شہید مہتاب پلیجو کے حوالے سے کنول زہرا کی تحریر
پاکستان کو شہیدوں کی سرزمین کہنا غلط نہ ہوگا، آئے دن مادر وطن کی سرحدوں کی حفاظت پر مامور افواج پاکستان کے جوان میری، آپ کی اور دھرتی ماں کی حفاظت کے لیئے سینے پر گولی کھاتے ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ہماری پرسکون نیند کے پیچھے مٹی کے بیٹوں کے ان گنت رت جگے اور تھکان شامل ہے۔
''اس انتھک محنت کا جب بعض عناصر ڈالرز کی محبت کا طعنہ دیکر تمسخر اڑاتے ہیں تو جیسے دل کو کوئی چٹکی کاٹ لیتا ہے، ہم اپنے جوانوں کو ڈالرز کے لیے نہیں بلکہ وطن کے دفاع کے لیے سرحد پر بھیجتے ہیں جبکہ ہمیں یہ پتہ ہوتا ہے کہ کبھی کوئی ایسی خبر آسکتی ہے جسے بہت حوصلے کے ساتھ برداشت کرنا ہوتا ہے ۔''ان خیالات کا اظہار سپاہی شہید مہتاب پلیجو کی والدہ رقیہ الیاس پلیجو نے مضمون نگار سے گفتگو کے دوران کیا۔
سپاہی شہید مہتاب پلیجو کا تعلق وادی مہران کے قصبے جنگ شاہی ضلع ٹھٹھہ سے تھا،
شہید سپاہی مہتاب پلیجو 12 مارچ 1980 کو جنگ شاہی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول جنگ شاہی اور پیلک سکول حیدر آباد سے حاصل کی۔
1996کی بات ہے جب مہتاب پلیجو کو پاکستان آرمی میں جانے کا شوق ہوگیا ، جس کا انہوں نے ہم سے ذکرکیا مگر ہم نے ان کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا مگر وہ بہت سنجیدہ تھا۔ ایک روز اس نے ہمیں بتایا کہ وہ بلوچ رجمنٹ سینٹر ایبٹ آباد میں سپاہی کی ٹرینگ کے لیے جا رہا ہے، جس کا دورانیہ ایک سال کا ہے، اس نے کب کوائف جمع کرائے، کب ٹیسٹ دیا، اس کے بارے میں اس نے ہمیں کچھ نہیں بتایا۔
1998 میں وہ آرمی کا حصہ بن گیا، وطن کی وردی زیب تن کرنے کے بعد اس کی خوشی دیدنی تھی، ایسا لگتا تھا جیسے اسے کوئی دولت مل گئی ہو۔جب وہ چھٹی پر گھر آیا کرتا تھا، تو میں اسے بہت ڈانٹا کرتی تھی کیونکہ وہ بہت دبلا ہوگیا تھا، میں اس سے کہا کرتی تھی کہ بیٹا یہ اپنا کیا حال بنالیا ہے، بس اب تم نے اپنی ضد بہت کرلی، خبردار جو اب واپس گئے، سوکھ کر کانٹا ہوگئے ہو، اگر تمہیں کچھ ہوگیا تو ہمارا کیا ہوگا۔ وہ ہنس کر کہنے لگا، امی اگر کچھ ہونا ہی ہے تو وہ یہاں بھی ہوسکتا ہے، بہتر یہ نہیں کہ اپنی دھرتی کے لیے کچھ کرکے دنیا سے جاؤں۔ یہ بات سن کر میں ڈر سی گئی اور اسے مزید ڈانٹنے لگی اور وہ ہنستا رہا، شہید کی والدہ نے آنکھوں کی نمی صاف کرتے ہوئے کہا کہ مہتاب کی ہنسی آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے۔
سپاہی شہید مہتاب پلیجو کی والدہ نے بتایا کہ مہتاب کو آلو کے پراٹھے اور تلی ہوئی مچھلی بہت پسند تھی، وہ جب بھی آتا تھا میں خاص طور پر پراٹھے اور مچھلی بناتی تھی۔ فوج میں جانے سے قبل مہتاب بہت خوش خو راک تھا ۔شہید کی والدہ رقیہ الیاس نے اپنے بیٹے کو یاد کرتے ہوئے گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے کہا، ایک دفعہ مہتاب چھٹی پر آیا ہوا تھا، بات چیت کے دوران میری نظر اس کی ٹانگوں پر پڑی، اس کی دونوں ٹانگوں پہ زخم کے نشانات تھے، میری چیخ نکل گئی، وہ بھی گھبرا گیا، میں نے کہا بیٹا یہ کیا ہے اس نے لاپرواہی سے کہا ارے اماں آپ بھی ناں، میں سمجھاجانے کیا ہوا ہے؟ جو آپ نے اتنی زور کی چیخ ماری ہے۔ میں نے کہا مہتاب میں ماں ہوں، مجھے بتاؤ یہ کیا حالت بنائی ہوئی ہے؟ اس نے بڑی سہولت سے جواب دے کر کہا کہ اماں میں فوجی ہوں، فوجیوں کے ساتھ ایسا ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اس نے بتایا کہ میں خوش نصیب ہوں کہ میں کارگل وار کا حصہ رہا ہوں، ہم دشمن کے دانت کھٹے کرکے غازی بن کر لوٹے ہیں، کچھ زخم آگئے تھے جس کی ریکوری کے لیے سی ایم ایچ راولا کوٹ میں ایڈمٹ بھی رہا ہوں۔ اللہ کے کرم سے انہوں نے ایسا ٹھیک کیا ہے کہ اب خوب دوڑیں لگاتا ہوں، یہ کہہ کر اس نے میرے ماتھے پر پیار کرکے کہا،'' اماں آپ فوجی کی ماں ہیں، دل مضبوط کریں، نہ جانے کب کیا ہوجائے، آپ کو ہربات کے لیے تیار رہنا چائیے۔ ''
شہید کے والد نے بتایا کہ پاک فوج کے افسران نے مہتاب کی بہادری دیکھ کر انہیں کمانڈوز کی ٹرینگ کروائی تاکہ اس کی صلاحیتوں کو مزید اجاگر کیا جائے۔
شہید سپاہی کی والدہ نے بتایا کہ مہتاب پلیجو ہمیں اکثر سرپرائز دیا کرتا تھا، اچانک گھر آجایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ ایک لمبی داڑھی والا ہمارے گھر آگیا، میں اور اس کے والد تو ڈر ہی گئے تھے، اس نے ہنس کر اپنا تعارف کرایا تو ہمیں اس کی آواز سے اس کی شناخت ہوئی۔ ہم نے اس کی لمبی داڑھی کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا اس کی سیاچن میں پوسٹنگ تھی، وہاں شیو کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے حلیہ بدل گیا ہے، اب واپس آیا ہوں تو پہلے جیسا ہو جاؤں گا۔
5 ستمبر 2000 کوبھارت کی جانب سے حسب عادت فائر بندی کی خلاف ورزی کی گئی، پاکستان کی جانب سے بھارت کی بلا اشتعال فائرنگ کا منہ توڑ جواب دیا گیا، یہ سلسلہ صبح تک جاری رہا۔ فجر کے وقت 22 برس کے سپاہی مہتاب عباسی دشمن کی جارحیت کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوگئے ۔ شہید کو 6 ستمبر 2000 کو ان کے آبائی گاؤں کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ان کی بہادرانہ صلاحیتوں کو دیکھ کر ان کے سینئر افسران نے انہیں 'زورآورسپاہی 'کا لقب دیا تھا۔ایل او سی پر ان کی چوکی کا نام بھی' زورآور' رکھا گیا ہے۔سندھ کے علاقے مٹھی میں بعض تعلیمی ادارے بھی شہید مہتاب علی پلیجو کے نام سے منسوب ہیں۔
شہید کے والدین کا کہنا ہے کہ اللہ نے ہمیں دو ہی بیٹے دیے تھے ایک وطن پر قربان کردیا ہے جس پر ہمیں کوئی دکھ نہیں ہے بلکہ فخر ہے،البتہ وہ یاد بہت آتا ہے۔قوم کا سلام ان والدین کو جنہوں نے اپنے بہادر بچوں کو وطن پر وار دیا ہے۔
پاکستان زندہ باد
مضمون نگار صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
[email protected]
تبصرے