’’امّی جان یہ گھر تو بہت اچھا ہے۔‘‘
’’واقعی بہت اچھاہے۔‘‘نئے گھر کے بارے میں سلمان کےتبصرے پر امّی نے جواب دیا۔
’’گھر کے پچھلے حصے میں لان ہے، چلیں اسے دیکھتے ہیں۔‘‘ابو جان نے کہا تو سب اس جانب چل دیئے۔
’’واہ! یہ کتنا بڑا ہے لیکن یہ پودے کتنے خراب ہوگئے ہیں اور یہ گھاس بھی کتنی الجھی الجھی ہے۔‘‘ سلمان نے لان میں گھومتے ہوئے اپنی رائے دی۔
’’ہاں بالکل، لگتا ہے کسی نے ان کی دیکھ بھال نہیں کی اس لیے یہ مرجھا گئے ہیں۔ اب ہم آگئے ہیں تو ان پودوں کا خیال رکھیں گے۔‘‘ سلمان کی امّی نے اسے سمجھایا۔
’’امّی میں ان پودوں کا خیال رکھوں گا۔ مجھے ٹیچر نے بتایا تھا کہ ہمیں پیڑ پودوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے کیونکہ یہ بھی ہماری طرح سانس لیتے ہیں اورہاں ان کا سانس ہمیں آکسیجن دیتا اور مضر صحت گیسوںکو جذب کرتا ہے۔‘‘ سلمان نے اپنی ٹیچر کی بات کو یاد کرتے ہوئے کہا۔
’’بالکل! چلو اب ہاتھ منہ دھو کے کھانا کھاتے ہیں، باقی کام بعد میں کریں گے۔‘‘وہ سب گھر کے اندر چلے گئے۔
سلمان چھٹی جماعت کا ایک ذہین طالب علم تھا ۔ وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا اور اپنی ذہانت اور قابلیت کی وجہ سے ہر جماعت میں نمایاں پوزیشن حاصل کرتاتھا ۔
سلمان کے ابو کا تبادلہ دوسرے شہر ہوا تو وہ اپنی فیملی سمیت اس نئے شہر آگئے۔ گھر کی منتقلی کے چندروز بعد زندگی معمول پہ آگئی تو سلمان نے بھی سکول جانا شروع کردیا۔ وہ صبح صحن میں پودوں کو پانی دیتا،ان کا خیال رکھتا اور فارغ وقت میں ان کی خوب دیکھ بھال کرتا۔اسی صحن میں ایک اُجڑا ہوا درخت بھی تھا جس کے تنے سے ٹیک لگا کر اکثروہ اپنا اسکول کا کام کیا کرتا تھا۔
سلمان کی خاص توجہ سے لان کی گھاس اور پودے نکھر گئے تھے۔ ان پودوں پہ اب کونپلیں پھوٹنے اور پھول کھلنے کا انتظار تھا۔وہاں سوکھا ہوا ایک ایسا درخت بھی تھا جس پر اس نے کافی توجہ دی تھی لیکن اتنی محنت کے باوجود بھی وہ اپنی حالت بدلنے کو تیار نہ تھا۔ وہ اس ہرے بھرے لان میںبے رونق نظر آتاتھا۔ سلمان کو اس درخت سے محبت تھی مگر وہ جتنی توجہ سے اسے سنوارنے کی کوشش کرتا،درخت اتنا ہی ویران ہوتاجاتا۔ یعنی موسمِ بہار میں بھی وہ خزاں کا منظر پیش کرتاتھا۔
’’میری خواہش ہے کہ تم جلدی سے ہرے بھرے ہوجاؤ۔ دیکھو! وہ پودے کتنے خوب صورت لگتے ہیں۔ تم پر بھی پتے آئیں گے، تم بھی خوب صورت نظر آئو گے۔‘‘سلمان اس سے باتیں کرکے اسے سمجھاتا۔
’’میں تم انسانوں سے ناراض ہوں، اس لیے میں اب دوبارہ ہرا بھرا نہیں ہونا چاہتا۔‘‘ ایک دن درخت سے ایک آواز آئی تو سلمان حیرانی سے اچھل پڑا۔
’’وہ کون تھا؟‘‘اس نے ڈرتے ہوئے اِدھر ُادھر دیکھا لیکن وہاں اسے کوئی نظر نہ آیا۔
’’یہ میں ہوں، تمہارا درخت، جس سے تم ہرروز باتیں کرتے ہو۔‘‘ دوبارہ وہی آواز آئی تو سلمان نے چونک کر درخت کی طرف دیکھا۔
’’کیا تم مجھے سن سکتے ہو؟‘‘ سلمان نے تجسس سے پوچھا۔
’’ہاں! میں سن سکتا ہوں۔ تم مجھے یوں مرجھایا ہوا نہ سمجھو ۔مجھ میں تھوڑی بہت جان ابھی باقی ہے۔عام طور پر میں بات نہیں کرتا ۔چونکہ تم میرا بہت خیال رکھتے ہو، اسی لیے تم سے بات کررہا ہوں۔‘‘ سلمان اب درخت کے قریب جاکرپوری توجہ سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔
’’اچھا !تو یہ بتاؤ ، تم ناراض کیوں ہو، ویران کیوں دکھائی دیتے ہو، اپنی حالت بدلنے کو کیوں تیار نہیں...؟‘‘ سلمان نے درخت کے تنے پہ ہاتھ رکھ کراس سے کئی سوال کرڈالے۔
’’کیوں کہ تم انسان بالکل اچھے نہیں ہو، تم لوگوں نے مجھے میرے گھر سے دُور کردیا۔ جنگل میں ہوتا تو خوب پھلتا پھولتا، انسان مجھے یہاں لے تو آئے مگر میری دیکھ بھال کرنا بھول گئے۔دیکھو! میں نے اپنے دَم سے اپنی شاخیں نکال لیں لیکن اس دیوارسے الجھ گیا ہوں۔میرے تنے میں کاغذ، شاپر اور جوس کے ڈبے پڑے رہتے ہیں جس سے میری جڑیں کمزور ہوگئی ہیں۔ کسی نے میری تراش خراش بھی نہیں کی۔ اب میری حالت بے جان لکڑی کی طرح ہے۔‘‘ درخت نے شکوہ کیا۔
’’جب میں جنگل میں ایک ننھا پودا تھا تو میرے ساتھ اور بھی بہت سے چھوٹے بڑے درخت تھے۔ ایک ساتھ ہم سب بہت خوش رہتے تھے۔ہم سورج کی روشنی سے لطف اندوز ہوتے اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا سے ہمارے پتے جھومتے رہتے تھے۔ ہماری شاخوں پہ پرندے آکے چہچہاتے ۔ ہم ان پرندوں کی پناہ گاہ تھے اور جانور ہمارے پتے کھا کر ہماری قدرتی کانٹ چھانٹ کردیتے تھے۔ ہم تو تم انسانوں کو بھی سایہ مہیا کرتے اور پھل دیتے تھے لیکن تم نے ہم سے ہمارا گھر چھین لیا۔اب جنگل کاٹ کر وہاں گھر بنائےجارہے ہیں اور مجھ جیسے بہت سے درختوں کو گملوں میں رکھ کر قیدی بنا یا جارہا۔گملوں میں ہم پھلتے ہیں نہ پھولتے بلکہ گھٹ گھٹ کر زندگی گزارتے ہیں۔‘‘ درخت نے اپنی بپتا بیان کی تو سلمان بھی اداس ہوگیا۔
’’ہاں، تم ٹھیک کہتے ہو!آبادی بڑھنے سے لوگوں نے صحن بنانے کم کردیے یا ان کے صحن چھوٹے ہوگئے۔انہوں نے درخت لگانے چھوڑ دیے۔ سڑکوں پر لگے درخت بھی کاٹ ڈالے۔ جنگلات کو بھی بے دردی سے کاٹا جارہا ہے جس کی وجہ سے فضائی آلودگی اور درجہ حرارت میں اضافہ ہوگیا ہے۔‘‘ سلمان نے درخت سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
’’بھئی!ہم سے ہمدردی کا کوئی فائدہ نہیں۔دراصل ہمیں تو انسانوں کی فکر ہے۔دیکھو! زندگی کے لیے آکسیجن ضروری ہے جسے درخت وافر مقدار میں پیدا کرتے ہیں۔ فضا میں جو مضر گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ پائی جاتی ہے اسے یہ جذب کرتے ہیں۔ یعنی ہم ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ اسی طرح درختوںسے کئی قسم کے پھل پیدا ہوتے ہیںجسے انسان مزے لے لے کر کھاتے ہیں۔ جڑی بوٹیوں سے بہت سی ادویات بنائی جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا خیال نہ رکھ کر دراصل انسان اپنی زندگی کو مشکل میں ڈال رہے ہیں۔‘‘ درخت کی بات واقعی غور طلب تھی۔
سلمان نے اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا، ’’واقعی درخت ہمارے مخلص دوست ہیں۔ میں تمہارا خیال رکھوں گا۔ تم اکیلے بالکل بھی نہیں ہو۔میں تمہاری تراش خراش کروں گا۔ تمہاری جڑوں میں شاپر اور خالی بوتلیں پھینکنے کے بجائے اچھی سی کھاد ڈالوں گا۔ تم جلد ہرے بھرے ہوجاؤ گے۔‘‘ سلمان نے ایک عزم سے کہا تو درخت بھی مسکرا اُٹھا جیسے اس کی ساری ناراضی ختم ہوچکی ہو۔
چند دن بعد اس درخت کی شاخیں ہری بھری ہونے لگی تھیں ۔ اس پر پرندوں نے چہچہانا شروع کردیا تھا اورسلمان اس کے سائے میں بیٹھ کر دیر تک پڑھتا رہتا اور جب تھک جاتا تو درخت سے ڈھیر ساری باتیں کرتا۔ درخت کو بھی اپنے اس دوست سے بہت پیار تھا کیونکہ اس نے دیکھ بھال اور توجہ سے اسے نئی زندگی دی تھی۔
حکایت رومی
جہالت کی تاریکی
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چند لوگ ہندوستان سے ایک ہاتھی کسی ایسے ملک میں لے گئے جہاں پہلے کبھی کسی نے ہاتھی نہیں دیکھا تھا۔
انہوں نے اس ہاتھی کو ایک تاریک کمرے میں بند کردیا۔ لوگوں کو اس بات کا علم ہوا تووہ دوڑے دوڑے اسے دیکھنے چلے آئے۔ کمرہ چونکہ تاریک اور ہاتھی سیاہ تھا اس لیے کسی کو کچھ نظر نہ آیا۔ لوگ اپنے ہاتھوں سے ٹٹول ٹٹول کراندازہ لگانے لگے کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے۔ جس کسی کا ہاتھ ہاتھی کے جسم کے کسی حصے پر لگتا وہ اس سےہاتھی کی ایک تصویر اپنے ذہن میں بنا لیتاتھا۔
ایک شخص نے اس کا کان چھوا اور کہا، ”یہ تو ایک پنکھے کی طرح ہے۔“
دوسرے شخص نے اس کی سونڈ کو پکڑا تو بولا، ”ہاتھی پانی کےنلکے جیسا ہے۔“
کسی کا ہاتھ اس کی ٹانگ کو لگا،تو وہ کہنے لگا:”بھئی! ہاتھی تو ایک ستون کی طرح ہے۔“
ایک شخص نے اس کی کمر پر ہاتھ پھیرا تو چیخ اُٹھا، ”یہ ہاتھی ایک تخت کی مانند ہے۔“
اس طرح جس شخص نے ہاتھی کو ٹٹول کر جیسا محسوس کیا ویسا ہی بتایا۔ مگر ہاتھی کی اصل شکل و صورت کوئی بھی بیان نہ کرسکا۔اگر ان کے ہاتھوں میں روشنی کی شمع ہوتی تووہ ہاتھی کو واضح دیکھ کر اس کے بارے میں ایک ہی رائے دیتے۔
ساتھیو! اس حکایت سے مولانا رومی ہمیں یہ سبق دینا چاہتے ہیں کہ بعض اوقات ظاہری آنکھ پوری صورتحال کو واضح نہیں کرتی۔ کسی چیز کے بارے میں کسی کی رائے اس کے اپنے تجربے پر مبنی ہوتی ہےاوراسی تناظر میں وہ شخص کسی کے بارے میں اپنا تاثر قائم کرلیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی حقیقت تک پہنچنا چاہتا ہے تواسے جہالت کی تاریکی سے نکل کر علم کی شمع تھام لینی چاہیے۔
تبصرے