پاکستان کی بدقسمتی کہہ لیں یا جغرافیائی جبر کہ اس کے ہمسائے میں ایک ایسا ملک آباد ہے جس کے توسیع پسندانہ عزائم سے علاقائی امن ہمیشہ خطرے میں رہا ہے۔بھارت کے تمام ہمسائے اس سے بری طرح تنگ ہیں اور اس کے گھنائونے عزائم کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش، نیپال،برمااورایران یہ سب ممالک کسی نہ کسی صورت میں بھارت کے زہر سے ڈسے ہوئے ہیں۔بھارتی رہنما چانکیہ کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے' بغل میں چھری اور منہ میں رام رام، کا راگ الاپتے ہیں ۔پوری دنیا کو سیکولر ملک کا تاثر دیتے ہیں لیکن ان کے ملک میں اقلیتیں بری طرح عدم تحفظ سے دوچار ہیں۔ بھارت میں مسلم اقلیتوں کے علاوہ سکھ اور نچلی ذات کے ہندو بھی اسی متعصبانہ رویے کا شکار ہیں جو بھارت کی پہچان بنتا جا رہا ہے۔1980 میں سکھوں کے خلاف کیا گیا آپریشن آج بھی سیکولر بھارت کے ماتھے پر کلنک کی مانند نظر آتا ہے۔جبکہ مسلم کُش فسادات کی ایک لمبی تاریخ ہے جس سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے گجرات میں مسلم کش فسادات کا بیج بویا تھا۔ آج وہ فصل پک چکی ہے اور بھارت میں مسلم دشمنی اپنے عروج پر ہے۔جب سے نریندر مودی نے بھارتی اقتدار سنبھالا ہے تب سے وہ ملک اقلیتوں کے رہنے کے قابل نہیں رہا۔نریندر مودی نے بابری مسجد شہید کی اور اس کے بعد پورے بھارت میں کئی مساجد بھارتی عزائم کی بھینٹ چڑھ گئیں۔رام مندر کی تعمیر کے لیے بھارت نے تمام اخلاقی ضوابط پس پشت ڈال دیے اور پوری بے شرمی سے حکومتی سرپرستی میں بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کا اعلان کیا۔
مودی نے گزشتہ انتخابات بھی پاکستان دشمنی کی بنیاد پر جیتے تھے اور موجودہ انتخابات میں بھی پاکستان دشمنی کی لہر عروج پر ہے۔تاریخی طور پر دیکھا جائے تو شاید ہی بھارتی انتخابات پاکستان کے ذکر کے بغیر مکمل ہوئے ہوں۔ نریندر مودی 2014ء سے پاکستان مخالف عزائم رکھتے ہیں اور وہ مسلسل ایسے اقدامات کرتے آئے ہیں جن سے پاکستان کی سلامتی خطرات سے دوچار ہوئی ہے۔
2019ء کے عام انتخابات میں بھی بھارتی رہنماؤں نے پاکستان کے خلاف مسلسل زہر اگلا تھا اور پاکستان دشمنی کی بنیاد پر ہی ووٹ حاصل کیے تھے۔ یوں لگتا ہے کہ اپنی کرپشن کی کہانیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے وہ پاکستان دشمنی کے بخار میں پوری قوم کو مبتلا کرنا چاہتے ہیں۔ اس تاثر کو اس وقت مزید تقویت ملی جب برطانوی اخبار گارڈین نے باقاعدہ سٹوری شائع کی کہ بھارت،پاکستان کے اندر 20 لوگوں کے قتل میں ملوث ہے۔ برطانوی اخبار کے مطابق بھارت نے پاکستان میں 20 افراد کے قتل کے باقاعدہ احکامات دیے اور انہیں مودی سرکار نے منصوبہ بندی کے تحت قتل کروایا۔ پاکستانی حکومت نے 2019ء کے بعد کی قاتلانہ کارروائیوں کے دستاویزی ثبوت بھی بھارت کو فراہم کیے ہیں جن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس طرح کی کارروائیوں میں ملوث ''را'' کو براہ راست بھارتی وزیراعظم کا آفس کنٹرول کرتا ہے۔ پاکستانی میڈیا نے اس خبر کے حوالے سے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ پاکستان نے 25جنوری کو بھارتی حکومت کو پاکستان میں ماورائے عدالت اور سرحد پار قتل کرنے کی کارروائیوں کے ثبوت فراہم کیے تھے۔پاکستان کے سیکرٹری خارجہ سائرس سجاد قاضی نے دستاویزات میں یہ بتایا تھا کہ حالیہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بھارت براہ راست ملوث ہے۔ اشوک کمار اور یوگیش کمار نامی بھارتی شہریوں نے ایجنٹوں کو رقم دیکر پاکستانی شہریوں کو قتل کرایا۔ بھارتی دفتر خارجہ نے تو بظاہر برطانوی اخبار کی سٹوری کی تردید کی لیکن اس سے اگلے ہی دن بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں پاکستان کے اندر دہشت گردی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اپنے دشمنوں کو پاکستان کے اندر جا کر بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ انہوں نے وزیراعظم مودی کے رویے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ بھارت ایک طاقتور ملک ہے اور پاکستان کو بھی یہ حقیقت سمجھنی چاہیے۔ دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کرنے اور وہاں جا کر قتل کی وارداتیں کرنے کے حوالے سے بھارت کا ایک ٹریک ریکارڈ ہے۔
کینیڈا کے شہر سرے میں گزشتہ سال 18 جون کو خالصتان کے حامی سکھ راہنما ہردیپ سنگھ نجر کو گولیاں مار کر قتل کردیا گیا تھاجس پر کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بھارت کو اس حوالے سے ثبوت فراہم کیے تھے۔ انہوں نے یہ معاملہ جی 20 کے اجلاس میں بھی اٹھایا تھا۔اس واقعے پر بھارتی ہٹ دھرمی کے بعد کینیڈا نے بھارتی سفارت کار کو ملک بدربھی کیا۔کینیڈین میڈیا میں یہ بھی بتایا گیا کہ ملک بدر کیا جانیوالا سفارتی اہلکار دراصل کینیڈا میں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی 'را 'کا چیف تھا۔اسی طرح گزشتہ سال جون میں ہی خالصتان موومنٹ کے رہنما اوتار سنگھ کھنڈا برمنگھم میں پراسرار طور پر مردہ پائے گئے۔ برطانیہ میں مقیم سکھ کمیونٹی نے یہ الزام عائد کیا کہ انہیں بھارت نے زہر دے کر قتل کرایا ہے ۔ اس واقعے کے چند ماہ بعد گزشتہ سال نومبر میں امریکی محکمہ انصاف نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ بھارت کا ایک سرکاری اہلکار، سکھ علیحدگی پسند رہنماؤں کو امریکی سرزمین پر قتل کرنے کے ناکام منصوبے میں شامل تھا اور اس سرکاری اہلکار نے ایک کرائے کے قاتل بھارتی شہری نکھل گپتا کی خدمات حاصل کی تھیں جسے امریکہ اپنی تحویل میں لینے کا اعلان کر چکا ہے۔ اسی طرح قطر سے اسرائیلکے لیے جاسوسی کرنے والے سابق بھارتی نیوی اہلکاروں کی ملک بدری بھی گزشتہ چند برسوں کے دوران ہوئی۔ پاکستان میں کلبھوشن یادیو جو ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہوا تھا اس کا کیس بھی پوری دنیا کے سامنے ہے۔یہ ان واقعات کا تسلسل ہے کہ کس طرح بھارت دوسرے ممالک میں مقامی افراد کو پیسے دے کر لوگوں کو قتل کروا رہا ہے۔1980 ء کے بعد سے بھارت کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ ہر انتخاب کے موقع پر پاکستان دشمنی کابخار پوری قوم کے سر پر سوار کرتا ہے۔ پاکستان نے اگرچہ علاقائی اور عالمی امن برقرار رکھنے کے لیے ہمیشہ ایک ذمہ دار ریاست کا کردار ادا کیا ہے تاہم بھارت کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ بھارت نے جب بھی پاکستان میں در اندازی کی کوشش کی ہے پاکستان کی مسلح افواج نے اس کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔پاکستان کی فضائی سرحد کراس کر کے پاکستان میں داخل ہونے والے پائلٹ ابھینندن کی واپسی تو ابھی کل کی بات ہے۔
موجودہ ایام میں پاکستان کی مسلح افواج کو مزید چوکس رہنے کی ضرورت ہے اور پاکستانی حکومت کو بھی عالمی سطح پر یہ کیس پوری دنیا کے سامنے رکھنا چاہیے کہ بھارت ایک دہشت گرد ریاست کی طرح علاقائی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ان مشکل حالات میں پاکستانی قوم کی تمام امیدیں مسلح افواج سے وابستہ ہیں۔پاکستان کی مسلح افواج بلاشبہ اپنی مہارت کے اعتبار سے دنیا کی بہترین افواج میں شامل ہیں۔جب بھی وطن عزیز پر مشکل وقت آیا ہے پاکستان کی افواج ہمیشہ صف اول میں نظر آئی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران بھی پاکستانی افواج نے بے پناہ قربانیاں دے کر ملک کا امن بحال کیا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک طرف تو خارجہ محاذ پر پاکستان اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرے اور بھارت کے سیکولرازم کا پردہ چاک کرے اوردوسری طرف پاکستان کی مسلح افواج عوام کی امنگوں کے عین مطابق چوکس ہو کر وطن کی پاسبانی کا فریضہ انجام دیںاور دشمن کو یہ واضح پیغام دیں کہ ہم کسی صورت بھی اپنے دفاع سے غافل نہیں۔
مضمون نگار لاہور اور کراچی میں قائم جسٹس پیرمحمد کرم شاہ انسٹیٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے بانی ڈائریکٹر ہیںاور ایک معروف اخبار میں کالم بھی لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے