ہے؟ بلیک ہول کیا ہے؟ ستارے کیسے بنتے ہیں ؟ اس کائنات کا راز کیا ہے؟ کیا کبھی یہ معلوم ہو سکے گا کہ ہم کہاں سے آئے اور کہاں جا رہے ہیں ؟ جیمز ویب ٹیلی سکوپ شاید مستقبل میں ان سوالات کا جواب تلاش کر سکے ، اس کو ہبل ٹیلی سکوپ کا جانشین کہہ سکتے ہیں۔ ہبل ٹیلی سکوپ کے مقابلے میں جیمز ویب سو گنازیادہ طاقتور ہے۔ جو تصاویر جیمز ٹیلی سکوپ نے بھیجی ہیں ان کے لیے اسے خلا میں دس لاکھ کلومیٹر کا سفر طے کر کے ایسے مقام تک پہنچ کر پڑائو ڈالنا پڑا، جسے ماہر فلکیات 2 L کہتے ہیں۔ یہ جگہ زمین کے قریب اور ہمارے سورج کے مقابل ہے اور یہاں سے خلا کا مشاہدہ کرنا نسبتاً آسان ہے یہی وجہ ہے کہ ماضی میں بھی مختلف دور بینوں کے لیے اسی جگہ کا انتخاب کیا گیا۔ جیمز ویب ٹیلی سکوپ نے جو تصاویر بھیجی ہیں ان میں سے ایک تصویر ایسی ہے جو چار کہکشائوں کے جھرمٹ کی ہے جو ہم سے تیس کروڑ نوری سال کے فاصلے پر ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے ایک کہکشائوں زمین سے صرف چار کروڑ نوری سال کے فاصلے پر ہے لیکن تصویر میں ہمیں باقی تین کہکشائوں کے ساتھ ہی نظر آرہی ہے۔
یہ کہکشائوں کا واحد گروہ ہے جو اب تک انسان نے دریافت کیا ہے جو یوں آپس میں جڑا ہوا لگتا ہے ۔ دو کہکشائیں ایک دوسرے میں ضم ہوتی نظر آرہی ہیں جبکہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ چاروں آپس میں ضم ہو جائیں گی۔ اگر اس واحد تصویر کو بڑا کر کے دیکھا جائے تو پس منظر میں ہمیں لا تعداد چھوٹی بڑی روشنیاں نظر آئیں گی ، یہ روشنیاں دراصل ان کہکشائوں کی ہیں جو ان چار کہکشائوں کے علاوہ ہیں اور یوں اس ایک تصویر میں ہم ہزاروں یا شاید لاکھوں کہکشائیں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ ایک کہکشاں میں کروڑوں اربوں ستارے اور سیارے ہوتے ہیں۔ ایک دوسری تصویر میں جیمز ویب ٹیلی سکوپ نے ایک ایسے نقطے(غالب ستارے)کا بھی مشاہدہ کیا ہے جو 13.1 ارب سال پہلے وجود رکھتا تھا۔ جب ہم کہتے ہیں کہ تیرہ ارب سال پہلے وجود رکھتا تھا تو اس کا مطلب ہے کہ اگر جیمز ویب ٹیلی سکوپ نے ماضی میں جھانک کر دیکھ لیا تو شاید ہم کبھی یہ جان پائیں کہ 13.7 برس پہلے بگ بینگ کیسے ہوا تھا بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ بگ بینگ ہوا بھی تھا یا نہیں ؟
اُوپر میں نے جتنی بھی باتیں لکھی ہیں ، ان میں سے زیادہ تر واوین میں ہیں اور اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ عام آدمی پیچیدہ سائنسی تراکیب کا مطلب نہیں جانتا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ خود میں بھی نہیں جانتا۔ جب ہم کہتے ہیں کہ جیمز ٹیلی سکوپ ماضی کی تصاویر بھیج رہی ہے تو مجھے یہی سمجھ آتی ہے کہ ہم کسی شے کو اسی صورت میں دیکھ پاتے ہیں جب روشنی اس شے سے منعکس ہو کر ہم تک پہنچتی ہے ۔ کسی پہاڑی مقام سے اگر ہم خلا کی طرف دیکھیں ، بشر طیکہ مطلع صاف ہو ، تو ہمیں اپنے نظام شمسی کے سیارے نظر آئیں گے۔ ان سیاروں کی روشنی ہم تک پہنچنے میں کچھ وقت لگتا ہے ، مثلاً مریخ کی روشنی ہم تک تین منٹ میں پہنچتی ہے ، گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب ہم مریخ کی طرف دیکھتے ہیں تو ہم تین منٹ ماضی میں دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ اسی طرح جب ہم خلا میں کوئی عظیم الشان دھماکہ دیکھتے ہیں، جیسے کہ سپر نووا، تو وہ دھما کہ اس لمحے وقوع پذیر نہیں ہو رہا ہوتا، وہ اس سے پہلے ہو چکا ہوتا ہے ، ہم تک جب دھماکے کی روشنی پہنچتی ہے تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ یہ ہو چکا ہے۔ لہٰذا جب ہم کہتے ہیں کہ جیمز ویب ٹیلی سکوپ ہمیں ماضی کی تصاویر دکھا رہی ہے تو یہ اس وجہ سے ممکن ہے کہ اس ٹیلی سکوپ کا پڑائو زمین سے دس لاکھ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور وہاں سے بھی یہ خلا کی وسعتوں کو چیر کر گہرائی میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اس لیے یہ ان ستاروں اور کہکشائوں کو بھی دیکھ سکتی ہے جنہیں ہم زمین سے نہیں دیکھ سکتے۔
اس ٹیلی سکوپ نے ابھی صرف چند تصاویر ہی بھیجی ہیں جنہیں دیکھ کر سائنس دان تو کیا عام بندہ بھی حیران ہو گیا ہے۔ ان تصاویر نے اس سوال میں نئی جان ڈال دی ہے کہ کیا واقعی ہم اس کا ئنات میں تنہا ہیں یا کہیں کوئی اور بھی مخلوق بستی ہے ؟ ریاضی دانوں نے حساب لگا کر ہمیں بتایا ہوا ہے کہ ایسی کسی مخلوق کا ہونا ممکن نہیں،( ملاحظہ ہو ڈریک مساوات) مگر کائنات کی وسعتوں کو دیکھ کر یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ان اربوں کھربوں کہکشائوں میں کہیں زندگی نہیں ہو گی۔ مریخ پر بھیجے جانے والی روبوٹ نما مشین بھی ہمیں روزانہ مریخ کی تصاویر بھیجتی ہے ، ان کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے یہ مریخ نہیں بلکہ بلوچستان کا کوئی دور افتادہ حصہ ہو۔ ایسے اَرب ہا اَرب سیارے اس کا ئنات میں موجود ہیں، کیا پتا کسی روز کہیں سے کوئی ہماری مزاج پرسی کے لیے آجائے ! میں کوئی سائنس دان نہیں اور نہ ہی ماہر فلکیات ہوں، اس لیے مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ جب ہم کہتے ہیں کہ کائنات پھیل رہی ہے تو یہ ہبل اور اسی نوع کی دور بینوں کے مشاہدے کی بنا پر ہی کہتے ہیں، لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ یہ کائنات پھیل چکی ہو اور اب سکڑ رہی ہو۔ چونکہ ہم ماضی میں دیکھ رہے ہیں اس لیے کائنات کے سکڑنے کے عمل کا مشاہدہ ابھی ممکن نہ ہوا ہو، کوئی ماہر فلکیات اگر میری الجھن رفع کر دے تو میں آج رات چین کی نیند سو سکوں گا۔
جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ NASA ، یورپی خلائی ایجنسی (ESA) اور کینیڈا کی خلائی ایجنسی کے اشتراک سے بنائی گئی ہے ۔ اس کے بننے میں تیس برس لگے اور اس میں 29 امریکی ریاستوں کی تین سو جامعات، تنظیموں اور کمپنیوں نے حصہ لیا جبکہ امریکا کے علاوہ 14 ممالک بھی اس منصوبے میں شریک تھے۔ ان 14 ممالک میں ترکی ، انڈو نیشیا، ملائشیا ، قطر ، سعودی عرب، پاکستان اور افغانستان شامل نہیں تھے اور نہ ہی مستقبل میں ہمارا ایسا کوئی ارادہ ہے۔
مضمون نگار معروف کالم نویس اور تجزیہ نگار ہیں۔
[email protected]
تبصرے