4 مئی...فائرفائٹرز کے عالمی دن پرعبیداللہ عباس کی دلچسپ تحریر
’’احمد ،مجھے بتائو،کل تم کہاں تھے؟‘‘مس حنا کلاس میں داخل ہوتے ہی احمد سے مخاطب ہوئیں۔
’’میڈم، کل ہمارے گھر میں ایک حادثہ ہوگیا تھا ۔‘‘احمد معصومانہ اندازسے بولا۔
’’حادثہ، کیسا حادثہ؟‘‘کلاس کے بچے یہ لفظ سن کرآپس میں سرگوشیاں کرنے لگے تو مس حنا نے انہیں خاموشی اختیار کرنے کا کہا ۔سب خاموش ہو گئے تو وہ ایک بار پھر احمد سے پوچھنے لگیں،’’بیٹا، خیریت تو تھی، کیسا حادثہ ہوگیا؟‘‘
احمد اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے بولا،’’میڈم یہ دیکھیں !میرا ہاتھ جل گیا ہے۔‘‘
’’مگر وہ کیسے؟‘‘مس حنا نے پریشانی سے پوچھا۔
’’میڈم! کل رات باورچی خانے میں گیس برنر کھلا رہ گیا تھا۔ صبح امی نے ناشتہ بنانے کے لیے جونہی چولہا جلایاتو ایک دَم آگ بھڑک اُٹھی۔ ‘‘
’’اوہ! آپ کی امی خیریت سے ہیں ناں؟‘‘مس حنا فکرمندی سے بولیں۔
’’جی میڈم،اللہ کا شکر ہے ہم سب ٹھیک ہیں۔ میرے بڑے بھائی نے ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوراَ ریسکیو 1122کو فون کردیا تھا جس کے اہلکاروں نے بروقت پہنچ کر نہ صرف آگ بجھائی بلکہ میری امی کو ابتدائی طبی امداد پہنچا کربروقت ہسپتال پہنچایا جہاں اب ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ امی کو آگ سے نکالنے کی کوشش میںمیرا ہاتھ بھی جل گیا۔ ‘‘احمد نے اپنا جلا ہوا ہاتھ لہراتے ہوئے کہا۔
حاد ثہ افسوسناک تھا تاہم احمد اور مس حنا کی اس گفتگو میں بچوں کو آگ اور اس سے بچائو کے بارے میں بہت سی معلومات ملیں۔ فائربریگیڈ،ریسکیو 1122اور فائر فائٹرز جیسے الفاظ کچھ بچوں کے لیے نئے تھے۔ وہ حیرت سے احمد اور میڈم کی گفتگو سن رہے تھے۔میڈم نے اس موقع کو غنیمت جانا اور بچوں کو اس بارے میں آگاہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ انہیں مخاطب کرتے ہوئے بولیں:
’’بچو! آگ ہمارے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ اس سے ہم کھانا پکاتے اور حرارت حاصل کرتے ہیں تاہم اگر بے احتیاطی کا مظاہرہ کیا جائے تو یہ بہت بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے جس سے قیمتی جانیں بھی ضائع ہوسکتی ہیں۔‘‘
سب بچے میڈم حنا کی باتوں کو توجہ سے سن رہے تھے۔ تھوڑے سے توقف کے بعد وہ پھر گویا ہوئیں۔
’’بچو! شارٹ سرکٹ یا گیس لیکج کے باعث آگ لگنے کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ یہ آگ پھیل کر بہت بڑے جانی و مالی نقصان کا سبب بن سکتی ہے اس لیے دنیا کے ہر شہر میں آگ بجھانے کے لیے فائربریگیڈ ہوتا ہے جس کے تربیت یافتہ فائرفائٹرز آگ پر قابو پا لیتے ہیں۔پاکستان میں ریسکیو 1122 اس حوالے سے بہترین خدمات انجام دے رہاہے۔اس کے اہلکار نہ صرف آگ بجھاتے ہیں بلکہ حادثات کے دوران زخمی ہونے والوں کو ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے اور انہیں بروقت ہسپتالوں میں پہنچا کر قیمتی انسانی جانیں بچانے میں پیش پیش ہیں۔ آپ نے سنا کہ کس طرح احمد کے بھائی کی ایک کال پر 1122 کے عملے نے ان کے گھر پہنچ کر بروقت آگ پر قابو پایا اور قیمتی جانوں کو بچا لیا۔‘‘
’’میڈم! فائرفائٹرز آگ سے کس طرح لڑتے ہیں...کیا ان کے ہاتھ میں کوئی تلوار ہوتی ہے؟‘‘ عمر نے معصومانہ سوال پوچھا توساری کلاس کی ہنسی چھوٹ گئی۔
’’بیٹا! فائر فائٹرز آگ بجھانے کی باقاعدہ تربیت حاصل کرتے ہیں۔ وہ بڑے بہادر اور پھرتیلے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس آگ بجھانے والی گاڑیاں اور خاص آلات ہوتے ہیں۔ان کا لباس بھی خاص قسم کا ہوتا ہے۔ان کے پاس حفاظتی ہیلمٹ ، دستانے اور جوتے ہوتے ہیں جن کے ذریعے وہ آگ سے محفوظ رہتے ہیں۔اس طرح وہ آگ پر قابو پا کر قیمتی جانیں بچا لیتے ہیں۔‘‘
’’میڈم! میں بڑا ہوکر فائر فائٹر بنوں گا‘‘، احمد نے ایک عزم سے کہا۔
’’بیٹا! بالکل، آپ فائرفائٹر بن کربہت سےشہریوں کو حادثات سے بچا سکتے ہیں۔‘‘مس حنا نے احمد کی حوصلہ افزائی کی۔
یہ باتیں جاری تھیں کہ مناہل اپنی مطالعہ پاکستان کی کتاب لے کر کھڑی ہوگئی۔ ’’میڈم! ہماری اس کتاب میں فائرفائٹرز کے حوالے سے پورا ایک باب موجود ہے۔اس میں لکھا ہے کہ 4مئی کو فائر فائٹرز کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔‘‘
’’شاباش مناہل!تم نے خوب یاد کروایا۔فائرفائٹرز کا عالمی دن اس لیےمنایا جاتا ہے کہ تمام شہری آگ سے روک تھام کے حوالے سے آگاہی حاصل کریں اور اس کے ساتھ ان فائرفائٹرز اور رضاکاروں کی خدمات کو خراج ِ تحسین پیش کریں جنہوں نے مہارت اور جذبہ خدمت سے قیمتی جانوں کو بچایا۔‘‘
اسی گفتگو کے دوران میڈم حنا کو ایک خیال آیا کہ کیوں ناں اس 4 مئی کو بچوں کی آگاہی کے لیے اسکول میں فائرفائٹرز ڈے منایا جائے۔ انہوں نے اپنا یہ آئیڈیا سیکشن انچارج کو بتایا تو وہ بھی بہت خوش ہوئیں۔جب یہ بات پرنسپل صاحب تک پہنچی تو وہ فوراَ راضی ہوگئے ۔دوسری صبح اسکول اسمبلی میں انہوں نے اعلان کیا کہ ہمارے سکول میں فائر فائٹرز کے عالمی دن کے موقع پر ایک تقریب کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس میںفائر فائٹرزاور ریسکیو اہلکاروں سمیت کئی رضاکار بھی شامل ہوں گے۔ وہ نہ صرف اس حوالے سے آپ کو آگاہی دیں گے بلکہ آگ سے محفوظ رہنے کے لیے احتیاطی تدابیراور آگ بجھانے والے آلات کے استعمال کے بارے میں بھی بتائیں گے۔
4 مئی کو سکول میںکافی گہما گہمی تھی۔ اسکول کے باہرفائربریگیڈ کی گاڑی اور 1122 ایمبولینس کھڑی تھی۔ چند اہلکار بچوں کو مختلف آلات کے بارے میں معلومات دے رہے تھے۔ا سکول کے ہال میں تھوڑی دیر بعد ایک چھوٹی سی تقریب منعقد ہورہی تھی جس میں 1122 کے ایک سینئر اہلکار بچوں کو آگ سے بچائو کے بارے میں کچھ معلومات دینے والے تھے۔
’’یہ ایک خدمت گار سروس ہے جو کسی بھی ناگہانی صورت حال یا آفت میں عوام کے جان و مال کی حفاظت کا فریضہ ادا کرتی ہے۔ اس کے اہلکار چوبیس گھنٹے شہریوں کو خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ کسی بھی حادثے کی صورت میں فوراً 1122پر کال کی جا سکتی ہے جسے سننے کے بعد کچھ ہی دیر میں متعلقہ اہلکار وہاں پہنچ کر صورت حال پر قابو پا لیتے ہیں۔یہ ایسی تربیت یافتہ ایمرجنسی، ایمبولینس، ریسکیو اور فائر فائٹر سروس ہے جس کے ذریعے ہر قسم کی ہنگامی صورتحال جن میں حادثات،آگ لگنا، عمارتوں کا منہدم ہونا اور دیگر ناگہانی آفات سے نمٹنے کے لیے باقاعدہ نظام موجود ہے۔ سول انتظامیہ کے فائر فائٹرز کے علاوہ افواج پاکستان اور دوسرے اداروں کے تربیت یافتہ اہلکار بھی کسی حادثے کی صور ت میں اہل وطن کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ ‘‘
ریسکیو اہلکار کے اس مختصر معلوماتی خطاب کے بعدپرنسپل صاحب اسٹیج پر آئے اور انہوں نے فائرفائٹرز کی خدمات کو خوب خراجِ تحسین پیش کیا۔ پھر وہ بچوں کی جانب متوجہ ہوکر بولے:’’بچو! یاد رکھیں، جب کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو ہر شہری کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس دوران ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔ سب سے پہلے اس کی اطلاع فوراَ 1122 کو دے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ آپ ایمبولینس یا آگ بجھانے والی گاڑیوں کو دیکھیں تو انہیں فوراَ راستہ دیں۔اس طرح آپ بھی قیمتی جانیں بچانے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔‘‘
آخر میں ایک واک کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں بچوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ریسکیواہلکاروں کے ساتھ چلتے چلتے وہ بھی خود کو فائرفائٹرز سمجھ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرے