مئی1948 میں ہونے والے آپریشن کی جرأت آمیز داستان
ابتدائیہ:
جنگ کشمیر(1947-48) کے دوران دو معرکوں کو بہت شہرت حاصل ہوئی تھی۔ پہلی پانڈو کے معرکے کو اور دوسری چُنج کے معرکے کو۔ چُنج ایک تکونی پہاڑی چوٹی(بلندی9444فٹ) اور اس سے مربوط سامنے والی کم بلندی والے پہاڑی سلسلے کا نام ہے۔ جن کی بتدریج بلندی 6953اور7229فٹ ہے۔ بھارتی فوج کے 163بریگیڈ نے پندواڑہ (مقبوضہ کشمیر) سے کشن گنگا وادی کے لیے 17/18مئی1948کو رخت سفر باندھا۔ ان کی منزل ٹیٹوال تھی۔ راستے میں قبائلی لشکر خاص طورپرمحسود لشکر نے اس پیش قدمی کی مختلف جگہوں پر سخت مزاحمت کی لیکن وہ اس ریگولر فوج کو نہ روک سکے اور دشمن نے دریائے نیلم (کشن گنگادریا) کے کنارے واقع ٹیٹوال ٹائون پر 23مئی1948کو قبضہ کرلیا۔ جب یہ بریگیڈ ٹیٹوال کے لیے روانہ ہوا تو تشویش کی لہر دوڑ گئی کیونکہ یہ ایک بہت ہی خطرناک تزویراتی پیش قدمی تھی۔ اس کے ساتھ ہی دشمن کے دو بریگیڈ (161اور77) نے اوری سیکٹر(وادی جہلم) میں اپنی جنگی کارروائیوں اور مظفر آباد کی طرف ممکنہ پیش قدمی کاآغاز کیا تھا۔ مقصد مظفر آباد اور کوہالہ پر قبضہ تھا۔ ٹیٹوال سے مظفر آباد کا فاصلہ تقریباً30میل ہے اور اس وقت اس راستے پر ہماری سپاہ نہ ہونے کے برابر تھی۔
پاکستان نے انفنٹری بریگیڈ جو اس وقت ایبٹ آباد میں تھا اور جس کے کمانڈر بریگیڈیئر حاجی افتخار احمد تھے ،کو 23مئی کو فوراً ٹیٹوال سیکٹر پہنچے کا حکم دیا۔ اس دن انڈین بریگیڈ کا بڑا حصہ ٹیٹوال پہنچ چکا تھا۔ پاکستان کی اس سیکٹر میںایف ۔ ایف (گائیڈز) کی صرف ایک کمپنی تھی اور اس کے علاوہ علاقے میں پھیلے ہوئے کچھ قبائلی لشکر تھے۔
عمومی حالات:
انڈین بریگیڈ کمانڈر بہر بخش سنگ نے مزید دو دن ٹیٹوال میں انتظار کیا تاکہ اس بریگیڈ کی مزید نفری وہاں پہنچ جائے اور وہ مزید پیش قدمی کے منصوبے کو ترتیب اور منظم کرسکے۔ ساتھ ہی وہ اپنے حملے اور جارحانہ کارروائی کو جہلم ویلی میں بھارتی پیش قدمی کے ساتھ مربوط اور ہم آہنگ کرنا چاہتا تھا تاکہ مظفرآباد پر دوطرفہ حملے کا نفسیاتی اور مادی دبائو ڈالا جاسکے۔انڈین بریگیڈکمانڈر کی اسی دودن کی تاخیر کا وادی کے آپریشن اور اس علاقے کی آئندہ عسکری سرگرمیوں پر گہرا اثر ہوا کیونکہ اسی اثناء میں پنجاب رجمنٹ کی دو کمپنیاں میجر اکبر کی قیادت میں ٹیٹوال کے نزدیک پہنچ گئیں ، وہاں پوزیشن سنبھال لی۔ کچھ اور یونٹس بھی اس دوران وہاں پہنچ گئیں۔ مئی کے آخر تک ٹیٹوال سیکٹر میں ہماری مندرجہ ذیل یونٹیں وہاں مورچہ زن ہوچکی تھیں۔
ایف۔ ایف ۔رجمنٹ گائیڈز ایک کمپنی کم۔ لیفٹیننٹ کرنل کریمداد خان
پنجاب رجمنٹ ایک کمپنی کم۔لیفٹیننٹ کرنل نوشیروان
ایف ایف رجمنٹ۔ ایک کمپنی کم۔ لیفٹیننٹ کرنل عزیز الدین
مشین گن کمپنی پنجاب رجمنٹ
مائونٹین بیٹری۔
فیلڈ کمپنی۔ انجینئرز
قبائلی لشکر۔ 500-700افراد
انڈین آرمی نے کپواڑہ سے ٹیٹوال تک اپنی کافی حد تک خراب سڑک کو تقریباً دو ہفتے میں صاف اور قابلِ استعمال بنادیا تھا۔ اس کے ذریعے انہوں نے اپنا میدانی اور درمیانی درجے والا توپ خانہ اُس سیکٹر میں پہنچا دیا اور ساتھ ہی باقی سپلائی لائن بھی بحال کردی ۔ اس کے برعکس ہماری طرف مظفر آباد تک ٹریک تقریباً 30میل لمبا تھا اور صرف خچروں اور پیدال سفر کے لیے موزوں تھا ، اس کے ایک طرف تیز دھار اور طوفانی دریا بہہ رہا تھا اور کئی جگہوں پر پتھر کی دیواروں کے بجائے صرف لکڑی کے قینچی دار تختے لگا کر ٹریک کے کنارے بنائے گئے تھے، انجینئرز نے اس ٹریک کو چوڑا کرنے کا کام سنبھالا ۔پہلے اُسے جیپوں کے استعمال کے لیے بنایا اور پھر ڈاجوں کے چلنے کے قابل بنایا۔ پوسٹوں تک سامان زیادہ تر پورٹرز یا فوجی خود پیدل لے کر جاتے تھے۔ جون کے دوران ہمارے انجینئرز نے گہوڑی (مظفر آباد کے نزدیک) کے مقام پر دریا پر فولادی رسوں کی مدد سے ایک پُل بنایا جس کے ذریعے بعد میں 3.7انچ توپیں نوسہری لے جائی گئیں۔
چُنج ایک اونچے پہاڑوں کا مربوط سلسلہ ہے جو ٹیٹوال کے شمال مغرب میں دریائے نیلم کے پار واقع ہے۔اس کی سب سے اونچی چوٹی9444فٹ (دریا سے دور تر ) اور دوسری دو چوٹیاں 7229فٹ اور6935فٹ سب سے اونچی چوٹی کے مشرق میں ہیں۔ ان کو ایک نہایت ہی تنگ چوڑی زمینی پٹی نے آپس میں ملا رکھا ہے۔چُنج سلسلہ کے سامنے جنوب میں دریا کے پار کافر خان پہاڑی سلسلہ ہے جس کی اس ایریا میں بلندچوٹی پیر صحابہ(7802فٹ) ہے جو وہاں سے بتدریج بلندی میں کم ہوتی ٹیٹوال سے تقریباً3میل جنوب مغرب میں دریائے نیلم کے ساتھ مل جاتی ہے۔
ابتدائی تیاری اور کارروائی:
24مئی1948ء کو پنجاب رجمنٹ نودرہ پہنچ گئی اور اس کی ایک پلاٹون کو چُنج پہاڑی کی جنوبی چوٹی پوائنٹ7229پر قبضہ کرنے کے لیے بھیج دیا گیا۔ جو دریائے نیلم کے پار شمال میں واقع تھی۔ باقی ماندہ یونٹ کو دریا کے جنوب میں پیر صحابہ پوائنٹ7802 پر بھیج دیا گیا تاکہ بعد میں وہ رچمار گلی پر حملے کے لیے استعمال ہوسکے۔جو وہاں سے تقریباً 2میل دور تھا۔ 25مئی کوایف ۔ ایف رجمنٹ بھی لیفٹیننٹ کرنل عزیز الدین کی قیادت میں علاقے میں پہنچ گئی اور ان کو دریا کے جنوب میں پیر صحابہ رج اور میری کلسی کے ایریا میں صف بند کردیا گیا۔اسی اثناء میں تیسری یونٹ ایف۔ ایف (گائیڈز) کا بڑا حصہ بھی وہاں پہنچنا شروع ہوگیا۔
انڈین آرمی نے 25مئی کی صبح ایک بٹالین کے ساتھ ٹیٹوال سے دریائے نیلم عبور کرکے پوائنٹ 7229کی طرف بڑھنا شروع کردیا تاکہ اُس پر قبضہ کرسکے۔ پوائنٹ7229پر ہماری ایک کمپنی سے بھی کم تعداد تھی۔ دشمن نے مارٹرز ۔ توپ خانے کے فائر اور ایئر فورس کی Strafingکی مدد سے حملہ کیا اور شام تک اس پوزیشن پر قبضہ کرلیا۔ پاکستانی سپاہ مغرب کی سمت جو گلی اور ختمبال کی طرف پیچھے ہٹ گئی۔ اسی اثناء میں مظفر آبادسے ایک محسود لشکر (300افراد) اور ایف ایف (گائیڈز) کی ایک کمپنی چوگلی اور ختمبال میں پہنچ گئیں۔ اگلے ہی روز 150افراد پر مشتمل آفریدی لشکر بھی محسود لشکر سے آملا۔اس تمام نفری کے ساتھ پوائنٹ7229پر قبضہ کرنے کے لیے تین دفعہ حملہ کیا گیا لیکن کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ اس کی بڑی وجوہات اول دشمن کا کثیر تعداد میں ہونا، دوئم ریگولر آرمی سپاہ کی خاطر خواہ تعداد کا نہ ہونا، اور سوم توپ خانے اور مارٹرز فائر کا نہ ہونا تھیں۔ پوائنٹ7229پر قبضے کے بعد دشمن نے اپنی پوزیشن کو چُنج کے سب سے اونچے پوائنٹ کی طرف والی رِج (Ridge)کی طرف پھیلانا شروع کردیا اور اپنی ایک بٹالین گروپ کو وہاں مورچہ بند کردیا۔ دشمن نے پوائنٹ 7229سے لیکر پوائنٹ6953 والی رِج لائن کو ایک ناقابل تسخیر دفاعی پوزیشن میں تبدیل کردیا اور وہاں خاردار تاریں، بارودی سرنگیں، مارٹرز اورمشین گنیں لگا دیں۔ یہاں سے مشرق اور جنوب کی طرف دریا کے ساتھ اور پار ہماری تمام پوزیشنز ان کے براہ راست مشاہدے اور فائر کے سامنے تھیں جوکہ نوسدہ تک قریباً5/6میل کا ایریا بنتا ہے۔ اسی علاقے میں ہم دن کو کوئی بھی حرکت نہیں کرسکتے تھے۔
اس پس منظر میں 10جون کوایف ایف رجمنٹ کے میجر خلیل کو پوائنٹ 7229پر حملے کا حکم دیا گیاتاکہ دشمن کو وہاں سے نکالا جاسکے۔ گائیڈز کی دوکمپنیوں نے 11جون صبح7بجے حملہ کیا اور رِج کی بلند چوٹی پر چڑھنے میں کامیاب ہوگئے اور تقریباً4گھنٹے کی مسلسل خون ریز اور سخت جنگ کے بعد دشمن کو اس پوزیشن سے نکال باہر کیا اور پوائنٹ 7229پر قبضہ کرلیا۔ جلد ہی دشمن نے جوابی حملہ کیا جوناکام بنا دیا گیا۔ دشمن نے اگلے 2دنوں میں تین جوابی حملے کیے جو ناکام بنادیئے گئے۔ ان حملوں میں دشمن نے آرٹلری اور ایئر فورس کا بے دریغ استعمال کیا جس میں ہماری تقریباً40فیصد سپاہ یا تو شہید ہوگئی یا زخمی ہوگئی۔ اس لیے اس نازک صورتحال اور اس جگہ کو قبضے میں نہ رکھ سکنے کی وجہ سے کمپنیوں کو یہ پوزیشن چھوڑنا پڑی۔ اور وہ مغرب کی سمت ختم بال اور کیل گراں کی طرف چلے گئے۔ دشمن نے withdraw کرتی ہوئی سپاہ کا پیچھا نہیں کیا۔ اگلے ایک ہفتے کے دوران گائیڈز کی باقی ماندہ کمپنیاں اور یونٹ ہیڈ کوارٹرز لیفٹیننٹ کرنل کریم داد کی کمانڈ میں ان دو کمپنیوں سے آملے اور چُنج اور پوائنٹ7229کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا۔
پوائنٹ7229کی اس جنگ کے بعد محاذ پر خاموشی چھاگئی۔
یکم جولائی1948کو گائیڈز کی جگہ پنجاب رجمنٹ نے لے لی۔ جس کے کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل نوشیروان تھے۔ انہوں نے دشمن کی پوزیشنوں اور حرکات و سکنات کا بغور جائزہ لیااور مکمل قراولی کی۔ ساتھ ہی انہوں نے پوائنٹ7229پر ہونے والے تمام حملوں کی ناکامی کا بغور اور تفصیل سے جائزہ لیااور اس نتیجے پر پہنچے کہ اسی پوائنٹ پر سامنے سے حملہ ممکن نہیں ہے۔ صرف چُنج کی سب سے بلند چوٹی (9444)کی طرف سے نیچے آتے ہوئے اور چُنج کی مغربی ڈھلانوں کی طرف سے حملہ کیا جاسکتا ہے اور ساتھ ہی آرٹلری کی فائر سپورٹ کی ضرورت پر زور دیا کہ اُس کے بغیر آپریشن کی کامیابی ممکن نہیں۔ ان تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے حملے کے پلان کو ترتیب دیا ۔ ہماری آرٹلری چونکہ جنوب میں دریا کے پار نوسدہ کے ایریا میں تھی اور دریا پر پل نہ ہونے کی وجہ سے اُسے شمال کی سمت جدھر آپریشن ہونا تھا نہ لایا جاسکتاتھا، اس لیے ہماری حملہ آور سپاہ آرٹلری فائر سے محروم تھی۔ لیکن اس کا ایک حل نکالا گیا اور ایک 3.7انچ ہائوٹنرر (گن) کو ٹکڑوں میں کھول کر رسوں کے ذریعے دریا کے پار لے جایا گیا بمعہ اس کے ایمونیشن کے اور پھرManPackکرتے ہوئے پوائنٹ9444کی جنوبی ڈھلان پر لے جا کر دوربارہ جوڑا گیا۔ اس جگہ سے دشمن کی پوائنٹ7229پر پوزیشن نیچے نظر آتی تھی۔ گن اب فائر کے لیے تیار تھی اس کام میں دو دن صرف ہوئے تھے۔ اسی گن کو شہزادی کا نام دیا گیا تھا۔
دشمن کی اس فیچر پر ایک بٹالین سے زیادہ نفری تھی(11سکھ+) جو پوائنٹ7229 خولے گائوں اور پوائنٹ6953پر پھیلی ہوئی تھی۔انہوں نے اس پوزیشن کو مضبوط بنکروں، بارودی سرنگوں ، چاروں طرف خاردار تاروں اور مشین گن دمدموں کی مدد سے ایک چھوٹے قلعے کی مانند ناقابل تسخیر بنا رکھا تھا۔ مارٹرز اور توپ خانے کا فائر بھی میسر تھا۔ آرٹلری نے پوزیشن کے چاروں طرف دفاعی فائر کے لیے ہدف پہلے ہی سے رجسٹرکررکھے تھے۔2جولائی کو کرنل نوشیروان نے حملے کے لیے احکامات جاری کیے جو ایک ہفتے بعد ہونا تھا۔ اس درمیانی عرصے میں آپریشن ہرممکن کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے کمانڈنگ آفیسر کی طرف سے مندرجہ ذیل اقدامات کیے گئے۔
٭یونٹ کے تمام افسران ۔ جونیئر کمیشنڈ افسران اور نان کمیشنڈ افسران کو حملے کے راستے ۔ دشمن کے دفاعی مقامات اور اپنے اپنے اہداف دکھا دیئے گئے۔
٭ دشمن کے ایریا کی قراولی بہت ہی خاموش اور خفیہ طریقے سے کی گئی۔
٭ کمانڈنگ آفیسر نے دشمن سے صرف300گز کے فاصلے پر تقریباً پورادن چھپ کر بیٹھے ہوئے ان کی حرکات و سکنات کا جائزہ لیا۔
٭ دشمن کی پچھلی پوزیشن پر لگی ہوئی کمپنیوں کے راستے اور جگہوں کا پتہ لگانے کے لیے پیٹرول بھیجے۔
٭تمام حاصل کردہ معلومات روزانہ کی بنیاد پر تمام افسران کو بتائی جاتی رہیں۔
7 جولائی48کو حملے کے لیے آخری احکامات دیئے گئے جس کے مطابق8جولائی صبح5بجے حملے کا وقت مقرر کیا گیا۔ تمام تیاریاں مکمل ہونے پر لیفٹیننٹ کرنل نوشیروان نے یونٹ سے خطاب کیا۔
فیزI اے اور بی کمپنیاں بشمول آزاد پلاٹون میجر غلام رسول اور کیپٹن حبیب اللہ کی قیادت میں پوائنٹ6953پر صبح8بجے تک قبضہ کریںگی۔
فیزII: سی اور ڈی کمپنیاں میجر ظفر اللہ اور صوبیدار میاں خان کی قیادت میں پوائنٹ7229پر فیزون کے بعد قبضہ کریںگے۔
اس آپریشن کے لیے براہ راست توپ خانے کی مدد واحد گن 'شہزادی' سے حاصل تھی۔ جس جگہ Gun Pitبنا کر گن لگائی تھی وہاں سے ٹارگٹ ایریا صرف ایک ہزار سے،1500 ، گز دُور تھا لیکن ٹارگٹ گن کی پوزیشن سے قریباً2000فٹ نیچے تھے یعنی Line of siteمنفی تھا اور منفی لائن آف سائیٹ پر آرٹلری گن فائر نہیں کرسکتی تھی۔
اس کا حل یہ نکالا گیا کہ گن کی Trailsیعنی دونوں ٹانگوں کو اٹھا کر درخت کے تنے کے ساتھ باندھ دیا گیا تاکہ وہ فائر کے وقت گن کے Recoilکو برداشت کرسکے۔ یہ عمل توپ خانے کی تاریخ میں ایک منفرد عمل تھا اور ایسا صرف چُنج آپریشن میں ہوا۔
اجتماع اور حملہ:
حملہ آور سپاہ7جولائی کی رات کو ہی اپنی اجتماع گاہ چوگلی میں جمع ہوگئی اور دوسرے دن صبح سویرے ہی اپنے حملے کی جگہ پر پہنچ گئی ۔ جب حملے کی ابتدائی لائن پر صبح5بجے پہنچے تو انہیں دشمن کی طرف سے غیر معمولی ہل چل محسوس ہوئی۔ ( یہ بعد میں معلوم ہوا کہ رات کو ہی مدراس بٹالین نے سکھ بٹالین کی جگہ سنبھال لی تھی) اور وہ ابھی تک اُسی کیفیت میں تھے۔ ہر کمپنی کے ساتھ بگلر کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ حملے کے وقت بگل بجائے گا۔ 5بجے صبح بگل بجائے گئے اور حملہ شروع کیا گیا۔ اللہ اکبر کے نعروں سے فضا گونج اُٹھی اور پرشور حملے کے آغاز سے ہی اگلے مورچوں میں دو بدو جنگ شروع ہوگئی۔
دشمن کے اگلے مورچوں میں سے زیادہ تر کو گرنیڈوں سے تباہ کردیا گیا۔ اے اور بی کمپنیوں نے اپنے اپنے اہداف بخوبی حاصل کیے۔ دن کی روشنی پھلتے ہی 'شہزادی' نے ایک ایک کرکے دشمن کے بنکرز کو براہ راست فائر سے تباہ کرنا شروع کردیا۔ تو دشمن کے لیے ایک محیر العقول اور پریشان کن عمل تھا کہ اس بلندی سے ایک توپ ان پر گولے برسا رہی تھی۔ یہ تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ کیپٹن رائو فرمان علی (فارورڈ آبزرویشن آفیسر) 'شہزادی' گن کے علاوہ 2مائونٹین بیٹری جو نوسدہ کے علاقے میںdeployتھی کے فائر کو بھیDivertکررہے تھے۔مائونٹین بیٹری نے قریباً500گولے پوائنٹ7229اور اس کے اطراف میں فائر کیے تھے۔ اگلے قریباً ایک سے دو گھنٹے میں دشمن کی اس پوزیشن کو زمین سے ملا دیا گیا تھا اور دشمن اپنے30فوجیوں کو مروا اور 13کو قیدی چھوڑ کر فرار ہوگیا تھا۔ کافی مدراسی فوجی بھاگتے ہوئے اپنی ہی بارودی سرنگوں کا شکار ہوگئے ، جوان کے پیش رو سکھوں نے وہاں بچھائی تھیں۔ دشمن کا توپ خانہ بھی اس حملے میں زیادہ فعال نہیں تھا اور ان کی توجہ شاید پیر صحابہ پر تھی جہاں پر ہماری طرف سے دشمن کی توجہ ہٹانے کے لیے ایکdiversionaryحملہ کیا گیا تھا۔اس پوزیشن سے دشمن کا بہت سارا اسلحہ ایمونیشن اور سٹورز وغیرہ ہمارے ہاتھ لگے تھے۔
صبح کی روشنی پھیلتے ہی اور پہاڑوں کے اوپر سے دھند کے خاتمے کے ساتھ ہی دشمن کے جہاز نمودار ہوئے اور 'شہزادی' گن کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ گن پوزیشن آفیسر (صوبیدا فتح محمد) نے گن پوزیشن پر موجود تمام چھوٹے ہتھیاروں بشمول لائٹ مشین گن جہاز پر فائر کرنے کا حکم دیا جس کے نتیجے میں مشین گن کے ایک برسٹ سے ایک جہاز میں آگ لگ گئی اور جہاز دشمن کی پوزیشن کے پیچھے والے علاقے میں گر کر تباہ ہوگیا۔ اس کے بعد کوئی جہاز اُدھر نہیں آیا۔ پہلے فیز کے مکمل ہونے کے بعد حملے کی رفتار کافی حد تک کم ہوگئی جس کی بڑی وجہ پوائنٹ7229 کے ارد گرد دشمن کی بچھائی ہوئی لاتعداد بارودی سرنگیں تھیں۔فیلڈ کمپنی انجینئرز کی ایک پلاٹون کو بارودی سرنگیں ہٹانے کے لیے بلالیا گیا۔ حالانکہ یہ کمپنی اس وقت دریا کے شمال میں ایک ٹریک بنانے میں مشغول تھی۔ اس کمپنی میں زیادہ تر ریکروٹ تھے۔ جس کی وجہ سے سرنگیں ہٹانے کا کام بہت آہستہ تھا۔ اس پر میجر سلوآن جو کے مستعار شدہ برٹش آفیسر تھا اور برٹش ہائی کمانڈ کی طرف سے ایسے تمام آفیسرز کے لیے جنگی زون میں جانے کی ممانعت تھی، اپنے جوانوں کو ممکنہ خطرے سے بچانے کے لیے خود رضاکارانہ طور پر اگلے جنگی علاقے تک آیا اور بارودی سرنگوں اور بوبی ٹریپ کو اُٹھانے میں مدد کرنے لگا۔ اسی اثناء میں ایک عمودی ڈھلوان پر چڑھتے ہوئے پھسل کر ایک Trip wiseپر گرا جس سے ایک بارودی سرنگ پھٹنے سے ہلاک ہوگیا۔ بعد ازاں اُسے مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ ایبٹ آباد میں دفنا دیا گیا۔
دشمن کی لگائی ہوئی بے تحاشا بارودی سرنگوں کو اُٹھانے میں بہت دیر ہونے کے خدشے کے پیش نظر اگلے فیز کے حملے کو ایک دن کے لیے ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور رات کو تمام نقل و حرکت بند کردی گئی اور دشمن کے کسی بھی جوابی حملے کو روکنے کے لیے پوزیشن کے چاروں طرف سٹینڈنگ پیٹرول اور Listening Posts قائم کردیں۔ البتہ دشمن تقریباً ساری رات ہی مشین گنوں ، مارٹرز اور آرٹلری سے No Man's Landپر فائر کرتا رہا۔ کرنل نوشیروان نے 9جولائی کو دوسرے فیز کے لیے احکامات جاری کرنے کا ارادہ کیا لیکن اُن کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ صبح ہونے سے پہلے ہی محاذ پر ایک بدشگونی اوریاسیت والی خاموشی چھاگئی اوردشمن کی مشین گنوں کا فائر اچانک رک گیا اور کچھ دیر بعد پوائنٹ7229کی طرف سے اپنے ایک بگلر کو آتے دیکھا گیا جس نے یہ اطلاع دی کہ کرنل نوشیروان پوائنٹ7229پر موجود ہیں اور انہوںنے سی اور ڈی کمپنیوں کو فوراً وہاں پہنچے کے احکام دیے ہیں۔ دونوں کمپنیوںنے وہاں پہنچ کر پوائنٹ7229پر قبضہ کرلیا۔ اصل میں دشمن رات کو ہی پوائنٹ7229کو مکمل طور پر خالی کر گیا تھا اور اپنی نقل و حرکت کو کور کرنے کے لیے اس نے ہر طرح کا فائر جاری رکھا۔ سی کمپنی نے آگے بڑھ کرچلہانہ گائوں جو وہاں سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر ٹیٹوال کے سامنے تھا اس پر بھی قبضہ کرلیا۔ دشمن نے جاتے ہوئے ٹیٹوال کے سامنے دریا پر پل بھی تباہ کردیا کہ مبادا پاکستانی ان کا پیچھا کرتے ہوئے اُسے عبور نہ کریں۔ حالانکہ اُس وقت تک ان کی مدراس بٹالین مکمل طور پر دریا کے پار بھی نہیں پہنچی تھی۔ نتیجتاً بہت سے مدراسی سپاہ دریا کو تیر کر عبور کرنے کی کوشش میں تیز دھار پانی میں بہہ گئے۔
اس معرکہ میں ہمارے 7شہید اور20زخمی ہوئے۔ بعد ازاں دشمن کی لگائی بارودی سرنگوں کی وجہ سے مزید 3شہید اور 5زخمی ہوئے۔بھارتی اپنی شکست کو چند الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ پوائنٹ9444کو خالی رکھنا بڑی حماقت تھی اور بریگیڈ کمانڈر سری نگر گیا ہوا تھا اور بریگیڈ میجر کے مطابق مدراس پلٹن کا کمانڈر دل چھوڑ گیا۔اُن کو وہم و گمان بھی نہ تھا کہ چُنج کی اُس بلند جگہ سے توپ کے گولے اُن کے سروں پر برسیں گے۔
چُنج پہاڑی کی فتح ایک عظیم فتح تھی۔ جس نے اُس علاقے کی آئندہ تاریخ ہی بدل ڈالی۔ اس معرکہ میں جس طرح آرٹلری کی واحد گن 'شہزادی' نے براہ راست دشمن کے دفاعی مورچوں کو اُدھیڑ کر رکھ دیا وہ عسکری تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھاجائے گا۔ دشمن کا خیال تھا کہ چُنج پہاڑ سے آرٹلری کی پوری بیٹری فائر کررہی تھی۔
چُنج آپریشن کی کامیابی کی پانچ بڑی وجوہات تھیں۔
پہلی ذہنی تصور یا منصوبے کی اختراعی اصلیت( عمومی و دفاعی حالات اور زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے)۔Originality in Concept
دوسری۔ اپنی دستیاب شدہ سپاہ کا صحیح استعمال۔
تیسری۔ اہداف کے بارے میں مفصل معلومات ( نیچے سیکشن کمانڈر لیول تک)
چوتھی۔ انوکھے اور ذہین طریقے سے مسئلے کا برعمل اور برموقع حل نکالنا۔
پانچویں۔ رازداری اور ناگہانیت یا خلاف توقع اقدامات۔
اختتامیہ:
چُنج کے معرکے کے بعد ٹیٹوال سیکٹر میں جنگ کا تقریباً خاتمہ ہوگیا تھا اور دشمن کو دریائے کشن گنگا(نیلم) کے شمال میں و اقع تمام علاقوں سے نکال دیا گیا تھا۔ بلکہ ٹیٹوال سے کیرین اور کیل کی طرف جاتے ہوئے اٹھمقام سے آگے دریا کے مشرق میں وسیع علاقے کو بھی قبضے میں لے لیا گیا تھاجو آج بھی آزاد کشمیر کا حصہ ہیں۔ انڈین ایئر فورس کو اس جنگ میں مکمل اجارہ داری حاصل رہی تھی۔ چُنج آپریشن کے دوران دشمن کے ایکTempest طیارے کو مار گرایا گیا تھا اور اسی علاقے میں دشمن کے مزید دو طیارے بھی گرائے گئے ۔ بھارتیوں نے اپنا ایئر سپلائی آپریشن بھی ختم کردیا تھا کیونکہ ان کا ڈراپ زون پوائنٹ7229کے بالکل سامنے ٹیٹوال میں براہ راست ہماری آبزرویشن میں آگیا تھا۔
References:
1. The Kashmir Compaign 1947-48 by Historical Sectional, Gffq.
2. Jihad e Kashmir 1947-48 by Maj Ameer Afzal.
3. Tagho Taag E Jawedana ( The Story of Pakistan Army) by Maj Gen Fazal Muqeem.
4. Operations in Jammu and Kashmir ( An Indian Publication) Based on star Diaries.
اس آپریشن کے بعد اس سیکٹر میں یکم جنوری1949تک یعنی یو این او کی طرف سے جنگ بندی کے حکم تک کوئی قابل ذکر جنگی کارروائی نہیں ہوئی تھی۔
تبصرے