بانگ درا علامہ اقبال کا اولین اردو شعری مجموعہ ہے جو 1924 میں منظر عام پر آتے ہی شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی شہرت میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ موجودہ سال میں یہ اپنی اشاعت کے سوویں سال میں داخل ہو چکا ہے اور آج بھی اہل وطن کے قلب و ذہن کو مسحور کیے ہوئے ہے۔یہ معرکة ا لآراء کتاب آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہے،بچے اور بڑے اس کی نظمیں یاد کرتے ہیں،سکولوں اور کالجوں میں بچے اس کی نظموں پر مبنی خاکے اور تماثیل پیش کرتے ہیں۔باذوق بزرگ اسے تحفے میں بچوں اور نوجوانوں کو دیتے ہیں اور علمی و ادبی مقابلوں میں انعام کے طور پر عطا کی جاتی ہے۔شاعری کی اس شاہکار کتاب پر کئی تحقیقی مقالوں پر ایم۔اے،ایم۔فل اور پی۔ایچ ڈی کی اسناد دی جا چکی ہیں۔اس بے مثل کتاب پر کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں بلکہ اس کی صرف دو نظموں یعنی 'شکوہ" اور "جواب شکوہ"ہی پر کئی کتابیں وجود میں آ چکی ہیں۔اردو کی تاریخ میں کسی دوسرے شاعر کے دیوان کی ایسی پذیرائی اور قدر ومنزلت دیکھنے میں نہیں آئی۔منصہ شہود پر آتے ہی یہ کتاب اہل فکر و نظر کی توجہ کا مرکز بن گئی تھی اور بڑے بڑے نقادوں اور اہل علم و ادب نے اس کی انقلاب آفرین شاعری،چونکا دینے والے جدید انداز اور اثر آفرینی تحسین کے حوالے سے مضامین لکھنے شروع کر دیے تھے اور یہ سلسلہ اس کی اشاعت کے سو سال کے دوران جاری رہا اور تا حال جاری و ساری ہے۔
علامہ اقبال نے بانگ درا کا دیباچہ معروف ادیب اور صحافی شیخ عبدالقادر سے لکھوایا تھا۔ سر شیخ عبدالقادر15مارچ 1874 کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ سرسید احمد خان کی تحریک سے مسلمان نوجوانوں کی جو جماعت پیدا ہوئی تھی، سر شیخ عبدالقادر اس میں پیش پیش تھے۔1898 میں وہ پنجاب کے پہلے انگریزی اخبار' آبزرور' کے مدیر ہوئے اور 1901 میں انہوں نے اردو کا ادبی جریدہ' مخزن 'جاری کیا۔ دنیائے ادب میں 'مخزن' کو یہ اختصاص حاصل ہوا کہ علامہ اقبال کی بیشتر نظمیں پہلی مرتبہ' مخزن' ہی میں شائع ہوئی تھیں ۔1904 میں سرشیخ عبدالقادر بیرسٹری کے لیے انگلستان روانہ ہوئے، 1907 میں انہوں نے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا پہلے دہلی پھر لاہور میں وکالت کی، 1921 میں ہائی کورٹ کے جج اور 1935 میں پنجاب کے وزیر تعلیم بنے، 1939 میں وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے رکن اور 1942 میں بہاولپورکے چیف جج بن گئے۔ سر شیخ عبدالقادر لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسود خاک ہیں۔
شیخ عبدالقادر بانگ درا کے دیباچے میں لکھتے ہیں:۔
''یہ دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ اردو میں آج تک اشعار کی کوئی ایسی کتاب موجود نہیں ہے جس میں خیالات کی یہ فراوانی ہو اور اس قدر مطالب و معانی یکجا ہوں اور کیوں نہ ہوں، ایک صدی کے چہارم حصے کے مطالعے اور تجربے اور مشاہدے کا نچوڑ اور سیر و سیاحت کا نتیجہ ہے۔بعض نظموں میں ایک ایک شعر اور ایک ایک مصرع ایسا ہے کہ اس پر ایک مستقل مضمون لکھا جا سکتا ہے۔''
(دیباچہ بانگ درا)
بانگ کی اشاعت کے ساتھ ہی مشہور و معروف ادیب، صاحب طرز انشا پرداز، مؤرخ، نقاد، صحافی، غالب شناس،اقبال شناس،مترجم، محق اور علامہ اقبال کے اردو اور فارسی شعری مجموعوں کے شارح مولانا غلام رسول مہر نے اپنے معروف اخبار "انقلاب" میں ایک مضمون میں لکھا:۔
''اقبال کی اُردو شاعری کے مجموعہ نے بانگ درا کا نام پایا، اتنا کیا کہ سوتوں کو جگایا اور ان کو بتایا کہ تم مقیم نہ تھے مسافر تھے کاروان تھے۔ منزل مقصود کہاں اور تم طویل و دشوار گزار راہ کے اس ابتدائی مقام پر دم لینے کے بہانے بیٹھے،لیٹے اور پھر سو ہی گئے اور ایسے سوئے کہ کروٹ نہ لی۔ ''
( حیات اقبال کے مخفی گوشے، مرتبہ: محمد حمزہ فاروقی،ادارہ تحقیقات پاکستان دانشگاہ پنجاب لاہور ،1988، صفحہ نمبر 85 )
مولانا غلام رسول مہر بانگ درا کی شرح مطالب کلام اقبال کے دیباچے میں لکھتے ہیں :۔
''بانگ درا اقبال کے اردو کلام کا پہلا مجموعہ ہے جسے مرتب کرتے وقت انہوں نے بہت سی نظمیں غزلیں یا اشعار اس وجہ سے قلمزد کر دیے کہ وہ ان کے نزدیک معیاری نہ تھے لیکن اس میں "طلوع اسلام" تک ان کی وہ تمام نظمیں اور غزلیں آ گئی ہیں جنہیں انہوں نے فکر و بیان کے لحاظ سے معیاری سمجھا اور جن میں سے اکثر ہزاروں لوگوں نے خود مرحوم کی زبان سے سنیں اور مختلف رسالوں اور اخباروں میں چھپ کر ملک کے طول و عرض میں پھیل چکی تھیں۔ان میں سے بہت سے اشعار بچوں، جوانوں اور بوڑھوں کی زبانوں پر تھے۔انہی نظموں نے ان کی شہرت اور ہر دل عزیزی کے لیے وہ مستحکم بنیاد استوار کی جس پر آگے چل کر ایک سربفلک قصر تعمیر ہونے والا تھا اور اقبال کو مشاہیر عالم میں وہ بلند و بالا مرتبہ ملنے والا تھا جو ہر کسی کے مقدر میں نہیں ہوتا اور صرف خوش نصیب کو ہی ملتا ہے۔''
مولانا غلام رسول مہر مزید لکھتے ہیں:۔
''بانگ درا کو آج بھی اقبال کی تصانیف میں مختلف وجوہ سے امتیاز کا ایک خاص درجہ حاصل ہے مثلاً اس میں ان کے کمالِ فکری کی گونا گوں گلکاریاں دیکھی جا سکتی ہیں جیسے قدرتی مناظر پر نظمیں،فلسفیانہ نظمیں، غزلیں، مرثیے وغیرہ۔ حسن، خیال اور دل آویزی فکر کے ایسے رنگا رنگ مرقعے کسی دوسری کتاب میں نہیں مل سکتے۔فکر اقبال کے ارتقائی مدارس کا مکمل اور جامع اندازہ بانگ درا سے ہی ہو سکتا ہے۔اگرچہ اس کتاب میں ایسی نظمیں بھی شامل ہیں جنہیں اقبال کے پیغام خاص کو پیش نظر رکھتے ہوئے شاید چنداں اہم نہ سمجھا جائے لیکن جن خداداد جوہروں نے کمالِ بلوغ کے بعد اقبال کو عظمت کے بلند مقام پر پہنچایا ان کے جلوے "بانگ درا" کے صفحات پر بکثرت نظر آتے ہیں۔''
(مطالب بانگ درا،مولانا غلام رسول مہر،شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور صفحہ3-4 )
پروفیسر یوسف سلیم چشتی ہماری علمی تاریخ کا ایک اہم نام ہے۔ علامہ اقبال کے احباب ماہرین اقبالیات اور شارحین اقبال میں انہیں ایک خاص مقام حاصل ہے۔
وہ بریلی، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ 1918 میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے فلسفے میں بی۔ اے آنرز اور 1924 میں احمد آباد یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم اے کیا۔ پہلے کانپور کے ایک کالج اور پھر ایف سی کالج لاہور میں لیکچرار مقرر ہوئے۔ علامہ اقبال اور غلام بھیک نیرنگ کی مساعی میں لاہور میں اشاعت اسلام کے پرنسپل رہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران یہ کالج بند ہو گیا تو ریاست منگرو اور بعد ازاںکوروائی چلے گئے۔ 1948 میں کراچی آکر تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع کیا۔ چشتی کو 16 سال محمد اقبال کی صحبت کا شرف حاصل رہا۔ آپ نے اقبال کی تمام اردو اور فارسی کتابوں کی شرحیں لکھی ہیں۔ اس کے علاوہ مذہب ،فلسفہ، تصوف، تاریخ اور سوانح پر متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ پروفیسر یوسف سلیم چشتی اپنی کتاب "شرح بانگ درا" کے دیباچے میں لکھتے ہیں:۔
''بانگ درا علامہ اقبال مرحوم کی سب سے زیادہ مشہور کتاب بلکہ ان کی شہرت کا سنگ بنیاد ہے۔حقیقت یہ ہے کہ عوام میں اسی کی بدولت انہیں لازوال شہرت حاصل ہوئی جس میں دوسری کتابوں کی وجہ سے اضافہ ہوتا رہا۔'بانگ درا' شائع ہوئی تو لوگوں نے اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس کی بدولت اقبال کا نام ہندوستان کے طول و عرض میں مشہور ہو گیا۔''
شرح بانگ درا،یوسف سلیم چشتی،عشرت پبلشنگ ہاس لاہورسن ندارد، صفحہ نمبر3
بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبد الحق (پیدائش 20 اپریل 1870 ، وفات: 16 اگست 1961) برِ صغیر پاک ہند کے عظیم اردو مفکر، محقق، ماہر لسانیات، معلم اور انجمن ترقی اردو اور اردو کالج کراچی (موجودہ وفاقی اردو یونیورسٹی برائے فنون، سائنس اور ٹیکنالوجی)کے بانی تھے۔ انھوں نے اپنی تمام زندگی اردو کے فروغ، ترویج اور اشاعت کے لیے وقف کردی۔
ان کی زندگی کا کوئی لمحہ ایسا نہ تھا جو اردو کی فکر سے خالی ہو۔ یہ ان کی خدمات کا اعتراف ہی ہے کہ وہ ہر جگہ بابائے اردو کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
جب بانگ درا چھپی تو بابائے اردو نے اس پر ایک شاندار مضمون لکھ کر علامہ کو خراج تحسین پیش کیا۔ اس مضمون کے آغاز ہی میں بابائے اردو نے بانگ درا کی شاعری کے حوالے سے جو رائے پیش کی ہے وہ انتہائی قابل غور ہے۔فرماتے ہیں: ۔
''اقبال اس وقت اردو کے سب سے مقبول اور اعلیٰ شاعر ہیں۔ان کا کلام اب تک متفرق تھا اور ایک جگہ جمع ہو کر شائع نہ ہوا تھا۔ان کے کلام کے دلدادہ اس سے مطمئن نہ تھے اور ایک مدت سے منتظر و مشتاق تھے کہ سارا مجموعہ کتاب کی صورت میں شائع ہو جائے۔ کس قدر مسرت کی بات ہے کہ وہ آب دار موتی جو اب تک بکھرے ہوئے تھے ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہمارے سامنے موجود ہیں۔جن کی جوت سے آنکھوں میں نور پیدا ہوتا ہے۔میں اقبال کے لیے اس میں نیک شگون پاتا ہوں وہ محاسن جو بعد میں ہم نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر اقبال کے کلام میں نکالے ان سب کے بیج اس نظم میں نظر آتے ہیں۔تخیل،تشبیہات،بندش اور خیالات سب آئندہ کی غمازی کر رہے ہیں۔لیکن سب سے بڑی بات جو ہم اس میں دیکھتے ہیں اور جو اپنا پیغام دلوں تک پہنچاتی ہے وہ یہ ہے کہ اس سے حب وطن کی بو آتی ہے اور جوں جوں ہم آگے بڑھتے ہیں اس کی مہک بھی بڑھتی جاتی ہے۔''
بابائے اردو مولوی عبدالحق اسی مضمون میں کچھ آگے چل کر لکھتے ہیں:۔
''اقبال کے پیام میں بلندی اور ایسا خلوص اور جوش ہے کہ وہ رائیگاں نہیں جا سکتا وہ سوتوں کو جگانے،غافلوں کو ہوشیار کرنے اور دلوں کے ابھارنے میں بجلی کا سا کام کرے گا۔ اس کا مقصد سیاست و ملک گیری نہیں بلکہ وہ اخلاقی و روحانی پیام ہے جس کی بنیاد اسلامی تعلیم پر ہے اور جس کی غرض اسلامی اصول اور آئین کی اشاعت ہے جو اتحاد ملی کے ذریعے سے دنیا پر کار فرمائی کر سکتے ہیں۔''
بانگ درا کی معرکہ آرا طویل نظموں شمع اور شاعر، خضر راہ اور طلوع اسلام کے حوالے سے بابائے اردو لکھتے ہیں:۔
''اقبال کی شاعری کی پوری حقیقت معلوم کرنے کے لیے "شمع اور شاعر"، "خضر راہ" اور طلوع اسلام" کی نظمیں غور سے پڑھنی چاہئیں۔یہ ظاہری اور معنوی دونوں حیثیتوں سے ان کی شاعری کے بہترین نمونے ہیں۔اس سے میرا یہ مطلب نہیں کہ ان کی دوسری نظمیں اس پایہ کی نہیں۔ان کی بعض چھوٹی نظمیں بھی بہت پاکیزہ اور اعلیٰ درجے کی ہیں مثلاً: "ایک آرزو"، "سرگرشت آدم"، "جگنو چاند"،"صبح کا ستارہ"، "پرندہ" اور "جگنو "وغیرہ بہت اچھی نظمیں ہیں۔لیکن جن تین نظموں کا میں نے نام لیا ہے وہ ایسی ہیں کہ ان میں اقبال کی شاعری کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔شان و شکوہ، زور اور شور امڈتے ہیں، جذبات کی ادائی، حکیمانہ نظر اور شاعرانہ انداز بیان میں اقبال کا جواب نہیں۔''
(نیرنگ خیال، مدیر: حکیم یوسف حسن، جنوری، 1942، صفحہ 131)
آخر میں ہم بانگ درا کی شاعری کے حوالے سے بابائے اردو مولوی عبدالحق ہی کے اس شاندار اور خوبصورت خراج تحسین پر اپنے مضمون کا اختتام کرتے ہیں کہ:۔
''کتاب کھولتے ہی پہلی نظم جس پر نظر پڑتی ہے "ہمالہ" ہے۔کوہ ہمالیہ ہندوستان کی شوکت و شان کا نشان اور اس کے حفظ و امن کا پاسبان ہے۔ہندوستان کا بچہ بچہ اسے جانتا ہے اور اس پر فخر کرتا ہے۔جس شاعری کی ابتدا کوہ ہمالیہ ہو اس کی انتہا کیا ہوگی۔''
(نیرنگ خیال، مدیر: حکیم یوسف حسن، جنوری، 1942، صفحہ 131)
مضمون نگار ایک معروف ماہر تعلیم ہیں۔ اقبالیات اور پاکستانیات سے متعلق امور میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے