عامر ویسے تو بہت اچھا بچّہ تھا مگر اس کی ایک عادت بہت بری تھی۔ وہ بہت زیادہ پانی ضائع کرتا تھا۔
’’عامر! چمچ دھونے کے لیے پورا نل کھولنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘امّی کچن کا نل بند کر کے اسے سمجھاتیں۔
’’عامر! گلاس میں اتنا ہی پانی ڈالا کرو جتنا پی سکو، ہمیشہ آدھا گلاس پانی پی کر باقی بہا دیتے ہو۔‘‘ باجی اسے کبھی پیار سے سمجھا تیں،کبھی غصّے سے مگر اس پر کسی بات کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔
’’ عامر! بس کرو اب باہر نکل آؤ،کب سے شاور کھول رکھا ہے۔‘‘وہ نَہانے جاتا تو ابو کو آواز دے کر اسے بلانا پڑتا۔
’’بیٹا! پانی اللہ کی نعمت ہے، اسے ضائع مت کیا کرو۔‘‘دادی امّاں بھی اکثر اسے سمجھاتیں۔سب کی نصیحتوں اور سمجھانے کے باوجود وہ اپنی یہ عادت بدلنے کو تیار نہ تھا۔ بدلنا تو دور کی بات اسے اپنی یہ عادت بالکل غلط نہیں لگتی تھی۔
’’ پانی استعمال کے لیے ہی تو ہے۔ اگر میں تھوڑا زیادہ استعمال کر لیتا ہوں تو کیا ہوا؟‘‘ سب کے سمجھانے پر وہ کبھی زبان سے اور کبھی دل ہی دل میں یہی بات دہراتا۔ اب جسے غلطی کا احساس ہی نہ ہو تو وہ بھلا اسے کیسے سدھارے گا ؟
........
ایک دن عامر پورا نل کھولے پائپ سے لان میں پودوں پر پانی کی بوچھاڑ کر رہا تھا۔ ہر کیاری پانی سے اتنی بھر چکی تھی کہ اب پانی ان سے بہہ کرلان کو تالاب بنا چکا تھا۔دادی جان نے عصر کی نماز پڑھ کر کھڑکی سے لان میں جھانکا تو پانی کا اتنا ضیاع دیکھ کر وہ جلدی سے باہر آگئیں۔
’’ عامر،بیٹا اب بس کرو، تم کب سے پودوں کو پانی دے رہے ، دیکھو تو کتنا پانی ضائع ہو رہا ہے۔‘‘
’’ دادی جان،کیا میں اب پودوں کو پانی بھی نہ دوں؟ ان کو بھی پانی کی ضرورت ہے،میں ان کی ضرورت پوری کررہا ہوں پھر بھی آپ مجھے ٹوک رہی ہیں۔‘‘ عامرجھنجھلایا۔
’’ بیٹا ! ان کی ضرورت صرف اتنا پانی ہوتا ہے جسے وہ آسانی کے ساتھ جذب کر لیں ۔ان کی ضرورت تو کب کی پوری ہو چکی ہے۔ دیکھو ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔اب نل بند کردو۔‘‘ دادی کے کہنے کے باوجود عامر اپنے کام میں مگن رہا ۔
........
دوسرے دن بھی کچھ ایسا ہی منظر تھا۔ عامر پانی کا پائپ پکڑ کر اپنی سائیکل کو دھوئے جا رہا تھا۔ اس دن گھر میں صرف امی تھیں اور وہ بھی کچن میں مصروف تھیں۔ عامر کو کھل کر کھیلنے کا موقع ملا ہوا تھا۔اچانک اسے اپنے پیچھے آہٹ سنائی دی۔اس نے مڑکر دیکھا تو سامنے پانی کے ایک قطرے کو بڑے سے ہیولے کی صورت میں دیکھ کر ڈر گیا۔
’’ڈرو مت !میں تو زندگی ہوں۔‘‘ ہیولا نرمی سے بولا۔
’’زندگی،کون زندگی ؟‘‘
’’میں پانی ہوں ۔جس کے بغیر زندگی ممکن نہیں۔آج میں تم سے چند باتیں کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ہیولے کے انداز پر عامر کا خوف تھوڑا کم ہوا۔
’’مجھ سے باتیں... مگر کیوں؟‘‘ اب وہ حیران ہوا۔
’’کیونکہ تم مجھے ضائع کرتے ہو۔میں تمھیں سمجھانے آیا ہوں۔‘‘ہیولے نے کہا۔
’’چلو جی ! اب یہ خودہی سمجھانے آگئے!‘‘عامر نے دل ہی دل میں سوچا۔
’’دنیا میں بہت ساراپانی ہے اوریہ استعمال کی چیز ہے۔میں بھی اسے استعمال ہی کرتاہوں،کیاہواجو تھوڑا زیادہ کر لیتا ہوں؟‘‘ عامر نے وہی بات کی جو وہ اکثر کیا کرتا تھا۔
’’تم نےٹھیک کہا،میں استعمال کی چیز ہوں ،مجھے استعمال کرنا چاہیے مگر بہت احتیاط سے،دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے مجھے شدید خطرہ لاحق ہے۔ اگر میں ختم ہو گیا تو سب کچھ ختم ہوجائے گا۔‘‘ہیولا مسکرایا۔
’’ پانی کیسے ختم ہو سکتا ہے؟اتنی بارشیں ہوتی ہیں،برف پڑتی ہے،دریائوں اور سمندروں میں اتنا پانی ہے پھر یہ کیسے ختم ہو سکتا ہے؟‘‘عامر نے پوچھا۔
’’ تم ٹھیک کہہ رہے ہو،دنیا کا اکہتر فی صد حصہ مجھ یعنی پانی پر مشتمل ہے مگر اس میں قابل استعمال پانی کم ہے۔عنقریب یہ پانی بھی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہو گا اور تم لوگ اسی قابل استعمال پانی کو ضائع کر رہے ہو۔ تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ اس طرح پانی ضائع کرنے سے مستقبل میں تمھیں کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘‘ ہیولے نے اسے خبردار کیا ۔
’’ اِدھر آؤ،میں تمھیں کچھ دکھاتا ہوں۔‘‘ہیولاعامر کا ہاتھ پکڑ کر گولائی میں گھوما۔تھوڑی دیر کے بعد وہ دونوں ایک صحرا میں کھڑے تھے۔عورتیں سروں پر گھڑے رکھ کر پیدل چلتی جارہی تھیں ۔سر پر سورج چمک رہا تھا۔ ایک کنوئیں پر پہنچ کر وہ پانی بھرنے لگیں۔ کنوئیں کا پانی گندا تھا۔عامر اس منظر کو دیکھ کر حیران ہو گیا۔
’’ دیکھوعامر! یہ صحرائی لوگ ہیں،ان کے پاس پینے کا صاف تو کیاآلودہ پانی بھی نہیںہے۔ ان لوگوں کو پینےکے پانی کی تلاش میں میلوں پیدل سفر کرنا پڑتاہے پھر کہیں جا کر یہ لوگ ایک پانی کے دو گھڑے حاصل کرتے ہیں اور وہ بھی آلودہ پانی۔‘‘ عامر کو یاد آیا کہ وہ پانی پیتے ہوئے کتنا پانی ضائع کرتا تھا۔وہ خاموشی سے ہیولے کی بات سننے لگا۔ہیولے نے ایک بار پھر عامر کا ہاتھ پکڑا۔اب وہ جس جگہ کھڑے تھے وہاں گندے پانی کا ایک تالاب تھا جس میں جانور پانی پی رہے تھے اورلوگ بھی وہیں سے پانی بھر رہے تھے۔‘‘
’’یہاں کی آبادی وسائل سے بہت زیادہ ہے۔ان لوگوں کے کنوئوں میں پانی ختم ہو چکا ہے اور اب یہ لوگ ان گندے تالابوں کا پانی پینے پرمجبور ہیں ۔‘‘
ہیولے کے لہجے میں افسوس تھا۔
’’مگر بڑھتی ہوئی آبادی کا پانی کی کمی سے کیا تعلق ہے؟‘‘عامر نے حیرت سے پوچھا۔
’’بڑا گہرا تعلق ہے۔ زیادہ لوگ ہوں گے تو پانی کا استعمال بھی زیادہ ہوگا۔ فرض کرو کہ تمھارے گھر میں پانچ افراد پانی کی ایک ٹینکی دو دن میں ختم کرتے ہیں۔اب اگر پانچ کی جگہ دس افراد وہی پانی استعمال کریں گے تو تمھاری ٹینکی ایک دن میں ہی ختم ہو جائے گی۔‘‘یہ مثال عامر کو سمجھ آگئی۔
’’چلو تمھیں ایک اور جگہ دکھائوں۔‘‘عامر نے خود ہی اپنا ہاتھ ہیولے کی طرف بڑھا دیا جسے اس نے مسکرا کر تھام لیا ۔اب کی بار عامر ہیولے کے ساتھ جہاں کھڑا تھا وہ بنجر زمین تھی جس پر ہر طرف دراڑیں پڑی ہوئی تھیں۔’’ پانی ختم ہو گیا تو زمین کی یہ حالت ہو جائے گی،یہ بنجر ہو جائے گی۔ اس پر کوئی درخت یا فصل نہیں اُگے گی ۔یہ صورتِ حال قحط کی وجہ بن سکتی ہے۔‘‘ عامربت بنا سب کچھ سن رہا تھا۔
’’ اب تم خود فیصلہ کرلو کہ تم لوگوں کو پانی ضائع کر کے اس طرح کے حالات کا سامنا کرنا ہے یا پانی احتیاط سے استعمال کر کے پر سکون زندگی بسر کرنی ہے۔تم لوگ آج پانی کی حفاظت کا ارادہ کرو گے تو ہی تمھارے لیے اور تمھاری آئندہ نسلوں کے لیے پانی بچ پائے گا۔میری درخواست ہے کہ تم سب مل کر مجھے بچا لو کیونکہ میں بچ گیاتو ہی تم لوگوں کا وجود قائم رہے گا۔‘‘ہیولے نےعامر کا ہاتھ چھوڑا اور تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا دور چلا گیا۔
’’ رکو، میری بات سنو!‘‘عامر کو ایک جھٹکا لگا اور وہ اپنے بستر پر اُٹھ کر بیٹھ گیا ۔
’’اوہ ! تو یہ ایک خواب تھا،مجھے ہیولے کی بات ماننی ہو گی۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ پانی ضائع نہیں کروں گا ورنہ ہم بھی صاف پانی کو ترسیں گے۔‘‘
........
کچھ دنوں سے گھر والے دیکھ رہے تھے کہ عامر نے پانی ضائع کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اب وہ پانی کے استعمال میں بڑی احتیاط کرتا تھا۔وہ پانی بھر نے کے بعد نل بند کر دیتا۔ نَہاتے وقت شاور کی بجائے بالٹی بھر لیتااورپودوں کو پانی دینے کے لیے بھی فوارہ بوتل استعمال کرتاتھا ۔
’’بھئی ،ہم دیکھ رہے ہیں کہ اب عامر پانی ضائع نہیں کرتا۔‘‘چھٹی والے دن سارے گھر پر اکٹھے بیٹھے تھے جب دادی امّاں نے کہا۔
’’ ہاں عامر! تمھیں کس کی بات سمجھ آگئی؟‘‘باجی نے پوچھا۔
’’بس تھا میرا ایک دوست جو میرے خواب میں آیا تھا۔‘‘عامر نے کہا ۔
’’ چلو تمھیں کسی کی بات تو سمجھ آئی،چاہے وہ خواب میں آنے والا دوست ہی کیوں نہ ہو۔‘‘اس کی امّی نے کہا تو سب ہنس دیے۔
’’ آپ میرا جتنا مرضی مذاق اُڑالیں لیکن اب میں کبھی پانی ضائع نہیں کروں گا۔‘‘یہ کہہ کر عامر بھی ہنسنے لگا۔
تبصرے