فرض کریں کہ آپ کو ملکی وقار کا ضامن کوئی منصوبہ، فریضہ یا مشن سونپا گیا ہے اور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ اگر وہ کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ آپ کے لیے باعث عزت بنے گا جبکہ ناکامی کی صورت میں جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تو ظاہر ہے کہ آپ اُسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے اور کامیاب بنانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادیں گے ۔
مان لیتے ہیں کہ آپ جوکرنے والے ہیں اس پر پوری قوم کی نظریں جمی ہیں۔ عوام ایک لمبے عرصے کے انتظار کے بعدیہ نظارہ دیکھنے کے لیے بے چین ہیں۔ انہیں میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے بتا یا جاتا ہے کہ ان کے ملک نے ایک ایسی خود ساختہ مہارت حاصل کر لی ہے جس کو استعمال کر کے وہ بہت جلد دنیا میں اپنا مقام بنا لیں گے، اس سے کثیر زر مبادلہ کمائیں گے اورملک کو ناقابل تسخیربنا دیں گے ۔ انہیں دوسروں کی طرف دیکھنا پڑے گا نہ کسی سے مددلینا پڑے گی۔ خبروں کی چکاچوند اور بڑھا چڑھا کر پیش کیے جانے والے عوامی اور سوشل میڈیا تبصروںسے عوام اور حکمران خوش ہیں۔ ان کے چہروں پر طمانیت بھی ہے اور فخرو غرور کے ملے جلے آثار بھی۔ انہی احساسات کے ساتھ بالآخر وہ دن آن پہنچتا ہے ،لیکن ۔۔۔؟ ہم لمحہ بھر کے لیے یہاں رکتے ہیں اور سارا منظر نامہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اب ہم حقیقی دنیا کی طرف لوٹتے ہیں اور مان لیتے ہیں کہ آپ کا تعلق فوج کے ایک اہم شعبے سے ہے۔ آپ کو سونپا گیا فریضہ ایک بھاری بھرکم گنکی فیلڈ ٹیسٹنگ ہے جسے انجام دینے کے لیے آ پ پوری تیاری کے ساتھ اپنی ٹیم کے ہمراہ ایک ایسے میدان میں اترتے ہیں جہاں ٹینک پرنصب ایک گن پہلے سے آ پ کی منتظر ہے ۔ ایک طرف مشن کے کرتا دھرتاموجود ہیں جبکہ دوسری طرف ایک بڑے چبوترے پر مہمان خصوصی براجمان ہیں۔سب کی نگاہیں ہدف پر مرکوز ہیں کہ اگلے لمحے منظر بدلتا ہے۔فضا میں ایک گرجدار آواز گونجتی ہے جسے سنتے ہی عملے کے اراکین ایک طاقتور فوجی ٹینک کی جانب بڑھ کر اپنی نشستیں سنبھال لیتے ہیں۔ ان کا مشن ٹینک پر لگی گن کو ٹیسٹ کرنا ہے۔عملے کے اراکین ہر حوالے سے الرٹ ہیں ۔ ان کی پوری توجہ گن کا ٹریگر دبانے پر مرکوز ہے۔اسی دوران ایک مرتبہ پھر ایک زور دار آواز گونجتی ہے ۔۔۔ ''فائر '' ۔۔۔ پوری قوت سے ٹریگر دبایا جاتا ہے ۔ ایک بھر پور دھماکہ ہوتا ہے اور گن کی بیرل پھٹ جانے سے پورا مشن میدان میں اڑنے والی دھول اور مٹی کی نظر ہو جاتا ہے۔'مشن فیل' اور پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ ۔۔ ایک نہ ختم ہونے والا سکوت،زبانیں گنگ اور ہر طرف خاموشی۔ سبھی آنکھیں کسی تسلی بخش جواب کی منتظر ہیں مگر وہاں تو کوئی بھی ایسا شخص موجود نہیں ہے جو اس ہزیمت کا جواب دے سکے کہ ملکی بجٹ کا ایک کثیر حصہ َصرف کر کے جس خود انحصاری کی منزل طے کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا ،آخر کار وہ کیوں حاصل نہ کی جا سکی۔
قارئین کرام ، آئیے ! تجسس کی دنیا سے باہر نکل کر یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ واقعہ کہاں پیش آیا اور اس ناکامی کے اسباب کیا تھے ۔یہ سارا منظر نامہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کا ہے جہاں حال ہی میں K9 Vajra Gun کا واقعہ پیش آیا۔بھارت کافی عرصے سے اس گن کی تیاری پر کام کر رہا تھا۔آخری مرحلہ اسے چیک کرنا تھا۔ چنانچہ طے پایا کہ 224میڈیم رجمنٹ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ایک تقریب میں K9 Vajra Gun کو ٹیسٹ کیا جائے گا تا کہ معلوم کیا جا سکے کہ 2017ء سے جس مشن پر کام کیا جا رہا ہے ، آیا وہ ملکی دفاعی استعداد میں اضافے کا سبب بنے گا بھی یا نہیں۔ طے شدہ دن اور مقررہ وقت پر فائٹنگ فیلڈ میں سب موجود تھے کہ فیلڈ فائرنگ کے دوران چند تکنیکی وجوہات (جو ابھی تک سامنے نہیں آ سکیں) کی بناء پر گن کی بیرل پھٹنے سے آناً فاناً پورا مشن فیل ہو گیا۔ اس طرح بھارت جو کافی عرصے سے ایک لمبے ہدف کو نشانہ بنانے والی گن (Long Range Gun ) بنانے کا خواب دیکھ رہا تھا ،وہ چکنا چور ہوگیا۔ بھارت جو دنیا کو یہ بتانے چلا تھا کہ وہ مقامی سطح پر دفاعی صنعت کو فروغ دے کربہترین معیار کا جنگی سازو سامان تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے ، اپنے اس دعوے کو سچ ثابت نہ کر سکا۔ اس طرح بھارتی اسلحے کی پائیداری دنیا بھر میں مشکوک اور ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئی۔
بھارت میں K9 Vajra Guns کی مقامی سطح پر تیاری کا آغاز مئی 2017ء میں اس وقت ہواجب ایک نجی بھارتی کمپنی (L&T)Larsen and Toubro نے حکومت کے ''Make in India Initiative'' کے تحت 4500کروڑ بھارتی روپوں کے عوض یہ بولی اپنے نام کر لی۔معاہدے کا دوسرا فریق جنوبی کوریا تھا ۔ ابتدائی معاہدے کے تحت طے پایا تھا کہ بھارتی کمپنی اگلے بیالیس مہینوں میں یہ پراجیکٹ مکمل کر لے گی۔ گویا اس فیلڈ ٹیسٹ سے پہلے عوام کو ایک اچھا دن دیکھنے کے لیے مہینوں انتظار کرنا پڑا لیکن آگے کیا ہوا وہ آپ اس تحریر کے آغاز میں پڑھ چکے ہیں۔
معاہدے کے تحت طے پایا تھا کہ بھارت مجموعی طور پر 100گنز بنانے کا ہدف حاصل کرے گا جن میں سے ابتدائی طور پر دس گنز جنوبی کوریا سے درآمد کی جائیںگی جبکہ باقی 90 گنوںکی تیاری مقامی سطح پرہوگی۔معاہدے کی خاص بات یہ تھی کہ جنوبی کوریا گنز بنانے کی ساری ٹیکنالوجی بھی بھارت کو مہیا کرے گا ۔ یاد رہے کہ بھارت اور جنوبی کوریا کے درمیان یہ پہلا دفاعی معاہدہ تھا۔
K9 Vajra Gun دراصل K9تھنڈر کی ہی ایک قسم ہے جو پہلے پہل جنوبی کوریا میں تیار کی گئی تھی۔ اسے دنیا کی بہترین گن ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔یہ ایک ایسی گن ہے جوبلندی سے فائر کرنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس میں اسٹیل سے بنی155/52ملی میٹر بیرل استعمال ہوتی ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ انتہائی مضبوط بیرل ہے لیکن بھارتی ساختہ گن کی بیرل کا فیلڈ فائرنگ ٹیسٹ کے دوران پھٹ جانا اچنبھے کی بات ہے۔ اولاًیہ ریتلے علاقوں اور صحرائوں میں استعمال کی خاطر بنائی گئی تھی تاہم بھارت کا دعویٰ تھا کہ اسے بلند ترین پہاڑوں پر نصب کر کے بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔اسے انفرادی طور پراستعمال کرنے کے ساتھ ساتھ بھاری بھرکم ٹینکوں پر بھی نصب کیا جا سکتاہے۔
جنوبی کوریا میںK9 Vajra Gun بنانے کا آغاز 1989میںہوا جبکہ پہلی گن دس سال کی انتہائی مشقت کے بعد 1999میں تیار کی گئی۔اس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دور تک مارک کرنے والی ایک بہترین گن ہے جو دشمن کو ناکوں چنے چبوا سکتی ہے۔ جنوبی کوریا نے یہی ٹیکنالوجی بھارت کو فراہم کی جس میں چند تبدیلیاں کر کے بنائی جانے والی گنز کو ''میڈ ان انڈیا ''کا نام دے دیا گیا ۔ یاد رہے کہ بھارت اس طرح کی کئی گنز دیگر ممالک کو فروخت بھی کر چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دوسرے ملکوں کو فروخت کی جانے والی ایسی گنوں کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہے۔ اگر وہ سب میدان جنگ میں اسی صورت حال کا شکار ہو جاتی ہیں تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بھارت عالمی سطح پر کتنی بڑی مشکل سے دوچار ہو سکتا ہے۔
اسلحہ سازی اور دوسرے ملکوں سے سامان حرب خریدنے کی دوڑ میںبھارت پیش پیش ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بھارت اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ جنگی ہتھیار خریدنے والا دوسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔بھارتی حکومت ہر سال دفاع کی مد میں اپنے سالانہ بجٹ میں اضافہ کرتی رہتی ہے۔ گزشتہ برس 2023ء کے سالانہ بجٹ میں محکمہ دفاع کے لیے 73ارب ڈالر زکی رقم مختص کی گئی تھی جس کا مقصد نئے جنگی طیاروں سمیت سامان حرب کی خریداری تھی۔اسی دوران دفاعی اخراجات کے حوالے سے بھارتی وزارت دفاع کے جونئیروزیراجے بھٹ نے پارلیمنٹ کو آگاہ کیا تھا کہ بھارت نے امریکا، روس، فرانس، اسرائیل اورسپین سے تقریباً 24 ارب ڈالرزکے جنگی جہاز، ہیلی کاپٹرز، میزائل، راکٹ، سالٹ رائفلز اور گولہ بارود خریدے، تاہم اس میں فرانس سے خریدے گئے 8 ارب ڈالرزکے جنگی جہاز شامل نہیں۔جب دنیا کی طرف سے اتنی بڑی خریداری پر سوال اٹھائے جانے لگے تو بھارت نے ہتھیار جمع کرنے کی دوڑ میں سرفہرست رہنے کی خاطر "Make in India Initiative" کا آغاز کر دیا تاکہ دنیا کی نظروں میں آئے بغیر مقامی سطح پر جنگی ہتھیار بنا کراپنی دفاعی استعداد میں اضافہ کرے اور ساتھ ہی بیرونی دنیا کو یہ ہتھیار فروخت کر کے کثیر زر مبادلہ بھی کمائے۔اسی پالیسی پر عمل پیرا بھارت اسلحہ سازی کی صنعت کو فروغ دے رہا ہے ۔حیران کن بات یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران بھاتی ساختہ جنگی ہتھیار جن میں Tejas طیارے بھی شامل ہیں ، میں بے شمار نقائص دیکھنے کو ملے ہیں جس نے ان کی پیشہ ورانہ مہارت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔
دنیا بھرمیں ہتھیاروں کی خرید وفروخت کے حوالے سے تحقیقی ادارے سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (SIPRI) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ سال پوری دنیا میں فروخت ہونے والے ہتھیاروں کا 11فیصد بھارت نے خریدا۔رپورٹ کے مطابق بھارت کو 2013 ء سے 2022ء تک ہتھیار فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک روس رہا ۔گزشتہ دس برس کے دوران بھارت کے ہتھیار وں کی خرید میں چوبیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔رپورٹ کے مطابق اسلحے کی خریداری میں مشرق وسطیٰ کے چند ممالک اور ایشیاء آگے ہیں اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
عالمی سطح پر بات کی جائے تو ہتھیاروں کی خریدو فروخت میں پاکستان کاحصہ بھارت کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔اہم بات یہ ہے کہ جنگی ہتھیار خریدنے کے پیچھے پاکستان کا مقصد اپنی دفاعی استعداد میں اضافہ کرناہے نہ کہ بھارت کی طرح ہمسایہ ممالک میں در اندازی۔پاکستان اگر ملکی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھاتا ہے تو اس کا مقصد خطے میں' بیلنس آف پاور'قائم رکھنا ہے ۔ اگر بھارت اسی طرح اسلحے کی دوڑ میں شامل رہتا ہے تو اندیشہ ہے کہ وہ بہت جلد اتنی طاقت حاصل کر لے گا کہ اس کی بدولت ہمسایہ ممالک کودھمکانے لگے۔ بھارتی مکروہ عزائم کا اظہار ہم ماضی میں کئی مرتبہ دیکھ چکے ہیں۔ بھارت نے27فروری 2019ء کو پاکستان کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کی تو اسے منہ کی کھانا پڑی۔ مئی 2020ء میں بھارت اور چین کے درمیان ہونے والی سرحدی کشمکش بھی خبروں کی زینت بن چکی ہے۔ نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کے ساتھ بھی بھارت کے تعلقات میں کافی سرد مہری دیکھنے کو ملتی رہی ہے۔ لہٰذاتیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے علاقائی اور عالمی منظر ناموں کے پیش نظر اگرپاکستان اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کرتا ہے تویہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔پاکستان کی اعلیٰ سول و عسکری قیادت بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ وہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ دو طرفہ برادرانہ تعلقات قائم کرنے کی خواہاں ہیں تاہم انہیں بخوبی ادراک ہے کہ ہر قسم کی مسلح جارحیت کافوری جواب دیتے ہوئے اپنی سرحدوں کی حفاظت کو کیسے یقینی بنانا ہے۔
اگر بھارتی حکمران جماعت یہ سمجھتی ہے کہ بھارت دنیا بھر میں اسلحے کی دوڑ میں اول آکر اور بے پناہ طاقت کے حصول سے اپنے مکروہ عزائم کو عملی جامہ پہنا سکے گا تو ان کی اس خواہش کو خام خیالی سے ہی تعبیر کیا جا سکتاہے۔ مسلمہ اصول ہے کہ اگر آگے بڑھنا ہے تو اپنے ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے ہوں گے ورنہ''میڈ اِن انڈیا ''کا خواب شاید ایک خواب ہی رہے۔
مضمون نگارقومی و بین الاقوامی موضوعات پر لکھتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے